Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پس دیوار

محمد ہمایوں

پس دیوار

محمد ہمایوں

MORE BYمحمد ہمایوں

    ابو موسی موسوعی ترمذی ؒکے بارے میں سید علی بن رضا ہمدانیؒ نے یہ لکھا ہے کہ وہ اصفہان کے دارالقضا میں قاضی کے معاون اور کلیہ قانون میں استاد تھے۔ آپ علوم فلسفہ میں بھی منفرد طریقہ استدلال رکھتے تھے اور اسی سبب فقہ، قانون پردسترس بے مثال رکھتے تھے۔ علاوہ ازیں، وہ علوم حاضرہ پر بھی گرفتِ با کمال رکھتے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ علم النجوم ور علم الاعداد میں بھی ایک درجہ فقید المثال رکھتے تھے۔ مزید برآں آپ بذلہ سنج تھے، فصیح تھے اور زبان بلیغ بولتے تھے لیکن ان سب سے ممتاز، ان کا خاصہ، ان کا قوی حافظہ اور ان کی حاضر جوابی تھا۔

    ایک دن آپؒ سے پوچھا گیا کہ آیا ان کو بھی کبھی کسی نے لاجواب کیا ہے؟

    آپؒ نے کچھ دیر توقف فرمایا اور پھر گویا ہوئے، ’’مجھے ایک گداگر نے لاجواب تو خیر کیا کیابالکل مبہوت کر دیا جب اس نے مجھ سے پوچھا کہ کیا آدمی دل کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے۔‘‘

    ”یعنی دل، بمعنی عضو؟ جو یہاں ہے۔“

    ”ہاں وہی دل جو سینے میں دھڑکتا ہے۔ میں جانتا ہوں کسی کو۔۔۔ جو بغیر دل کے زندہ ہے۔۔۔ اور اس سے آپ کی ملاقات بھی کرواوں گا لیکن کیا آپ اس کی روداد سننا پسند کریں گے؟‘‘

    ”اے نیک مرد یہ ایسا امر ہے کہ نہ دیدہ نہ شنیدہ لیکن انصاف شرط ہے کہ آپ کا بیان سنوں اور اس مرد کو دیکھوں۔۔۔ پھر فیصلہ کروں۔۔۔ آپ بیان شروع کریں، ناچیز ہمہ تن گوش ہے۔“

    ”یا ابا موسی ترمذی، تیرے اوپر اللہ نور کے دروازے کھول دے، میں ایک سپاہی زادہ ہوں اور سلطان عالی شان کی فوج میں سالارتھا۔ بنیاد اس قصے کی یہ ہے کہ قدیم زمانے میں جب ارش کمان گیر نے دماوند کے تمام دیو پری زادوں کو زندان میں مقید کرکرجہنم واصل کیا تو ایک دیو کہ نام اس کا خرسنگ پوری تھا، اس زندان سے بچ نکلا۔

    سالوں بیم و ہراس میں زیر زمین رہ کر جب اس نے اپنا سر ابھارا تو دور ہمارے امیر عالی شان، سیف الدولہ، مرد میدان، سلطان کیہان و اصفہان و ایران و جہان، فدا ان پر میری جان، محمود غزنوی کا تھا جو اس وقت سومنات میں ہندوستانیوں کی سرکوبی و گوشمالی میں مصروف تھے۔

    دیو نے اس موقع کو اپنے تئیں غنیمت جانا اور اس مکارو ناہنجار نے ہر گھر مسمار کیا اور فساد بے شمار اس طور مچایا کہ جینا لوگوں کااجیرن ہوگیا۔ ان خستہ تنوں، زبوں حالوں نے جوق در جوق سلطان کے پاس آکر ان سے اس دیو کی شکایت اس طور کی کہ ان کی آنکھوں سے خون رواں تھا۔ سلطان کو مائل بہ کرم پایا تو انہوں نے اپنی ناتوانی کا رونا خوب رویا اور سلطان سے مدد کی درخواست کی۔

    جاننا چاہیئے کہ سلطان خلق اللہ کا دکھ اپنا دکھ سمجھتا تھا اور یوں اس مغرور دیو کی سر کوبی کا حکم سلطان عالی شان نے ہم سپاہیوں کو دیا اور میں نے تن تنہا اس کی تعمیل کا بیڑہ اٹھایا۔

    عزیزم جان لو کہ میں ملک فارس کا نامور شمشیر زن تھا اور کسی بھی معرکے سے بغیر سرخروئی کے نہیں لوٹا تھا کہ میری تلوار کا ایک وار لوہے اور فولاد کے قلب سے گذر جایا کرتا تھا۔ جب اذن اس دیو کے قتل کا دیا گیا، اور میں نے، جو فرمان سلطان پر مانند ایاز فریفتہ و شیفتہ تھا اور ان کے حکم کو اپنا دین و ایمان جانتا تھا، اس حکم کی تعمیل میں کوئی لمحہ ضائع نہ کیا اور فی الفور شمال میں سلسلہ البرزکی راہ لی جو اس بد صفت دیوکا مسکن تھا۔

    راہ میں ہرج مرج کھینچتا، مہینوں کی مسافت سرعت سے ہفتوں میں طے کر کر وہاں پہنچا اور پہاڑوں کی زنجیر میں اس عفریت شریر کی تلاش شروع کی۔

    تیسرے ہفتے جب رومال کا رنگ سبز سے سرخ ہوگیا تو میں جان گیا کہ میں اس پر غرور دیو سے بس تھوڑا ہی دور ہوں، میں نے اللہ کا نام لیا اور پہاڑ کے دامن میں موجب اپنے پیر و مرشد علی بن ابراہیم بن حسینؒ کے فرمانے کے ایک خیمہ، مخروطی ایسا گاڑا جس کے دروازے دو تھے اور اس پر دو علم بلند کئے جن پر مرقوم تھا،

    لَا حَولَ وَلَا قْوّۃَ اِلَّا باللَّٰہ

    یہ انتظام کرکرخیمے سے ذرا دور ایک غار میں گھات لگائے بیٹھارہا اور اسی طور تین راتیں اور تین دن بیت گئے۔

    چوتھے دن شام کو دیو ”مانس گند مانس گند۔“ کہتا، ایک مست گینڈے کی مانند ڈولتا خیمے کے قریب آیا اور اپنے ناخن پنجے تیز کر کر خیمے پر یوں مارنے لگا کہ جیسے اسے اس کے طنابوں سمیت بس اکھاڑنے والا ہے لیکن وہ منحوس صورت دیو جب جب خیمے کے قریب آتا تھا پاک کلام کی برکت سے ایک غیر مرئی قوت اسے دور دھکیل دیتی تھی۔

    جب یہ عمل متعدد بار ہوا تو اس ملعون کا اضطراب بے حساب بڑھا اور یکبارگی حالت اشتعال میں اس قوت سے چنگھاڑنے لگا کہ پہاڑوں میں ارتعاش پیدا ہوگیا، پتھر لڑھک گئے، کمزور ٹھکانے لرزنے لگے اور غار ڈھے گئے اور چٹانوں سے چشمے ابل پڑے اور یوں سلمانی انگوٹھی، جو اس خبیث کی حفاظت کی ضامن تھی، اس کی انگلی سے پھسل کر گر پڑی۔

    میں بس اسی انتظار میں تھا، جھٹ سے باہر آکر، اچھل کر اس کے سامنے کھڑے ہو کر، تلوار کے ایک ہی وار میں اس منحوس عفریت کا سر اس کے دھڑ سے الگ کیا اور سجدہ شکر بجا لایا۔

    انگوٹھی کو یاقوتی فتراک میں محفوظ کرکر میں نے سفر واپسی کا شروع کیا مگر راستہ بھول کر جنگل دو ہزار میں بھٹک گیا۔ اس جنگل کی عجیب حالت تھی، گھنا ایسا کہ سانپ بھی لہرا کے نہ نکل سکے، تاریک اتنا کہ سو سورج بھی اس کو منور نہ کر سکیں، اور کانٹے دار ایسا کہ پورا لشکر خون آلود کر دے، غرض جنگل کم اذیت زیادہ تھا۔

    جابجا موذی جانور، شیر و پلنگ، گرگان گرسنہ، اژدھے اور مسموم حشرات، اس پر مستزاد درختوں کی ٹہنیاں باہم سر جوڑے یوں ملی تھیں کہ سرسراتی ہوا کی روش سے آپس میں سرگوشیاں کرتی سنائی دیتی تھیں اوریوں گمان ہوتاتھا گویا عفریتیں، زہر آلود سانسیں لے کر بس مجھ پر جھپٹا چاہتی ہوں۔

    بے شک اس پرخوف ماحول سے کمزور دل دہل جائیں، بہادروں کا پِتہ پانی ہوجاے، وہ لرزہ براندام ہوجائیں، غش کھا جائیں، لیکن میں، جو سپاہی زادہ تھا، ہر مہم میں سرفراز تھا، میں نے ہمت نہ ہاری اور چلہ کاٹ کر نیک ارواح سے رہنمائی حاصل کرکر جنگل سے نکل کر پہاڑوں کے دامن میں دریائے ہزار کے ساتھ ساتھ ہفتوں چلتا رہا اور ایک مقام پر جب اس کا پاٹ اتنا نظر آیا کہ اسے عبور کر سکوں تو میں نے دریا میں اپنا گھوڑا ڈال دیا اور یوں اس کے دوسری طرف پہنچ گیا۔

    کیا دیکھتا ہوں کہ سامنے ایک شہرہے۔ شہر کیا ہے ایک عالی شان دنیا ہے، صاف ستھرا، اونچی دیواریں، ہر جگہ درخت سر سبز، باغات سے پر جس میں خوبانیاں دلفریب، زرد آلو مانندقند، آلو بخارے خوش رنگ، سنگترے آنکھوں کی طراوٹ، سیب خوش بو دار، انگو ر انگبین صفت کثرت سے تھے اور ان درختوں میں خوش رنگ و خوش الحان طیور ورد پاک نام کا کرتے ہیں، اور طاوس خوش رنگ پروں والے جا بجا رسول ﷺاور ان کی آل پر درود بھیجتے ہیں۔، مکان کیا جمیل تھے اور لوگ کیا خوب رو، نرم خو تھے۔ غرض وہاں شاہ تھا، پیر تھا یا فقیر تھا شکل سے خوش اور پر توقیر تھا۔

    میں نے قیام دو دن کا ایک سرائے میں کیا اور تازہ دم ہوکروہاں سے جانے کی ٹھانی اور سائیس کو حکم دیا کہ گھوڑے کی زین کس دی جاوے، جس کی اس نے ایک سلطانی دینار کے عوض فی الفور تعمیل کی۔ میں نے ہتھیار باندھے، تلوار نیام کی، خود سر پر لیا اور سرائے سے نکل کر گھوڑے کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے شہر کی فصیل کی طرف رواں ہوگیا، کہ اس شہر میں دستور تھا کہ فصیل شہر میں گھڑ سواری کی ممانعت تھی۔

    چلتے چلتے میں ایک سنسان گلی سے گذرا جس کے اندر کسی بھی مکان کا دروازہ نہیں کھلتا تھا اور وہاں یکایک میری نظر ایک فقیرنی پر پڑی جس نے چادر اپنے گرد اس طریق سے اوڑھ رکھی تھی، کہ اس کا بدن پورا ڈھکا ہوا تھا، چہرے پر اداسی تھی، اس کی آنکھیں زمین میں پیوستہ تھیں اور اس کے سامنے کاسہ گدائی نیم پر دھرا تھا۔

    میں نے از راہ احسان ایک سکہ نقرئی سلطانی جیب سے نکالا اور اس کی طرف اچھال دیا اور مہم کی کامیابی میں گم اور اپنے سلطان کی داد کا منتظر، اس زن گدا سے آہستہ آہستہ دور چلتا گیا۔ میرے حیرت کی انتہا نہ رہی جب میں نے دیکھا کہ وہی سکہ، جو میں نے ایک لمحے پہلے اس کی طرف اچھال دیا تھا، ہنوز میرے ہاتھ میں موجود تھا۔

    مجھے شائبہ ہوا کہ شاید سکہ پھینکنے میں وہم ہواہوگا سو میں رکا، گھوڑے کی گردن پر ہاتھ پھیرا جس پر وہ ہلکی آ واز مین ہنہنایا، اپنی سیاہ چمکیلی آنکھیں ہلائیں اور بطور نشانی، کہ میرا مطیع ہے، سر جھکایا اور اپنے سم زمین پر بہت آہستہ مارے۔

    میں مڑااور لوٹ کر اس کے قریب پہنچا اور دوبارہ دھیان سے ایک نشان زدہ سکہ، اس زن گدا پر نظریں جمائے اس کی طرف اچھال دیا۔ اب کی بار میں نے سکہ اس کے کاسہ گدائی میں نہ صرف گرتے دیکھا بلکہ اس کی آواز بھی سنی۔ میں نے تب اپنے ہاتھ کو دیکھا اور اس میں سکہ نہ پا کر، یہ تسلی کی کہ سکہ بلاشبہ میرے ہاتھ میں نہیں تھا، گھوڑے کی طرف چلنا شروع کیا

    دفعتاً مجھے ہاتھ میں کچھ محسوس ہوا اور میں ہکا بکا رہ گیا۔ دیکھا کہ وہی نشان زدہ سکہ اب بھی میرے ہاتھ میں موجود تھا۔ مجھے کچھ خوف سا محسوس ہوا اب میں نے آنکھیں مل مل کر جاگتے ہونے کی گواہی لی۔

    عزیزم یہ ایک چوڑی گلی تھی جو پختہ اینٹوں سے بنی تھی اور سیدھی ہر گز نہ تھی بلکہ آگے اور پیچھے ایک کمان صورت یوں مڑتی جاتی تھی کہ ا طراف سے اندھی ہوجاتی تھی جبکہ اس کی دیواریں اتنی اونچی تھیں کہ آسمان بمشکل دکھائی دیتا تھا۔

    شام کا وقت ہوا چاہتا تھا ایک طرف میں اور دوسری طرف وہی زن گداگر ایک دیوار کے ساتھ اوڑھنی میں لپٹی سر جھکائے بیٹھی تھی، اور ہم دونوں اور میرے گھوڑے کے علاوہ اس گلی میں کوئی بھی ذی نفس نہ تھا۔ گلی کے بیچ واسطے نکاس آب کے ایک لکیر نما نالی تھی، جس میں ہلکی رفتار سے صاف پانی بہہ رہا تھا جس کی آواز یوں آرہی تھی جیسے کوئی لوہے کو ریتی سے گھسا رہا ہو۔ میرے اوپر خوف طاری ہوگیا۔

    میں نے تیز سانسوں اور دھڑکتے دل سے ارادتاً اپنی تلوار کے دستے پر ہاتھ رکھا اور خنجر سلطانی کو جو میری کمر کے ساتھ بندھا تھا مس کیا اور تسلی کی کہ میرے ہتھیار میری پہنچ میں ہیں اور اس کے بعد میں نے غورکیا کہ کیایہ سحر ہے یا نظر بندی اور اس زن گداگر کا مقصد کیاہے یا یہ بیچاری مصیبت کی ماری بھی خود بھی کسی سحر کے قہر میں گرفتا رہے۔

    میں نے ارادہ یہ کیا کہ اس سے کلام کروں اور حقیقت اس امر کی جانوں کہ کس باعث سکہ میرے ہاتھ لوٹ کر آتا ہے اوراس میں کیا رمز پوشیدہ ہے اور اس سحر کا مقصد کیا ہے۔

    گفتگو کا ارادہ مصمم باندھ کر میں نے جب اس کی طرف چلنا شروع کیا تو وہ اٹھی اورا پنا حاصل دریوزہ اٹھا کر مخالف سمت چل دی اورمیں نے اس کا تعاقب کیا۔ چلتے چلتے گلی ختم ہوگئی اور میں، میرا گھوڑا اور وہ زن گدا ایک چھوٹے سے میدان میں آگئے جس کے اس طرف سامنے ایک دیوار تھی، کہ مانند فصیل شہر تھی مگر بے درتھی اور ثریا سے بلند اور خیال سے وسیع اور طویل تر تھی۔

    وہ زن گدایکدم اس دیوار کے سامنے رک گئی اور پھر حیرت سے میری پتلیاں پھیل گئیں جب دیوار سے ایک روشنی دہکتی کچھ ایسی نکلی کہ اثر سے جس کے دیوار میں ایک قد آدم شگاف آناً فاناًنموردار ہوا اور وہ ساحرہ اس میں داخل ہو کر نظروں سے اوجھل ہو گئی۔

    میں نے اب پیچھے پلٹنا شیوہ مردانگی اور روش سپاہیانہ کے خلاف جانا اور تلوارپر ہاتھ رکھ کر اس شگاف کی طرف بڑھا جو ابھی تک اس روشنی کے زیر اثر دہک رہا تھا لیکن اس نور نما روشنی میں حرارت نام کو نہ تھی۔

    میں بھی بغیر سوچے اس زن پر سحر کی تقلید میں اس روزن روشن میں داخل ہوکر دیوارپار کرگیا۔

    دیوار کے اس طرف کیا دیکھتا ہوں کہ ایک وسیع سبزہ زار ہے، جس کے بیچ میں ایک قصر پر وقار ہے، جو ہزار ستونوں پر ایستادہ ہے اور سامنے اس کے مرغزار ہے۔ ہر ستون میں چار مشعلیں دو اوپر دو نیچے دھڑ دھڑ یوں جلتی ہیں کہ پورا محل بقعہ نور بنا، رات کی تاریکی میں مانند بدر چمکتا ہے۔

    میں انگشت بدنداں کھڑا دیر تک اس منظر سے محظوظ ہوا لیکن پھر اس زن گدا کا خیال آیا اور آہستہ سے محل کی طرف بڑھا اور اس کے اندر داخل ہوا۔

    ہر سو ایسی خاموشی تھی کہ اپنی بے ترتیب سانسوں کی آواز تک سنائی دیتی تھی۔ غرض بلند ستونوں اور دروازوں کی بھول بھلیو ں سے گذر کر آگے سنگ مرمر کا ایک بڑا صحن دیکھا جس کے بیچ میں ایک فوارہ تھا۔ ہر سو خاموشی تھی اور پانی کی آواز کسی بڑی آبشار کی طرح ماحول پر حاوی تھی۔

    اس فوارے کا عجیب منظر تھا کہ مشعلوں کی روشنی میں لمحہ بہ لمحہ رنگ یوں بدلتا تھا کہ گاہے خون رنگ سرخ، گاہے سبزاور گاہے زرد ہوجاتا تھا۔ گاہے اتنا اونچا ہوجاتا تھا کہ آسمان کو چھو لے اور پھر یکدم بند ہوجاتا تھا۔ صحن سے آگے ایک دروازہ سنہری نظر آیا، جس کے قریب جب میں گیا تو وہ خود بخود کھل گیا۔

    اس سحر کے کارخانے کے دبدبے سے دم بخود میں بے اختیار محل کے قلب کے اندر گھستا چلا گیا اور پھر دو ایک راہداریوں سے گزر کر خود کو ایک مستطیل نما وسیع کمرے میں پایا جس کے اطراف میں آٹھ آٹھ اور آگے پیچھے چار چار ستون تھے۔ بیچ میں اس کمرے کے ایک حوض ایسا تھا کہ شفا ف آسمانی رنگ پانی سے پر تھا جس کی سطح پر گلاب کی سرخ پتیاں بکھری پڑی تھیں اور جن سے عطر رِس رِس کر باہر نکل رہا تھا اور اس کے اثرسے ماحول معطر تھا۔

    تب میں نے جب غور سے دیکھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ تالاب کے پیندے میں منقش تصویریں مرد و زن کی یوں بنی تھیں کہ جب لہریں پانی کی اس تالاب میں ہلتی تھی تو گویا تصویریں بھی اٹکھیلیاں کرتی نظر آتی تھیں اور ان پر گمان زندہ انسانوں کا ہوتا تھا۔

    پھر جو سامنے نگاہ کی تو دیکھا کہ حوض کے ایک طرف ایک سیڑھی دار مستطیل چبوترہ تھا جس پر قالین اصفہانی بچھا تھا اور جو اس کمرے کے اوپر چھت کو دیکھا تو نظارہ کیا کہ چھت میں تین گنبد تھے جن کا درمیانی گنبد بڑا اور ساتھ اس کے جسامت میں نصف دو اور گنبد تھے۔ ان تینوں پر بھی تصویریں مرد و زن برہنہ کی اس مہارت سے بنائی گئی تھیں کہ گویا بس اب بولیں۔

    سارے ماحول میں عود و عنبر اور عطر کی ملی جلی خوشبو تھی اور میں مخمور و مسحور اس پر سحر نظارے میں یوں گم ہوگیا کہ دنیا و ما فیہا کی خبر نہ رہی۔

    یکایک مجھے کچھ صداسنائی دی اور پھر دروازہ کھلا اور وہ زن گدا س کمرے میں داخل ہوئی۔ اس کے قدموں میں صاعقہ صفت سرعت تھی، چہرے پر بشاشت تھی اور اس کے بال کھلے تھے۔ میں نے ایک ستون کی اوٹ لی کہ نظروں سے اس کی پوشیدہ رہوں۔

    اس ساحرہ نے منہ ہی منہ میں کچھ کہا اور یکایک چھت میں ایک شگاف نموردار ہوا اور چار فرشتہ نما مخلوق ایک تخت مرصع اور زریں، جس میں لگے یاقوت اور مرجان جھلملا رہے تھے اور جس پر ایک تاج طلائی، جس میں فیروزہ اور نیلم اور عقیق کے نگ جڑے تھے، اور ایک جام سرخ شیرازی شراب کا بھی پڑا تھا، آہستہ آہستہ نیچے لے آئے اور وہ تخت انہوں کمال مہارت سے چبوترے پر ایسے رکھ دیا، کہ شراب بھرے جام میں ہلکی سی جنبش بھی نہ آئی۔

    اب جب غور سے دیکھا تو اس تخت پر ایک لباس فاخرہ ریشمی بھی تھا، جس کی لمبائی اس زن گدا کے جسم کو ڈھانپ لے اور اس لباس پر سرخ و سبز رنگ کے پھولوں کی گل کاری ہوئی تھی۔

    عزیزم تب اس فرشتہ صفت مخلوق نے اس کا لباس گداگری اتارا اور کمال احتیاط اسے لباس فاخرہ پہنایا اور پھر اس کے سر پر تاج زریں رکھ دیا اور اس کے سامنے دست بستہ نگاہ رو بہ زمیں کھڑے ہوئے۔ اس لباس شاہی میں، جو اس کے جسم پر پورا ایسا آیا کہ اس کے انگ انگ کو اپنی آغوش میں لے لے اور اس کی تمام قوسوں کو نمایا ں کرے، اس ساحرہ کا جسم ایسے دمکتا تھا جیسے تاج میں یاقوت، جام میں شراب، ختم میں نیلم، اورآسمان میں زہرہ۔

    پھر اس ساحرہ نے شراب سے کچھ چکھا اور ان سب سے ایک زبان عجیب و نامانوس میں کلام کیا اور جب سب نے اس کا کلام سماعت کیا تو ان میں سے ایک سات فرشی سلام کرکے گیا اور ثانیوں بعد اس کے سامنے موسمی اور غیر موسمی پھل پیش کئے جس میں سے اس نازنین ساحرہ نے انار اور سیب کو چکھا اور انگورسے اجتناب کیا۔

    دفعتاً کہیں سے بربط کی آواز آئی اور یوں ماحول غنا سے مسحور، شراب سے مخمور ہوگیا۔

    بیت

    ساقی بہ جلوہ دشمن ایمان و آگہی

    مطرب بہ نغمہ رہزن تمکین و ہوش است

    پھر اس ساحرہ نے اپنی آنکھیں بند کیں اور اس جام بادہ سے پیہم استفادہ کیا۔ یہ معاملہ کچھ دیر چلتا رہا، مے نوشی سے شغل ہوتا رہااور میں اب تک اس سحر کی حقیقت سے یکسر بے خبر کھڑا دیکھتا رہا۔

    پھر اس نازنین نے لباس فاخرہ اتارا اور عریاں ہوئی اور ناچیز نے آنکھیں نیچی کیں کہ فقیر میں اس کے جسم کو دیکھنے کی تاب نہیں تھی لیکن غضِ بصر تا کجا؟

    بیت

    وا کر دئیے ہیں، شوق نے بندِ نقاب حسن

    غیر از نگاہ، اب کوئی حائل نہیں رہا

    اس کے بال پنڈلیوں تک لمبے تھے، جس نے اس کے عورات کو ڈھانپ رکھا تھااور پورا بدن اس کی تاریکی میں مانندِ قرص ماہ دمکتا تھا اور آنکھوں میں اس ساحرہ کی بلا کی چمک تھی۔

    پھر اس ماہ لقا نے حوض میں اترنے سے پہلے اپنے پاوں کی انگلیوں سے پانی کی حرارت کو محسوس کیا، اور سر ایک ادئے رضا سے ایسے ہلایا جیسے اس کی حدت سے مطمِن ہو گئی ہو اور پھر دھیرے سے حوض میں یوں اتر گئی کہ پانی میں ہلکا سا بھی ارتعاش نہ آیا۔

    جب پانی کی بلندی اس کے دوش تک آگئی، تو اس نے فِتنوں سے پر بدن کو پانی میں ہلکی جنبش دی، کچھ دیر پیرتی رہی اور پھر آنکھیں بند کر کے ساکت کھڑی رہی۔ میں اس نظارے کی تاب نہ لا سکا اور دفعتا اپنے لباس کی قید سے آزاد ہو گیا اور پانی میں آہستہ سے اتر کر اس کی طرف بڑھا۔

    اپنی طرف آتا دیکھ کر اس نے تبسم کیا اور ہاتھ کھول کر مجھے اپنے ہاتھ اور کچھ اپنی مخمور آنکھوں، جن میں مستی برس رہی تھی، کے اشارے سے اپنی طرف بلایا اور میں کہ جو اس رخ تاباں کے سحر میں گرفتا رتھا اس کی طرف بڑھتا گیا۔۔۔ بغیر کسی تردد کے۔

    قریب پہنچ کر اسے آغوش میں لے کر واسطے بوس و کنار کے اپنی طرف کھینچنا چاہا کہ یکایک اس کی آنکھیں خون رنگ سرخ ہوئیں اور اس نے مجھے سے الگ ہو کر قدرے دور پیر کر منہ ہی منہ میں کچھ کہا اور پانی پر پھونک دیا اور اس سے پہلے کہ میں سمجھتا، میرے گرد حوض کا پانی اس طور سرعت سے منجمند ہوگیا کہ میرے تن کی ہڈیاں چٹخ اٹھیں۔

    بیت

    ناگہان آن جوی سمین یخ بہ بست

    استخوان آن جوان در تن شکست

    بانگ زد ای وای بر تقدیر من

    وای بر فریاد بی تاثیر من

    پھر اس مکار عورت نے اپنا بایاں ہاتھ بڑھایا اور اس کے ہاتھ کی حدت سے میرے سینے پر پڑی برف پگھل گئی اور اس نے انگوٹھے سے میری چھاتی کو دبایا، اور چھاتی کے درمیان سے بائیں طرف اپنا پنجہ گاڑ کر میرادھڑکتا دل نوچ نکالنے کی جتن کرنے لگی اور میں مانند ماہی بے آب تڑپنے لگا۔۔۔ مجھے اپنے سینے میں درد محسوس ہوا۔۔۔ سانس رکنے لگی اور پھر اس نے اپنے ہاتھ کو ایک جھٹکا دیا۔

    ناگاہ، جیسے میں اس منظر سے اچھل کر باہر آگیا اور میں نے اپنے آپ کو اسی گلی میں گھوڑے کے ساتھ اسی زن گدا کے سامنے کھڑا پایا لیکن اب اس کی چادر میرے ہاتھ میں تھی اور سکہ زمین پر کھنکھنا رہا تھا جیسے لمحہ ہی تو ہوا ہو جب میں نے سکہ ا س کی طرف پھینکا تھا۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا اور یوں لگا جیسے میں کچھ مدت خواب یا عالم مدہوشی میں رہا ہوں لیکن اس عورت کے چیخنے پر کچھ لوگ وہاں جمع ہوگئے اور اس نے روتے روتے سب کو میری دست درازی کا حال احوال سنا دیا، واویلا مچایا اور غش کھا کر بیہوش ہوگئی۔

    لوگوں نے مجھے دفعتا شانوں، ساقوں، ٹانگوں اور بازووں سے اس طور پکڑکر جکڑلیا کہ ہلنے کی کوئی سبیل مجھے نہ ملی اور پھر دو سپاہی، مستعد، چاق و چوبند چار ہتھیارباندھے مجھے، زنجیروں میں جکڑ کر، قاضی کے پاس لے گئے۔ میں ہنوز اس ہر لمحہ بدلتی صورتحال سے گویا گنگ تھا کہ استغاثہ نے قاضی سے میرے قید کرنے کی درخواست کی کہ میں نے اس عورت سے دست درازی کرنے کی کوشش کی تھی۔ قاضی نے میری طرف دیکھا اور مجھ سے استفسار کیا۔

    ”اے اجنبی مرد تو اپنی صفائی میں کیا کہتا ہے؟“

    ”میں نے سار اماجرا من و عن بتا دیا، جس پر عدالت میں لوگوں نے ناگواری کا اظہار کیا ور کہا۔

    ”اے مکار اور جھوٹے شخص یہ کیا مافوق الفطرت کہانی سناتا ہے، بیہودہ گفتاری کرتا ہے، اس فقیرنی کو تو ہم مدتوں سے جانتے ہیں، اسی شہر میں بستی ہے اور یہاں اسی گلی میں کئی سالوں سے بھیک مانگتی ہے۔“

    میں نے قطع کلامی کی اور ان کو ٹوکاجس پر قاضی کا چہرہ غضب سے دہکنے لگا۔

    ”اے اجنبی نوجوان تو اپنے تئیں ہمیں پنگھوڑے میں انگوٹھا چوستا بچہ سمجھتا ہے؟ ہم صرف مدعی کے ہوش میں آنے کا انتظار کرتے ہیں اور پھر اپنا حکم صادر کرتے ہیں کہ پھر اس قسم کا ٹھٹھا کرنے کی کسی کو جرات نہ ہو۔ بخدا اس شہر میں عورتوں کی عزتیں محفوظ رہیں گی۔“

    ”حضور والا، انصاف تو تب ہو جو کوئی اس دیوار تک میرے ساتھ چلے اور آنکھوں سے دیکھے اس قصر کو اور اس ملعونہ کے سحر کے کارخانے کو اور اگر یہ سب کچھ نہ ہو، تو بندہ جو سزا آپ کہیں من و عن قبول کرے۔“

    اپنے تابوت میں آخری کیل ٹھوک کے میں نے کہہ تو دیا لیکن مجھے شک سا ہوا کہ ہو سکتا ہے مجھے اشتباہ ہوا ہو، ممکن ہے میں فریب نظر کا شکار ہوا ہوں لیکن اپنے سینے میں شدید درد کے احساس سے مجھے یقین تھا کہ دیوار کے پیچھے جاکر اس قصر کو دیکھ کر قاضی کو کچھ یقین تو آجائے گا اور اس کٹنی اور پچھل پیر ی کو مصلوب کر کردم لے گا۔“

    قاضی نے مجھے دو گراں ڈیل سپاہیوں کے ساتھ، زنجیروں میں پابند اسی راستے پر دیوار کی طرف بھیج دیا۔ ہم چلتے چلتے اسی گلی سے گذر کر اس مقام پر پہنچے جہاں مجھے توقع تھی کہ اس دیوار کو دیکھ کر سپاہ اور قاضی کو مطمعِن کروں گا لیکن میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میں نے دیکھا کہ وہاں کوئی ثریا آثار دیوا رنہیں تھی بلکہ وہاں تو بنجر زمین تھی، حد نگاہ تک۔ ہاں اس زمین میں جابجا ہلکا سا ابھار تھا جیسے شاید کسی زمانے میں دیوار رہی ہو۔

    سپاہیوں نے جب یہ ماجرا دیکھا تو مجھے درشتی سے لوٹ چلنے کو کہا اور اب جب میں دوبارہ قاضی کے سامنے آیا اور اس نے پوری حکایت سپاہوں سے سنی تومیری بات سنے بغیرمجھے زندان میں ڈالنے کا حکم دیا کہ مدعی کی کہانی سننے کے بعد ہی مجھے سزا دینے کا سوچے گا۔

    اس زندانی صورتحال سے دوچار میری حالت غیر ہوگئی۔ تین دن بعد میں قاضی کے سامنے دوبارہ پیش ہوا اور اب کی بار وہی گداگر زن، لباس گدا میں ملبوس کھڑی تھی۔

    قاضی نے اس عورت سے ماجرا پوچھا تو اس عورت نے کہا،

    ”مجھے کچھ یاد نہیں شاید اندھیرا تھا، شاید کچھ تندی باد میں تھی کچھ میرے سوچ میں، اوریوں میری چادر اس کے ہاتھ میں آگئی ہوگی اور میں سمجھی کہ اس نے کھینچی ہے، عین ممکن ہے میں نے معاملہ سمجھے بغیر واویلا مچایا ہو، مجھے کچھ علم نہیں اور مجھے یہ مرد بے قصور دکھائی دیتا ہے۔“

    قاضی نے بہتیرا پوچھا لیکن وہ عورت اپنے بیان پر ڈٹی رہی۔ قاضی نے دانت پیسے لیکن پھر سوچ کر اس سے دیوار کے بارے میں استفسار کیا تو اس عورت نے یکسر لاعلمی کا اظہار کیا اور پھر جب استغاثہ کا کوئی دعوی نہیں رہا تو قاضی نے مجھے بری کردیا لیکن تیس دن تک میرے شہر سے باہر جانے پر قدغن لگائی مبادا خاتون کو کچھ یاد آجائے اور مقدمہ از سر نو کھولنا پڑجائے۔ میری جان میں جان آئی۔ سینے کا درد بھی رفتہ رفتہ کم ہو چلا تھا۔

    میں اگرچہ قانون کے پنجوں سے آزاد ہوچکا لیکن ہنوز اس شش و پنج میں گرفتار رہا کہ اس شام کیا ہوا اور اس عورت نے کیوں میرا دل نکالنے کی سعی کی، اور کی بھی یا نہیں اور پھر اس عورت کا شہوت انگیز بدن کچھ ذہن پر ایسا چھا گیا کہ تیس دن بعد بھی اس شہر سے نہ نکلا اور تہہ تک اس معاملے کہ پہنچنے کی کوشش میں لگ گیا۔

    ایک دن دل میں خیال ایسا آیا کہ چاہا اس پر رمز عورت کا تعاقب کروں۔ میں نے بھیس بدلا اور لباس ایک فقیر کا پہن کر اس کمان نما گلی میں اس سے دور بیٹھ کر لیکن ایک کونے میں آئینہ مخفی لگا کر اس پر نظر رکھی۔

    جب دن بیت گیا اور شام کو اس عورت نے اپنا دریوزہ روز اٹھا کر گلی میں چلنا شروع کیا تو میں نے بھی کچھ فاصلہ رکھ کر اس کے پیچھے چلنا شروع کیا۔

    وہ گھروں سے دور ایک جھونپڑی نما مکان میں داخل ہوئی اور میں نے بہت دیر تک اس کا انتظار کیا لیکن وہاں سے نہ نکلی۔ قصہ مختصر یہ سلسلہ تین ہفتے چلا اور وہ ہمیشہ اس جھونپڑی میں ہی رہی۔ میں نے ایک دن ہمت کر کے اس جھونپڑی کے درز سے دیکھا تو اسے وہاں سوتے ہوئے پایا۔

    مجھے کچھ شک اپنے ذہن اور اس پورے واقعے پر ہوا اور بطور کفارہ ایک دن ایک پیر زن کو ساتھ لے کے اس کے گھر گیا اور اس سے درخواست نکاح کی کی۔ اس نے حیرت کا اظہار کیا اور پس و پیش کے بعد ساٹھ اشرفیوں کے مہر پر مان گئی اور میں نے فی الفوردو گوا ہ بلا کر اس کار نیک کو انجام دیا۔

    نکاح ہوا اور میں نے زندگی کے مزے لوٹے کہ نہ تو اس بی بی میں کوئی نقص جسمانی دیکھا اور نہ روحانی بلکہ اس انگبین بدن کو پر حلاوت پایا اور ہونٹ مصری کی ڈلیاں۔

    قصہ مختصر ہم نے وہاں سے کوچ کیا اور میں نے اصفہان میں کام بزاز کا شروع کیا جس میں رزاق نے برکت ایسی ڈالی کہ ہر سو میرے نام کا ڈنکا بجا۔ تجارت نے دن دگنی رات چوگنی ترقی کی اور ایک دور خوشحالی کا یوں دیکھا کہ اللہ نے مجھے قصر رہنے کو فراہم کیا اور کھانے کے برتن سونے اور چاندی کے۔ ایک تمنا دل میں اولاد کی رہی پر وہ پوری نہ ہوئی لیکن اس نازنین کی صحبت میں شکر رب کا بجا لاتا رہا۔

    سالوں بعد اس شہر کا رخ دوبارہ کیا اور بی بی کو ساتھ لے کر ان گلیوں میں آگیا جن کو دیکھ کر اس نے اظہار حیرت کا کیا۔ میں نے اس رات دوبارہ تفصیل کے ساتھ پورا واقعہ سنایا لیکن اس نے مجھے دیوانہ بتلایا اور اسے میرا وہم قرا دیا۔

    مجھے قرار نہ تھا سو میں نے رقم خطیر ایک معمار کو دی کہ جو نہ صرف ہونہار تھا بلکہ فن تعمیر میں بھی ہوشیار تھا کہ واسطے میرے اس نقشے پر ایک دیوار ثریا آثار اس زمین پر بنا دے اور اس دیوار کے اس طرف ایک قصر ہزار ستون، مشعلوں والا بالکل اسی طرز پر بنادے۔ دل میں خیال یہ باندھا کہ اب اپنی بی بی کے ساتھ وہاں رہوں گا اور اسی حوض میں صحبت کیا کروں گا اور اس باعث ایک طمانیت عمیق قلب کو حاصل ہوگئی اور میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔

    چند مہینوں میں ایک قصر شاندار موجب فرمانے کے اس معمار نے تیار کروا دیا جس میں ستون ہزار تھے اور مشعلیں عود کی ہر سو دھڑ دھڑ جلتی تھیں کہ رات پر گمان دن کا ہو۔ صحن اس قصر کا سنگ مرمر کا تھا اور دروازے تمام صندل کے تھے لیکن ایک دروازہ سونے کا بھی بنایا۔

    دیوار میں ایک شگاف قد آدم ایسا بنایا کی جو غور کرو تو ہی دکھائی دے اور اس کے پیچھے مشعلیں خاص ایسی لگائیں کہ روشنی کا گمان ہو۔ یوں اس قصر کو تیار دیکھا تو خوشی سے پھولے نہ سمایا، اس دن شام کو اپنی بی بی کو ساتھ چلنے کا کہا۔

    ”کہاں جانا ہے، اتنی رات گئے؟“

    ”اے میرے آنکھوں کی قرارتم چلو۔ آج تم گداگر اور میں سپاہی زادہ بن کر رات کو شہر کی سیر کریں گے۔۔۔“

    اس نے تعجب تو کیا لیکن میرے اصرار پر لباس گدا زن کا پہنا اور میں اسے گلیوں سے گزارتا اس دیوار کے سامنے لے آیا۔

    ”یہ دیوار کہاں سے آئی، یہاں تو کوئی دیوار نہیں تھی۔“

    میں نے کہاکہ اے نیک بخت تم اندر تو داخل ہو، اس دیوار کے۔ وہ موجب میرے اصرار کے اس روزن میں داخل ہوگئی اور جب اس نے اس عالی شان قصر کو دیکھا تو فرحت کا اظہار کیا اور جب میں نے اسے یہ بتایا کہ یہ محل اسی کا ہی ہے تو اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔

    ہم چلتے چلتے صحن سے گزر کر اس حوض میں پہنچ گئے۔ پھر میں نے تالی بجائی اور چار کنیزیں آئیں جنہوں نے اس کا لباس گدائی اتارا اور اسے لباس فاخرہ پہنایا۔ میں نے اس کے بدن کی طرف دیکھا۔

    بیت

    اس نے پہنا تو اس کے قامت پر

    جامہِ حسن بے شکن آیا

    میں نے اسے پھل موسمی اور غیر موسمی پیش کئے جس میں اس نے انار سے اور کچھ سیب سے چکھا اور میں نے ایک مخفی بربط نواز کو اشارہ کیا کہ غنا سے ماحول کو دہکا دے۔

    اس کے بعد ہم دونوں حوض میں اتر گئے اور کنیزو ں سے کامل تخلیہ طلب کیا جو فی الفور فراہم کیا گیا۔

    ”کیا بہتر ہوتا اگر تخت بھی ہوا اور تاج بھی ہو۔“

    ”تیری صحبت میں ہم پاگل ہوئے جاتے ہیں، تخت و تاج کا بھی انتظام کئے دیتا ہوں ذرا حوض میں کچھ دیر رہیں۔“

    وہ مان گئی اورہم دیر تک اس حوض میں کھیلتے رہے اور باتیں کرتے رہے پھر میں نے اسے آغوش میں لیا اور بوسہ لے کر قصد صحبت کا کیا کہ عین اسی وقت اس کی آنکھیں خون رنگ سرخ ہوئیں اور اس نے مجھے سے الگ ہو کر قدرے دور پیر کر منہ ہی منہ میں کچھ کہا اور میرے گرد حوض کا پانی دوبارہ اسی طور سرعت سے منجمد ہوگیا کہ میرے تن کی ہڈیاں چٹخا اٹھیں۔

    پھر اس مکار اور منحوس عورت نے اپنا بایاں ہاتھ بڑھایا اور میرے سینے پر پڑی برف کو پگھلا، انگھوٹے سے میری چھاتی کو دبایا اور اپنا پنجہ میری چھاتی میں گاڑ کر کچھ دیر میری چھاتی کے پرت ٹٹولتی رہی اور پھر یکدم میرادھڑکتا دل نوچ نکالا۔

    عین اسی وقت چھت میں شگاف نموردار ہوا اور چار کنیزیں اب فرشتہ شکل بن کر ساتھ ایک مرصع تخت کے جس میں یاقوت اور مرجان جڑے تھے نیچے اتریں، اسے لباس فاخرہ دوبارہ پہنایا اور سر پر ایک زرین تاج قیمتی نگوں والا رکھا اور ایک نامانوس زبان میں گفتگو کی۔ پھر فرشتوں کی جلو میں وہ زن پر اسرار تخت پر جلوہ گر لباس فاخرہ میں ملبوس، سر پر تاج پہنے، میرا دھڑکتا دل ہاتھ میں پکڑے چھت کی طرف بلند ہوئی اور نگاہوں سے اوجھل ہو گئی۔

    میرے گرد یکدم منجمد پانی رواں ہوگیا اور میں چھاتی چھپائے وہاں سے نکل آیا۔

    ابو موسی ترمذی نے اپنی کتاب ”عجیب العجائب۔“ میں لکھا ہے کہ میں نے اس فقیر کی پوری بات سنی اور اس کا نام دریافت کیا جو اس نے حسن اصفہانی بتلایا اور تب مجھے اس کی کہانی پر یقین ہو چلا کیونکہ سلطان عالی مقام کا ایک سپاہی، جس کا نام حسن اصفہانی تھا، دماوند کے کسی دیو کو مارنے کے مہم پر مامور برسوں سے لا پتہ تھا۔ اس کی دل والی بات پر البتہ مجھے اب بھی یقین نہ تھا۔ میں نے اس کے سامنے اپنے شک کا اظہار کیا تو اس نے اپنا گریبان کھولا۔

    میں نے دیکھا تو دنگ رہ گیا کہ واقعی اس کے سینے میں ایک بڑا سوراخ تھا اور اگرچہ وہاں اندام تنفس تو تھے، جو سانس کی تاثیر سے ہل رہے تھے،، تمام شریانیں اور وریدیں مکمل حالت میں تھیں، اور اس کا دوران خون اس کے مجروح بدن میں مستعدی سے رواں دواں تھا لیکن اس کی چھاتی کے اندر جہاں غلاف میں دل ہونا چاہیئے، ناپید تھا۔ میں نے اس کی حالت زار پر صد بار استغفار پڑھی اور یوں مجھے اس پورے ماجرے پر یقین آگیا کہ کسی انسان کے لئے یہ بھی ممکن ہے کہ وہ دل کے بغیر زندہ رہے۔

    الھم احفظنا من کل بلا الدنیا و عذاب الاخر

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے