پرانا شہر
پرانے شہر کی فصیلیں منہدم ہو چکی ہیں۔ شہر ضرور سلامت ہے۔ اس طرح نور محلہ اور نور مسجد بقید حیات ہیں۔ انہیں لوگ جانتے ہیں۔ بیگم نور حیات کو بھول گئے ہیں۔ اس کی توقبر کا نشان بھی نہیں رہا۔ اسی نے یہ محلہ بسایا اور چھوٹی سی عبادت گاہ بھی بنا دی جس کی مرمت کی ذمہ داری اللہ رکھا نے اپنے چوڑے چکے کاندھوں پر ڈال لی۔ اس کارخیر میں عبدالرحمن فاروقی شریک کار تھا۔ وہ کوچی پھیر دیتا اور اللہ رکھا قلعی منگوا لیتا۔ یوں کام بن جاتا اور پھر سال بھر کے لیے چھٹی ہو جاتی۔
اللہ رکھا نے کچھ سوچ کر مہترانیوں کی گلی کے دہانے پراپنی امپیریل سوڈا واٹر فیکٹری کی داغ بیل ڈالی۔ یہاں گہما گہمی رہتی۔ ہفتے میں کم از کم ایک بار کوئی نہ کوئی مہترانی جلال میں آتی اور کسی اختلافی مسئلے کی بنا پر ہمسائی سے ٹکر لیتی۔ پھر ٹکراؤ کے مظاہرے کو فیصلہ کن بنانے اور ٹریفک روکنے کے لیے گلی سے نکل کر وہ سڑکوں کے بیچوں بیچ آ جاتیں۔ خدا داد ذہانت اور قدرت کے عطاکردہ تخلیقی جوہر کی بدولت نہایت فصیح و بلیغ گالیاں وضع کرتیں۔ گالیوں سے دال نہ گلتی تو ایک دوسرے کے کپڑے پھاڑ دیتیں۔ پھر بھی کیتھارسز نہ ہوتا تو ایک دوسرے پر چڑھ دوڑتیں اور ایسے ایسے داؤ پیچ کام میں لاتیں جن کا ذکر کوک شاستر میں بھی نہیں ملتا۔
اللہ رکھا کبھی بیچ بچاؤ نہ کرتا۔ بس جی خوش کرتا۔ اپنی سفید پوشی کی حفاظت کرتا جو سفید قمیض، سفید شلوار اور ایک رومی ٹوپی پر مشتمل تھی۔ اپنا امیج ابھارنے کے لیے وہ ہر اتوار کی صبح سفید جوڑا زیب تن کرتا۔ یہ معمول عمر بھر رہا۔ بڑا آدمی بننے کے لیے وہ سفید پوشی کو ضروری سمجھتا اور ایک پلان کے تحت کام کرتا۔ قسمت کی بات ہے کہ اسے تین روپے ماہوار پر اصطبل مل گیا اور اس کے ساتھ پندرہ روپے ماہوار پر گھوڑوں کے مالشیے بھیا جی کو بھی رکھ لیا۔
اللہ رکھا کا قد چھوٹا تھا۔ قد آور بننے کی آرزو رکھتا تھا۔ فٹ رول قد بڑھا نہ سکتا تھا۔ مشین ہاتھ سے چلتی تھی۔ اس نے اپنے طول و عرض سے کہیں بڑا سائین بورڈ بنوایا۔ اس پر موٹے قلم سے اردو اور انگریزی میں امپیریل سوڈا فیکٹری لکھوایا۔ جب چمکتا دمکتا یہ بورڈ اصطبل پر آویزاں کیا گیا اور اللہ رکھا کے ہونٹوں پر مونا لزا سے قدرے زیادہ مسکراہٹ نمودار ہوئی، قد آوری کا نسخہ ہاتھ لگا، باہر سڑک پر آرام کرسی رکھوائی، پہلو میں حقہ رکھا، ادائے نخوت سے کش لگانے اور آنے جانے والے کا ردعمل معلوم کرنے لگا۔
حقہ اس کی زندگی کا جزو لاینفک تھا۔ اس کی عادت اسے اپنے مرحوم باپ اللہ وسایا کا حقہ تازہ کرتے کرتے پڑی۔ اپنے باپ کی یاد تازہ رکھنے کی غرض سے وہ اپنا حقہ آپ تازہ کرنے لگا۔ ایک طرف اس نے قدامت پسندی کا ثبوت دیا اور دوسری طرف سوڈا واٹر فیکٹری قائم کرکے صنعتی انقلاب سے استفادہ کیا۔ ویسے اس نے صنعتی انقلاب کی پیداوار۔۔۔ لید بھرے تار اور پیڈرو کے سگریٹ کو منہ نہ لگایا۔ ایک پیسے میں دس سگریٹ کیا برے تھے لیکن کسی نے اس کے دل میں یہ بات بٹھا دی:
یوریائے خود بہ قالینش مدہ
بیذق خود را بہ فرزینش مدہ
اسے سمجھا دیا گیا کہ فرنگی صنعتی انقلاب کی بدولت مشرق سے ابھرنے والے سورج کے ساتھ زیر حراست ممالک کو بڑی بیدردی سے زیرو زبر کر رہا ہے۔
حقے کی گڑگڑ سے اسے یوں محسوس ہوتا جیسے وہ اس سے ہم کلام ہو۔ ایسے میں وہ گہری سوچ میں پڑ کر مستقبل کے سمندر میں ڈوب جاتا اور دیر تک ڈوبا رہتا۔ علاقے کا واحد صنعتکار تھا۔ لوگ اسے اور امپیریل سوڈا واٹر فیکٹری کے بورڈ کو رشک اور حسد کے ملے جلے جذبات سے دیکھتے۔ پاس سے گزرنے والے سلام ضرور کرتے۔ خاموشی کا دورہ شدت اختیار کر لیتا تو اسے اپنی بھی سدھ بدھ نہ رہتی، سلام کا جواب کیسے دیتا؟ دیسے میں وہ کسی کا سلام موصول ہی نہ کرتا۔
عبدالرحمن فاروقی اسے جذب کی کیفیت سے نجات دلانے کی غرض سے لوہے کی کرسی اٹھاکر لانے کی بجائے گھسیٹ کر لاتا۔ یہ ترکیب غیر موثر ثابت ہوتی تو حقے کی نڑی اس کے ہاتھ سے چھین لیتا اور اس کی مہر خاموشی توڑ دیتا۔
عبدالرحمن فاروقی اس کا لنگوٹیا یار تھا۔ سفید پوشی کا بھرم رکھنے کی غرض سے لوگوں کے مکانوں میں سفیدی کرتا۔ اسے دانشور بننے کی بھی دھن تھی، چنانچہ اپنے یار فضل کباڑئیے کی دکان سے نیرنگ خیال، ساقی اور عالمگیر کے پرچے خرید لاتا۔ ل احمد کے افسانے بڑی رغبت سے پڑھتا۔
اب دونوں میں سلسلہ کلام جاری ہوتا۔۔۔
’’حقہ پیتاہے تو حقہ پیا کر! اسے ضائع نہ کیاکرو‘‘۔
’’بلیا! میں نے امپیریل سوڈا واٹر فیکٹری کچھ ضائع کرنے کے لیے نہیں کچھ حاصل کرنے کے لیے بنائی ہے‘‘۔
’’کیا بنایا ہے؟ کیا بنائےگا؟‘‘
’’نور محلہ، یہ تو اپنا گھر ہے۔۔۔ ادھر ٹکسالی دروازہ، عزیز ٹھیڑ تک کا علاقہ۔۔۔۔ ادھر بازار شیخو پوریاں، ہیرا منڈی اور بھاٹی دروازہ فتح کر لیا ہے میں نے۔میرا پانی یہاں لگ جاتا ہے‘‘۔
’’کیسری اور پنجاب سوڈا واٹر فیکٹری کامقابلہ کیسے کریگا؟‘‘
’’اسی سوچ میں تو میں گم رہتا ہوں‘‘۔
’’گم رہتا ہے تو کہیں اپنے آپ کو گم نہ کر بیٹھنا!‘‘
’’فیکٹری نہ بناتا تو ضرور برضرور اپنے آپ کو گم کر بیٹھتا۔ اب تو میں نے اپنے آپ کو پا لیا ہے‘‘۔
عبدالرحمن فاروقی چپ ہو جاتا۔ وہ اتنا ضرور سوچتا کہ اللہ رکھا جیسا کامل بندہ کیا کرےگا؟ فیکٹری چلانا اس کے بس کا روگ نہیں۔ اس کے لیے بڑے چست چالاک، ہوشیار ویلدار بندے کی ضرورت ہے۔
اللہ رکھا کا کام چل نکلا۔ اس نے پنجاب فیکٹری اور کیسری سوڈا واٹر فیکٹری کی پروا نہیں کی۔ سوڈا، لیمن، کیلا، روز، جنجر سبھی قسم کامال سپلائی کرنے لگا۔ بندگولی والی بوتلیں نو آنے درجن کے حساب سے دیتا۔ دکاندار اکنی بوتل کے حساب سے بیچتے۔ شام کی وٹک سے اسے دو اڑھائی روپے کی بچت ہوتی۔ رقم خاصی بڑی تھی۔ وہ روپیہ بارہ آنے خرچ کرتا، باقی الماری میں رکھتا۔
جب اصطبل تھا تو برکتی اس کی صفائی کرتی بلکہ صفائی کم اور نخرہ زیادہ کرتی۔ اللہ رکھا کو بھلی لگی۔ اس نے دو روپے ماہوار پر رکھ لیا۔ وہ بہت خوش ہوئی۔ اپنے آپ کو دلکش بنانے کے لیے ہر روز ایک پیسے کا میٹھا بنارسی پان کھاتی اور دوسرے دن دمڑی کا دنداسہ ملتی۔ ہر اتوار کو ملحقہ باغ کی نہر پر جاکر کپڑے دھوتی اور دوپہر تک سکھا لیتی۔ انہیں پہن کر گلی اور بازار کا چکر ضرور لگاتی، ہنستی مسکراتی، اپنے دام بڑھاتی۔
جوں جوں فیکٹری کی سیل بڑھی، برکتی اور بھیا جی کی تنخواہ بڑھی۔ بھیاجی یہ دیکھ کر رنجیدہ ہواکہ وہ کام کرتے کرتے چور ہو جاتا، اس کی تنخواہ تو بڑھنی چاہیے، برکتی کی تنخواہ کس حساب سے بڑھتی ہے؟ ایک دن اس نے کہہ ہی دیا: میاں! یہ چھوکری کیا پال رکھی ہے؟ کوڑی کا کام نہیں کرتی اور ہر مہینے مہینے پیسے اینٹھ کر لے جاوئے ہے۔ کاہے کو؟‘‘
’’بھیاجی! یہ سیاست ہے۔ تو نہیں سمجھتا‘‘۔
’’سب سمجھوں ہوں میاں! جھاڑو کم لگاوے ہے، نخرہ جیادہ دکھاوے ہے‘‘۔
’’بھیاجی! کبھی اس کا مکھڑا دیکھ!‘‘
’’دیکھا ہے۔ گھروالی کو دیکھت ہوں۔ باہر تانک جھانک ناہیں کرتا ہوں۔ عورت وہ اچھی جو کھونٹے سے بندھی ہووے‘‘۔
’’بھیا جی! اس کا مکھڑا دھلا ہوا چاند ہے۔ پان کھاتی ہے تو بلیا ں لال ہو جاتی ہیں۔ پہلے ہی کم لال نہیں۔ دانداسا ملتی اور دانت موتیوں کی طرح چمکاتی ہے‘‘۔
اتنے میں گاما لالی والا ’’وند موتیاں دے دانے۔ ہس دی تے پھل کھڑوے‘‘ گانا گاتا آیا اور چلاکر بولا:
’’میاں دوپہر کا ویلا آن لگا۔ کب پہنچےگا پانی؟‘‘
’’آتا ہے پانی۔ بھیا جی ذرا دل لگی کر رہا تھا‘‘۔
’’ہم دل لگی ناہیں کرت ہیں۔ لالی والے باؤ! تو چل۔ ڈالا لے کر آتا ہوں‘‘ بھیا جی نے مشین کی جانب جاتے جاتے کہا۔
’’اور تیری خیر ہووے!‘‘ کہ کر گاما لالی والا چلا گیا۔ بھیا جی ڈالا لے کر پیچھے پیچھے گیا۔ ایک دو ڈالے ہوں تو بھیاجی اٹھاکر لے جاتا، ٹھلیے میں رکھ کر نہ لے جاتا، جس کی کھڑ کھڑ دور تک اعلان کرتی جاتی کہ بھیا جی آ رہا ہے۔
میدان خالی ہوا۔ اللہ رکھا اپنے آپ سے ہم کلام ہوا: ’’کیا بے سرا بندہ ہے۔ اچھی چیز بھی اسے بری لگتی ہے‘‘۔
اتنے میں کلام کرنے والی آ گئی اور ہم کلامی کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔
درمیانے قد کی عورت۔۔۔ عورت سے سواتھی۔ اللہ رکھا کو دیکھتے ہی مسکرائی۔ مسکراہٹ اور پھر جوانی کی مسکراہٹ، بڑا موثر ہتھیار تھا۔ اللہ رکھا تو کیا، جسے چاہتی اس ہتھیار سے مغلوب کر لیتی بلکہ وہ آپ ہی آپ فتح ہو جاتا۔ دنداسے نے ہونٹ گہرے نسواری کر دئیے تھے۔ مستی سے لبریز بڑی بڑی کجلائی آنکھیں چومکھیا دار کرتیں اور دیکھنے والے چت ہو جاتے۔ بھرپور شباب، کمر سے اوپر زور آوری کے دو نشان، چنی ڈھلک ڈھلک جاتی اور شباب منظر عام پر آ جاتا۔ لمبے بال دو گتوں میں تقسیم کئے ہوئے، غضب کی شان رعنائی تھی۔ ہر عضو سانچے میں ڈھلا ہوا تھا۔ اپنے وقت کی افرو دائتی تھی۔
اللہ رکھا پر اپنے بانکپن کا وار کرتے ہوئے اندر لیمن کے ڈالوں کی طرف چلی گئی۔ انگوٹھے کے زور سے ادھا کھولا، پیا اور اللہ رکھا سے بات چیت کرنے کے لیے آرہی تھی کہ بھیاجی خالی ڈالے لیے فیکٹری میں داخل ہوا۔ اس کے آتے ہی لبریز بدن اور شوخ تیوروں والی برکتی نو دو گیارہ ہو گئی۔ بھیا جی بدذوق سہی، لیکن اخلاقیات کے معاملے میں کھرا بندہ تھا۔ بداخلاقی اسے کسی قیمت پر گوارانہ تھی۔
اللہ رکھا کرسی اور حقہ لے کر سڑک پر آ گیا اور برکتی کی بے بسی پر مسکرایا۔ بھیا جی ہی ایسا بندہ تھا جس پر برکتی کا وار خالی جاتا اور وہ پسپا ہو جاتی۔
بھیا جی نے ڈالے رکھے اور اللہ رکھا کے پاس آیا۔ بولا: ’’میاں! کیا دیوت ہے یہ چلبلی چھوکری؟ کیا بچہ لیوت ہو اس سے؟‘‘
’’ارے نہیں بھیاجی! سارا کھیل پیسے کا ہے۔ پیسہ پلے ہو تو تھوڑی بہت دل لگی کر لینی چاہیے۔ نہیں تو جی خراب ہو جاتا ہے‘‘۔
’’جی کھراب ہووے تو سادی کرلے بندہ۔ جیون بگاڑ دیوت ہے یہ چھوکری‘‘۔
’’نہ نہ بھیا جی! کمر میں ہاتھ ڈالنے اور منہ چومنے سے کیا بگڑتا ہے اس کا یا میرا؟‘‘
بھیاجی اندر چلا گیا۔ سمجھ گیا کے مالک سے الجھنے اور رسوا کرنے کا اسے حق نہیں۔ رمز و کنایہ کا فن اسے آتانہ تھا۔ وہ پردہ ڈالے بغیر کھری بات کرتا۔
اللہ رکھا بڑا اجلا رہتا اور وٹک بھی کھری تھی اس کی۔ حقیقت پر پردہ ڈالنے کے لیے اس نے دانستہ حساب کتاب کے لیے میلی کچیلی کاپی رکھی تھی۔ کاپی لے کر وصولیاں کرنے چلا گیا۔
ہر دکندار اپنی اپنی بولی بولتا۔ گاماں لالی والے کی تو بس ایک ہی رٹ تھی: ’’میاں! میری دکنداری نہ مار! بڑی مشکل سے اچھا ٹھکانہ ملا ہے۔ ادھیلیے زیادہ دیا کر، بوتلیں کم!‘‘
ایک ہی بندہ ہے میرے پاس! تیرے ہاتھوں کو مہندی لگی ہے۔ آکر ڈالا لے جایا کر!‘‘
’’میاں! کبھی موقیا بنے تو آ جاتا ہوں۔ دکان کھلی چھوڑ کر ڈالا لینے نہیں جا سکتا۔ خالی تھاں دیکھ کر جو چوری نہیں کرتا وہ بھی کرتا ہے۔ ادھے تین بار چاہیں مجھے! بنے شک پیسے پہلے لے لے!‘‘
’’نہ۔ یہ کام نہیں کرتا میں۔ پیشگی لیتا ہوں نہ ادھار دیتاہوں۔ سودا نقد بہ نقدی کا!‘‘
کامنی کی اور ہی سوچ تھی۔ ٹبی کے دہانے پر دکان تھی اس کی۔ خوشحال تھی۔ فری لانسر تھی۔ عمر کچھی ہوئی تھی۔ جوانی ڈھل چلی تھی۔ پھر بھی طنابیں کھچی ہوئی تھیں۔ کس تھی بدن میں۔ سانچی کے پان اور قینچی کے سگریٹ اسی سے ملتے۔ بٹی کا ڈربہ اس نے لال خاں کی خاطر چھوڑا اور اس کی دکان پر آ بیٹھی۔ لال خاں سودا لینے جاتا تو دکان بند نہ کرتا۔ کامنی سنبھال لیتی۔ وہ تو دکان والے کو بھی سنبھال لیتی جس نے اپنے سمیت دکان اس کے حوالے کر دی تھی، لیکن تابکے؟ جب موت کا ریلا آیا تو وہ اسے سنبھال نہ سکی۔ وہ خود ڈانواں ڈول ہو گئی۔ ٹبی میں اس کا ڈربہ خالی نہ رہا تھا۔ خالی ہوتب بھی وہ لوٹ کر وہاں نہ جاتی۔
اللہ رکھا کو آتے دیکھ کر پڑیامیں رکھے ہوئے دام صندوقچی سے نکالے اور سامنے رکھ دیئے۔ اللہ رکھا نے پڑیا اٹھائی، پیسے گنے اورجیب میں رکھ لیے ۔
’’میاں! میں تیرے پیسوں میں بئی مانی نہیں کرتی‘‘۔
’’کملی ہے تو بھی۔ بھل چک ہو جاتی ہے بندے سے‘‘۔
’’میاں! ایک بات ہے۔ تیرا بڑا فیدہ ہے اس میں۔ اتنی دور فیکٹری بنائی ہے۔ وہاں دن بھر بیٹھا مکھیاں مارتا ہوگا۔ اللہ وسائی کا مکان خالی ہونے والا ہے۔ بڑی کچی جگہ ہے‘‘۔
اللہ وسائی کا نام سن کر وہ چوکس ہوا۔ اس نے پوچھا ’’کہاں جا رہی ہے اللہ وسائی؟‘‘
’’جانا کہاں ہے؟ برابر کے بزار میں چاند خاں مٹھائی والے کی دکان کے سامنے چبارہ خالی پڑا ہے۔ جگہ اچھی ہے اس سے۔ وہاں جا رہی ہے‘‘۔
’’اچھا‘‘۔
خالی ہونے والا چپارہ بکاؤ ہے۔ بڑی ٹھکانے کی تھاں ہے۔ آدھے گاہک تیرے اسی علاقے کے ہیں۔ لے لے یہ چبارہ۔ ہیٹھاں بیٹھک میں فیکٹری لگانا! اوپر اپنا ڈیرہ جمانا!‘‘
’’اچھا‘‘ سوچ لینیدے کامنی! کاروباری معاملہ ہے۔ سوچ وچار کے بعد ہی فیصلہ کرتا ہوں۔ فیکٹری ہے فیکٹری مزاخ نہیں‘‘۔
’’کیا سوچنا ہے تجھے؟ گولڈن چانس ہے یہ ہاتھ سے نکل گیا تو ساری عمر سوچتا ہی رہےگا۔ اللہ وسائی اونچے چبارے میں چلی جائےگی تو دادر کے اصطبل ہی میں پڑا رہےگا‘‘۔
’’کھوتے کا بھی سودا کرنا ہو تو بندہ پھر بھی سوچ وچار کر لیتا ہے‘‘۔
’’مت کر سوچ وچار! یہاں آئےگا تو بھرے میلے میں آئےگا۔ شراب کے ادھے پوے آدھی رات تک بکتے ہیں یہاں۔ سوڈا منوں منہ اٹھتا ہے۔ تیرے آنے سے مجھے ارمان ہو جائےگا‘‘۔
’’ہوں‘‘۔
’’پھر یہاں آکر تیرا جی لگ جائےگا۔ کاروبار دونا ہو جائےگا‘‘۔ پھر ہنس کر بولی ’’تیری خدمت فلا کروں گی۔ تیرا پیسہ مجھ پر حرام۔ پائی لوں گی تو پائی پائی روز کے روز دوں گی۔ علاقہ ادھی رات تک جگمگ جگمگ کرتا ہے۔ عزیز ٹھیٹر کے آگے جو آٹھ، دس دکانیں ہیں وہاں بھبکے جلتے ہیں۔ یہاں کوئی بھبکا نہیں جلتا۔ دن ڈھلتے ہی نیادن چڑھتا ہے۔ لیمپ، لاٹین، ہری کین اور بجلی کے آنڈے جلنے لگتے ہیں‘‘۔ پھر ذرا توقف کیا اور کہا ’’لے پھڑ! قینچی کے سرگٹ پی! عام لوگ پیڈرو کے سرگٹ پیتے ہیں۔ کھاص کھاص لوگ قینچی کے سگرٹ پیتے ہیں‘‘۔
’’میں سگرٹ نہیں پیتا۔ حقہ ٹھیک ہے‘‘۔
’’تو آتو سئی۔ حقے کا بندوبست بھی ہو جائے گا‘‘۔
اتنے میں دلاور شیر فروش آیا اور شکل دکھا کر چلا گیا۔
وہ بولی ’’اللہ رکھا! یہ جو شخش ہے یہ منڈوا ٹوٹنے تک دکا ن کھلی رکھتا ہے۔ پھر کبھی کبھی آدھی آدھی رات کو آکر میرا بوہا کھڑکاتا ہے۔ کم ذات جواری کہیں کا!‘‘
اللہ رکھا کوکامنی کی باتیں اچھی لگیں، خاص طور پر لل فلا والی بات۔ آج اس نے پہلی بار اس کی دکان پر اتنی دیر تک باتیں کیں اور سنیں ورنہ وہ تو کسی سے فالتو بات نہ کرتا۔ پیسے لیے اور اگلی دکان کا راستہ لیا۔ اسے کامنی معقول سیانی معلوم ہوئی۔ اس نے اس کا حدود اربعہ جانچا۔ جب کامنی نے پان بناکے بڑی ادا سے اسے پیش کیا تو اللہ رکھا نے اس کی لانبی لانبی، پتلی پتلی انگلیوں کو دیکھا جن پر کتھے کا پکا لال رنگ چڑھا تھا۔ وہ حمیدا جواری نہ تھا ورنہ انگلیاں پکڑ کر دھیرے دھیرے مروڑتا۔ ان کے لمس سے دل کی دھڑکن تیز کرتا۔ کہنیوں تک چڑھا رکھی تھیں آستینیں اس نے صاف ستھری چمڑی اللہ رکھا کو بھلی لگی۔ ادھیڑ عمر کی تھی لیکن عمر کے آثار عیاں تھے، نمایاں نہ تھے۔ چہرہ بے داغ تھا۔ باتیں کرتی، ہنستی مسکراتی جاتی۔ بہارکے دن ابھی لد نہ گئے تھے۔ آنکھوں میں سویرا جاگ رہا تھا۔ اس نے اس ادا سے انگڑائی لی جیسے جوانی کو بیدار کر رہی ہو۔ عورت کو اس عالم میں دیکھ کر اس مقام پر جا پہنچا جہاں حیرت کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ بےخود ہو گیا۔
فیکٹری کے انتقال کا مسئلہ سودو زیاں کی حدود سے نکل کر دل تک جا پہنچا۔
اللہ وسائی نے مکان چھوڑ دیا۔ اللہ رکھا نے روک لیا۔ بات کل پرزے اکھاڑنے کی نہ رہی، سوچ میں ایک عورت کلبلائی۔ اللہ وسائی توہرجگہ اللہ وسائی تھی۔ اللہ رکھا کی نسبت کچھ نہیں کہا جا سکتا، یہ بھی اللہ رکھا ہر جگہ اللہ رکھا ہی رہےگا۔
وہ پہلے بھی حساب کی میلی کچیلی کاپی لے کر یہاں آتا، چونیاں اٹھنیاں بٹور کر چلا جاتا۔ کامنی نے بھی کبھی جال نہ پھینکا۔ یہ تو سب تقدیر کا کیا دھرا تھا جو اپنے وقت پرکام کر دکھاتی ہے۔
اللہ رکھا نے نئی مطالعہ گاہ میں قدم رکھا۔ نئی دنیا میں آیا۔
نیکی اور بدی کے طوفانوں سے کھیلتی ہوئی یہ دنیا گورکھ دھندا تھی۔ چاروں کھونٹ بھلے مانسوں کی ماڑیاں تھیں۔ چھوٹی چھوٹی کوٹھڑیوں کے اوپر کوٹھے تھے۔ ڈیرہ دارنیوں اور ٹکیائیوں کے ٹھکانے شرفا کی حویلیوں سے جڑے ہوئے تھے، لیکن دیواریں آپس میں باتیں نہ کرتیں۔ کوئی دیوار نہ پھاندتا، ادھر ادھر نہ جھانکتا ہر ایک کو اپنے کام سے کام تھا۔ اس عدم مداخلت نے عدم تشدد کی صورت اختیار کر لی تھی۔ تشدد کی نوبت آتی تو نیکو کار نیکوکاروں سے لڑتے اور بدکار بدکاروں پر ٹوٹ پڑتے۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنے کے لیے علاقے کا تھانیدار بیچ میں کود پڑتا۔ اس کارخیر کے عوض نیکو کاروں سے برائے نام اور بدکاروں سے من مانا مختانہ وصول کرتا۔ بدکاروں کی کارگزاری پیش نظر رکھ کر تھانے کی نیلامی میں بڑھ چڑھ کر بولی دی جاتی۔ سہرا بدکاروں کے سرتھا جو تھانے کی مستقل آسامیاں تھے۔
دنگا فساد کرنے والے پیشہ ور لوگوں نے کبھی امن اور قانون کا مسئلہ کھڑا نہیں کیا کیونکہ تھانے میں پہنچ کر وہ بڑی برخود داری دکھاتے، چپ چاپ لمبے پڑ جاتے، بلا تامل پولیس کے تاریخی چھتر کھاتے، حسب معمول بلبلاتے، چیختے، چلاتے، حسب معمول پیسے دے کر چلے جاتے اور پھر از سرنو پڑھا ہوا سبق دہراتے اور اللہ کو پیارے ہونے تک اسی اسلوب سے زندگی گزارتے جسے وہ تقدیر بندھن کہتے۔
فاروقی نے نقل مکانی کو نا پسند کیا۔ بھیاجی اس کا ہم خیال تھا۔ دونوں نے مل کر پیشگوئی داغی کہ میاں پٹڑی سے اتر گیا ہے۔ وہ دن دور نہیں کہ فیکٹری کو ٹھکانے لگاکر گھر جا بیٹھے گا۔
فاروقی نے اخلاقی لیکچر پلانے کی ٹھانی اور کہا ’’ یار اللہ رکھا! یہ کیا تو نے کہا؟ گشتیوں کے بازار میں آگیا۔ ٹکہ ٹوکری ہیں عورتیں یہاں۔ لوٹ لیں گی تجھے اور تو کچھ کر نہ سکےگا‘‘۔
قبل ازیں کہ معاملہ طول پکڑتا اللہ رکھا نے بھیا جی سے کہا ’’ہاتھ والی بوتل ادھر لے آ! فروقی کو پلا! اس نے رات کوئی خواب دیکھا ہے‘‘۔
بھیا جی تازہ بھری ہوئی جنجر کی بوتل لے آیا اور فاروقی کے سامنے رکھ دی۔
’’کوئی جھوٹا خواب نہیں دیکھا میں نے۔ میرے خواب سچے ہوتے ہیں اللہ رکھا! دیکھ لینا!‘‘
’’سچے خواب دیکھتا ہے تو بن جا سفنا پیر! یہیں فیکٹری میں بیٹھ کر حق ہو کر! دربار جانے سے پہلے بڑی بڑی عورتیں تجھے سلام کرنے آئیں گی۔ چڑھاوے میں آدھا تیرا آدھا میرا۔ سوں رب دی! غرور کے گھوڑوں پر سوار ان عورتوں کی اکڑی تنی گردنیں تیرے آگے جھک جائیں گی۔ بڑی ڈرپوک ہوتی ہیں یہ! پیر فقیر کی مار سے مرجاتی ہیں۔ چھوڑ کوچی پھیرنے کاکام! کوٹھی بنا لےگا کوٹھے والیوں کی مدد سے‘‘۔
فاروقی نے بوتل منہ سے لگانے کے لیے برابر رکھی ہوئی میز سے اٹھائی اور ہنس کر کہا ’’تو نے بات ہی کھو کھاتے میں ڈال دی اللہ رکھا!‘‘
’’بلیا! تو اپنے آپ کو سمجھتا ہے نہ کاروبار کو۔ میں سمجھتا ہوں کاروبار کیا ہوتا ہے‘‘۔
’’تو کیا سمجھتا ہے؟یہ گشتیاں تجھ سے زیادہ سمجھتی ہیں۔ تجھ سے بھی بڑے بڑے کاروباری ان کی مٹھی میں ہوتے ہیں۔ کاروباری لوگ ہمیں لوٹتے ہیں، یہ کاروباری لوگوں کو لوٹتی ہیں، کون بڑا ہوا پھر؟ تو اکیلا ہے اور گشتیوں کے ہیٹر کے ہیٹر ہیں یہاں‘‘۔
’’چھوڑ یار! کیا باتیں لے بیٹھا ہے صبح صبح۔ گشتیاں تو ابھی سوئی پڑی ہیں‘‘۔
فاروقی نے بوتل پی۔ حقے کی گڑگڑ شروع ہوئی۔
اللہ رکھا نئی دنیا میں آ گیا تھا۔ جو قدم اٹھا اب واپس نہ جا سکتا تھا۔
سامنے بھیڑی گلی۔۔۔ اس نے اچھی طرح دیکھی۔ یہاں گناہوں کا کیچڑ تیز رو نالی بہاکر لے جاتی۔ نالی بلندی سے پستی کی طرف بہتی۔ کیا لوگ اور کیا یہاں کی عورتیں، بلندی سے پستی کی طرف جاتیں۔ ان کے گناہوں کا بچا کھچا لاوا مہترانی اور ماشکی صاف کر دیتے۔ گلی کو بھی دھو کر صاف کر دیتے۔ گلی دھل کر یوں چمک اٹھتی جیسے کسی مہمان خصوصی کی آمد آمد ہو۔ جوان مٹیاریں آتیں، شوخی دکھاتیں، ڈالفن کی طرح شرارتیں کرتیں۔ جلد ہی جوانی ڈھل جاتی۔ جوں جو گردوں عمر کی گھڑیاں گھٹاتا توں توں چہروں کی لپائی پتائی بڑھتی۔ اللہ رکھا کمال و زوال کے یہ تماشے دیکھنے لگا۔
دھندا تو دن چڑھے شروع ہوتا، لیکن ہاؤس فل زوال آفتاب کے بعد ہوتا۔ سرشام گلی میں بھیڑ ہو جاتی اور تل رکھنے کی جگہ نہ رہتی۔ چہلوں اور گالیوں کا بیک وقت مزا لوٹنے والے ہلڑ مچاتے۔ مرغیاں ڈربوں سے باہر آ جاتیں۔ پھر جیسے مجمع گیر تماشا دکھا کر سانپ پٹاریوں میں ڈال لیتا اور برسر مطلب آتا تو بھیڑ چھٹنے لگتی اسی طرح دل پشوری کرنے والے ماں بہن کی گالیوں سے تواضع کروا کے لطف اندوز ہو کر رخصت ہو جاتے۔ سچے گاہک بالخصوص سفید پوش اور آنے والی سہاگ رات کے لیے ریہرسل کرنے والے ڈربوں کی مرغیوں اور چوباروں کی کبوتریوں کی طرف لپکتے۔ آدھی رات کے لگ بھگ اپنے اپنے دلوں کودن بھر کا حساب دےکر یوں چارپائی پر جا پڑتیں جیسے دم توڑ گئی ہو۔
اللہ رکھا کے شام کا وقت بہت اہم ہوتا کیونکہ اس وقت وہ دکنداروں سے وصولی کرتا۔ اس کے اندرونی شلوکے کی جیبیں چہرہ شاہی روپوں اور اٹھنیوں چونیوں سے بھری ہوتیں۔ ان کی حفاظت ضرور ی تھی۔ پہلے گلی کے دکنداروں سے وصولی کرتا۔ ساتھ ساتھ تماشا بھی دیکھتا جاتا۔ اصطبل چھوڑ کر وہ گھاٹے میں نہیں رہا۔
فاروقی نے صاف صاف کہا ’’اللہ رکھا! تو کاروبار کرنے نہیں، عاقبت خراب کرنے یہاں آیا ہے۔ میں اس شیطانی کام میں تیرا کیسے ساتھ دے سکتا ہوں؟ تیری تباہی میں میرا نہیں، ان گشتیوں کا ہاتھ ہوگا جو تجھے چمٹنے کی کوشش کرتی رہتی ہیں‘‘۔
’’توں دم کی دم ہی رہےگا یار!‘‘
اللہ رکھا اکیلا ہجوم کو چیرتا چیرتا اور وصولی کرتا کرتا گلی میں سے چلا جاتا۔ سفید پوش اور سیٹھ بننے کا بھوت ہر دم اپنے اوپر سوار رکھتا۔ پھر بھی بندہ بشر تھا۔ للا فلا والی بات بھولا نہ تھا۔ ایک رات شیطان نے اسے آن گھیرا اور وہ کامنی کا دروازہ کھٹکھٹانے کی نیت سے ادھر گیا لیکن سراپا شیطان دلاور شیر فروش بلکہ سرفروش دیوانہ وار دروازہ بھڑ بھڑا رہا تھا۔ اللہ رکھا لوٹ آیا۔ اس کی قسمت میں کامنی بھی نہ تھی۔
قسمت مہربان تھی۔ سیٹھ بننے کا منصوبہ کامیاب ہو رہا تھا۔ ابھی گلی سے جی نہیں بھرا تھا کہ وہ ایک قدم اور بڑھا۔ بڑے بازار میں تھانے سے کچھ ہی دور، حافظ ہوٹل کے برابر سنیما کی بیرونی عمارت میں ایک ہال خالی ہوا جو اس کی موجودہ جگہ سے دگنا تگنا تھا۔ کسی سے مشورہ کئے بغیر اس نے فیکٹری اکھاڑ کر یہاں لگا دی۔
حسب دستور تمام دکان داروں کی طرح علی الصبح آ جاتا۔ بھیاجی اس سے پہلے آکر فیکٹری کھول کر کرسی باہر تھڑے پر جما دیتا۔ لمبی میز اور کرسیاں صاف کردیتا۔ داراں مہترانی تھڑا اور فرش صاف کرتی۔ یہ شوخ شرارہ برکتی کا بدل تھی۔
اللہ رکھا اور حقہ دونوں کا نام ایک ساتھ لیا جاتا۔ سیٹھ بننے کے لیے سوچ کا جال بنتا رہتا۔ دن بھر بجلی چمکتی، شعلے اس کے پاس سے گزرتے اور اس کی سوچ میں رخنہ ڈالتے۔
چھوٹے گیٹرسے نکل کر بڑے گیٹر میں آ گیا۔۔۔۔۔ کاوش کے بغیر، کوشش کے بغیر! قسمت کے کام تو پھر ایسے ہی ہوتے ہیں۔
جو سنا سنایا تھا، حقیقت بن کر سامنے آیا۔ سنی سنائی داستانوں کے اصل کردار دریافت ہوئے۔ ٹبی کے پہلو میں بیٹھ کر خواب ہی دیکھے تھے، اب وہ خواب جیتے جاگتے دکھائی دئیے۔ بالی (بعد ازاں ہر ہائی نس اقبال بیگم آف خیرپور) عیدن بائی اکھیاں والی، عیدن بائی ہسیاں والی، عنایت بائی ڈھیرو والی، خورشید بائی حجرو والی۔۔۔ یہ بڑے بڑے نام ہیں۔ حجرو گھرانے کا نام تو اللہ رکھانے بھی سن رکھا تھا۔ اسے پتا تھا کہ اس گھرانے کے لوگ ملک ہی نہیں ملک سے باہر بھی مامور ہیں۔ وہ ان سے تعلق تو قائم نہ کر سکتا تاہم انہیں دیکھ سکتا تھا۔ بڑے کلچرڈ تھے یہ لوگ۔ ہیرا منڈی اس کا کاروباری مرکز ہی نہیں محلہ بھی تھا۔ اس کی فیکٹری سے کچھ دور ایک طرف تھانہ تھا، دوسری طرف مسجد اور مدرسہ نعمانیہ تھا جسے وہ ہر سالانہ جلسے میں چندہ دیتا۔ مدرسے کی دیوار کے برابر وزیر بائی کا ڈیرہ تھا۔ اس سے تو ہر روز سرراہے ملاقات ہو جاتی۔ دو چار جملوں کا تبادلہ بھی ہو جاتا۔ طمنچہ جان جو حافظ ہوٹل کے بالکل سامنے رہتی تھی، باہر نکلتی نہ تھی۔ نیتی سنیارن سے بھی اس کا تعارف ہوا۔۔۔ سبھی شائستہ عورتیں تھیں۔ طاؤس و رباب کی جان تھیں جو اس وقت تک بدن کا تقدس برقرار رکھتیں جب تک گاہک دہلیز پر سجدہ نہ کرتا اور منہ مانگے دام قدموں میں نہ رکھتا۔
ان وفا ناشناس مخلوق تک پہنچنے کے لیے بےحیائی، بے باکی اور مخیر طبعی ایسے اوصاف ضروری تھے۔ اللہ رکھا اس معاملے میں تقریباً صفر تھا۔ اللہ رکھا تو بلند نظری سے کوسوں دور تھا، آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بلندو بالا کوٹھوں کے مکینوں سے وہ کیونکر گفتگو کرتا۔ اس کی چھوٹی چھوٹی آنکھیں اس کا سر اونچا نہ ہونے دیتیں۔ پھر مخیر طبعی تو قطعاً راس نہ تھی اسے۔ کیسے یوں اشرفیاں لٹاتا جیسے اس کی نہ ہوں، کوٹھے والیوں کی ہوں۔ اس طرح تووہ قیامت تک بڑا آدمی نہ بن سکتا۔
یہ کیا کم تھا کہ ہر جمعرات کو وہ ایک روپے کے دھیلوں سے لدا پھندا پیالہ لے کر بیٹھ جاتا۔ فقیر آتے اور دھیلا دھیلا لے کر چلے جاتے۔ جھڑکیں بھی ساتھ کھتے۔ فقیروں کی فقیری اس طرح برقرار تھی۔
وہ امتحان گاہ میں آ گیا تھا۔ سب لوگ اس جیسے نہ تھے۔ کوٹھے پر وہی جاتے جو آنکھیں بند کر کے آتے اور خوشی خوشی اندھے کنویں میں ڈھے جاتے۔ یہاں سے ان کی لاش ہی برآمد ہوتی۔
وہ یہاں کا گورکھ دھندا سمجھ گیا کہ پیسہ ہی کارساز ہے، خدا ہے یہاں کا۔ عورت بکاؤ مال ہے۔ پیسہ ختم، کھیل ختم۔ پیسے کے ذریعے ہر کوئی جلوے خرید سکتا تھا۔ محبت اور وفا جیسی انمول چیزیں بھی قابل فروخت تھیں۔ جب تک پیسہ چلتا، ان کا دکھاوا بھی چلتا۔
وہ عورتوں کو شوق سے دیکھتا۔ بالی عید کا چاند تھی۔ رات کو مجرا خانے میں بیٹھتی جس کے آگے وسیع دالان تھا۔ دروازہ کھل جاتا۔ تازہ ہوا اور راہگیروں کی نظریں یہیں سے اندر جاتیں۔ اللہ رکھا بھی دروازے کے پاس سے گزرتا تو مجراخانے میں قالین پر جلوہ افروز بالی پر نظر ڈالتا جاتا۔ یہ اس علاقے کا فرنج بینفٹ تھا۔
پانی کے حوالے سے نو گزے کی قبر کا علاقہ اللہ رکھا کی عملداری میں تھا۔ آگے کیسری سوڈا واٹر فیکٹری کا علاقہ تھا۔ اپنے علاقے کی مخلوق سے تعلق پیدا ہوتا گیا لیکن یہ تعلق خاطر نہ تھا۔ اللہ رکھا کو حجرو اور ڈھیرو خاندان کی عورتیں اچھی نہ لگتیں جو اسے کبھی گھاس نہ ڈالتیں۔ ویسے بھی وہ کم ہی باہر نکلتیں اور نکلتیں تو بڑی بے نیازی سے گزر جاتیں۔ اللہ رکھا تو کیا وہ تو کسی نظر باز کی نظروں کا جواب نہ دیتیں۔ طمنچہ جان کا تو یہ حال تھا جیسے بزاز ہٹہ کے دکاندار قیمتی زری کی کامدار ساڑھیاں کپڑے میں لپیٹ کر رکھتے۔ وہ بھی اپنی چار دیواری میں لپٹی رہتی۔۔۔ بڑی بڑی حویلیوں والیاں کسی کی طرف نہ دیکھتیں۔ سب انہیں دیکھتے۔
سیٹھ بننے کے عزم سے لدے پھندے اور سفید پوشی کے بوجھ تلے دبے ہوئے اللہ رکھا کے لیے جینا عذاب تھا۔ چلتی پھرتی حوریں سامنے آتی رہتیں اور وہ تلملاتا رہتا۔ بالاخر گلزار بائی، اس کی بہن سردار بائی، وزیر بائی اور متوسط طبقے کی عورتوں سے علیک سلیک ہونے لگی۔ انہیں وہ اپنے لیے موزوں سمجھتا۔ کبھی کبھی ان کے کوٹھوں پر چلا جاتا ہے۔ وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال ڈال کر دیکھتیں۔۔۔ شاید کہ اتر جائے ترے دل میں میری بات! کیا عجب کہ اس کا دل پگھل جائے اور وہ دن بھر کی کمائی ان کے قدموں میں ڈال دے لیکن وہ تو بس تھالی میں سے پان اٹھا کر منہ میں رکھتا اور چہر ہ شناسی اس میں دھر دیتا، باتیں کرتا اور کپڑے جھاڑ کر لوٹ آتا۔ جہاں تک گانے کا تعلق تھا وہ فیکٹری کے تھڑے پر بیٹھے بیٹھے صبح کو، تلیم کے وقت اور نماز عشاء کے بعد سن لیتا۔ رات کو مجرا خانے سرتال کے سرچشمے بن جاتے۔ درمیان میں حقے کی موسیقی اس کا جی بہلاتی۔
گلزار بائی جسے اپنی لبریز جوانی، نیلگوں اور جنسی دلکشی پر ناز تھا اسے گزند پہنچاتی رہتی۔ کبھی درزی، کبھی لانڈری والے، کبھی پان فروش اور کبھی خوانچہ فروش کو سودے کے پیسے وصول کرنے کے لیے بھیج دیتی۔ اللہ رکھا حیلے بہانے تو کرتا لیکن ان کے بلند بانگ تقاضوں اور غل غپاڑے سے بچنے کے لیے دام دینے ہی پڑتے۔ آخر عزت دار اور معزز بندہ تھا۔ وہ بازار میں ٹٹ پونجیا کہلانا نہ چاہتا۔ ہیرا لانڈری والا اس کے پاس فیکٹری پر نہ جاتا بلکہ جب وہ پانی کی وصولی کر کے نو گزے سے پلٹنے لگتا تو وہ سامنے آ جاتا۔۔۔ اس کے حیلوں بہانوں کی کاٹ یوں کرتا ’’کیا کہے گی گلزار بائی کہ سیٹھ کے پاس دھلائی کے دو روپے بھی نہیں‘‘۔
’’نہیں ہوتے کسی وقت پیسے‘‘۔
’’اب تو وصولی کی ہے، اب تو پیسے دے!‘‘
’’خاک وصولی کی ہے‘‘۔
دام لینے کے لیے ہیرا لانڈری والا کبھی اونچی آواز سے نہ بولتا۔ وہ جانتا تھا کہ دلیل میں تلوار کی کاٹ ہے۔ اللہ رکھا کو اپنی عزت کا پاس ہے۔ لیت و لعل کرےگا تواس کی عزت کے پرخچے اڑ جائیں گے سرعام۔ وہ جیب میں ہاتھ ڈالتا اور روپیہ ڈیڑھ نکال کر اس کے حوالے کرتا۔
مکھی چوس ہوتے ہوئے بھی اسے مکھی چوس کا طعنہ گوارا نہ تھا۔ دس روپے کماتا، ایک خرچ کرتا، باقی بچاتا۔ بچت میں سے کبھی کبھی کٹوتی کر لیتا اور اس سے بازار کی تتلیوں کو نوازتا۔ اس کی پہلی کوشش تو یہ ہوتی کہ لیمن کی ایک بوتل ہی سے پروانہ راہداری مل جائے لیکن ایسی احمق کوئی نہ تھی جو ایک بوتل پر ریجھ جائے۔ وہ تو ایک آدھ میٹھے بول سے بوتل ڈکار جاتیں اور اتنا کہہ کر چل دیتیں: ’’کدی ساڈے ول وی آئیں سجنا!‘‘
وزیر بائی خاص وضع کی عورت تھی۔ دو وڈیروں کے درمیان رہتی تھی۔ ایک جانب عنایت بائی ڈھیرو والی کا ڈیرہ تھا، دوسری جانب خورشید بائی حجرو والی کی حویلی تھی۔ دیوار کے برابر مدرسہ نعمانیہ تھا۔ دو چار قدم پر مسجد تھی۔ روا داری کے سیمنٹ سے ان کی جڑیں ایک دوسرے سے جڑی تھیں، مضبوط و مستحکم تھیں۔ ایک کو دوسرے سے سروکار نہ تھا۔ کفر اور اسلام میں خوب نبھ رہی تھی۔
بائی پنجابی اور اردو دونوں زبانیں روانی سے بولتی۔ پنجابی میں ذرا زیادہ روانی تھی۔ اردو میں شائستگی قائم رکھتی، بڑے تکلف اور وقار سے لفظوں کی مار دیتی۔ گلے پر چھری پھیرتی تو ہنس ہنس کر پنجابی میں گفتگو کرتی۔ اردو اور پنجابی میں جو لسانی فرق ہے اسے وہ بخوبی سمجھتی۔ جانتی تھی کہ اردو میں شائستگی ہے تو پنجابی میں بےساختگی ہے۔ بڑی سلجھی ہوئی عورت تھی۔۔۔ حاضر جواب، پرکشش اور پرگو۔ صاف ستھرے او ر مہذب گاہک کو پسند کرتی لیکن کاروبار میں برے بھلے، لیچڑ کیچڑ سبھی سے واسطہ پڑتا۔
اللہ رکھا کو وزیر بائی اچھی لگتی۔ اس کی اداؤں سے واقف ہو چکا تھا لیکن اللہ رکھا کے پاس پیسہ تھا، دل نہ تھا۔ دریا دلی کہاں سے آتی؟ ادا فروشی کی قیمت نہ ملنے پر وزیر بائی کو وہ کیسے اچھا لگتا؟
اللہ رکھا آتا جاتا رہتا، وہ مسکرا کر خیر مقدم کرتی رہتی، لیکن جب پانچ سات بار آنے کے بعد اس نے پانچ سات روپے بھی خرچ نہ کئے اور اردو نواز وزیر بائی کی کاروباری شائستگی رنگ نہ لائی تو ٹھیٹ پنجابی پر اترآئی۔ اس نے پوچھا ’’کیہ کریں گا ایسی کمائی نال؟ کرسی تے بیٹھا بیٹھا سک جانا ایں۔ توں تے پاساوی نئیں موڑدا‘‘۔
’’کاروبار تے فیرانج ہی ہوندا ہے‘‘۔
’’میرا کاروبار انج نہیں ہوندا۔ دل کھول، کھسیہ کھول!‘‘
’’میں کیہڑا کچھ کرنا ہوندا ہے‘‘۔
’’اب تو وزیر بائی جلال میں آئی اور بولی ’’کالے منہ والے نے کیہ منہ کالا کرنا؟‘‘
اللہ رکھا نے بظاہر برا نہ مانا اور ہنس کر چلا گیا مجرا خانے کا ماحول صاف ہو گیا۔
بڑے استاد جی نے کہا ’’بی بی! ایسی سختی نہ کیا کریں! کون جانے کب پتھر موم ہوتا ہے؟‘‘
’’یہ ساری عمر پتھر رہےگا‘‘۔
’’پھر بھی منہ توڑ جواب دینا ٹھیک نہیں‘‘۔
’’یہ تو نرمی سرپیڑ ہے۔ پہلے ہی مندا ہے۔ اس مفت برکاجی کیسے بہلاؤں؟‘‘
’’مجبوری ہے بی بی‘‘۔
’’استاد جی! اسے تو اتنی تمیز نہیں کہ منہ میں پان رکھ کر رنڈی کے ڈیرے پر نہیں آنا چاہیے۔ وہ تو میرا پان بھی نہیں کھاتا کہ کہیں ایک روپیہ نہ دینا پڑے‘‘۔
’’گندہ بندہ ہے۔ کیا کریں؟ بازار میں بیٹھے ہیں۔ ڈیرہ بھی ہے کام سے طعام ہے‘‘۔
’’نہ استاد جی! اس پھوکے بندے سے ہمیں کام نہیں‘‘۔
وزیر خود ہی ڈیرہ چلاتی تھی۔ خود ہی رنڈی تھی، خود ہی نائیکہ استاد جی صلاح کار تھے۔
وزیر بائی نے بے اعتنائی برتی۔۔۔ کاروباری حربے کے طور پر نہیں اللہ رکھا اس کے نزدیک کنڈم مال تھا۔ گو اس کے لیے وہ پھوکا تھا لیکن اپنے لیے وہ بڑا ٹھوس تھا۔ اللہ رکھا کو سیٹھ بننا تھا اور کوٹھوں پر جانے والے رئیس کنگال بن جاتے ہیں۔ یہ قصے روز دیکھنے میں آتے۔ اہل دل کی جنت میں یہی کچھ ہوتا۔ وہ اگر منہ کاذائقہ بدلنے کے لیے وزیر بائی کے کوٹھے کا رخ کرتے تو وہ سمجھتا کہ اس کا اپنی پڑوس پر حق شفعہ ہے۔ سیٹھ بننے والا ایسی ہی سوچ رکھتا ہے۔
چنددن گزر گئے۔ اللہ رکھا کے دل پربائی نے جو لفظی چوٹ لگائی تھی، اس کا درد جاتا رہا۔
وزیر بائی مجرا خانے میں بیٹھی تھی۔ گاہک کا انتظار تھا۔ یہ انتظار بڑا کرب ناک ہوتا۔ موت اور گاہک کا وقت مقرر نہیں۔ گاہک آئے نہ آئے، آدھی رات تک بیٹھی رہتی، گاہک کی آس لگائے۔ سیڑھیوں کے اوپر آنے کی آواز آئی۔ پینترا بدل کر سیدھی ہوئی تا کہ آنے والے کا خیر مقدم کرے۔ اللہ رکھا نمودار ہوا سامنے آکر بیٹھ گیا۔ کلف دار استری شدہ سفید براق پوشاک زیب تن تھی۔ سیاہ سفید کا مالک نظر آ رہا تھا۔ سفید کپڑوں کی وجہ سے چہرے کی سیاہ رنگت اور بھی نمایاں ہو گئی۔ وزیر بائی نے سگرٹ کا دھواں منہ پر مارا جھلسے ہوئے چہرے کو دیکھا اور پھر کہا ’’کپڑے تے بڑے چٹے دھوتے نیں، منہ وہی ڈرائی کلین کرا لینا سی‘‘۔
’’کپڑے میں سوائے نیں تے منہ اللہ نے بنایا اے‘‘۔
’’تیرے نال میچ کرن والیاں پرلے بزار وچ ہیگیاں نیں‘‘۔
اللہ رکھا اٹھ کر چلا گیا۔
وزیر بائی کی زبان کی کاٹ جوں کی توں رہی۔ طنز و مزاح کا یہ شہکار اپنی فطرت سے انحراف نہ کرتا۔ بری طرح ڈسا گیا تھا، اس نے وزیر بائی کو اپنی عملداری سے خارج کر دیا۔ دل تو پہلے ہی تابع تھا اب او ربھی تابع ہو گیا۔ ویسے اس نے دل کو خاصا ناکارہ بنا رکھا، اب وزیر بائی کے حوالے سے رہی سہی کسر بھی نکال دی۔
بڑا نام تھا امپیریل سوڈا واٹر فیکٹری کا علاقے میں۔ایسا گیا گزرا تو نہ تھا اللہ رکھا کہ کوئی اس کی طرف توجہ ہی نہ دے۔ دھیرے دھیرے بشرط استواری منزل بہ منزل مارتا چلا گیا۔ میل جول کا دائرہ متوسط طبقے میں بڑھتا گیا۔ وہ خود متوسط طبقے میں سے تھا۔ یہ طبقہ اس کے اندر تک دھنس گیا تھا اور اس کا نظریہ یہ تھا کہ بےشک لکھ پتی ہو جاؤ، رہو متوسط طبقے میں، اس کی مخلوق کے انداز سے زندگی سوکھی گزرےگی۔
چوکھا پیسہ بنا لیا اس نے لیکن کرسی نہ بدلی، لمبی میز نہ بدلی۔ وہ آپ بھی نہ بدلا۔ اس سمیت سب کچھ کباڑئیے کا مال لگتا۔ پہلے بھی آٹھویں دن کپڑے بدلتا تھا، اب بھی آٹھویں دن بدلتا تھا۔ پہلے بھی حافظ کے ہوٹل دونی کا کھانا کھاتا تھا، اب بھی کھاتا تھا۔ لاہوری کے تنور پر کبھی نہ گیا جہاں دو پیسے میں پیٹ بھرتا تھا۔۔۔ دو پیسے کی یہ ڈبل دو روٹیاں اور دال کا پیالہ مفت۔
وہ کسی کو دیکھنے نہ جاتا۔ آپ ہی دن سوئی عورتیں سج دھج سے نکلتیں اور اس کے سامنے آ جاتیں۔ اسے تو آنکھوں کا زاویہ بھی بدلنا نہ پڑتا۔ وہ ایک ہی نظریہ، ایک ہی زاویہ نظر رکھتا۔ تھڑے پر بیٹھا بیٹھا پوری ہیرا منڈی کا نظارہ کر لیتا۔ رہی سہی کسر اس وقت نکل جاتی جب وہ میلی کچیلی کاپی لے کر وصولی کے لیے دکانوں پر جاتا۔ نجو بائی کو بھی اس نے چلتے پھرتے وقت دیکھا۔ بڑی منفرد عورت تھی۔ نازک اندام تھی، ترشے ہوئے اعضا تھے، جنسی کشش غضب کی تھی۔ جی چاہتا کہ ہنستی مسکراتی ہیلن آف ٹرائے سامنے کھڑی رہے اور اسے دیکھتے ہی رہو۔ تماشائیوں کی ترستی ہوئی نظریں چیرتی گزر جاتی۔ اللہ رکھا نے اسے حیرت سے دیکھا تو حیرت کے دریا میں ڈوب گیا۔ ایسے میں انا الحق کا نعرہ داغا جاتا ہے۔ لیکن وہ تو بالکل کورا تھا اس معاملے میں۔ اس کے پاس انا تھی نہ حق تھا۔ ان کے بغیر ہی زندگی گزارتا۔
وہ کیا جانے حیرت اور اناالحق کا رشتہ؟
پیار والے اس کے پاس آتے، وہ پیار والوں کے پاس جاتا لیکن پیار اور پیسے کے رشتے سے بےتعلق ہوکر۔ اس میں اس کی سلامتی ہے۔ ایک دن کی کمائی کے عوض مہینے بھر کا پیار چاہتا۔ گلزار بائی ہی اسے نمٹتی۔ ایک دن کی کمائی ہتھیائی اور ساتویں آٹھویں دن چیخنے چلانے لگتی بلکہ وہ کیا چیختی چلاتی، پان سگریٹ، دودھ دہی والے اور دوسرے تیسرے قرض خواہ چیختے چلاتے، جس سے اللہ رکھا کے سر میں درد ہو جاتا اور اس کا امیج خطرے میں پڑ جاتا تو وہ ان کے مطالبے اونے پونے پورے کرکے پیچھا چھڑاتا۔
پیار والے پیارکی دکانیں سجاتے۔۔۔ پیارکے گاہک آتے۔۔۔ اور بقدر ظرف یا زر پیارلے لیتے۔۔۔ اللہ رکھا کبھی مستفید ہوتا لیکن سنبھل سنبھل کر۔
ہیرا منڈی میں آکر اللہ رکھا خاصی حد تک کھلی کتاب ہو گیا لیکن حساب کتاب کی میلی کتاب کی میلی کچیلی کاپی ہمیشہ بندہی رہی۔ لاہور کے بارہ دروازوں اور تیرہویں موہری میں سے ہیرا منڈی سمیت دو دروازے اور موہری اس کے تسلط میں تھی اور پھر ایک ہیرا منڈی اس کی باقی سلطنت پر بھاری تھی۔ یہاں کی تو مٹی بھی سونے کے بھاؤ بکتی۔ سوہا بازار کے جوہری یہاں آکر اپنا سارا ذاتی صفاتی جوہر بیچ ڈالتے، عورتوں کو سونے چاندی سے لاد دیتے اور انجام کار سوہا بازار کا رخ کرنے کی بجائے یہاں کے چانڈو خانوں میں بھٹکتے پھرتے۔ یہاں تو وہی آتا جو جان بوجھ کر جھوٹی اداؤں، وفاؤں اور جھوٹے پیار کا طلبگار ہوتا اور کھوٹی جنسوں کی ہر قیمت پر سستا سمجھتا۔ اللہ رکھا میں دھوکا کھانے کا یہ وصف ہی نہ تھا۔ اس کے اندر ایسی تجوری تھی جب وہ موج میں آتا اور کوئی طوفانی موج اسے آ لیتی تو وہ ہوا نکالنے کے لیے تجوری کا ذرا کی ذرا کے لیے پٹ کھولتا۔
اس نے جو نپے تلے انداز سے پر پرزے نکالے تو عبدالرحمان فاروقی پہلے سے زیادہ گھبرایا۔ قاضی کو شہر کا غم کھا رہا تھا، فاروقی کو امپیریل سوڈا واٹر فیکٹری کا۔ جوں جوں اللہ رکھا کی فتوحات کا سلسلہ بڑھا، عورتوں کی آمدو رفت بڑھی۔ اب وہ ان سے بلا تکلف کلام کرتا۔ فاروقی نیرنگ خیال اور ساقی پڑھ پڑھ کر ان پڑھ نہ رہا تھا۔ اللہ رکھا کے مقابل وہ سکالر بن گیا تھا۔ ہر پرچہ الف سے یے تک پڑھتا۔ ل احمد کی کہانیوں کا عاشق تھا۔ فضل دین کباڑئیے سے گاڑھی چھنتی تھی اس کی۔ کہانیوں اور ڈراموں کے مطالعے کے بعد کامیڈی اور ٹریجڈی کے انجام سے اچھی طرح آگاہ ہو گیا۔ بندوں اور قوموں کے زوال و کمال اور طاؤس و رباب کے کارناموں کا پتا چل گیا اسے۔ گو اللہ رکھا پرائمری فیل تھا تاہم اس کا تجربہ بہت زیادہ تھا اور وہ تجربے کی دانش سے مالا مال تھا۔ بہرحال فاروقی کو اپنے علم کی روشنی میں اللہ رکھا کی صورت حال تشویشناک دکھائی دی۔ اس نے بھانپ لیا کہ اللہ رکھا طوفانی لہروں کی جانب پیش قدمی کر رہا ہے۔ آخر اس نے ایک دن کہہ ہی دیا ’’اللہ رکھا بچ! یہ عورتیں نہیں، وش کنیائیں ہیں‘‘۔
’’وہ کیا ہوتی ہیں؟‘‘
’’تونے نہ تو ان کی کہانیاں پڑھی ہیں، نہ دیکھ کر انہیں پہچانتاہے۔ وش کنیائیں وہ ہوتی ہیں جنہیں بچپن سے زہر پلایا جاتا ہے۔ ان کے ہونٹوں اور زبان میں زہر بھرا ہوتا ہے۔ جسے ڈس لیں وہ پانی نہیں مانگتا۔ اللہ رکھا تو نے جانتے بوجھتے ہوئے بھی اپنا تجربہ کھوٹا کیا ہے‘‘۔
تردید محال تھی۔ بات سولہ آنے سچ تھی۔ رنڈی پیدا ہوتے ہی کوٹھے کے زہریلے ماحول میں پلتی ہے۔ اس کی توگھٹی میں زہر ہوتا ہے۔ اللہ رکھا کے ہونٹ کانپے اور ان پر مونالزا سے قدرے زیادہ مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ حقہ پینے اور توانائی اکٹھی کرنے لگا۔ آخر طبیعت رواں ہوئی تو بولا ’’فروقی! تو بہت بھولا بلکہ بھولاہے۔ بلیا! کاروباری بندہ ہوں۔ یہ عورتیں کچھ بھی ہوں، مجھے چار نہیں سکتیں۔ ان کو مکو ٹھپ دوں گا‘‘۔
’’اللہ رکھا! بڑا بول نہ بول! مارا جائےگا۔ یہ ناگنیں ہیں، ناگنیں۔ لوگ انہیں دودھ پلاتے ہیں پوجتے ہیں پر یہ انہیں، اپنے پجاریوں کو ڈسنے سے نہیں رہتیں۔ بلاقی شاہ کے پاس لاکھوں کی جائیدادیں رہن پڑی ہیں ان کے ڈسے ہوئے لوگوں کی۔ وہ خدائی خوار پھر رہے ہیں اور یہ دندناتی، خرمستیاں کرتی پھرتی ہیں‘‘۔
اللہ رکھا پہلے کی طرح مسکرایا اور زیاد ہ مجذوبیت سے حقہ پینے لگا۔ فاروقی نے تابڑتوڑ حملہ کیا ’’بڑے بڑے خرانٹ، نامی گرامی نوسرباز، مانے ہوئے چارسو بیس ان کے سامنے ہیچ ہیں۔ اگر تکڑی میں ایک طرف تجھے اور تیری فیکٹری کو اور دوسری طرف ہیرا منڈی کی عورت کورکھیں تو تیرا اور فیکٹری کا نام و نشان نہ رہےگا‘‘۔
اللہ رکھا اٹھا۔ مقفل ڈسک کھول کر اور حساب کتاب کی میلی کچیلی کاپی نکال کر بولا ’’فروقی! جدتیکر یہ کاپی سلامت ہے، کوئی خطرہ نہیں مجھے‘‘۔
خطرہ ٹل گیا جو فاروقی کی شکل میں رونما ہوا تھا۔ کاپی سنبھال کر وہ وصولی کے لیے چلا گیا۔
بھیا جی نے الگ دنیا بسا رکھی تھی۔ مشین بجلی سے چلتی۔ کھٹاکھٹ بوتلیں بھرتیں۔ کبھی کبھی بوتل ٹوٹتی تو دھماکہ سا ہوتا۔ شیشے کے ٹکڑے ادھر ادھر بکھر جاتے۔ بھیاجی کے کان پر جوں نہ رینگتی۔ وہ اس شور میں پوربی گیت گاتا۔ اس کی تنخواہ بڑھ گئی تھی۔ بےفکری سے زندگی گزر رہی تھی اس کی۔
عبدالرحمان فاروقی نے کہا ’’بھیا جی! تو نے کیوں چونچ بند کرلی ہے؟ میاں کیا کر رہا ہے، تم کچھ کہتے ہی نہیں‘‘۔
’’تنکھاہ ملتی ہے اپن کو جس کام کی وہ کرت ہیں۔ جس کی تنکھاہ نہیں ملتی وہ ہم ناہیں کرت ہیں۔ میاں! بڑا سیانا ہے۔ چمڑی چلی جائے، دمڑی نہ جائے‘‘۔
فاروقی چپ ہو گیا اور حقہ پینے لگا۔ چند دن امن سے گزر گئے۔ پھر ایک دن نیتی سنیاری ادھر سے گزری۔ بڑی دھانسو عورت تھی۔ جوالا مکھی کا لپکتا ہوا شعلہ تھی۔ بدن ریشم اور گلاب تھا۔ ہاتھ لگائے بندہ تو پھسل کر گر پڑے اور پھر اٹھ نہ سکے۔۔۔ بلند قامت، سرخی پوڈر سے بےنیاز، سجری سجیلی، شاداب معشوقہ۔۔۔ دانتوں کی سفید چمکدار لڑی میں سونے کا ایک دانت۔ اللہ رکھا نے اسے دیکھا تو بےاختیار کہا۔ ’’سبحان اللہ!‘‘
فاروقی نے فوراً فیصلہ دیا: ’’بھیا جی! تیرا میاں گیا۔ کون اس عورت کی تاب جھیل سکتا ہے۔ لاکھوں میں ایک ہے۔ پوری ہیرا منڈی میں اس جیسی عورت نہیں۔ پور پور جوانی اور حسن سے بھرپور ہے‘‘۔
’’اپن کی بلاسے۔ میاں جانے اور یہ گستیاں جانیں۔ اپن کو بوتلیں بھرنے سے کام‘‘۔
فاروقی جو رسالہ پڑھتے پڑھتے اللہ رکھا کی نظر بازی پر نکتہ چین ہوا تھا، پھر رسالہ پڑھنے لگا۔
اللہ رکھا نے نیتی سنیاری کو دیکھا، نیتی سنیاری نے فاروقی کو دیکھا۔ نیتی سنیاری سیل سحر تھی جو گزر گئی۔ میک اپ کے بغیر دشمن ایمان و آگہی تھی۔ سرمے، کاجل اور عطر کا پھلیل کا شوق ضرور رکھتی لیکن سرخی پوڈر کے قریب نہ پھٹکتی۔ جسے قدرت نے ایسے دلاویز نین نقش دئیے ہوں اسے سرخی پوڈر سے کیا سروکار۔
اللہ رکھا نئی اقلیم حسن و رعنائی میں آیا تو اس نے ٹبی سے منہ موڑ لیا جہاں ٹکیائیاں ڈربوں میں بیٹھتیں اور چھوٹی چھوٹی کارگاہوں میں رہ کر روزی کماتیں، اپنا اور اپنے دلوں کا پیٹ بھرتیں، جلد جلد اپنا آپ گنواتیں، چار دن گلی میں شوخی اور شرارتیں بکھیرتیں اور پھر ان کی چاندنی اندھیرے کی لپیٹ میں آ جاتی۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا، لپائی پتائی بڑھنے لگی۔ بڑے بازار کی بات ہی اور تھی۔ چاہتیں تو وقت کو قابو میں رکھتیں۔ کمال و زوال کاعمل بل مپت لے میں ہوتا۔ سہے سہے دت گل کھلاتا۔ کبھی کبھی اسے گل کھلانے کا موقع ہی نہ ملتا۔ نیتی سنیاری ایسی عورتیں وقت کے دھارے کے اوپر سے گزرتیں۔
اللہ رکھا کو ایک دن وقت کی اس بےقابو شہزادی کا قرب میسر ہوا۔ اس دن وہ ترشی بانہوں والی مہین قمیض پہن کر آئی تو جلوہ چھن چھن کر نگاہوں سے ٹکرانے لگا۔ اس نے سرسری نظر سے اللہ رکھا کو دیکھا اور پھر فاروقی سے رجوع کرتے ہوئے کہا: ’’میاں! تیرا یار ہر وقت رسالے پڑھتا ہے، بڑا پڑھاکو لگتا ہے‘‘۔
اپنا نام سن کر فاروقی چونکا۔ لحظہ بھر کے لیے اس نے نیتی سنیاری کو دیکھا اور پھر رسالہ پڑھنے لگ گیا۔
’’باؤ جی! ہم بھی اس دنیا میں ہیں۔ یہ خط پڑھ کر سناؤ کیا لکھا ہے دل جانی نے۔ بمبئی گیا ہے کمائی کرنے‘‘۔
فاروقی نے نظروں سے نظریں ملائے بغیر سنیاری سے خط لے لیا جس میں نیتی سنیاری کے حسن و جمال کا ذکر تھا۔ اس سوہنی من موہنی کی تو گلو کو کہیں نقل بھی نہیں ملی تھی، غریب الدیار کو۔ پھلجڑیاں ہی پھلجڑیاں تھیں۔آدھا خط فلمی گانوں کے چھانٹے ہوئے شعروں سے بھرا تھا۔ فراق کی جلن اور کرب کا ذکر تھا۔ آخر میں لکھا تھا: ’’جی کرتا ہے اڑ کر آجاؤں لیکن کیسے آ جاؤں؟ سودے کر رکھے ہیں۔ ادھرتیری محبت کا سودا کر رکھا ہے۔ پندرہ بیس دن نبیڑا نبیڑی میں لگ جائیں گے۔ تین سو روپے کا منی آرڈر کر رہا ہوں‘‘۔
اصل بات منی آرڈر کی تھی۔ اسی کے حوالے سے وہ گلو سے پیار کرتی تھی۔ منی آرڈر کا مژدہ سننے کے بعد اس نے خط لے کر رکھ لیا۔ اللہ رکھا سے کہا: ’’میاں! تین دن تولگ ہی جائیں گے منی آڈر کے آتے آتے۔ تب تک کیا کروں گی؟ سیٹھ جی تیس روپے دو! منی آڈر آتے ہی رقم اتار دوں گی‘‘۔
’’شہزادی! دھیلے کی وٹک نہیں ہوئی‘‘۔
’’میاں! صندوقڑی کھول! بڑا مال ہے اس میں‘‘۔
’’بڑا مندا ہے آج کل‘‘۔
’’کیوں، آگ لگی ہے کہیں کہ کال پڑا ہے۔ صندوقڑی میں سے نکال مال! میں ٹلوں گی نہیں‘‘۔
’’بی بی! صندوقڑی میں کچھ ہوتا تو ضرور دیتا‘‘۔
’’مجھے کچھ پتان ہیں، تیس روپے چاہیں مجھے‘‘۔
’’اکٹھے تیس‘‘۔
’’چل پنجی نکال‘‘۔
’’یہ دیکھ! ہاتھ جوڑتا ہوں۔ شام کو وصولی کروں گا تو دے دوں گا‘‘۔
’’میاں، میں ملوکے میں ہاتھ ڈال کر نکال لوں گی‘‘۔
اس سرد جنگ نے طول کھینچا تو اللہ رکھا نے بیس روپے دے کر جان چھڑائی‘‘۔
نیتی سنیارن نے بیس روپے چہرہ شاہی لیے اور پلو میں باندھ لیے اور کہا ’’تیس کی جگہ بیس د ے کر اللہ رکھا تو نے دس کمائے ہیں‘‘۔
عبدالرحمان فاروقی نے سب کچھ سنا لیکن دیکھا کچھ نہیں۔ نیتی سنیاری کو اس کا یہ طرز عمل بہت برا لگا۔ اسے دیکھنے کو توایک زمانہ ترستا ہے۔ اس کی یہ مجال کہ نیتی سنیاری کو گھاس نہ ڈالے۔ بات کرنا تو دور کی بات ہے، دیکھنا بھی گوارا نہیں۔ فاروقی پر جھپٹی، چمٹ کر اس کی چمی لی اور پھر اس زور سے کاٹا کہ وہ بلبلا اٹھا۔ پھر بولی ’’نیتی سنیاری ہوں میں باؤ! بڑے بندے تابیدار ہیں میرے۔ کاف کی پری مجھے دیکھنے آتی ہے۔ سجنا! میرے چوبارے پر آنا‘‘۔
پھرتی سے تھڑے سے اتری اور غائب ہو گئی۔
اللہ رکھا خوب ہنسا۔ بولا ’’فروقی! دیکھ لیا اس سے آنکھ نہ ملانے کا نتیجہ؟ تجھے پلید کر گئی ہے۔ جا کرمنہ دھو بلکہ سارا بدن دھو! یوں چمٹتی ہے بندوں سے‘‘۔
فاروقی پرنے سے گال پونچھنے لگا جس میں وہ پریوں کی پری دانت گاڑ گئی تھی۔ بولا ’’اللہ رکھا! چھوڑ یہ جگہ! آنے والی تھاں پر چل! بچ جائےگی تیری جان۔ یہ عورتیں سنسار کی طرح منہ کھولے رہتی ہیں ہر وقت‘‘۔
’’فروقی! پچاس روپے کی عورت بیس روپے میں مہنگی نہیں۔ ٹوٹ میں ہو تو سودا اسی طرح ہوتا ہے‘‘۔
’’لعنت بھیج اس سودے پر!‘‘
بیس روپے دے کر اللہ رکھا کو نیتی سنیاری کے کوٹھے کی چابی مل گئی۔ اسے اس نے اپنی فتح جانا۔
اب وہ خود کو بڑا آدمی سمجھنے لگا۔ کاروبار بڑھا پھیلا، ہیرا منڈی میں اس کا رسوخ ہو گیا۔ جی میں آئی کہ رئیسی جگہ تانگہ بنا کر لوگوں پراپنی حیثیت کا سکہ جمائے۔ عبدالرحمان فاروقی سے ذکر کیا تو اس نے کہا ’’اللہ رکھا! جوکچھ تو ہے، جیسا قدرت نے تجھے بنایا ہے ویسا بنا رہ! سکھی رہےگا‘‘۔
’’فروقی! تو تو بس وہی رہےگا دینے کے تنور سے ٹکے کی دو روٹیاں اورمفت کی دال کھانے والا! اکنی میں دو وقت پیٹ بھر لیتا ہے۔ اسی لیے ہڈ حرام ہے۔ کام کرتا نہیں‘‘۔
’’اللہ رکھا! میں تیری طرح لکھ پتی ہو جاؤں تب بھی ایسا ہی رہوں گا، جیسا اب ہوں۔ بڑا مزہ ہے اس حال میں۔ کوئی غم، کوئی فکر نہیں، کوئی پیچ نہیں، کوئی گنجل نہیں‘‘۔
’’تجھے کچھ کرنا نہیں، کچھ بننا نہیں، تیرا طریقہ تیرے لیے ٹھیک ہے۔ میرے لیے نہیں۔ بے عقل! رئیسی تانگے پر بیٹھ کر سیر کرےگا تو دماغ عرش پر ہوگا‘‘۔
’’میں فرش پر ہی ٹھیک ہوں۔ دو وقت راوی پر جاتا ہوں۔ اس سے اچھی سیر کوئی نہیں‘‘۔
’’رسالے پڑھ پڑھ کر تو چوڑ ہو گیا ہے‘‘۔
’’میں رئیسی تانگے کے حق میں نہیں۔ کام بڑھ گیا ہے اور ٹھیلے سے کام نہیں چلتا۔ گھوڑا ریہڑا کیوں نہیں بنا لیتا‘‘۔
اللہ رکھا نے حقے کے دو چار کش لیے کچھ دیر سوچا اور پھر کہا ’’یار فروقی! تو نے سمجھا تو اپنی حیثیت سے ہے پر بات ٹھیک ہے۔ رئیسی تانگے سے تو نرا خرچہ ہی خرچہ ہے۔ ریہڑا ٹھیک ہے‘‘۔
رئیسی تانگے کی بات تمام ہوئی۔ سامنے سے رئیسی گھرانے کی بلند قامت، بلند نظر گوری چٹی عورت آئی جس نے تنگ موہری کی شلوار اور پوری آستینوں والی قمیض پہن رکھی تھی۔ انداز گھریلو تھا۔ خود بہ نفس نفیس آئی تھی۔ ملازم کے بس کاکام نہ تھا۔ بولی ’’اللہ رکھا! سوڈے کا ڈالا اندر بھیجنا!‘‘
’’بھیجتاہوں بی بی!‘‘
اللہ رکھا نے بھیاجی سے کہا ’’بی بی کے یہاں سوڈا دے آ!‘‘ بھیاجی نے حکم سنا لیکن سنی ان سنی کری۔اللہ رکھا نے دوبارہ اونچی آواز سے کہا ’’بھیا! دے آ سوڈا!‘‘
’’دے آئیں گے۔ جیجے کے لیے بوتلیں بھر لیں‘‘۔
’’مامے ہیر کے! پہلے ڈالا دے آ! بڑے گھر کی باشازادی ہے۔ خود چل کر آئی ہے‘‘۔
’’اپن سب جانت ہیں۔ یہ گستیاں تم پرروب گانٹھ سکتی ہیں، ہم پر ناہیں‘‘۔
’’کنجرا! اس نے سنا توحلیہ ٹیٹ کر دےگی‘‘۔
’’ہم اس کے آسک ناہیں جو حلیہ ٹیٹ کر دےگی۔ سن لے بےسک‘‘۔
آخر بھیا جی مان گیا۔ اس نے ڈالا اٹھایا اور جاتے جاتے بولا ’’دم دھیل دیا نہیں۔ مفت مال دے کر کتنی کھوسی ہوتی ہے میاں کو‘‘۔
بھیا جی بے چارہ کنویں کا مینڈک، کیا جانے رئیسوں کے ٹھاٹ۔ بی بی بڑی اونچی شے تھی۔ اس کاچل کر آنا ہی بڑی بات تھی۔ اتنے میں اللہ رکھا کا امیج بن گیا۔ سوڈے کے ڈالے کی کیا بات تھی؟ اس کا خرچہ ہی کیا تھا جو ایک ڈالے کا خسارہ پریشان کرتا اس کو۔
دو برس میں بڈھے دریا کے پل تلے سے دو سیلاب گزرے اور زور دکھا گئے۔ اللہ رکھا کی سوچ بھی بدلی۔ وہ بھی خاصی حد تک زور آور ہو گیا۔ اس پر بھی سیلاب کے وار ہوئے۔ اجلے کپڑے، میلے دل والیاں کھوٹا مال کھرے داموں بیچتی پھرتیں۔۔۔ کجلے کی دھار، نینوں کی کٹار، ہاتھوں میں گجرے، مکھڑے سجرے، کیا بہار تھی۔ تھی۔ سجی سنوری عورتیں ٹولیاں بنا بناکر وقفے وقفے سے گزرتی تھیں۔۔۔ اللہ رکھے پر قیامت بن کے نہ ٹوٹتیں۔ دل کی طرح اس کی آنکھیں بھی بجھ گئیں۔ صیفل کئے ہوئے بدنوں سے روشنی نہ پھوٹتی۔
وہ مگن تھا ایک کی بجائے دو مشینیں ہو گئیں۔ بنگالی بابو اور چھوٹے کا اضافہ ہوا۔
عبدالرحمان فاروقی کو دکھ ہوا کہ سوڈے کے ڈالے کی آمدورفت داخل معمول ہوئی۔ اس نے کہا ’’اللہ رکھا! یہ عورتیں ریاستیں ہضم کر جاتی ہیں۔ امپیریل سوڈا واٹر فیکٹری کیا چیز ہے ان کے آگے! یہ دو دھاری تلواریں کٹاریں سر قلم کر دیتی ہیں‘‘۔
اللہ رکھا خوب ہنسا۔ دو دھاری تلواریں کٹاروں والی بات اسے اچھی لگی۔ رسالے پڑھتے پڑھتے فاروقی کو اچھے اچھے جملے ازبر ہو گئے تھے۔ دو دھاری تلواروں کٹاروں کی نہ توگزر گاہ بدلی جا سکتی تھی نہ انہیں گزرنے سے روکا جا سکتا تھا۔ انہی سے توساری بہار تھی۔ جب ان کی ٹولیاں گزرتیں تو فاروقی مراقبے میں چلا جاتا اور رسالہ پڑھنے لگتا۔
اللہ رکھا کے لیے کاروبار کے ساتھ ساتھ دل بہلانے کا سامان میسر تھا۔ اڈہ بھاگوان ثابت ہوا تھا۔ تاہم وہ زیر دام لانے والی عورتوں کو زیرکرنے اور ان پرفتح پانے کا آرزومند نہ تھا۔ فاتح بننے سے اسے کیا ملتا؟ وہ فاتح بننے والوں کا حشر دیکھ چکا تھا۔ یہ ہٹیلی کٹیلی عورتیں اپنے حقوق کی خاطر مردوں کو شکست فاش دینے کے لیے آخری دم تک لڑتیں اور انہیں شکست فاش دے کر رہتیں۔ اس شکست فاش کا جیتا جاگتا نمونہ سائیں فضل شاہ تھا جو حقے کے کش لگانے آنے جانے لگا تھا۔ سائیں نے دولت عورتوں پر لٹائی، جائیداد بلاقی شاہ کے پاس رہن رکھی اور پھر چھڑانے کی نوبت نہ آئی۔ جن کے لیے اپنا ٹھاٹھ ٹھکانے لگایا وہ ٹھاٹھ سے رہنے لگیں۔
اللہ رکھا میں علاقے کا ماحول رچ بس گیا تھا۔ لیکن حسب عادت، مستی اور خرمستی اس کے مشن کا حصہ نہ تھا۔ اب تو کچھ کچھ بوسیدہ بھی ہو گیا تھا۔ دولت اور نخرے کا چوکھا خزانہ آ گیا تھا اس کے پاس۔ عورتوں کو جان پہچان گیا اور ان کی فتوحات دیکھ چکا تھا۔ بعض سینئر عورتوں سے سلام و کلام کا شرف بھی حاصل ہو گیا تھا۔ عورتوں کے نازو انداز میں مبالغہ آرائی کا نقشہ بھی دیکھ چکا تھا۔ لکھ پتی بننے کی آرزو لحظہ بہ لحظہ شدید ہوتی جاتی۔ اب وہ اپنی شکل و صورت کی خامی بھی بھول گیا کیونکہ اس شخصیت پر چہرہ شناسی کی آب وتاب چڑھ گئی تھی۔چلتے پھرتے خوبصورت اشتہار تباہی کی دعوت دیتے۔ وہ فاختاؤں کا حملہ حقے کے کش سے روک لیتا۔
ساون سبھی کے لیے سہانا ہوتا۔ ہلچل مچتی۔ عورتیں کوٹھوں سے اترتیں، مہین ململ کے کرتے پہن کر۔باغوں میں ان کے لیے جھولے پڑ جاتے۔ جھولے جھولتیں، ملہاریں گاتیں، بوندا باندی سے ململ کے مہین کرتے پنڈوں سے چمٹ جاتے اور اندھے بھی سجاکھے ہو جاتے۔ اللہ رکھا بوندا باندی سے بچنے کے لیے فیکٹری کے اندر چلا جاتا جس کے دونوں دروازوں پر کاٹھ کے کواڑوں کے باہر جالی والے کواڑ لگے تھے۔ اندر چھوٹا سا بلب مشینوں کے پاس لگا تھا۔ یہاں مشینوں کی کھٹا کھٹ تھی۔ بوتلیں بھرتی جاتیں۔ فراقیہ گیت تھے بھیاجی کے اوردونوں پر حاوی حقہ کی گڑگڑ تھی۔ موسیقی اس کے دل کی آواز تھی۔ اس میں چاندی کے سکوں کی جھنکار تھی۔ یہ جھنکار بڑی سریلی، بڑی دلکش اور سحر آفریں تھی۔ اسے تووہ ہر وقت سننا چاہتا۔ یہ اس کی جان تھی، خواب تھی، زندگی تھی۔ اسی میں رئیس اعظم کی تختی جھلملاتی دکھائی دیتی۔یہ منزل کی نشان دہی کرتی۔ کبھی کبھی اپنے ماضی پر نظر ڈالتا تو ہنس دیتا۔ اس نے اصطبل سے اس بازار تک چار قدم کو جو فاصلہ طے کیا وہ اس کے بس کاروگ نہ تھا۔ نہ دل تھا اس کے پاس، نہ جرات رندانہ تھی کہ اس بازار کا رخ کرتا۔ یہ تو بس چہر شاہی کی کشش تھی جو اسے ادھر لے آئی۔پھر بھی چار قدم اس نے چار سال میں اٹھائے۔
وقت نازک تھا۔ سائیں فضل شاہ کی آمدورفت بروقت ثابت ہوئی۔ سائیں فضل شاہ بربادی کی آخری منزل طے کر کے شاہی سے گدائی تک آ گیا تھا اور اب تکیہ صابر شاہ میں رات گزارتا تھا۔ دن بھر گدائی سفر یعنی آوارہ گردی کرتا تھا۔ اللہ رکھا عروج کی آدھی منزل سر کر چکا تھا۔ اس نے پذیرائی کی تو سائیں فضل شاہ دن میں دو چار چار بار آنے اور دیر دیر تک اس کے پاس بیٹھنے لگا۔ سائیں ہر روز کتاب زندگی کا نیا ورق الٹتا اور اللہ رکھا کی آنکھیں کھولتا:
’’بندیا! میری کہانی اولڑی نہیں ویسی ہے جیسی ہیرا منڈی کے اوانڈ گوانڈ میں رہنے والوں کی ہوتی ہے۔ ترلے لے لے کر پریمری پاس کی اور چار بندوں میں بیٹھنے کے لیق ہوا‘‘۔ حقے کے لیے کھانسی کا دورہ پڑا۔ پھر بولا ’’حیاتی ایسی گزری جیسے بنیری ہوتی ہے۔ چوکھا روپیہ گھر آتا تھا۔ شاہی خرچ تھا۔ کسی شے کی لوڑ تھوڑ نہ تھی۔ قضا آئی، باپ اللہ کو پیارا ہوا۔ جیداد ملی۔ مال ملا تو نشہ چڑھا۔ آگے تو سمجھ لے میاں اللہ رکھا! ان گشتیوں نے کیا حال کیا میرا!‘‘
’’اب خوش ہے سائیں؟‘‘
’’خوش ہی خوش ہوں، پر ایک سل اے۔ آدھی ہیرا منڈی فتح کر لی تھی۔ بڑا تجربہ ہو گیا ہے۔ پانچ دس ہزار کہیں سے مل جاتے تو باقی بھی فتح کر لیتا، پر کہاں؟ کسی نے دھیلا نہیں دیا‘‘۔
’’اپنا مال گنوا کے دوسرے کا مال کیسے ملتا گنوانے کے لیے؟‘‘
’’ نہ سہی جو نہیں ملا۔ جو کچھ ہوا ٹھیک ہے۔ پر بادشاہ! تجھے نصیحت ہے میری۔ تو گڑھ بیچوں بیچ آن پھنسا ہے۔ گشتیوں سے بچنا۔ شیطان کی چنڈی ہوتی ہیں۔ آپ کو اور فیکٹری کو بچانا ان سے‘‘۔
سائیں فضل شاہ کی کتاب زندگی ضخیم اور سچی کہانیوں سے معمور تھی۔ اس کے قصے نے اللہ رکھا کو بہت کچھ سکھایا۔ ویسے اب تک اس کے یہاں ہر صبح اور ہر شام ایک سی تھی۔ عمر ایک ڈگر پر چل رہی تھی کہ یکایک زلزلہ آیا اور وہ بھی دن کے وقت۔ ایک جھٹکے میں تارے نظر آئے لوگوں کو۔ پوری ہیرا منڈی کو اس فیکٹری سمیت جھنجھوڑ گیا۔ کمزور اور پرانے دھرانے مکان ٹوٹ پھوٹ گئے۔ پختہ مکانوں میں بھی کہیں نہ کہیں دراڑیں ضرور آئیں۔ ان میں رہنے والوں کے دل بھی زیادہ ہل گئے۔ خدا یاد آیا۔ مسجدوں کی رونق بڑھی۔ ویران مسجدیں بھی آباد ہو گئیں۔ لوگ دھڑا دھڑ توبہ توبہ کرنے اور خشوع و خضوع سے سجدہ ریز ہونے لگے۔ کردہ اور ناکردہ گناہوں کا بوجھ ٹالنے لگے۔ اللہ رکھا جیسے لوگ جنہوں نے گناہوں کی صرف آنچ چکھی تھی کان پکڑنے لگے۔ سوئے یا سلائے ہوئے ضمیر جاگ پڑے۔ البتہ چنن دین الوچہ جو رات دن مارا مارا پھرتا تھا، ایک ایک مکان کی اینٹیں گنتا رہتا تھا، بہت خوش ہوا۔ جن مکانوں پر نزلہ زیادہ گرا تھا وہ فوراً اس کی گنتی میں آ گئے اور وہ مالکوں کو فوراً مکان اونے پونے ٹھکانے لگانے اور قیمتی جانیں بچانے کامشورہ دینے لگا۔ مائی صوباں جو اپنی جواں بیٹی کے سر چھپائے جدی پشتی بوسیدہ مکان میں رہتی تھی اس کا حال برا ہوا۔ مکان کے کھنڈر ہونے میں ایک آنچ کسر رہ گئی۔ چنن دین الوچہ اس کی مدد کو پہنچا اور بولا ’’آپاں وڈھی! بھچال آیا رب کی مرضی سے۔ بندہ کیا کر سکتا ہے۔ بڑا افسوس اے۔ تیرے مکان کا تو کھوپڑ ہی ہل گیا ہے۔ اب تو بس ایک جھٹکے کی مار ہے۔ بیچ دے!‘‘
’’نہ بھرا نہ! جدی پشتی جیداد بیچنے کے لیے نہیں ہوتی‘‘۔
’’کھنڈر ہو جائےگا مکان، پھر کیا کرےگی؟‘‘
’’دیکھا جائےگا۔ اللہ بنادے گا۔ میں با پ دادا کی عزت نہیں بیچتی‘‘۔
’’جا مائی صوباں! بھیڑی ہے تیری قسمت۔ عقل کی بات سمجھتی ہی نہیں ‘‘۔
باپ دادا کی عزت بیچنے کا مشورہ دینے والا چنن دین الوچہ مایوس ہوکر چل دیا۔ زلزلے کی بدولت چنن دین الوچہ کے لیے خاصی تعداد میں مکان قابل فروخت ہو گئے تھے۔ مائی صوباں کے لیے بات عزت نفس کی تھی اور غریب کا سرمایہ اس کی عزت نفس تھا۔ پیسے والوں کو عزت نفس کی فکر نہیں ہوتی۔
صوباں نے زیباں کو آواز دی جو کوٹھے پر چڑھی زلزلے کی تباہ کاریوں کے ساتھ ساتھ ان لونڈوں کا بھی جائزہ لے رہی تھی جن سے اس کے معاشقے تو نہیں، اشارے ضرور چل رہے تھے۔ ماں کی آواز سنی تو بولی: ’’آتی ہوں ماں! بنیرے کی اینٹیں سمیٹ لوں‘‘۔
بنیرے پر ٹانگیں لٹکائے بیٹھی تھی۔ اسے سمیٹنے اور سمٹنے کا ڈھنگ کب آتا تھا؟
جب تین چار بار آوازیں پڑیں تو یوں اظہار غضب کرتی آئی جیسے بہت بڑے کام سے اسے ہٹایا گیا ہو۔ آتے ہی بولی: ’’ماں! ذرا اوپر جاکر دیکھ! کتنے مکان ادھڑے ہیں۔ ہماری منڈیر بھی ٹوٹ گئی ہے‘‘۔
’’اسی لیے تو تجھے بلایا ہے۔ منڈیر نہیں دھیے! ہم ٹوٹ گئے ہیں‘‘۔
’’اللہ کی مرضی! ہمارا تو کوئی قصور بھی نہیں۔ پھر جانے ہم پر عذاب کیوں ٹوٹا؟‘‘
’’اللہ نے کچھ نہیں کیا کملیے! ہمارے عمل ہی ایسے ہیں۔ چنن دین الوچہ آیا تھا، مکان بیچنے کو کہہ گیا ہے‘‘۔
’’تو نے مجھے اس وقت کیوں نہ بلایا۔ میں اس کی مونچھیں پکڑ کر یوں کھینچتی کہ چیخ اٹھتا۔ کیا ہوا ہے ہمارے مکان کو؟ سو روپے کسی سے مل جائیں تو اس کی مرمت ہو جائےگی اور یہ پہلے سے بھی زیادہ پختہ ہو جائےگا‘‘۔
’’کون دےگا اتنی بڑی رقم ہمیں؟‘‘
’’میں لاکر دکھاتی ہوں‘‘۔
’’بس بس بک بک نہ کر! آرام سے بیٹھ! فروقی سے بات کرتی ہوں۔ بڑا نیک اور خدا ترس بندہ ہے۔ برابرکی گلی میں ہمارے بڑوں کے زمانے سے رہ رہا ہے‘‘۔
’’ہوں، اس کا تو گھر چیل کو گھونسلہ ہے۔ آپ ہی چیل ہے اپنے گھونسے کی‘‘۔
’’دیکھ لیتی ہوں‘‘۔
دروازہ بند کروا کے عبدالرحمان فاروقی کے یہاں گئی جس کے بڑے ایک زمانے سے یہاں آباد تھے۔ فاروقی لمبی تان کے سویاپڑاتھا۔ اس کے دل میں رات دن کو کوئی تصور نہ تھا۔ دن کو سونا اور رات کو جاگنا اس کا دستور تھا۔ بچاری صوباں دیر تک دستک دیتی رہی۔ آخر آنکھیں ملتا اٹھا۔
’’آ آپا! خیر تو ہے؟‘‘
’’نہ بیٹا! خیر نہیں‘‘۔
’’آجا اندر!‘‘
اندر چلی گئی اور چارپائی پر ایک جانب بیٹھ گئی۔
’’بھراوا! ہم تواجڑ پجڑ گئے ہیں۔ تریڑ آ گئی ہے مکان میں‘‘۔
’’آپا! شکر کر اللہ کا۔ جان توبچی‘‘۔
’’شکر تو ہر دم ادا کرتے ہیں۔ پر دیکھ ناں فروقی بھائی؟ بنا مرمت رہنا ٹھیک نہیں اس گھر میں۔ سو روپے کا سربند ہو جائے تو مرمت کرا لوں‘‘۔
سوروپے کا سن کر فاروقی مراقبے میں چلا گیا۔ بڑی رقم تھی۔ وہ صوباں کی مشکل کے علاوہ اس پریشانی کے بارے میں بھی سوچنے لگا جو ہر گھر میں جوان لڑکی پیدا کرتی ہے۔ زیباں پرابلم تھی ماں کے لیے اور فاروقی اس پرابلم سے آگاہ تھا۔ اس وقت فاروقی کے نزدیک مرمت طلب مکان اور زیباں ایک مسئلے کی جڑواں کڑیاں تھیں۔ گھر ڈھے گیا تو عقب ننگی ہو جائےگی۔ زیباں یونہی چجھڑی چھانٹ رہی تو نہ جانے کیا گل کھلائے۔
’’اچھا بہن! میں حیلہ کرتا ہوں۔ بندوبست ہو گیا تو بتاتا ہوں تجھے آکے‘‘۔
صوباں گھر چلی گئی۔ فاروقی تالہ لگا کہ بلکہ صرف اڑا کے اللہ رکھا کے پاس گیا۔
’’السلام علیکم‘‘۔
’’وعلیکم اسلام ‘‘۔
’’یار اللہ رکھا! ایک مسئلہ ہے۔ سببی آن پڑا ہے۔ غور سے سننا۔ کیا خبر اس میں تیری بھلائی کا کوئی رستہ ہو‘‘۔
’’بات کر!‘‘
’’بھونچال سے صوباں کا مکان تریڑ کھا گیا۔ آپ ہی تریڑی گئی ہے۔ سو روپیہ مانگتی ہے‘‘۔
’’تیرا کیا خیال ہے؟‘‘
’’زکات نکال!‘‘
’’بس؟‘‘
’’بس‘‘۔
’’آج اگرائی کر لوں! رقم لے لینا!‘‘
’’بات اتنی نہیں۔ آگے کی بھی ہے‘‘۔
’’کیسے؟‘‘
’’ایسے کہ صوباں کی جوان لڑکی ہے زیباں۔ پری ہے پری۔ قسمیہ کہتاہوں۔ جواب نہیں اس کا کب تک کنجر خانے میں ڈانواں ڈول پھرےگا؟ حق حلال کی کر! اللہ بچہ دے دے تو تیرا وارث بنے‘‘۔
’’یار فروقی! تو کیوں نہیں کر لیتا۔ تیہ چالی میں زر دے، قورمے اور پلاؤ کی دیگیں پک جائیں گی۔ دو تین تولے کا زیور اور چار پانچ جوڑے وری کے۔ سو روپے کے اندر اندر پورا کام ہو جائےگا۔ تیرا سارا خرچہ میں کر دوں گا‘‘۔
’’نہیں نہیں، ابھی نہیں۔ شادی بیاہ بڑی ریجھ سے کرتا ہے بندہ۔ جس دن سونا بنایا پہلا کام یہی کروں گا۔ میری بات نہ کر! سونا بنےگا جب بنےگا۔ تیرا بڑا اچھا چانس، گولڈن چانس۔ پج کے سوہنی اے لڑکی‘‘۔
’’ویسے کیسی ہے؟ مطلب یہ کہ چالے کیسے ہیں اس کے؟‘‘
’’لڑکی ویسی ہے جیسی کنواری لڑکیاں ماں باپ کے گھر ہوتی ہیں۔ شادی کے بعد انہیں کنٹرول کرناخاوند کی ڈیوٹی ہوتی ہے۔ ابھی ماں کے کنٹرول میں ہے۔ سچی ہے‘‘۔
’’ذات کیاہے؟‘‘
’’تجھ سے گھٹ نہیں‘‘۔
’’لڑکی میں نے دیکھی ہے۔ چنگی ہے۔ بات چلا‘‘۔
’’بات کیا چلانی ہے۔ توکوئی معمولی بندہ نہیں۔ ٹپکے کا پھل ہے۔ ہاں کر، لڑکی تیری جھولی میں۔ تین مرلے کا مکان ہے۔ ساتھ ٹبہ ہے۔ اسے پدرا کروا۔ مکان اور ٹبہ لے کر ٹھاٹ سے حویلی کھڑی کر! رئیس بن کر رہ!‘‘
’’لڑکی والی بات پکی ہو گئی توزمین کا سودا بھی کر لیں گے‘‘۔
’’پھر ایک ساتھ دونوں سودے ہی مکاؤں؟ زمین کے ساتھ لڑکی کو بھی سمیٹ‘‘۔
اللہ رکھا نے حقے کی نڑی منہ میں رکھی اور سرہلا کر فاروقی کی پیکج ڈیل منظور کی۔
اس نے سائیں فضل شاہ سے مشورہ کیا تو اس نے کہا ’’اچھی بات ہے میاں! گھر کی مرغی دال برابر۔ ان گشتیوں سے تو لکھ وار چنگی ہے۔ یہ تونوچ نوچ کر بندے کو لہولہان کردیتی ہیں۔ گولی مار انہیں‘‘۔
اللہ رکھانے وٹک کے روپے فاروقی کو تھمائے، فاروقی نے صوباں کو گھر بلا کر دئیے اور کہا ’’آپا! دھیان سے بات سن! اللہ نے تیری سن لی ہے۔ بھونچال تیر ی قسمت بدلنے کے لیے آیا ہے‘‘۔
’’خیر ہووے، کیابات ہے؟‘‘
’’فرشتہ مل گیا ہے تیرے بھاگوں، اللہ رکھا فیکٹری والا‘‘۔
’’بلارب اس کے کاروبار میں برکت ڈالے!‘‘
’’برکت ہی برکت ہے آپا۔ میں نے اسے زیباں سے کلمے پڑھانے کو کہا ہے۔ توہاں کر تو میں اسے راضی کر لوں گا‘‘۔
’’بیٹا! زیباں سے تو بات کر لوں۔ میرا اور کون ہے جس سے صلاح لوں‘‘۔
’’آپا! اللہ رکھا کوئی معمولی بندہ نہیں۔ چلتا ہوا کاروبار ہے‘‘۔
’’ذرا کچھی عمر کا بندہ ہے‘‘۔
فاروقی نے زوردار قہقہہ مارا اور کہا ’’تو بھی پرانے خیال کی نکلی! عمر کی کیا بات کرتی ہے۔ یہ دیکھ ویلا کیسا جا رہا ہے۔ بڑا برا وقت آ گیا ہے۔ ایسا رشتہ کہاں ملےگا تجھے؟ ادھر خالی زمین پر ملبہ پڑاہے۔ ادھر لڑکی ملبہ ہو رہی ہے۔ عمر گزارےگی رشتہ ڈھونڈنے میں؟ اچھے رشتوں کا توسدا سے کال ہے۔ تیرے گھر میں مرد کوئی نہیں۔ آلے دوالے لچر رہتے ہیں۔ جھٹ پٹ فیصلہ کر!‘‘
’’ہوں‘‘۔
’’ہوں نہیں ہاں کر! بندہ ہاتھ سے نکل گیا تو ساری عمر پچھتائےگی۔ اللہ رکھا بڑا اچھا بندہ ہے۔ قدر کرنے والا ہے۔ زمین کا ملبہ اور لڑکی کاملبہ دونوں کو لے لےگا۔ چوکھا پیسہ ہے اس کے پاس۔ شرطیں بتا!‘‘
’’شرطیں کیسی بھراوا؟ زمین لڑکی کے لیے رکھ چھوڑی ہے۔ وہ لے لے، پنجاہ روپے مرلہ‘‘۔
’’پنجاہ روپے مرلہ! خدا کا خوف کر آیا! تین روپے مرلہ تو ٹھٹھی ملا حاں میں زمین لی ہے کرم دین نے۔ ویسے اس کے پاس پیسے کی کمی نہیں۔ لڑکی کے ساتھ جس بھاؤ کہےگی زمین لے لےگا۔ لڑکی، مکان اور ملبے سمیت بات کر!‘‘
’’وری دیوے اپنی حیثیت موجب۔ حق مہر سالم دے پنج سو نقد۔ ملبے کی بات کر دی ہے۔ مکان کے ست سو الگ سے دیوے‘‘۔
’’آپا! راتوں رات مالدار ہو جائےگی تو۔ سودا مہنگا ہے پر ہو جائےگا‘‘۔
’’بھراوا! تیری مہربانی۔ تیرا حق پچھانتی ہوں‘‘۔
’’میرا کوئی حق نہیں۔ بس خدا واسطے کا سودا ہے میرا‘‘۔
’’اللہ تجھے خوش رکھے‘‘۔
بات پکی ہو گئی۔ اللہ رکھا نے مکان اور ملبے سمیت لڑکی کو بھی سمیٹ لیا۔ لڑکی کھنڈر ہونے سے بچی۔ اس نے اپنی شان و شوکت دکھانے کے لیے ایک منزلہ مکان کی بجائے تین منزلہ حویلی کھڑی کر لی۔ اس کے لیے ٹہکا دکھانا ضرور ی ہو گیا تھا۔ اب وہ چاہتا تھا کہ جب حویلی سے باہر قدم رکھے تو قدم قدم پر سلام کرنے والے ہوں۔
صوباں کی قسمت جاگی۔ لہر بہر ہو گئی گھر میں۔ مرجھائی ہوئی بیوہ شاداب ہو گئی۔
اللہ رکھا کو حسین ترین مٹیار مل گئی۔ نیتی سنیاری کا نعم البدل تھی۔ وہ ہیوی ویٹ تھی، یہ لائٹ ویٹ۔ بجلی بھری تھی انگ انگ میں۔ نازو ادا کا مفہوم سمجھتی تھی۔ مسکرانے، روٹھ جانے، اعتنائی اور بے اعتنائی کے موقع و محل سے آشنا تھی۔ کسی ہوئی جوانی! اس نے سہیلیوں سے بہت کچھ سیکھا۔ ماں سے بہانہ کر کے سہیلیوں کے ساتھ دو چار بار سنیما دیکھ آئی۔ سنیما بہت بڑا زیور تعلیم تھا۔ منجھی ہوئی تھی۔ گھر کے اندر چلتی پھرتی مورنی تھی جو سودو زیاں سے بےنیاز تھی۔
عمر کے فرق نے میاں بیوی کو ایک سطح پر نہ رہنے دیا۔ یہ فرق اللہ رکھا کے مال اور اس کی روپیہ اگلنے والی فیکٹری سے دور نہ ہو سکا۔ جوڑی نے چند مہنے یوں گزارے جیسے جنت میں جھولے پڑے ہوں اور دونوں مہکتی ہوئی ہواؤں میں ہلکورے لے رہے ہوں۔ تازہ ہوا کے جھونکے ان کے بدنوں کو سہلاتے اور جی بہلاتے۔ خوابوں کی خوشبو تھی جو انہیں مست کر گئی۔ اللہ رکھا اب بدل گیا۔
اس نے فیکٹری عبدالرحمان اور بنگالی بابو کی نگرانی میں دی۔ زیباں کے پاس رہنے لگا۔ چھوٹا ہر روز آتا، فیکٹری کا حال احوال سناتا اور پھر گھر کے کام کر کے چلا جاتا۔
فیکٹری چلتی رہی لیکن گاہک تنگ کرنے لگے۔ مالک کی غیر موجودگی کے باعث وہ سمجھنے لگے کہ فیکٹری لوٹ مار کی چیز ہے۔ کبھی مال اٹھاتے، کبھی پیسے مار لیتے۔ رفتہ رفتہ اللہ رکھا کا نشہ ٹوٹنے لگا اور وہ گاہے گاہے فیکٹری میں جانے لگا۔
زیباں کا نشہ ٹوٹا۔ کھڑی جوانی کا توڑ نئی حویلی نہ تھا۔ وہ موقع بہ موقع آب وہوا کی تبدیلی کے لیے باری پر جاتی، چق اٹھاتی اور جلوے فضا میں بکھیرتی۔ آخر ماں نے تنگ آکر اسے ٹوک ہی دیا: ’’کڑئیے! ہوش کی دوا کر! پرانی لت چھوڑ! باری پر مت جایا کر! چق اٹھانا ٹھیک نہیں۔ خدا کا شکر ادا کر! چنگا خصم ملا ہے تجھے‘‘۔
’’میں کیا کرتی ہوں بے بے! اتنی بڑی تو حویلی ہے۔ باں باں کرتی ہے۔ جی گھبراتا ہے تو ذرا باہر کی خبر لے لیتی ہوں۔ بس اتنی سی بات ہے ساری‘‘۔
’’نادان نہ بن! تو بڑے آدمی کی بیوی ہے۔ اس نے تجھے شہزادی بناکے رکھا ہے‘‘۔
’’اللہ رکھا ہوا جو مالدار بندہ۔ میں شہزادی ہوں تو اس نے شہزادی بنا کے رکھا ہے‘‘۔
’’یہ پان سگرٹ والے کی دکان پر جو لونڈے کٹھے ہوتے ہیں، کیا رکھا ہے ان کے پاس؟ یہ لچے لفنگے مشٹنڈے خرمستی کرنا تو جانتے ہیں، گھر بنانا نہیں جانتے۔ مت دیکھا کر انکی طرف! اللہ کا شکر ہے۔ گھر بیٹھے بٹھائے ہزار نیامتیں ملی ہیں تجھے۔ پھر وہ تیرے ناز اٹھاتا ہے۔ تابیداری کرتا ہے‘‘۔
’’ہونہہ‘‘۔
ماں نے اچھی طرح اونچ نیچ سمجھائی لیکن اسے اونچ نیچ کی طرف دیکھنے کی دیرینہ بیماری تھی۔ باز ہی نہ آئی اپنی حرکت سے۔
’’حویلی میں رہتے ہیں ٹھاٹ سے۔ اللہ رکھا کی دولت اور عزت میں شریک ہیں۔ عزت اور شرافت کی بڑی قیمت ہے‘‘۔ ماں اسے سمجھاتی ہی رہتی لیکن جوانی کی آندھی کے سامنے لڑکی ٹھہر نہ سکی۔ اس کے اندر طوفان مچلتا رہا اور وہ چاہتی کہ اس طوفان کو نکلنے کی آزادی ملے۔ وہ ہو اور خرمستیوں کی دنیا۔ ہر لمحہ خرمستیوں میں ڈوبا ہوا ہو۔ خرمستیوں کے ساتھ جاگے، جیے اور سوئے۔ کوئی لمحہ خرمستی سے خالی نہ ہو۔
شادی نے اللہ رکھا کو بدل کے رکھ دیا۔ یہ نیا اللہ رکھا سے مختلف تھا۔ ققنس اپنی ہی خاک سے جی اٹھا۔ لیکن و ہ خرمستی کے ساتھ ساتھ فیکٹری بھی جانے لگا۔ خاصا وقت بلکہ زیادہ سے زیادہ وقت زیباں کے پاس رہ کر گزارتا اور اس کے قرب کی حرارت سے اپنے آپ کو گرماتا۔ رئیس اعظم بننے والا تھا۔ ایک آنچ کی کسر رہ گئی تھی۔ ادھر عبدالرحمان کی کیمیا گری میں بھی ایک آنچ کی کسر رہ گئی تھی۔ دونوں کٹھالی میں اپنا اپنا تجربہ کر رہے تھے۔
اونچی حویلی کی بلند قامت بی بی کو پتہ چلا کہ اللہ رکھا نے بیاہ کر لیا ہے تو بولی: ’’اڑ گیا اللہ رکھا۔اب وہ کسی کے کام کا نہیں رہا‘‘۔
اللہ رکھا کو جب محسوس ہوا کہ وہ رئیس اعظم بننے کو ہے اور پھر نئی نویلی دلہن کا ساتھ بھی تھا، وہ اب اٹھوارے میں دو مرتبہ کپڑے بدلنے لگا۔ رہی بیگم، تو بڑی ٹس تھی اس کی۔ اسے ہر طرح خوش رکھنے کی سعی کرتا۔ ہفتے میں تین بار سنیما لے جاتا، لاہور کی تاریخی عمارتوں کی سیر کرواتا، لارنس گارڈن اور شملہ پہاڑی میں ہوا خوری کے لیے جاتا۔
شالامار باغ اس کے لیے صحت افزاء ثابت ہوا اور اس نے اسے اپنے مزاج کے لائق جانا۔ یہاں کشادگی تھی، روشیں تھیں، باغوں کے قطعے تھے، برج تھے، سیڑھیاں تھیں۔ دوڑ دھوپ کی کھلی چھٹی تھی، عورتیں آزادی سے سانس لیتی تھیں۔ برقع اتار دیتیں اور دوڑ لگاتیں۔ مرد اور عورتوں کو ایک دوسرے کو دیکھنے پرکسی نوع کی پابندی نہ تھی۔ عورتیں چہچہاتیں، چلاتیں، بڑکیں مارتیں، مسکرانے ہنسنے اور قہقہے لگانے سے فضا انتہائی خوشگوار ہو جاتی۔ زیباں دوڑیں لگاتی، اللہ رکھا تیز قدم اٹھاتا اور دوڑنے سے شرماتا تھا۔ تھک جاتی تو پاؤں لٹکا کر چبوترے پر بیٹھ جاتی۔
باہر جاتی تو ون سونے کپڑے زیب تن کرتی۔ تیری میری مرضی اور دل کی پیاس کے جوڑے ضرور پہنتی لیکن اللہ رکھا کی موجودگی کے باعث نہ دل کی پیاس بجھتی، نہ کسی سے تیری میری مرضی کی بات ہوتی۔ پھر بھی پنکھڑی بن کر خوب پھرتی۔
اللہ رکھا اسے نت نئے کپڑے سلواکر دیتا۔ پلش، مخمل، تن زیب، کمخواب، مخمل اور موسم کے لحاظ سے درجنوں ملبوسات سے ٹرنک بھردیا لیکن وہ اپنی چاہتی بیوی کو قابو نہ کر سکا، البتہ بیوی نے اٹھ کر کاٹھی ڈال دی۔
صوباں نے عمر کے مسئلے کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا۔ یہ کوئی ایسی بات نہ تھی۔ سترے بہترے چودہ چودہ، پندرہ پندرہ سال کی لڑکیوں سے شادی کر لیتے۔ اللہ رکھا کے پاس دولت تھی جس کے سامنے عمر کا مسئلہ کو ئی اہمیت نہ رکھتا تھا تاہم حقیقت تو پھر حقیقت تھی اور گل کھلا رہی تھی۔ سودا عبدالرحمان فاروقی ایسے نیک دل بندے کے ذریعے ہوا۔ اس کی نیت بخیر تھی، یہ اور بات ہے کہ زیباں کی نیت بخیر نہ تھی۔
اللہ رکھا کی زبردست خواہش تھی کہ کم از کم ایک بیٹا تو مل ہی جائے جو اس کا نام برقرار رکھے اور امپیریل سوڈا واٹر فیکٹری کو کیلاش سوڈا واٹر فیکٹری اور پنجاب فیکٹری کے درجے تک پہنچائے لیکن اس کا کھرا سکہ کھوٹا ہوا جا رہا تھا۔
حویلی کے اونچے اونچے اور بڑے بڑے کمرے اس طور سکڑے کہ وہ کھل کر سانس بھی نہ لے سکتا۔ بڑے بڑے دریچوں میں سے ہوا اور دھوپ کھل کر آتی لیکن وہ اندر سے سمٹ کر رہ گیا، اس کا دم گھٹنے لگا۔ جوانی اور دولت کا ملاپ دیر تک چلتا نظر نہ آیا۔ زیباں وقت سے پہلے ہی جواب دے گئی۔ ایسا تو بازار میں کبھی نہ ہوا۔ سائیں فضل شاہ کی مثال سامنے تھی۔ جب تک وہ کھکل نہ ہوا، کسی عورت نے اسے چھوڑا نہیں بلکہ جب وہ کھکل ہوا تب بھی کوٹھیدارنیوں نے اسے سیڑھیاں چڑھنے اور مجرا خانے میں آنے سے نہ ٹوکا۔
’’عورت زندگی دیتی ہے، زندگی لیتی نہیں‘‘۔ وہ اکثر فاروقی سے کہتا، گھر کو گوشہ عافیت سمجھتا جہاں زندگی اور توانائی کا چشمہ ابلتا۔
اللہ رکھا کو اپنی اونچی بہت نیچی لگی۔ بڑی ٹہکے دار حویلی۔ اپنا امیج اسی کے ذریعے بڑھایا اس نے لیکن گھر میں کلکل ہونے لگی۔۔۔ ہر لحظہ اپنی مرضی، بات بات پر ضد، زبان درازی، اللہ رکھا جس احترام اور مقام کا طلب گار اور مستحق تھا وہ اسے نہ ملا۔ عمر میں الگ الگ، مطالبے اور حوصلے اور ہمتیں غیر یکساں، فاصلے بڑھتے گئے۔ انہیں سمیٹنا سکیڑنا اور یکجا بلکہ یکجان کرناخواب ہو گیا۔ اب وہ گھر سے دل برداشتہ ہو گیا اور عذاب سے بچنے کے لیے زیادہ وقت فیکٹری میں گزارتا۔
اس نے عبدالرحمان فاروقی سے کہا ’’یار! کس جہنم میں دھکیل دیا تو نے؟ چنگی نیکی کی ہے‘‘۔
’’اللہ رکھا! قسم کھا کے کہتاہوں، مجھے ان لوگوں کا پتا نہ تھا‘‘۔
’’یار! عورت گھر بناتی ہے، بگاڑتی نہیں، یہ بالکل پٹریل نکلی ہے‘‘۔
’’فارختی دے دے!‘‘
اللہ رکھا حقہ پینے لگا۔
عبدالرحمان فاروقی وہاں سے اٹھا اور سیدھا حویلی پہنچا۔ دروازے پر زیباں چپ اٹھا، دنداسہ مل رہی تھی۔ عبدالرحمان نے کہا ’’کڑئیے! تین منزلہ حویلی میں غسل خانہ کوئی نہیں۔ دنداسہ ملنے کو یہی جگہ رہ گئی ہے‘‘۔
’’اس جگہ میں کیا خرابی ہے؟‘‘
’’ماں! کہاں ہے؟‘‘
’’چاچا! خیر تو ہے؟‘‘
’’کوئی خیر نہیں‘‘۔
’’جا فیر اندر بیٹھی ہے ماں‘‘۔
عبدالرحمان فاروقی اندر گیا تو بڑیا کو تپ چڑھا تھا اور دوا کی شیشیاں پاس میز پر دھری تھیں۔
’’آپا! تو بیمار پڑی ہے اور خبر ہی نہ دی تو نے‘‘۔
’’بھرا! کیا خبر دوں تجھے۔ لڑکی روگ بن گئی ہے‘‘۔
’’یہ تو اچھا نہیں ہوا‘‘۔
’’قسمت دغا دے گئی ہے۔ نازنعمت سے پالا تھا اسے۔ جوان کیا کہ گھر بسائے گی۔ گھر میں رہے گی۔ یہ ہوا میں اڑنے لگی‘‘۔
’’اس پتنگ کی ٹانگیں توڑ نہیں تو۔۔۔۔‘‘
صوباں نے فاروقی کے منہ پر ہاتھ دھرا اور آبدیدہ ہوکر کہا ’’میں نے بڑوں کی عزت بھی بیچ دی۔ گھر گیا، لڑکی ہاتھ سے نکل گئی۔ میں تو ماری گئی‘‘۔
عبدالرحمان مایوس ہو کر چلا گیا۔
پہلے زلزلہ آیا تو صوباں کے گھر میں تریڑ آ گئی۔ اب زلزلہ آیا تو حویلی کی جڑیں ہلنے لگیں۔ پھندا گلے میں پڑا، کسا جارہا تھا طبلے کی طنابوں کی طرح۔ تھاپ پڑی تو چیخیں نکلیں لیکن یہ چیخیں کوئی سن نہ سکا، سن نہ سکتاتھا۔۔۔ اللہ رکھا بکھر گیا۔ گھر کی اکائی ٹوٹ پھوٹ گئی۔ دیوانہ ہو گیا۔ زیباں اس کی دولت میں بقائمی ہوش و حواس شریک رہی، اس کی زندگی میں شریک نہ ہوئی۔ عبدالرحمان فاروقی نے بنگالی بابو کے تعاون سے کاروبار سنبھال لیا لیکن اللہ رکھا کو کون سنبھالتا؟‘‘
وہ اب بھی اجلے کپڑے پہنتا لیکن اس کے سامنے اجالا نہیں تھا۔ وہ ڈول گیا، ڈگمگا رہا تھا۔ ڈولنے ڈگمگانے کا عمل جلد ہی شروع ہو گیا۔ فاروقی بالعموم غیر حاضر رہتا۔ ایسے میں آتا کہ اللہ رکھا سے ملاقات نہ ہو۔ وہ اس سے آنکھیں نہ ملا سکتا۔ ندامت میں ڈوبا رہتا۔ تابکے؟ ایک دن ٹاکرہ ہو ہی گیا فیکٹری میں آکر۔
اللہ رکھا نے کہا ’’یار تم ملتے ہی نہیں‘‘۔
’’کہاں ملوں؟ فیکٹری کا اڈہ ہی نہ رہا‘‘۔
’’میرا کوئی اڈہ نہیں رہا۔ عورت نے میرا اڈہ توڑ ڈالا۔ اس نے مجھے توڑ دیا۔ تم بھی مجھے چھوڑ گئے۔ تم بھی پیشہ چاہتے ہو، لے لو!‘‘
’’پیسہ بڑی بیکار شے ہے اللہ رکھا! مجھے اس واہیات شے کی ضرورت نہیں‘‘۔
’’تمہارے حوالے فیکٹری کی ہے۔ اس کی تو ٹھیک سے دیکھ بھال کرو!‘‘
’’میں شرمندہ ہوں اللہ رکھا! میں دھوکا کھا گیا‘‘۔
’’نہیں یار، یہ سب قسمت کی ہیرا پھیری ہے۔ میں رستہ بھول گیا۔۔۔ پیسے کا ٹہکا تھا۔ میں سمجھا کہ پیسہ سارے کاج سنوارے گا لیکن پیس فیل ہو گیا۔ میں نے پیسے پر بھروسہ کیا، دل کے جھانسے میں آ گیا۔ دل کے فیصلے کھوٹے ہوتے ہیں۔
وہ ایسا بیمار نہ تھا۔ عورت کا ڈنگ لگا تھا۔ زندگی میں پہلی بار اس کی آنکھوں میں آنسو جھلکے۔ وہ سوچ ہی نہ سکتا تھا کہ عیش و آسائش کی زندگی عورت کو اچھی نہیں لگے گی جو حور تھی، چڑیل بن گئی۔ وہ تو اس کے ہر روز تازہ بتازہ نخرے اٹھاتا۔
’’یہ تو مجھے توڑنے پھوڑنے کے لیے آئی تھی۔ کم ذات نے اولاد بھی نہ دی مجھے‘‘۔
’’اللہ رکھا! مجھے معاف کر دو!‘‘
’’کیا معاف کرنا کیا نہ کرنا، ہونی ہو کر رہتی ہے۔ بازار والیاں بھی ایسا نہیں کرتیں۔ پیسے کا لحاظ کرتی ہیں‘‘۔
اللہ رکھا ڈاکٹر کے یہاں چلا گیا۔ فاروقی دھیرے دھیرے حقہ پینے لگا۔ سوچ میں پڑا تھا۔ اس نے اس کھیل پراللہ رکھا کو لگایا تھا۔ سائیں فضل شاہ بھی آگیا۔ فاروقی نے حقے کی نڑی اس کی طرف پھیر دی۔
’’میرے یار بادشاہ کا کیا حال ہے فروقی؟‘‘
’’براحال ہے۔ آدھی صدی اس نے پائی پائی جوڑنے میں گزاری۔ شاندار حویلی کھڑی کی۔ سکھ کی زندگی گزارنے کا وقت آیا تو عورت ٹکر گئی‘‘۔
’’جانتا ہوں اللہ رکھے کو فروقی۔ اس کی جندڑی ہنیری تفان نہ تھی۔ بلمپت لے کی مسیقی تھی۔ ٹھمریوں نے اس کا کچھ نہ بگاڑا۔ عورت لے ڈوبی اسے ’’سائیں فضل شاہ نے اس بات پر خوب قہقہے لگائے اور پھر بولا ’’پیارے! بزار والی بھی عورت ہوتی ہے۔ حساب کتا ب رکھتی ہے۔ قنون پر چلتی ہے۔ زندگی گزاری اور تزربہ نہ کیا۔ مستی خرمستی نہ کی۔ موج میلہ نہ کیا۔ پیسہ بنانے میں لگا رہا‘‘۔
اللہ رکھا ڈاکٹر سے دوا لے کر آ گیا۔ چرمر ہو رہا تھا۔ سائیں فضل شاہ اس کی طرف دیکھ کر بولا ’’یار کیا ہوا ہے تجھے؟ زنانی سے مار کھا گیا گھر کی مرگی۔ بزار والی سے مار کھاتا تب بھی کوئی باتھ تھی۔ ہوش میں آ! بھلا چنگا ہے تو۔ کس شے کی لوڑ تھوڑ ہے تجھے۔ ادھی صدی جوانی ماری، بخیڑا کیا، اسے ڈوب دے گا؟ واہ بئی واہ۔ ہچھا مرد ہے تو۔ لتر مار۔ پیروں کی جتی کا کھوپڑ خراب ہو گیا ہے۔ کڈھ دے گھر سے اسے خام خاہ جان کو روگ لگایا ہے تو نے۔ ڈاکٹروں کے پاس تیرا الاج نہیں۔ تیرا الاج میں کروں گا‘‘۔
’’کر پھر سائیں لوگ!‘‘
’’کروں گا سچے سائیں کی مددسے۔ بڑے دھکے کھائے ہیں، ماریں کھائیں ہیں گشتیوں کی۔ پھر بھی جیوندے پھرتے ہیں‘‘۔
’’سس بڑی بیماری ہے‘‘۔
’’پہلے اپنا الاج کر، فیر اسے بھی ویخ لینا‘‘۔
باتوں کا سلسلہ شروع ہوا تو ختم ہونے کو نہ آتا۔ ون سونے مشورے ہوئے۔ بھانت بھانت کی ترکیبیں اور تدبیریں زیر بحث آئیں۔ ادھر صوباں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا تھی۔ موسمی بیماری تھی پر زیباں کے طور طریقے نے اسے اور بھی بیمار کر دیا۔ اس نے ایک بار پھرزیباں کو سمجھایا ’’دھیے، کملیے، ویخ۔ میں نے پورے پندرہ ورھے بڑے اوکھے کاٹے ہیں۔ اللہ بخشے تیرے ابے کو، بڑے عیش کرائے تھے اس نے۔ کدی میری بات نہیں ٹالی۔ جان چھڑکتا تھا میرے اوپر۔ پر اللہ کی مرضی۔ اس نے بلا لیا۔ میں بیوہ ہو گئی۔ خدا کسی زنانی کو بیوہ نہ بنائے‘‘۔
اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ زیباں نے سر جھکا لیا۔
’’تیری خاطر میں نے دوجا ویاہ نہیں کیا۔ میں کویجی کچیی تو نہیں تھی۔ تیر ی طرح سوہنی تھی، پر میں بیوہ رہی۔ تنگی ترشی میں حیاتی بتا دی۔ اب اللہ کے فضل سے تجھے چنگا بندہ ملا ہے۔ شہزادی بن کے رہتی ہے۔ بتی دنداں میں سے جو بات نکالتی ہے اس گھڑی پوری کر دیتا ہے۔ بتا کیا ارادہ ہے تیرا؟‘‘
’’کوئی ارادہ نہیں میرا ماں‘‘۔
صوباں نے بیٹی کو بڑے جذبے سے پیار کیا۔ ٹپ ٹپ آنسو گرے۔ بولی ’’سوہنی دھیے! پھر تو گھر میں جی کیوں نہیں لگاتی؟ قدر کیوں نہیں کرتی گھر والے کی؟ اسے سرکا سائیں کیوں نہیں سمجھتی؟ کون ہوگا ایسا مہربان جیسا وہ ہے۔ یہ گھر تیرا ہے۔ اسے آباد رکھنا تیرا کام ہے۔ میں کیا کر سکتی ہوں۔ بس دعا دے سکتی ہوں۔ میں نے تیرے لیے برا نہیں کیا۔ اچھا ساتھی ملا ہے۔ گھر کو گھر والے کو سانبو! یہ گھر جنت ہے۔ یہ چھٹا تو برباد ہو جائےگی۔ پچتاوےگی۔ آگے تیری مرضی۔ میرے دن تو پورے ہوئے‘‘۔
صوباں چپ ہو گئی۔ اپنا آخری فرض پورا کر چکی تھی۔ زیباں اس کے چہرے کو دیکھنے لگی جو پھیکا پڑ گیا تھا۔ اتنے میں فاروقی آ گیا۔ ہاتھ میں کاغذ تھا۔ بولا ’’کڑئیے یہ لخت سانبھ! طلاق دی ہے اللہ رکھا نے اور زبانی کہا ہے، جو کچھ لے جانا ہے، بے شک لے جا اور حویلی خالی کر دے!‘‘
صوباں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ سانس تیز تیز چلنے لگا۔ زیباں پانی لینے دوڑی۔ صوباں کی گھمبیر آواز میں چیخ نکلی اور دم پار ہو گیا۔ فاروقی سر جھکائے، انا للہ پڑھتے پڑھتے لوٹ گیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.