Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

صندوق

MORE BYمحمد ہمایوں

    عاجز تھکن سے چور، بدن رنجور، فاقوں سے بدحال اور پیاس سے نڈھال تھا پھر بھی سفر میں توقف کو قرین مصلحت نہ جانا اور چلتا چلا گیا۔ بارے ایک دن کی مسافت پر دور سے ایک شہر کے آثار نظر آئے تو آنکھوں میں کچھ رمق پیدا ہوئی۔ ہرج مرج کھینچتا اس کے فصیل کے پاس جا پہنچا اور امیدوں پر اوس پڑ گئی جب اس کا دروازہ مقفل پایا۔ رات اتنی بیت چکی تھی کہ آدھی ادھر اور آدھی ادھر تھی۔ مہ نیم ماہ پوری آب و تاب سے چمکتا تھا اور ستارے آسمان میں ناپید تھے۔

    کچھ منت سماجت، کچھ خوشامد میں نے فصیل پر مامور دربان نگاہ بانوں کی کی اور ان سے اپنا حال و احوال مفصل بیان کیا لیکن ان کے کان پر جوں تک نہ رینگی اور وہ آپس میں زور زور سے باتیں کرتے قہقہے لگاتے رہے۔ لاکھ ان سے کہا کہ میاں مسافر ہوں، بے خانماں، تمہارے شہر کے والی کے اوصاف حمیدہ اور اخلاق پسندیدہ سن کر منزل بہ منزل چلتا ادھر کو آیا ہوں، میرے اوپر کچھ رحم کیجو، کچھ کرم کیجو اور دروازہ واسطے میرے واکیجومگر الٹا وہ بے عقل مجھ سے ٹھٹھا کرنے لگے کہ کاہے کو رات کاسفر کرتے ہو، اب بھگتو۔

    جب کوئی چارہ نظر نہ آیا اور ہر حیلہ ناکام ہوگیا تو ناچار گھوڑے سے اتر کر دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑا ہوگیا اور انتظار کرنے لگا کہ کب رات کٹے، فصیل کے پٹ کھلیں تو اپنے واسطے بندوبست قیام و طعام کا اس شہر نا پرسان میں کروں۔

    دفعتا دیکھا کہ ایک صندوق، کالا سیاہ، کاٹھ کا بنا، بٹی رسیوں سے بندھا، جھولتا ہوا آہستہ آہستہ فصیل سے نیچے چلا آتا ہے۔ میں اس ماجرے سے کھٹکے میں آگیا، اسمائے رد سحر پڑھ، انگشت بدنداں حیران اور پریشاں، سست روی سے نیچے آتے صندوق پر نگاہ جما کر اس پر اسرار نظارے کے تحیر میں گم ہوگیا۔

    بیت

    وسعت طلسم خانۂ عالم کی کیا کہوں۔۔۔ تھک تھک گئی نگاہ تماشے نہ کم ہوئے.

    سوچا کہ یا الہی یہ کیا ماجرہ ہے، خواب دیکھتا ہوں یا اس صندوق میں واقعی کوئی طلسم پنہاں ہے؟ کیا غیب سے کوئی خزانہ لعل بدخشانی اور عقیق یمانی کادنیا کے مالک کی برکت و عنایت سے اس عا جز کو عطا ہوا یا یہ کسی مسافر کا گم شدہ مال و متاع ہے جو بیش بہا ہے اور مجھ فقیر کو اتفاق سے ملا ہے یا پھر انجانے میں خود کو کسی سحرکے کارخانے میں پھنسا بیٹھا ہوں۔

    ادھر صندق کی حقیقت پانے میں سر گرداں میرے تفکر کے تیر دائیں بائیں اور سوئے آسماں چلتے رہے اور ادھر وہ صندوق، جو کسی آہنی چرخے سے فضا میں آویزاں تھا نیچے کی طرف رواں تھا۔ انجام کار ہوتے ہوتے صندوق زمین سے آ ن لگا اور رسیاں سانپوں کی طرح تاو در تاو بل کھاتیں اس پر گر پڑیں۔ فضا میں یکدم سکوت چھا گیا۔۔۔ ہر چیز کو سانپ سونگھ گیا۔

    میں نے جی بہت کڑا کیا، ہمہ ہمت مجتمع کی، آگے بڑھا اور دھڑکتے دل، مضطرب حواس، لرزتے ہاتھوں کے ساتھ ڈرتے ڈرتے اس چوبی صندوق کے قریب گیا۔ کچھ دیر توقف کیا اور جب صندوق میں کوئی حرکت نہ دیکھی اور نہ ہی کوئی اورامر سحر کا میرے سامنے ہویدہ ہوا تو عاجز پر سے خوف کا غلبہ بتدریج معدوم ہوا۔ قائدہ ہے کہ جب خوف جاتاہے تو لالچ آدمی پر چھاجاتا ہے۔ یوں میں نے بھی گرانمایہ گنجینے کا خیال دل میں جما، تبسم بر لب اور للچاتے ہاتھوں سے اس مستطیل کوٹٹولا۔

    دیودار سے بنا یہ صندوق لمبائی میں پندرہ بالشت اور چوڑائی میں دس بالشت تھا۔ اس کو آہنی میخوں سے بند کیا گیا تھا اور یہ ہیت سے کھردرا محسوس ہوتا تھا۔ برسوں پرانے اس صندوق کی حالت زار نا گفتہ بہ تھی اور یوں گمان ہوتا تھا کہ گویا اسے بار بار کھولا اور بند کیا گیا ہو۔ کثرت استعمال سے اس پر جا بہ جا خراشیں پڑ گئیں تھیں اور اس کے کونوں پرآہنی تکون نما پتریاں تھیں جو زنگ آلود تھیں۔ میں نے صندوق کو ہلایا جلایا تو وہ جسامت میں بھاری تھا۔

    یکایک میرے کان کھڑے ہوگئے۔

    صندوق سے کسی نوجوان خاتون کے گنگنانے کی آواز سنائی دی۔ میں نے غور سے سنا تو وہ گزرتے بہار اور آتے خزاں کا گیت اس ترنم سے گا رہی تھی کہ اس آواز پر صد جان سے فدا ہوگیا۔ جی میں خیال کیا کہ مقرر اس میں کوئی مہ جبیں، مجسم فرحین، ہونٹ لعلیں، بدن سیمیں، چہرہ حسین جو زلفوں کی تاریکی میں مانند ماہ دمکتا ہوگا، لباس رنگین پہنے موجب تسکین ہوگی۔ پھر چشم تصور سے دیکھا کہ وہ نازنیں زہرہ جبیں، دبلی پتلی، پری زاد، غیرت سرو، گل عذار، عنبر بو، عالم بے حجابی میں جوانی کی نیند سے چور آرام سے لیٹی ہے اور اس کے لالہ رنگ ہونٹوں پر مسکراہٹ سجی ہے۔ اس تصور سے دل باغ باغ ہوا۔

    اسی اثنا میں برج میں موجود پہرے داروں سے سنا،

    ’’اچھا ہوا اس سے شہر کی جان چھوٹی، اجی خَلق کا کوئی کیا کرے جب خُلق ہی نہ ہو۔‘‘

    ناگہاں نظر کی اور دیکھا کہ کچھ قطرے تازہ خون کے اس صندق سے ٹپکتے ہیں۔ اس سے یہ خیال باندھا کہ ممکن ہے اس میں کوئی بد نصیب، چہرہ مستور، انگ انگ زخموں سے چور، مست خواب، آنکھیں بند، بدن رنجور لہو میں نہائی مارے درد کے کراہتی ملے۔

    میں آگے بڑھا اور صندوق کھولنے کا ارادہ مصمم دل میں باندھا لیکن جب پہرے داروں کی کھسر پھسر سنی تو اس ارادے سے باز آیا۔ اپنے تئیں البتہ مقرر یہ کیا کہ جب صبح ہو تو ہی کچھ تدبیر ایسی کروں کہ اسے کھولوں اور مراد دل کی پاوں۔ یوں شب بے مہر کاٹنے لگا اور مہر صبح کا منتظر ہوا۔

    وہ تھوڑی سی رات ایسی پہاڑ ہو گئی کہ کٹنے میں نہ آئے اور اس امر سے جی بہت گھبرایا۔ ناچارفکر و اندیشے میں غلطاں ٹہلنے لگا۔ بے چینی میں کبھوادھر دیکھتا، کبھو ادھر، کبھو چلتے چلتے رک جاتا تھا، کبھو چل پڑتا تھا اور کبھو دھڑکتے دل کو لزرتے ہاتھوں سے تھام لیتا تھا۔ طرح طرح کے شکوک و ابہام نے آن گھیرا۔ سوچا ضروراس صندوق میں کوئی ایسی بلا ہے جس نے شہر میں آفت کا بازار گرم کر رکھا تھا سو اسی باعث اسے شہر بدر کیا گیا اور اب یہ میرے گلے آن پڑی ہے اور لازم تو یہ ہے کہ اس سے خود کو دور کروں کہ بے جا کی آفت میں پڑنا کہاں کا قرین عقل ہے۔ یوں جب جب میرے اوپر خوف چھایا تو بسا بار جی میں آیا کس باعث خود کو مصیبت میں پھنساوں اور کیوں نہ اس بلائے دین و ایمان سے جان چھڑاوں کہ خرد کا تقاضہ تو یہ ہے کہ راستے میں آئ جھاڑیوں سے خود کو دور کروں۔

    لیکن پھر جب جب لالچ کا غلبہ ہوا تو سوچا لازم ہے کہ خود کو ذیادہ ہلکان نہ کروں کہ یہ بھی خلاف دانش ہے کہ ہاتھ آئے گنج گرانمایہ کو یوں ہاتھ سے جانے دوں۔ آخر میں مقرر یہ ہوا کہ جب رات ٹلے اور اس صندوق والی کی حقیقت کا علم مجھ پر کھلے تو پھر کچھ فیصلہ کروں۔ الغرض ساری رات بیدار رہا اور تذبذب میں گرفتار رہا۔ کبھو کچھ کبھو کچھ سوچتا رہا۔ ہر لمحہ جیسے پورا سال لیکن با این ہمہ ایک گھڑی بھی اس صندوق کی حفاظت سے غافل نہ رہا۔

    بارے خدا خدا کرکے صبح ہوئی، مرغ سحری بولا، اور بحکم یزداں قاصد نورانی نے تاریکی کا پردہ چاک کیا۔ دفعتاً افق شرقی سے جاروب کش مشرق نے سر ابھارا اور زریں تاروں سے بنے چھابے سے سطح گردوں کی دھول کو آناً فاناً پاک کیا۔ دربار افلاک سے بادہ گلرنگ میں ڈوبی سنہری ڈلی کوحکم دیا گیا کہ جہاں بے مہر وبے مروت کو نور سے منور کرے۔

    بلا چون و چراں حکم کی تعمیل کی گئی، پردہ نور میں مستور مہر درخشندہ کا ہمہ جہت ظہور ہوااور ہمہ عالم بقہ نور ہوا۔ عزیزو اس امر سے افق کے رخسار پر سرخی معدوم ہوئی اور آہستہ آہستہ نیلگوں نظارے نے فروغ پایا۔ قصہ مختصر اس دن بھی حسب د ستور تاریکی کا سحر دور ہوا، ہر گلی ہر کوچہ مثل جلوہ طور ہوااور حاکم قضا و قدر، مبدء شام و طالع سحر کے فرمان پر پورے جہان کو چشم زدن میں روشنی میں نہلادیا گیا۔ آغاز صبح ہوگیا۔

    ابیات

    صبح دم دروازۂ خاور کھلا۔۔۔ مہر عالم تاب کا منظر کھلا

    خسرو انجم کے آیا صرف میں۔۔۔ شب کو تھا گنجینہ گوہر کھلا

    لا کے ساقی نے صبوحی کے لئے۔۔۔ رکھ دیا ہے ایک جام زر کھلا

    ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ۔۔۔ دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا

    تھی نظر بندی کیا جب رد سحر۔۔۔ بادۂ گل رنگ کا ساغر کھلا

    صبح آیا جانب مشرق نظر۔۔۔ اک نگار آتشیں رخ سر کھلا

    پس جو مستور تھا وہ عیاں ہوا اور جس جس بات پر اس ذات عالی صفات نے پردہ ڈالنا چاہا ڈھکی رہ گئی۔ ایک طرف کوئی گنہ گار، مغرور، نافرمان و سر شور، کسی مجسم حور، مہ وش پر غرور کے پہلو میں لیٹا، اجنبی، مخموررہ گیا اور دوسری طرف کوئی اللہ کے عشق سے مجبور اس ذات کی غلامی میں مسرور، حسب دستور با وضو ہو کراس کے سامنے سجدہ ریز ہوا، مشکور رہ گیا۔۔۔ مناجات سحری پڑھے اور پھر اس کی حمد میں مشغول ہوا۔

    وہ ذات جس کے حمد کی تاب نہ قلم میں ہے نہ زبان میں ہے، نہ جاندار میں نہ بے جان میں ہے، نہ بوڑھے میں نہ جوان میں ہے۔

    حمد

    یا رب مکن از لطف پریشان ما را۔۔۔ هر چند کہ ہست جرم و عصیان ما را

    ذات تو غنی بوده و ما محتاجیم۔۔۔ محتاج بغیر خود مگردان ما را

    تو صرف وہی ذات سزاوار حمد و ثنا ہے جو خالق ارض و سما ءہے، جو نور السموات ہے خالق حیات ہے، بدیع جمادات و حیوانات و جنّات ہے، روز حشر جامع المخلوقات ہے، ذات دیدہ و نادیدہ کمالات ہے، رازق باغات و سوغات ہے، دافع خطرات و آفات ومشکلات ہے، رافع الدرجات ہے، غرض لائق ہمہ ستائش و عبادات اور ہر عیب سے پاک ہے، جو کریم ہے اور جس نے گلشن دنیا کے پھولوں کو بہار اور مہ رخوں، زیبا رخساروں کو نقش و نگار اور دل فگار عاشقوں کو صبر بے شمار بخشا۔

    فرمان روائے جہان حاجات کے کرم کا سن کر انبوہ کے انبوہ امڈ آتے ہیں، جھولیاں پھیلاتے ہیں، نیستی کا رونا روتے ہیں اور سب سے ناامید ہو کر اس کی طرف امید کی نظر کرتے ہیں۔

    بیت

    میرؔ بندوں سے کام کب نکلا۔۔۔ مانگنا ہے جو کچھ خدا سے مانگ

    اب اس غنی بادشاہ کی طرف ٹک نظر کیجئے، وہ تو کسو کی مشکل اٹکی نہیں رکھتا، نظر و کرم رکھتا ہے، سب کا بھرم رکھتا ہے۔ جب لوگ ہاتھ اٹھا اٹھا کر مانگتے ہیں تواس کی رحمت جوش کھاتی ہے، ملائک کو حکم دیا جاتا ہے کہ سب دیکھے ان دیکھے خزانوں کے منہ فی الفور کھول دئے جائیں، ہر مانگنے والے کو اس کی طلب سے بڑھ کر دیا جائے، جو نہ بھی مانگے اس کی بھی جھولی بھر دی جاوے، بارے تمام حاجات پورے کر دئے جاویں اور دیکھیو آج ایک مرتبہ پھر ذولجلال و الکرام کے در سے کوئی خالی ہاتھ نہ لوٹے۔

    بلا چوں و چراں حکم کی تعمیل ہوتی ہے اور اس فیاض شاہنشاہ کے در سے کوئی خالی ہاتھ لے کر نہیں جاتا، مستزاد اس پر اس تمام جود و سخا کے علی الرغم اس کے خزانوں میں کوئی اندیشہ کمی کا نہیں ہوتا اور وہ جوں کے توں لبا لب بھرے رہتے ہیں، سبحان اللہ۔

    بیت

    جھولیاں سب کی بھرتی جاتی ہیں۔۔۔ دینے والا نظر نہیں آتا

    دفعتادیکھا کہ فصیل کے گرد اور لوگ بھی امڈ آئے اور یوں میں نے تماشہ کیا تو دیکھا خلق خدا کا مرغزار : کیا نادار کیا مالدار سب کے سب شہر میں داخل ہونے کے طلب گار۔ ان میں کہیں حکیم فن حکمت میں ہوشیار، میدان طب کے شہسوار، حواس بیدار، اور کہیں مریض کراہتے جان بہ لب، بدن فگار، کسی دم کے مہمان گویا حالت احتضار۔ میں نے صندوق کی طرف دیکھ کر دائیں دیکھا۔

    وہاں ایک طرف عوام ژولیدہ مو، چشم اشکبار، صورت بیزار، غم زیست میں سر تا پا گرفتار اور دوسری جانب فکر جہاں سے آزاد لڑکھڑاتے مے خوا ر نیم خوابیدہ نیم بیدار۔ اسی انبوہ میں پر تکبر امرا شہر کا نظارہ بھی کیا، کہ فلک نما رنگ برنگی چھتریوں کے سائے میں مشک و عنبر میں نہلائے، سر پر کلاہ کج، کامل سج دھج سے زرق برق کی پوشاکیں زیب تن کئے بصد رعونت چلے آتے ہیں، لوگوں کو کراہت کی نظر سے دیکھتے ہیں، ناک بھوں چڑھاتے ہیں اور اپنے مال و منصب پر اتراتے ہیں۔ ان کے دائیں بائیں اور آگے پیچھے کئی سوار، پہنے لباس نامدار، باندھے چار ہتھیار، گوناگوں اور سلاح بوقلموں سے آراستہ، ’’ادب‘‘ اور ’’ملاحظہ‘‘ اور’’قرینے‘‘ اور ’’نگاہ رو برو‘‘ کی صدائیں لگاتے ہیں اور ’’ہٹو بچو‘‘ کا غل مچاتے ہیں۔

    دیکھا کہ بیچ اس انبوہ کثیر میں بغل میں دابے کتابوں کے انبار دریاے علم میں گم علماء بردبار۔۔۔ ہر کوئی سر جھکائے، کچھ عجزسے آنکھیں زمین میں گڑے، کچھ خاموش اپنی کتابوں میں گم پیر گھسیٹتے چلے آتے ہیں نہ کھانے کی سدھ نہ پینے کی بدھ صرف علم کے سمندر سے اپنی بھوک مٹاتے اور پیاس بجھاتے ہیں۔ کوئی عرفی کے شعر پڑھ کر داد دیتے نہیں تھکتا تو کوئی فیثا غورث کے مسائل میں گم سر دھنتا ہے، واہ واہ کرتا ہے، دنیا کی اونچ نیچ سمجھتا ہے پر عاقل ہے تو زبان بند رکھتا ہے، ہر سو نظر رکھتا ہے۔

    انہی میں نظر آئے، خال خال فقیر رہ نشین گرسنہ جبین، کہ لوگوں سے لپٹ کر، گڑگڑا کر سوال کرتے ہیں اور اپنی ناداری، بیچارگی، غربت، ناتوانی، عجز، ضعف، اضمحلال و ناطاقتی کا رونا روتے ہیں۔، کفیف ہیں، معذور ہیں، لباس ان کے تار تار ہیں اور بدن فگار ہاتھ پھیلائے محض دو تنگوں کے طلب گار ہیں۔ وہیں مشاہدہ کیا کہ فرض سے سرشار، جان نثار سپاہی مع تلوار و رہوار باد رفتار، سانس لئے بغیر بلا جنبش ایسے کھڑے ہیں کہ ایک لمحے کے لئے بھی غفلت کا شکار نہ ہوں اور اپنی تیز اور عقابی نظروں سے لوگوں کو دیکھتے ہیں، پرکھتے ہیں۔ میں نے صندوق کی طرف دیکھ کر بائیں دیکھا۔

    دیکھا ایک کونے میں ماوں کے سینوں سے چمٹے شیر خوار بچے کہ بلک بلک کر روتے ہیں اور دوسرے کونے میں نازنین قریہ حسین، اپنی اداوں سے رہزن دین، پری صورت بلند سینے جیسے درخت ہائے ثمر بار۔۔۔ حور وش آفتِ روزگار۔۔۔ جن کے حسن کے سامنے چاند بھی ماند، بدن مشک بار اور ہاتھ پر حنا کے موہوم نقش و نگار۔ مترنم قہقہوں، اپنے بناوٹی لگاو اور جھوٹے پیار سے پورے ماحول کو گلشن بہار بناتے ہیں۔ عاشق یہ سب دیکھ کر سر دھنتے ہیں، آہیں بھرتے ہیں، آفریں آفریں کہتے ہیں۔

    بیت

    چمن میں سیر گل کو جب کبھی وہ مہ جبیں نکلے۔۔۔ مری تار رگ جاں سے صدائے آفریں نکلے

    فقیر نے بھی ایک آہ بھری اور صندوق خورجی میں کسا اور جی میں کہا مقرر اس صندق میں مقید نازنین گلدستہ جمال، پری تمثال، جہاں میں یکتااور بے مثال ہوگی کہ ملاحت میں بے ہمتا ہوگی، شہرہ آفاق اور تمام امور میں طاق ہوگی۔ مستزاد اس پر رعنائی اور زیبائی میں نہایت دل جو اور دلربائی میں بغایت خوبرو ہوگی اور یوں میرے دن پھر جاویں گے۔ میں تو کسی گھڑی اس کواپنے آپ سے جدا نہ کروں اور اگر مقدور میں اس کے ساتھ عقد ہو تو اسے کلیجے میں ڈال رکھوں، یک جان د و قالب بنوں تا ابد اس کے پہلو میں رہوں اور ملک الموت کو بھی پاس پھٹکنے نہ دوں، اس کے حسن میں گم رہوں۔

    انہیں خیالوں میں گم انبوہ کثیر کے بیچ میں چلتا چلتا بلاخر اس فصیل میں داخل ہوا۔ گاہے خیال آتا تھا کہ کسی حجام سے جو جرح کاری میں نپٹ پکا ہو طلب کچھ ایسا کروں کہ اس نازنین کے زخموں کو بغیر سوزن کے سیئے اور عرق گلاب آب حیات میں ملا کر اسے غسل شفا یاب دے کہ مجھے اسے تکلیف دینا ہر گز منظور نہ تھا۔ گاہے خیال آتا تھا کہ پہلے صندوق کو تو کھولوں، اس کا نظارہ کروں، حقیقت اور تخیل کا تقابل کروں اور اس خندہ جبین سے اس کی مرضی پوچھوں تو ہی کچھ آگے کا خیال کروں۔

    پھریکایک یہ خیال بھی آیا کہ بے پردگی اس نازنین کی مطلوب نہیں کہ نا محرم کے سامنے وہ بھلا کیوں سر کھولے آئے۔ یہ سوچا تو جی میں ارادہ باندھا کہ سب سے پہلے کچھ تدبیر ایسی کروں گا کہ حجاب اس کا قائم رہے اور وہ کسی کے سامنے بے پردہ نہ آئے۔ پھر سوچا نامحرم تو وہ میرے واسطے بھی ہے سو لازم ہے کہ نکاح مقدم رہے اور ملاقات موخرا ور اس باعث یہ ارادہ محکم باندھا کہ اشد ضروری ہے کہ پہلے اس کو گھر والی بناوں تو پھر مجھے اختیار ہو کہ طبعیت کے لگاو سے حجرہ عروسی میں جاوں اور جو معاملہ شریعت میں مباح ہو سوکروں۔

    انہیں خیالوں میں غلطاں شہر میں داخل ہوا تو ایک گھر کے ڈھونڈنے کی سعی کی جہاں اس صندوق کو بحفاظت رکھ پہلے کسی نکاح خوان اور پھر جراح کا انتظام بموجب دستور کروں اور جب میری بی بی اللہ کے کرم سے شفاپائے اورغسل صحت سے فراغت ملے اور طہر میں ہو تو اس کے ساتھ زندگی کے مزے لوٹوں کہ بے شک حلال عورتوں میں حلاوت رکھی گئی ہے۔

    انہی خوابوں میں گم یہ عاجز ایک بازار سے گذرا جسے بازار ہلال کہتے تھے کہ بنا میں مانند ہلال تھا اور اس میں بھانت بھانت کی دکانیں تھیں۔ بازار کیا تھا پورا جہاں تھا، وہاں متاع ہر دیار کا فراواں تھا۔ بھیڑ میں شانے سے شانہ چھلے، کوئی چلے تو سیدھا راستہ نہ ملے۔ تمام ساکنان شہر با وضع قطع دار، بات چیت مردوں والی رعب دار۔ نفیس و خوش سلیقہ اتنے کہ آپ جناب کرکے بات کرتے تھے۔

    وہیں دکان ایک مٹھائی کی دیکھی، لبا لب بھری ؛ برفی اور اس کے اوپر نقرئی ورق، امرتی شہد سے ذیادہ میٹھی، شکر پارے شیریں سارے، رس گلے لب محبوب سے لذیذ، جلیبی خیال سے ذیادہ پیچ دار و مزیدار، پیڑا مرغوب دل خوش مزہ، پیٹھا چاشنی بھرا، بالو شاہی روح افزا، قلاقند مزیدار، ہلکی آنچ پر بنی خوشبو دار، لڈو حلاوت بھرے با لذت، کھیر پستے والی ہر دل عزیز پر لطف، چم چم دودھ میں گھلا باذائقہ، ڈبوں میں بند، مجسم قند، حلوہ گاجر کا دل موہ لینے والا، قلفی تازہ جمی اور اس پر پڑا باریک کترہ پستہ، پتیسہ خوب پسا تہہ در تہہ غرض ہر شیرنی وافر دیکھی، آنکھیں مٹھاس سے بھر گئیں۔

    آگے گیا تو ایک دکان کو دیکھا کہ وہاں چہل پہل ذیادہ ہے۔ اجناس کی خریدو فروخت ہے ریل پیل پیسے کی ہے اور لوگ ثانیوں میں دیناروں کا انبار لٹاتے ہیں سو اس طرف جانے کا قصد کیا۔

    وہاں گدی پر ایک نوجوان، رشک مہ پیر کنعاں، شکیل و خوش لباس، حسین و وسیم کو دیکھا۔ دیکھنے میں گویا ابن حور، نشہ شباب سے چکنا چور تھا۔ کیا جوانی تھی کہ بحر حسن و خوبی کا دُر یکتا تھا، مسیں بھیگی اور سفیدکلاہ اس کے سر پر کج، شہریاری کی سج دھج کے ساتھ متمکن تھا۔۔۔ شکل سے خوب رو، نیک خو، روشن آنکھیں چہرے پر مسکراہٹ سجائے، صاحب مروت نظر آتا تھا۔ شیرین زبان ایسا کہ سب سے متانت سے کلام کرتا ہے۔۔۔ سنتا ذیادہ بولتا کم ہے۔۔۔ پیشانی اس کی چوڑی اور دانائی اس کے قیافے سے عیاں تھی۔

    کچھ ہمت بندھی تو اس کے پاس پہنچ کر بصد اکرام سلام کیا اور اجناس خورو نوش کی واسطے اپنے طلب کیں، حال احوال موسم کا دریافت کیا۔ میری بات چیت اس شہر کے باشندوں جیسی نہ تھی سو اس نے مجھے اس دیار میں اجنبی جان کر بہت ہی محبت سے پاس بٹھایا اور نپٹ شربت زعفرانی تکلف سے بنا کر، لیموں کا رس ملا کر برف لگا کر لا پیش کیا جو فقیر نے رغبت سے ایک سانس میں نوش جان کیا، مہینوں کی پیاس بجھ گئی، جان میں جان آئی اور باتوں کا سماں بندھا۔

    کچھ دیر باتیں دین و دنیا کی ہوتی رہیں۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ سوال پر سوال کئے جا رہا ہے اور اس امر سے مجھے بہت بے چینی ہوئی۔ الغرض جب ہنگامہ صحبت بہ این نوبت پہنچا کہ مجھے دھڑکا یہ لگا کہ میں بیان اپنے دل کے اضطراب کا اور اس نازنین کے شباب کا اس سے مخفی نہیں رکھ سکوں اور اسے کچھ بتا بیٹھوں گا تو جانے کا ارادہ باندھا اور اس کی اجازت طلب کرنے کے لئے منہ کھولنا ہی چاہا کہ اس نے میرا احوال میری پیشانی پر لکھا دیکھا،

    بیت

    وہ میری چین جبین سے غم پنہاں سمجھا۔۔۔ راز مکتوب بہ بے ربطی اعنواں سمجھا

    میں نے آنکھیں چرانی چاہیں تو اس نے محبت سے مغلوب میرا ہاتھ تھام کے احوال مجھ سے میرا بصد اشتیاق و رغبت دریافت کیا۔

    ’’میرے رفیق تم کون ہو کہاں سے آئے ہو جو ایک ہی لمحے میں تیری محبت کا گرویدہ ہوگیا ہوں۔ اے اجنبی بتلا دیجو کس باعث اپنی یہ صورت پریشان بنائی ہے؟ خاطر جمع رکھ خدا کی نعمت۔۔۔ میرے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے۔ جو بھی مال اسباب فراہم ہوسکا حتی المقدور کوشش کروں گا کہ اللہ نے انسان کو انسان کے کام کے لئے پیدا کیا ہے۔ خدا را اپنا حال مجھ پر ظاہر کیجو جو دل میں ہے، کم ہے یا ذیادہ بلا خوف و عذر مذکور کیجو میں ہمہ تن گوش ہوں اور واسطے تیری خدمت کے حلقہ بگوش ہوں۔‘‘

    میرے تئیں یوں پہلی ملاقات میں اپنی سرگزشت ظا ہر کرنا منظور نہ تھی کہ بہرحال ایک دن کی آشنائی پر اعتبار قرین مصلحت نہیں اور یوں ہر ایرے غیرے کو اپنی داستان سنانا دانش مندی نہیں سووہاں سے نپٹ رخصت ہونے کا بہانہ مکررکیا۔

    بیت

    دامن اشکوں سے تر کریں کیوں کر۔۔۔ راز کو مشتہر کریں کیوں کر

    میں نے جو وہاں سے جانے میں شتابی دکھائی تواس نے مذیدخفگی دکھائی اور کہا،

    ’’اے صاحب اتنی جلدی کاہے کو؟ مجھے تو نظر یہ آتا ہے کہ تیرا رویہ محبت سے پر اورد وستی پر مائل ہے اور گمان غالب ہے تیرے نز دیک کسی کی دل شکنی بھی مقصود نہیں لیکن دل کا حال تو بہر حال اللہ کو معلوم ہے۔ بتلا دیجو اس پہلو تہی سے کیا مراد؟ اگر اتنی ہی ناآشنائی کا ارادہ تھا تو کاہے کو اتنی گرم جوشی سے میل ملاقات کی؟ اب اس ترش روئی سے کیا مطلوب؟ میری سنوغم بانٹنے سے کم ہوتا ہے، اگر کوئی امر مانع نہ ہو تو خدا را اپنا ماجرہ کامل بیان کیجو کہ تیری کفیت اپنے تئیں دریافت کرنی بہر حال مقصود ہے۔‘‘

    یہ کلام اس نے اتنی محبت اور تکرار سے کیا کہ دل کو بہت بھایا اور بجز ذکر کوئی اور مفر نظر نہ آیا۔ سوچا اب تو کوئی قصہ شرین زبان کچھ ایسے درد سے بیان کروں کہ اسے بھی قرارآئے اور کچھ اپنا بھی فائدہ ہو۔ ویسے بھی اب یوں بے رخی برتنا بر خلاف مروت جانا۔ میں نے جی میں خیال کیا کہ اگر اسے کچھ جھوٹ موٹ کا کچھ نہ سنایا تو بے جا ازردہ ہوگا جو مجھے بہر حال مطلوب نہ تھا۔

    بیت

    دو حرف تسلی کے جس نے بھی کہے اس کو۔۔۔ افسانہ سنا ڈالا تصویر دکھا ڈالی

    اس نے مجھے اپنی سرگزشت سنانے پر مائل پایا تو نپٹ دکان اپنے ایک لونڈے کے حوالے کرکر میرے ساتھ وہیں ایک کنج میں بیٹھ گیا اور مجھ سے حوادث کے متعلق استفسار بہ تفصیل کیا۔ مجھے اندیشہ ہوا کہ اگر اس نازنین کا بیان سچ سچ گوش گذار کیا تو اندیشہ ہے کہ وہ اس پر عاشق ہوجائے اور میں ہاتھ ملتا رہ جاوں۔

    بیت

    ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا۔۔۔ بن گیا رقیب آخر تھا جو زورداں اپنا

    دنیا داری میں یہ قائدہ ہے کہ ہر گفتار و عمل میں اپنا فائدہ ضرور دیکھنا چاہئے۔ میں نے سوچا کوئی ایسا جھوٹا قصہ اسے سناوں کہ اسے یقین آجائے کہ بہر حال میرے نزدیک اسے سب سچ بتانا خطرے سے خالی نہ تھا۔

    ’’ماجرہ میرا یہ ہے کہ تاجر زادہ ہوں، ناز و نعم میں پلا اور سفر تجارت کے باعث سدا کا مسافت دیدہ اور مسافرت کشیدہ ہوں۔ آج کل حالت میری یہ ہے کہ بے سر و پا ہوں گرفتار الم و بلا ہوں، مبتلائے غم اور ہمہ تن یاس باختہ حواس ہوں۔ اس شہر میں یگانہ بے یار ومددگارنہ کوئی آشنا، نہ دوست نہ غم خوار۔‘‘

    بیت

    چہ گویم از سرو سامان خود عمریس چوں کاکل۔۔۔ سیہ بختم، پریشاں رازگرام، خانہ بردوشم

    قصہ مختصر تین ماہ قبل اپنے ملک روم سے قصد تجارت کا کرکرنکلا تھا۔ اس بار سفر میں اپنی جوان اور گل رخ بی بی کو بھی ساتھ لیا کہ بس صاحب اس پر بہ شدت فریفتہ ہوں اور وہ اس باعث کہ اسے حور کہوں تو بجا ہے پری بولوں تو روا ہے خلاصہ یہ میں اس کا عاشق باوفا اور وہ میری معشوق پر حیا۔

    راستے میں رات آگئی تو ایک جگہ خیمہ ایستادہ کیا واسطے آرام کے اور وہاں بیٹھ کر خلوت میں ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے۔ بی بی طہر میں تھی اور مہینے کے بیچ میں۔ اس نے قدرے بے باکی سے باتیں اس طورکیں کہ اس عروس گلبہار کے چہرے کے نقش نگار پر سرخی با ر بار آئی اور گئی۔ پھر جب اس نے ایک زہد شکن انگڑائی لی، ہونٹ کاٹے تو میں جو پہلے سے اس کے عشق میں دل فگار تھا، یکبارگی آتش شوق میری کچھ ایسے بھڑک اٹھی کہ عاجز نے ارادہ کیا کہ اپنی فریفتہ جمال حسن تمثال بی بی کا بوسہ لے اور اس کے لئے اس کی طرف مجسم شہوت بڑھا۔

    میں ابھی اسے چھاتی سے لگایا ہی چاہتا تھا کہ دفعتا ًڈاکوں نے حملہ کیا۔ ناہنجاروں نے خیمہ پھاڑا اور جو مال و اسباب پایا وہ تو لوٹا ہی لوٹا، گہنے کے لالچ میں بی بی کو بھی گھائل کیا۔‘‘

    یہ کہہ کر میں نے جھوٹ موٹ کے آنسو بہائے

    ’’اب اگر میری حالت زار کو نظر التفات سے دیکھتے ہو تو یہ سمجھو کہ اس جان بلب مجروح جان کو ساتھ لئے پھرتا ہوں، خود بھوکا رہتا ہوں اسے کھلاتا ہوں۔ بس یوں جان لیجو میں تین مہینے سے کسی گھر کا متلاشی ہوں کہ وہاں کچھ دن رہوں اور کسی مسیحا صفت اور بوعلی طبعیت حکیم کو فی الفور بلاوں کہ میری بی بی کی خبر گیری کرے جو اس صندوق میں مجروح بند ہے لیکن اس سے پہلے ایک مسئلہ او ربھی مقدم ہے۔‘‘

    میری اس جھوٹی کہانی سے اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور اس نے میرا ہاتھ تھام لیا اور مجھے ساتھ اپنے چلنے کو کہا۔

    ’’میرے رفیق یہاں سب حال احوال دل کا یوں کہنا درست نہیں کہ بے شک سرگوشی میں بھی کہیو، پھر بھی دیواروں کے کان ہوتے ہیں اور بات ان تک پہنچ جاتی ہے جن سے مخفی رکھنا بہر کیف مقصود ہوتا ہے۔۔۔ اپنے راز چھپا کر ہی بندہ مراد پاتا ہے۔ میری صلاح ہے کہ میری حویلی پر چلتے ہیں اور پوری بات سنتے ہیں اور جو جو اختیار میں اس عاجز کے ہے تیرے لئے حاضر کئے دیتے ہیں۔‘‘

    بیت

    ہر صدا پر لگے ہیں کان یہاں۔۔۔ دل سنبھالے رہو زباں کی طرح

    جب میں نے دیکھا کہ وہ شیشے میں اتر چکا ہے تو اس کے پیچھے چل پڑا اور یوں وہ مجھے دکان سے کچھ قدم دور ایک شاندار حویلی میں لے گیا۔ دروازہ کھول کر ملازموں کو پکارا، ایک صدائے رعب دار میں ان کی سرزنش کی اور ان سے صندق ایک کمرے میں کھانے پینے کے سامان سمیت رکھوا دیا اور خادموں کو اس کے حفاظت کی تنبیہ کی اور پھر کنجی میرے ہاتھ میں تھمائی اور وہ یوں گویا ہوا،

    ’’میرے رفیق اب یہی جگہ تیری بودوباش مقررہو، تم مالک و مختار ہو اور جو جی میں آئے کیجو کہ تیری داستان سن کر مجھے اپنا فرض آدم یاد آیا۔ کیا زمانہ ہے کہ لوگ جان و مال کی قدر نہیں کرتے اور معمولی رقم کی خاطر خون بہانے سے دریغ نہیں کرتے اور مستورات پر بھی وار کرنے سے نہیں ہچکچاتے۔ اگرچہ کہا ملائک نے کہ بہائے گا آدم خون لیکن مشیت ایزدی ہے کہ علی الرغم اس کے آدم کو تخلیق کیا اور بے شک اس سے زیادہ انسانوں کا بھلا جاننے والا بھلا کون ہے اگرچہ انسان اس کی معرفت سے بے بہرہ۔‘‘

    پھر اس نے چونک کر کہا،

    ’’اے دل کے قریب رفیق زرا یہ تو بتا کہ تیرا دوسرا مسئلہ کیا ہے کہ دل کا بھید دوستوں سے چھپانا کسو مذہب میں درست نہیں اور بے شک مقبول تو یہ ہے کہ جب دوست، وکیل اور دائی سے گفتگو کیجئے توسب کا سب کہہ دیجئے اور کچھ بھی مستور نہ رکھیئے۔‘‘

    اسے اپنی مدد پر یوں مائل دیکھا تو میں نے جھٹ اپنی طرف سے آگے یہ گھڑا،

    ’’اے مرے ہر دل عزیز رفیق جس گھڑی ڈاکوں نے مجھ سے سب کچھ لوٹ کیا تو مجھ سے پوچھا کہ اور کیا ہے تیرے پاس؟۔ میں نے جھوٹ سے کہہ دیا کہ میرے پاس کچھ بھی نہ رہا تو ان کے سردار نے شمشیر شہ رگ پر رکھ کر کہا کہ قسم کھا کہ اگر تیرے پاس کچھ ہو تو تین بار بول کہ تیرے اوپر تیری بیوی طلاق ہوئے اور میں نے قسم کھا کر کہا کہ ہاں ایسا ہی ہو اور یوں ہی وہ بلا ٹلی۔

    اب جب وہ چلے گئے تو اب جی میں کڑھتا ہوں کہ میرے پاس تین یمنی لعل تھے جو دستار میں چھپا رکھے تھے تو یوں جھوٹ بول کر تنسیخ نکاح کا موجب ٹہرا۔ اب کراہت ہے کہ بی بی کو دیکھوں بھی یا نہیں کہ نامحرم پر فقط پہلی نگاہ کے بعد دوسری نظر بہرحال از روئے شریعت جائز نہیں۔ بس اسی طور سے اسے صندوق میں بند رکھے مارا مارا پھرتا ہوں۔‘‘

    جب یہ امر مفصل اس کے گوش گذار ہوا تو مجھے یوں نظر آیا کہ وہ اس پیچیدہ مسئلے کا بیان سن کر اورپریشان ہوا لیکن جب میں نے اس کو اس کا حل یہ بیان کیا کہ پہلے نکاح اور بعد میں حکیم تووہ بھی مان گیا اور یوں متفق گردید رائے بوعلی بارائے من۔

    اس نے کچھ لہجے توقف کیا اور پھر ناخن کاٹتے، جبیں پر شکن پست آواز میں مجھ سے یوں کلام کیا،

    ’’یہ راز البتہ بہت نازک ہے زنہار کسی سے بھی مت کہیو کہ جو طشت از بام ہوئے اور کوئی بھنک اس کی داروغہ کے کانوں میں پڑے تو تیرے زوال کا باعث ہو اور تیرے اوپر مشکلات کا پہاڑ ٹوٹے۔‘‘

    میں نے بصد حیرانگی وجہ دریافت کی تو بولا،

    ’’اس شہر میں دستور کچھ ایسا ہے کہ زنا سہل اور نکاح کا معاملہ از حدپیچیدہ ہے کہ بلا درخواست کے نکاح ناممکن ہے اور والی شہر نے ایک دفتر شہر میں مقرر ایسا کیا ہے جس میں اندراج ہر نکاح کا ہوتا ہے اور اگر کوئی اس سے انحراف کرے تو زندان کا مستحق قرار پاتا ہے سو اگر بات پنہاں رہے تو بہتر لیکن اگر تشہیر پائے تو موجب قباحت ہے۔‘‘

    کچھ دیر رک کر اپنے ہونٹ کاٹے اور کہا،

    ’’سو اب اگر تو یہ بیان کرے گا جو تو نے مجھے سنایا ہے اور نکاح کی تجدید کی درخواست کرے گاتو لازما اس کہانی کو، جو بالفعل پیچیدہ ہے، قابل اعتبار نہیں، کہ کون مجروح تین مہینے سے صندوق میں بند جئے؟ اور یوں اسے دروغ گوئی پر معمور کیا جاوے اور تو خو پابند سلاسل زندان میں جاوے اور بی بی بھی ہاتھ سے جاتی رہے۔‘‘

    پھر کچھ دیر تفکر کیا،

    ’’ہاں ایک طریقہ اور ہے کہ تنسیخ نکاح کا مسئلہ ہی بیچ میں نہ لایا جاوے اور اپنی بی بی کو باکرہ بتلا کر اس سے ایجاب و قبول کیا جاوے لیکن اس میں بھی ایک قباحت ہے۔‘‘

    میں جو اس مسئلے کی پیچیدگی سے لرزہ براندام اور کچھ شرمسار اور کچھ گھبرایا ہوا تھا بے ساختہ بولا،

    ’’اے میرے رفیق، بھلا وہ قباحت کیا ہے۔‘‘

    ’’اس شہر میں باکرہ سے نکاح کے واسطے البتہ ولی کی رضامندی ضروری ہے کہ بنا حصول اجازت ولی نکاح میں احتمال ضرر کا موجود ہے۔ ہاں مگر مرد دیدہ عورت پر یہ شرط واجب نہیں۔ صلاح میری یہ ہے کہ ہم اسے کسی آدمی کے پاس اس کی بیٹی بنا کر، پہلے علاج مکمل کروا کر اسے ولی مقرر کرکر نکاح بہ طریق سنت کریں۔ یہ دنیا کو بھی مقبول اور دین میں بھی جائز قرار پائے۔‘‘

    کچھ دیر تفکر کیا اور یوں گفتار کیا

    ’’میں ایک نیک خصلت آدمی کو جانتا ہوں، معمر، دین داری میں حد درجہ سرگرم اور دنیاوی معاملات اور خواتین میں رغبت کم رکھتا ہے بلکہ کسی بیماری کے باعث یکسرنامرد ہے، کفیف ہے اور چلنے پھرنے سے تقریبا قاصر ہے۔ اسی سبب جملہ زنان شہر کو اپنی بیٹیاں پوتیاں گردانتا ہے اور کسی کی طرف نگاہ نہیں کرتا۔ میں اس کی قسم کھاتا ہوں کہ اگر ایک جوان اور شہوت پر مائل بی بی بھی اس کے ساتھ ایک بستر پر بند کمرے میں ساری رات رہے۔ ایک طرف وہ آہیں بھرے، کراہے اور اسے اپنی طرف بلائے، دوسری طرف یہ مرد عشا اور فجر ایک وضو سے پڑھے اور بیچ میں مناجات رب۔ اب صلاح میری یہ ہے کہ اس کے گھر جایا جاوے اور اس سے درخواست کی جاوے کہ۔۔۔‘‘

    مجھے اس کی یہ تجویز نہ بھائی اور ترددسے کہا،

    ’’میں اپنی منکوحہ کو کسی کے پاس نہ رہنے دوں کیا خبر وہ کیا کرے کہ آخر جب ایک مرد اور ایک عورت اکیلے ہوں، دونوں نامحرم ہوں تو ان کے بیچ تیسرا شیطان ہوتا ہے۔ سچ پوچھو تو اس معاملے میں مجھے کسی کا اعتبار نہیں۔ دوسرا اس کا ازار بند ضروربند رہے لیکن لوگوں کے منہ البتہ کھلے رہیں۔ نہیں، نہیں میرے رفیق کوئی اور مخرج ہو اس قضیئے سے تو بتلاو۔‘‘

    اس نے بہت دیر سوچا اور پھر تبسم کرکر کہا،

    ’’ایک طریقہ اور ہے اگر ان یمنی لعلوں میں سے ایک داروغہ اور ایک کسی نکاح خوان کو رشوت کے طور پر دے دیں تو ممکن ہے وہ راضی ہوجائیں۔‘‘

    یمنی لعل یوں ہاتھ سے جاتے دیکھے تو کوفت تو ہوئی لیکن اس بی بی کے جمال میں کچھ یوں گم تھا کہ یہ بات بصد کراہت پسند کی اور داروغہ اور نکاح خوان کا معاملہ اس پر چھوڑ دیا۔ ہم واپس گھر چلے آئے تاکہ کچھ خورد و نوش سے انصاف کریں۔

    شام ہوئی اور حویلی میں فانوسوں میں جا بہ جا کافوری شمعیں روشن ہوئیں۔ دالان میں بٹھا کر اس نے گرم پانی منگوایا، ایک خوش شکل کنیز سے ہاتھ پاوں دھلوائے اور میرے روبرو ایک توارے کا توارا چن دیا؛ روغنی نان اور مرغ کے کباب ساتھ روغن جوش اور نرگسی کوفتوں اور قورما پلاواور متنجن کے دسترخوان پر چن دیئے۔ فقیر کی بھوک چمک اٹھی اور عاجز نے خوب سیر ہو کر ایسا کھا یا کہ صندوق میں بند نازنین کے بارے میں یکسر بھول گیا۔

    اس مرد کی شرافت دیدنی تھی کہ یہ سب کرکر بھی کہا کہ اگر خدمت گاری میں کسو طور کمی رہ گئی ہو اور اس باعث مزاج رفیق کا مکدر ہوا ہو تو اس کی معافی کا خواستگار ہوں۔ دل میں خیال آیا کہ اسے سب کچھ سچ سچ بتا دوں لیکن پھر کسی سبب اس سے اجتناب برتا۔ جب ان تمام امورسے فارغ ہوئے تو نکاح خوان کی تلاش میں نکل پڑے۔

    تاریک اور تاو دار گلیوں سے گذر کر رات کو ایک بوسیدہ گھر کے سامنے جا پہنچے اور میرے رفیق نے دروازے پر دستک دی۔ کچھ دیر بعد ایک کنیز، کم بہا، آنکھیں ماند اور ان کے گرد حلقے سیاہ، ہونٹ سیاہی مائل، چہرہ زردی مائل بے رونق، دانت کچھ شکستہ کچھ پیلے، بال کھلے اور ترتیب سے عاری، نیم موئی نحیف و نزار گویا سل کی ماری، گردن کی رگیں پھولی، ٹمٹماتا چراغ پکڑے دروازے پر آئی اور اور تھیکے لہجے میں بصد حقارت زیارت کی وجہ دریافت کی۔

    ہم نے التجا کی کہ نکاح خوان سے ملاقات کا ارادہ ہے، کوئی امر ایسا ضروری ہے تو ہی اس گھڑی زیارت کا شرف حاصل کرنے چلے آئے ہیں۔

    ’’ہے ہے ہوش میں تو ہو؟ کوئی موقع ہنگام دیکھتے ہو یا جہاں اپنی ضرورت دیکھتے ہوملاقات کا ارادہ باندھے جب جی بھایا چلے آتے ہو؟ ارے یہ کوئی وقت ہے کسی کے گھر آنے کا؟ سلیقے کا تو زمانہ تورہا نہیں۔ ارے میں تو مالک سے ہر گز کچھ نہ کہوں کہ یہ ان کے آرام کا دورانیہ ہے اور اس گھڑی تخلیئے میں مداخلت ان کو کسی صورت مرغوب نہیں۔ تم دونوں اب صبح ہی آنا۔‘‘

    وہ پٹ بند کرنے لگی کہ میرے رفیق نے اپنا پاوں ان کے بیچ رکھ دیا۔ ہم دونوں نے منت سماجت کی، گڑگڑائے لیکن اس پر کچھ اثر نہ ہوا۔ پھر کچھ سوچ کر کچھ دینار اس کے ہاتھ میں تھمائے تو اس نے بصد اشتیاق ایک ایک دینار گن کر مالک کو خبر کر دی۔

    پیر گھسیٹتا کمر خمیدہ سن رسیدہ نکاح خواں، کہ مارے ضعف کے کھڑے ہونے کی طاقت اس میں نہ تھی، نیم خفتگی کی حالت میں ایک ہاتھ میں چوبی عصا تھامے اور دوسرے ہاتھ میں دفتر نکاح کا لئے نموردار ہوا۔ میرے رفیق نے جو کفیت مجھ سے سنی تھی کچھ ضروری تغیر کے ساتھ اس کے گوش گزار کی تواس نے کچھ حیل و حجت کے بعد مدد کی حامی بعوض ایک یمنی لعل کے بھر لی۔

    سب معاملہ اپنی طرف درست اور مستقیم دیکھا تو نکاح خوان اور رفیق کو ساتھ لیا اور ہم سب داروغہ شہر کے گھر جا پہنچے۔ اس کے بھی تفصیل گوش گذار کی۔ اس نے بھی ایک یمنی لعل کے عوض یہ کام کر گزرنے سے انکار نہ کیا۔ اب مقرر یہ ہوا کہ ایک نکاح خوان اور دو گواہوں کی موجودگی میں اس نازنین سے نکاح کرکے پھر حکیم سے رجوع کروں اور یوں وصل کے مزے لوں۔

    سب معاملات ترتیب میں آئے تو اللہ کا شکر ادا کیا اور سارا رستہ اس جواں سال بی بی کے خیال میں گم شب عروسی کے بارے میں غورو فکرر میں غلطان رہا۔

    بیت

    آرزو وصل کی رکھتی ہے پریشاں کیا کیا۔۔۔ کیا بتاوں کہ میرے دل میں ہے ارماں کیا کیا

    چلتے چلتے ہم سب گھر واپس آگئے اور ملازموں سے صندوق دیوان خانے میں لا رکھوا دیا۔ سب نے سنا کہ صندوق میں کوئی کروٹ بدلنے اور کراہنے کی آواز نسوانی آتی ہے لیکن لب بند رکھے۔ یکایک دیکھا کہ داروغہ نے نکاح خوان کے کان میں کھسر پھسر کی اور سر ہلا کر کسی بات پر اتفاق کیا۔ میں ابھی تک اس معشوق کے خیال میں غلطاں تھا سو چنداں تعجب نہ کیا اور خدمت گاروں کی طرف دیکھا کہ انہوں نے صندوق کمال احتیاط سے رکھا اور اس پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کیں اور کمرے سے نکل گئے۔ میں نے لباس فاخرہ زیب تن کیا اور نکاح خوان کو اشارت کی کہ وہ نکاح کا خطبہ پڑھے۔

    صندوق سے گنگنانے کی آواز آنے لگی،

    بیت

    جب سے چھوٹا ہے گلستاں ہم سے۔۔۔ روز سنتے ہیں بہار آئی ہے

    اسی لمحے ناگہاں داروغہ نے آنکھوں ہی آنکھوں میں نکاح خوان کو کچھ اشارت کی اور یہ دیکھ کر اس نے کتاب بند کی، اپنے ہونٹ کاٹے اور یوں کلام کیا،

    ’’میاں طلاق میں شرعی رکاوٹ یہ ہے کہ جب تین طلاق ہوجائیں تو پھر تو ایک ہی صورت میں دوبارہ نکاح کی صورت بن سکتی ہے کہ خاتون کا نکاح کسی عاقل بالغ مرد سے بغیر کسی زور زبردستی کے کروایا جائے۔ جب یہ امر انجام کو پہنچے اور جب وہ دونوں باہم ہوجائیں، روزگار زیست سے فارغ ہوں اور ان کے درمیان معاملہ اس ہنگام کو پہنچے کہ تعلق زن و شوہر حق الیقین کے درجے میں انجام کو پہنچے اورپھر وہی آدمی اسے بغیر کسی جبر کے اپنی مرضی سے طلاق دے تو ہی تین طلاق دینے والا اس سے دوبارہ عقد کر سکے۔ جب تک یہ تقاضہ پورا نہ ہو نکاح نہیں ہوسکتا۔‘‘

    میرے آنکھوں کے سامنے میری دنیا اندھیر ہوگئی لیکن جو اس نے مذید کہا میرے پیروں تلے زمین نکل گئی،

    ’’میری صلاح ہے کہ داروغہ شہر اس خاتون سے باہم رضامندی سے نکاح کرے، اسے بغیر جبر کے طلاق دے تو ہی عدت کے بعد تیرا راستہ صاف ہو۔ اگر یہ نہ ہو تو نکاح ناممکن ہے۔‘‘

    میں نے قدرے شک کے ساتھ کہا،

    ’’ممکن ہے میں نے غلط سنا ہو اور رہزنوں کے سردار نے لفظ طلاق نہ کہا ہو، میں اپنی بی بی کو کیسے غیر مرد کے ساتھ رہنے دوں۔۔۔ ممکن ہے داروغہ طلاق میں پس و پیش کرے۔۔۔‘‘

    داروغہ جس کا دل اس نازنین کی آواز سن کر بہت للچایا اس بات سے بدماغ ہوا،

    ’’میاں تم کیسے گرما گرم، تند مزاج ہو جو یوں بے سوچے سمجھے کڑے فقرے زبان پر لاتے ہو؟۔ لو اپنا یمنی لعل اپنے پاس رکھیو مجھے اپنے شہر میں زنا کو فروغ دینے کا کوئی شوق نہیں۔ میں تمہیں بدیانتی، دروغ گوئی، جوان بی بی کو گھائل کرنے اور اس کو محبوس رکھنے اور یمنی لعل کے سرقے کے الزام میں گرفتار کرتا ہوں اور قاضی سے دست بریدگی۔۔۔‘‘

    میرا رفیق بیچ میں کود پڑا، کچھ حیل و حجت ہوئی اور صلاح یہ ٹہری کہ داروغہ دس یمنی لعلوں کے بدلے اس مہ لقاہ سے عقد کرے، کچھ ساعتیں خلوت میں گزارے، صرف بوس و کنار کرے اور پھر اگر وہ اسے بیمار دکھائی دے تو کراہت کا اظہار کرے اور ترنت طلاق دے۔ پھر اس عورت کا علاج ہو اور میرے ساتھ نکاح ہوئے۔

    اس پر دھڑکتے دل سے اتفاق ہوا اور میں نے پوشیدہ جیب میں سلے نو اور لعل اس کو دیئے اور اس سے ایک کاغذ پر طلاق لکھوائی جسے میرے دوست نے اپنی جیب میں اڑس لیا۔

    اب جب نکاح خوان نے تمام شرعی علتیں دور دیکھیں تو کتاب کھول کر نکاح کے آغاز سے پہلے اس عورت سے اس کی مرضی پوچھی۔

    یکایک صندوق زور سے ہلنے لگا اور نکاح خوان لرزہ بر اندام کتاب ہاتھ میں پکڑے پیچھے ہٹا۔ صندوق کی میخیں اس کے ہلنے کے باعث اکھڑنے لگیں اور ہم پر خوف نے غلبہ اتنا پایا کہ تلواریں سونت دور کونے میں کھڑے ہوگئے۔

    صندوق کا ہلنا بند نہ ہوا اور یکایک ایک صدائے مہیب سے اس کا اوپری حصہ ہٹا۔

    جو اپنے تئیں خیال کیا تھا، اس کے برعکس ظہور میں آیا۔

    ایک خوجہ، زنانہ لباس عروسی میں ملبوس اپنے لعلیں ہونٹ کاٹتے وہاں سے یک بیک نموردار ہوا۔ نکاح خواں اور تاجر کے چہرے پر تبسم اور داروغہ کے چہرے پر غیظ نے فروغ پایا اور تلواریں نیاموں کے اندر چلی گئیں۔ میں گو مگو کے عالم چہرے پر عرق ندامت لئے کف افسوس ملتا رہ گیا۔

    دفعتا اس ہیجڑے کے تیو رمیں تغیر آیا اور اس کے منہ میں کف بھر آیا۔ یکایک کمر لگی پنہاں ننگی تلوار سونت، مانند برق ہم پر چھپٹ پڑا۔ ایک ہی وار میں نکاح خوان اور تاجر کو دو نیم کردیا۔ دارووغہ نے یہ ماجرہ دیکھا تو یہ جا وہ جا وہاں سے بھاگ گیا۔ میں بید کی طرح کانپنے لگا، پورا بدن کاٹھ ہوگیا کہ کوئی میرا بدن کاٹے ایک بوند لہو کی نہ پاوئے۔ شعلہ بار آنکھیں، بے ترتیب سانسیں لئے لرزتے ہونٹوں کے ساتھ بڑھ کر خواجہ سرا نے میری طرف نظر کی اورڈولتا ہوا میری طرف جھکا۔

    میرے شانے پر ایک ضرب ایسی پڑی کہ اس صندوق میں گر گیا اور کچھ ہوش نہ رہا۔

    جب ہوش آیا تو کچھ ایسا لگا جیسے میں بلندی سے نیچے اتر رہا ہوں۔ کچھ کان لگا کر دھیان دیاتو کسی گھوڑے کے چلنے کی صدا سنائی دی اور ساتھ ہی اوپر سے کسی کی آواز ایسے سنی۔

    ’’اچھا ہوا اس سے شہر کی جان چھوٹی، اجی خَلق کا کوئی کیا کرے جب خُلق ہی نہ ہو۔‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے