Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سراب

MORE BYشموئل احمد

    بدرالدین جیلانی لیڈی عاطفہ حسین کی میّت سے لوٹے تو اداس تھے۔ اچانک احساس ہوا کہ موت بر حق ہے۔ ان کے ہمعصر ایک ایک کرکے گذر رہے تھے، پہلے جسٹس امام اثر کا انتقال ہوا۔ پھر احمد علی کا اور اب لیڈی عاطفہ حسین بھی دنیائے فانی سے کوچ کر گئی تھیں۔ جیلانی کو خدشہ تھا کہ پتہ نہیں خود ان کی روح کہاں پرواز کرےگی۔؟ وہ کالونی میں مرنا نہیں چا ہتے تھے۔ وہ اپنے آبائی وطن میں ایک پر سکون موت کے خواہش مند تھے، لیکن وہاں تک جانے کا راستہ معدوم تھا۔ وقت کے ساتھ راہ میں خاردار جھاڑیاں اگ آئی تھیں۔

    جیلانی ریٹائرڈ آئی۔ اے۔ اس۔ تھے کمشنر کے عہدے سے سبکدوش ہوئے سال بھر کا عرصہ ہوا تھا، بہت چاہا کہ زندگی کے باقی دن آبائی وطن میں گذاریں، لیکن میڈم جیلانی کو وہاں کا ماحول ہمیشہ دقیانوسی لگا تھا۔ اصل میں جیلانی کے والد اسکول ماسٹر تھے اور میڈم آئی اے اس گھرانے سے آتی تھیں۔ انہوں نے آئی اے اس کالونی میں ہی مکان بنوانا پسند کیا تھا۔

    جیلانی کو کالونی ہمیشہ سے منحوس لگی تھی۔ یہاں سب اپنے خول میں بند نظر آتے تھے۔ ان کو زیادہ چڑ اس بات کی تھی کہ کسی سے ملنے جاؤ تو پہلے فون کرو۔ کوئی کھل کر ملتا نہیں تھا۔ وہ بات نہیں تھی وطن والی کہ پیٹھ پر ایک دھپ لگایا۔

    ’’کیوں بےصبح سے ڈھونڈ رہا ہوں۔؟‘‘

    ’’ارے سالا ۔جیلانی ۔؟ کب آیا۔؟‘‘

    کالونی میں کون تھا جو انہیں سالا کہہ کر مخاطب کرتا اور جیلانی بھی پیٹھ پر دھب لگاتے۔؟ لوگ ہاتھ ملاتے تھے لیکن دل نہیں ملتے تھے۔ یہاں کبھی محلے پن کا احساس نہیں ہوا تھا۔ وہ جو ایک قربت ہوتی ہے محلے میں۔ ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہونے کا جذبہ۔ کالونی میں ایسا کچھ بھی محسوس نہیں ہوتا تھا۔ جیلانی کو لگتا یہاں لوگ مہاجر کی طرح زندگی گذار رہے ہیں۔

    کالونی کی بیگمات بھی جیلانی کو ایک جیسی نظر آتی تھیں۔ وہی اقلیدیسی شکل اور بیضہ نما ہونٹ۔! دن بھر سوئیٹر بنتیں اور سیکس کی باتیں کرتیں۔ انگریزی الفاظ کے تلفظ میں ان کے بیضوی ہونٹ دائرنما ہو جاتے۔

    انسانی رشتوں میں انا کی کیل جڑی ہوتی ہے۔ سب میں بھاری ہوتی ہے باپ کی انا۔! باپ کا رول اکثر ویلن کا بھی ہو تا ہے۔

    جیلانی نے نے آئی ای ایس کاامتحان پاس کیا تو برادری میں شور مچ گیا۔ خلیل کا لڑکا آئی اے ایس ہو گیا۔ باپ کا بھی سینہ پھول گیا۔ میرا بیٹا آئی اے ایس ہے۔! میرا بیٹا۔ انا کو تقویت ملی۔ ایک بیٹا اور تھا، افتخار جیلانی۔! والد محترم اس کا نام نہیں لیتے تھے۔ انا مجروح ہوتی تھی۔ افتخار ڈھنگ سے پڑھ نہیں سکا۔ پارچون کی دوکان کھول لی۔ کریلے پر نیم چڑھا کہ انصاری لڑکی سے شادی کر لی۔! برادری میں شور مچ گیا۔سید لڑکا انصاری لڑکی سے پھنسا۔ سینہ سکڑ گیا۔! لیکن زخم تو لگ ہی چکا تھا اور روح کے زخم جلدی نہیں بھرتے۔ پھر بھی مرہم جیلانی نے لگایا۔ سارے امتحان میں امتیازی درجہ حاصل کیا۔ جب آئی اے ایس کے امتحان میں بھی کامیابی ملی تو باپ کے پاؤں زمین پر نہیں پڑتے تھے۔ یہاں ماسٹر نے اپنے طالب علم کے ساتھ محنت کی تھی۔ شروع میں محسوس کر لیا کہ لڑکے میں چنگاری ہے اس کی پرداخت ہونی چاہئے۔ وہ جیلانی کو ہر وقت لے کر بیٹھے رہتے۔ بدر۔ یہ پڑھو۔ وہ پڑھو۔ اخبار کا اداریہ تو ضرور پڑھنا چاہئے۔ بدر تمہیں کرنٹ افیرز میں ماہر ہونا ہے۔ مضامین تو رٹ لو۔ لفظوں کا استعمال کرنا سیکھو اور جیلانی میں اطاعت کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ وہ ہر حکم بجا لاتے۔ پھر بھی ماسٹر خلیل کی ڈانٹ پڑتی تھی۔ ان کا بید مشہور تھا۔ تلفظ بگڑا نہیں کہ بید لہرایا۔ سڑاک۔ سڑاک ۔! کمینہ۔ جاہل مطلق۔ تلفّظ بگاڑتا ہے۔؟

    جو ٹک جاتا وہ کندن بن کر نکلتا۔ کمبخت افتخار ہی ہونق نکلا۔ پڑھتے وقت اونگھنے لگتا۔ بید لگاؤ تو چیخنے لگتا۔ بیہودہ پھنسا بھی تو انصاری گھرانے میں۔!

    باپ اکثر بھول جاتے ہیں کہ بیٹوں کے پہلو میں بھی دل ہوتا ہے۔ باپ کی انا دل کی دھڑکنوں پر قابض ہوتی ہے۔ جیلانی کے پہلو میں بھی دل تھا۔ جب دسویں جماعت پاس کی تو اس میں حسن بانو کا دل دھڑکنے لگا۔ سرخ سرخ ہونٹ۔ گلابی رخسار۔ جھکی جھکی سی آنکھیں۔!

    استانی کی اس لڑکی کو جیلانی چھپ چھپ کر دیکھتے۔ چوری حیات نے پکڑ ی۔ حیات کلو مولوی کا لڑکا تھا۔ اس نے ملنے کے اوپائے سجھائے۔

    ’’عید میں ملو۔.!‘‘

    ’’عید میں۔؟‘‘

    ’’ہاں۔! اور رومال مانگنا۔!‘‘

    حسن بانو نے عطر میں ڈوبا ہوا رومال دیا۔ رومال کے کونے میں نام کے دو حروف ریشم سے کشیدہ تھے۔ بی اور جے۔

    جیلانی نے غور سے دیکھا تو درمیان میں ایچ بھی نظر آیا۔ بی اور جے کے ساتھ ایچ۔یعنی حسن بانو! جیلانی کو لگا کوئی پھول میں لپٹی انگلیوں سے ان کے لب و رخسار چھو رہا ہے۔!

    ملاقاتیں ہونے لگیں۔ دونوں دھیمی دھیمی سی آگ میں سلگنے لگے۔ آنچ وقت کے ساتھ تیز ہونے لگی۔ حسن بانو کے بغیر جیلانی کے لیے زندگی کا تصور بھی محال تھا۔ اس سے باتیں کرتے ہوئے انہیں لگتا کہ باہر برف باری کا سلسلہ ہے اور وہ آتش دان کے قریب بند کمرے میں بیٹھے ہیں۔ حیات اس محبت کا اکیلا راز دار تھا۔ یہاں تک کہ جیلانی آئی۔ اے۔ اس۔ بھی ہو گئے لیکن زبان کھلی نہیں ۔مگر ہر راز کے مقدر میں ہے افشا ہونا۔!

    رحیمن بوا نے دونوں کو حیات کے گھر ایک ہی پلیٹ میں کھاتے ہوئے دیکھا۔

    ہر طرف شور۔

    ’’ماسٹر کا لڑکا استانی کی لڑکی سے پھنسا۔‘‘

    ایک پھنس چکا تھا۔ دوسرے کی گنجائش نہیں تھی۔ وہ تو خاک تھا۔ خاک میں ملا۔ یہ تو آفتاب تھا۔ بھلا دو کوڑی کی استانی اور جھولی میں آفتاب و مہتاب۔ ویلن غصّے سے پاگل ہو گیا۔ ہسٹریائی انداز میں گلا پھاڑ کر چیخا۔

    حرامزادی، چھنال میرے بیٹے کو پھانستی ہے۔ آ مجھے پھانس۔ کر مجھ سے عشق!!

    بید لہرایا۔

    ’’خبردار بدر جو ادھر کا رخ کیا۔ خبردار۔!‘‘

    جیلانی بیمار ہو گئے۔ حسن بانو بد نام ہو گئی۔ اس کا رشتہ جہاں سے بھی آتا منسوخ ہو جاتا۔ آخر جبریہ اسکول میں استانی ہو گئی۔ اطاعت لکیر پر چلاتی ہے اپنی راہ خود نہیں بناتی۔ جیلانی آئی اے ایس تھے آئی اے ایس کی جھولی میں گرے۔ کمشنر رحیم صمدانی نے ’’آمڈاری ہاؤس‘‘ میں اپنی لڑکی کا رشتہ بھیجا۔

    ماسٹر خلیل نے اپنے کھپریل مکان کا نام آمڈاری ہاؤس رکھا تھا۔ یہ آبائی مکان تھا۔ کسی طرح دالان پختہ کرا لیا تھا اور اس کی پیشانی پر جلی حرفوں میں کھدوایا۔ ’’آمڈاری ہاؤس‘‘ اس سے مفلسی ظاہر نہیں ہوتی تھی، نہ ہی مکان کی اصلیت کا پتہ چلتا تھا، بلکہ رعب ٹپکتا تھا۔

    ایسا لگتا تھا کوئی انگریز اپنی حویلی چھوڑ کر انگلستان لوٹ گیا ہو۔!

    اصل میں وہ انگریزی کے استاد تھے۔ اردو کے ہوتے تو مکان کا امیر نشاں یا بیت الفردوس قسم کانام رکھ سکتے تھے، لیکن انگریزی کے اسکول ماسٹر کی الگ سائیکی ہوتی ہے۔ وہ اپنا تشخص بورژوا طبقے سے قائم کرنا چاہتا ہے۔ رحیم صمدانی نے جب رشتہ بھیجا تو ماسٹر خلیل آمڈاری ہاوس کے دالان میں بیٹھے چروٹ پی رہے تھے۔

    آئی اے ایس سمدھی۔؟ سینہ پھول کر کپّہ ہو گیا۔

    جیلانی جس کمرے میں رہتے تھے وہ کھپر پوش تھا اس میں چوہے دوڑتے تھے۔ شادی کے موقع پر جب مکان کی سفیدی ہونے لگی تو ماسٹر نے کمرے میں کپڑے کی سیلنگ لگوا دی۔

    دلہن اسی کمرے میں اتاری گئی۔!

    وہی اقلیدیسی شکل اور بیضہ نما ہونٹ۔! اس کے بال بوائے کٹ تھے۔ وہ سرخ جوڑے میں ملبوس زیور سے لدی تھی۔ جیلانی بغل میں خاموش بیٹھے تھے۔ ان کو محسوس ہو رہا تھا وہ ایسے کمرے میں بند ہیں جہاں دریچوں میں ان گنت سوراخ ہیں۔ باہر برف باری کا سلسلہ ہے اور آتش دان سرد ہے۔؟ اچانک دلہن نے نتھنے پھلائے اور اس کے ہونٹ دائرہ نما ہو گئے۔

    ’’اٹ اسمیلس۔!‘‘

    جیلانی نے ادھر ادھر دیکھا۔ کس چیز کی بو۔؟

    ’’اٹ اسمیل لائک رَیٹ۔۔‘‘

    ’’رَیٹ۔؟‘‘

    ’’دھبڑ۔ دھبڑ۔ دھبڑ۔!‘‘ کمبخت چوہوں کو بھی اسی وقت دوڑنا تھا۔

    ’’مائی گڈ نیس۔‘‘ دلہن نے چونک کر سیلنگ کی طرف دیکھا۔

    ’’یہ کمرہ ہے یا تمبو۔؟‘‘

    جیلانی ضلع مجسٹریٹ ہو گئے۔ دلہن بدا ہوئی تو میڈم جیلانی بن گئی۔ لیکن مہک نے پیچھا نہیں چھوڑا۔ جیلانی کسی تقریب میں آمڈاری ہاؤس آنا چاہتے تو میڈم نتھنے سکوڑتیں۔

    ’’ہاری بل۔! ویر از اسمیل ان ایوری کارنر آف دی ہاؤس۔!‘‘

    اصل میں مسلمانوں کے بعض کھپریل مکانوں میں بکریاں بھی ہوتی ہیں۔ آمڈاری ہاؤس میں بکریا بھی تھیں اور مرغیاں بھی۔ کہیں بھناڑی۔کہیں پیشاب۔ کہیں لاہی۔؟ ایک بار بکری نے میڈم کی ٹانگوں کے قریب بھناڑی کر دی۔ پائینچوں پر پیشاب کے چھینٹے پڑ گئے۔ میڈم پاؤں پٹختی ہوئی تمبو میں گھسیں تو دوسرے دن باہر نکلیں۔ گھر بھر شرمندہ تھا۔ خاص کر ماسٹر خلیل۔ اس دن بکری کو باندھ کر رکھا گیا، لیکن مرغیوں کو باندھنا مشکل تھا۔ وہ ڈربے سے نکلتیں تو کٹ کٹ کٹاس کرتیں اور لاہی بکھیرتیں۔ میڈم کو حیرت تھی کہ کس قدر کلچرل گیپ ہے۔؟ یہاں فرش پر پونچھا تک نہیں لگاتے۔! اور جیلانی حسرت سے سوچتے تھے کہ اگر حسن بانو ہوتی۔؟ حسن بانو تو ہونٹوں کو دائرہ نہیں بناتی۔ وہ اسے اپنا گھر سمجھتی۔ لاہی پر راکھ ڈالتی اور بٹور کر صاف کرتی۔!

    کلچرل گیپ کا احساس اس وقت جاتا رہتا جب فضا میں بارود کی مہک ہوتی۔ پناہ تو کھپریل مکانوں میں ہی ملتی تھی ایک بار میڈم کو بھی اپنے رشتے داروں کے ساتھ عالم گنج شفٹ کرنا پڑا تھا۔ ان دنوں جیلانی ٹریننگ کے لئے بڑودہ گئے ہوئے تھے۔ میڈم اپنے میکے میں تھیں۔ شہر میں اڈوانی کا رتھ گھوم رہا تھا اور فضاؤں میں سانپ اڑ رہے تھے۔ مسلم فیملی محفوظ جگہوں پر شفٹ کر رہی تھی۔ رحیم صمدانی تب ریٹائر کر چکے تھے۔ سب کے ساتھ عالم گنج چلے آئے۔

    ’’کرایہ پانچ ہزار۔!‘‘

    ’’پانچ ہزار۔؟ اس کھپریل کا کرایہ پانچ ہزار۔؟‘‘

    ’’حضور یہی تو موقع ہے، جب آپ ہمارے قریب آتے ہیں۔‘‘ مالک مکان مسکرایا۔

    ’’دس از ایکسپلائٹیشن۔‘‘

    لیکن کیا کرتے۔؟ جان بچانی تھی۔ پندرہ دنوں تک پیشاب سونگھنا پڑا۔ فضا سازگار ہوئی تو کالونی لوٹے۔

    جیلانی افسر تھے لیکن میڈم افسری کرتی تھیں ۔میڈم نے آنکھیں ہی آئی۔ اے۔ اس۔ گھرانے میں کھولی تھیں۔ ان کی نظروں میں جیلانی ہمیشہ اسکول ماسٹر کے بیٹے رہے۔ بات بات پر ان کی ترجنی لہراتی۔ نو۔!۔نیور۔! دس از ناٹ دی وے۔!

    کبھی کبھی تو انگلی کی نوک جیلانی کی پیشانی پر سیدھی عمود سا بناتی۔ دس از ناٹ فیئر مسٹر جیلانی۔ڈونٹ ڈو لائک دس۔! جیلانی کی نگاہوں میں ماسٹر خلیل کا بید لہراتا۔ ان کو محسوس ہوتا جیسے تلفّظ بگڑ رہا ہے۔ وہ اکثر کہا کرتیں۔ طور طریقہ کہاں سے آئےگا۔؟ یہ خاندانی ہوتا ہے۔ میڈم کو کوفت اس وقت ہوتی جب محلے سے کوئی ملنے چلا آتا۔ ایک بار حیات کو جیلانی نے بیڈ روم میں بیٹھا دیا۔ میڈم اس وقت تو خاموش رہیں لیکن حیات کے جانے پر انگلی عمود بن گئی۔

    ’’آئندہ محلے والوں کو بیڈ روم میں نہیں بٹھائیےگا، طور طریقہ سیکھئے۔ آپ میں او۔ ایل۔کیو تو ہے نہیں۔‘‘

    ’’او۔ ایل۔ کیو۔‘‘ جیلانی کو ماسٹر خلیل یاد آتے۔ وہ کہا کرتے تھے۔’’ بدر۔ او۔ ایل۔ کیو۔ پیدا کرو۔ آفیسر لائک کوالیٹی۔‘‘

    حیات پھر بنگلے پر نہیں آیا۔ وہ ان سے دفتر میں مل کر چلا جاتا۔ ایک بار جیلانی نے اس کو سرکٹ ہاؤس میں ٹھیرا دیا اس کی خبر میڈم کو ہو گئی۔ کمبخت ڈرائیور جاسوس نکلا۔ جیلانی دفتر سے لوٹے تو میڈم نے نشتر لگایا۔

    ’’آپ آئی۔ اے۔ اس کیا ہوئے کہ گنگوا تیلی کے دن بھی پھر گئے۔‘‘

    جیلانی خاموش رہے تو میڈم نے کندھے اچکائے۔

    ’’ربش۔‘‘

    جیلانی چپ چاپ کمرے میں آکر لیٹ گئے اور آنکھیں بند کر لیں۔ اگر حسن بانو ہوتی تو۔؟

    ان کو ایسے ہی موقع پر حسن بانو یاد آتی تھی اور دل درد کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبنے لگتا تھا۔ ایک ایک بات یادآتی۔ اس کا شرمانا۔ اس کا مسکرانا۔ اس کا ہنسنا۔! جیلانی کبھی بوسہ لینے کی کوشش کرتے تو دونوں ہاتھوں سے چہرہ چھپا لیتی۔ چہرے سے اس کا ہاتھ الگ کرنا چاہتے تو منتیں کرتی۔

    ’’نہیں۔ اللہ قسم نہیں ۔!‘‘

    ’’کیوں۔؟‘‘

    ’’گناہ ہے۔!‘‘

    ’’گناہ وناہ کچھ نہیں۔‘‘

    ’’کیسی باتیں کرتے ہیں؟‘‘

    ’’یہ پیار ہے۔‘‘

    ’’شادی کے بعد۔‘‘

    ’’نہیں۔ ابھی۔!‘‘

    ’’پلیز جیلانی۔ پلیز ۔!‘‘

    جیلانی پگھل جاتے۔ پلیز کا لفظ کانوں میں رس گھولتا۔!

    اور الفاظ پگھل کر سیسہ بھی بنتے ہیں۔

    ’’حرام زادی۔ چھنال۔! میرے بیٹے کو۔؟‘‘

    جیلانی خود کو کوستے تھے۔ کیوں آئی اے ایس ہوئے۔؟‘‘ پارچون کی دکان کھولی ہوتی۔!

    آہستہ آہستہ دوستوں کا آنا کم ہونے لگا تھا۔ جیلانی کا بہت دل چاہتا کہ چھٹیوں میں وطن جائیں اور سب سے ملیں۔ وہاں کی گلیاں اور چوبارے وہ کیسے بھول جاتے جہاں بچپن گذرا تھا۔ ہر وقت نگاہوں میں منظر گھومتا۔ وہ میدان میں بیٹھ کر شطرنج کھیلنا۔ الفت میاں کے پکوڑے۔ محرم کا میلہ۔مقیم کی قوالی۔ رومانس کے قصے۔ وکیل صاحب کا اپنی نوکرانی سے عشق اور گلی کے نکڑ پر وہ چائے کی دکان جہاں سے حسن بانو کا گھر نظر آتا تھا۔ جیلانی کہیں نظر نہیں آتے تو چائے کی دکان میں ضرور مل جاتے۔

    وہ سب کے پیارے تھے۔ دوستوں نے ان کا نام جینئس رکھا تھا۔

    ایک بار شاکر ان کو ڈھونڈتا ہوا آیا۔

    ’’یار جینیئس! محلے کی عزت کا سوال ہے۔‘‘

    ’’کیا ہوا۔؟‘‘

    ’’سیسپلین ڈیفنس کیا ہوتا ہے؟‘‘

    ’’ایک طرح کی قلعہ بندی جو شطرنج میں ہوتی ہے۔‘‘

    ’’سالا ہانک رہا ہے۔‘‘

    ’’کون؟‘‘

    ’’میدان میں شطرنج کھیل رہا ہے۔ اس نے حیات کو مات دے دی۔‘‘

    ’’ہے کون؟‘‘

    ’’باہر سے آیا ہے یار۔ عباس بھائی کا سسرالی ہے۔‘‘

    ’’چلو دیکھتے ہیں۔‘‘

    ’’دیکھو جینئس ہارےگا نہیں۔‘‘

    ’’کیا فرق پڑتا ہے۔ کھیل میں تو ہار جیت ہوتی رہتی ہے۔‘‘

    ’’نہیں ایک دم نہیں۔ سالے کو ہرانا ضروری ہے ۔‘‘

    ’’اچھا تو چلو۔‘‘

    ’’ہیرو بن رہا ہے۔ بات بات پر انگریزی جھاڑ رہا ہے ۔میں نے کہا اپنے جیلانی سے کھیل کر دکھاؤ۔؟‘‘

    وہ واقعی ہیرو لگ رہا تھا۔ سفید سفاری میں ملبوس۔ پاؤں میں چمکتے ہوئے جوتے۔ سیاہ چشمہ اور اور گلے میں گولڈن چین۔ وہ روانی سے انگریزی بول رہا تھا۔ جیلانی نے محسوس کیا کہ اس کی انگریزی سب کو گراں گذر رہی ہے۔ کھیل شروع ہوا تو ہیرو نے سگریٹ سلگائی۔ وہ ہر چال پر کش لگاتا، کوئی چال اچھی پڑ جاتی تو زور زور سے سر ہلاتا اور مصرع گنگناتا۔ ’’قیامت آئی یوں ۔قیامت آئی یوں۔!‘‘ جیلانی کے دل کی دھڑکن بڑھ گئی۔ ہار گئے تو بے عزتی ہو جائےگی۔ وہ سنبھل سنبھل کر کھیل رہے تھے۔ آخر بھاری پڑگئے اور مات دے دی۔ دوستوں نے زور دار نعرہ لگایا۔ جینئس زندہ باد۔زندہ باد۔! ہیرو جب جانے لگا تو شاکر بولا:’’حضور۔! پینٹ میں پیچھے سوراخ ہوگیا ہے۔ گھر پہنچ کر رفو کروا لیجئےگا۔

    حیات نے مصرع مکمل کیا۔

    ’’قیامت آئی یوں۔پینٹ بولا چوں۔‘‘

    زوردار قہقہہ پڑا۔ جیلانی بھی مسکرائے بغیر نہیں رہ سکے۔

    جیلانی آئی اے ایس ہو گئے لیکن محلے میں اسی طرح گھومتے۔ میدان میں شطرنج کھیلتے اور نکڑ کی دکان پر چائے پیتے۔ الفت ان سے پیسے نہیں لیتا تھا۔ وہ پیسہ دینا چاہتے تو الفت بڑے فخر سے کہتا:

    ’’تمہارے لیے چائے فری۔ تم ہماری شان ہو۔ محلے کی جان ہو۔!‘‘

    محلے کی جان کالونی میں آکر بےجان ہو گئی تھی۔

    ماسٹر خلیل بھی شروع شروع میں بیٹے کے یہاں جاتے تھے، لیکن آہستہ آہستہ ان کا بھی جانا کم ہو گیا۔ اصل میں وہ لنگی پہن کر ڈرائنگ روم بیٹھ جاتے اور چروٹ پیتے۔ لنگی اور چروٹ میں فاصلہ ہے جو ماسٹر خلیل طئ نہیں کر سکتے تھے۔ لنگی ان کی اوقات تھی اور چروٹ ان کی وہ پہچان تھی جو وہ نہیں تھے۔ میڈم نے پہلے دبی زبان میں ٹوکا، لیکن ایک دن کھل کر اعتراض کر بیٹھیں۔

    ’’آپ ڈرائنگ روم میں لنگی پہن کر کیوں چلے آتے ہیں۔؟‘‘ میرے ملاقاتی آخر کیا سوچیں گے۔؟ میرا ایک اسٹیٹس ہے۔‘‘

    جیلانی اس وقت موجود تھے۔ انہوں نے ایک لمحے کے لیے والد محترم کی آنکھوں میں جھانکا۔ جیلانی کی آنکھیں صاف کہہ رہی تھیں۔’’بھگتو۔!‘‘

    ماسٹر خلیل اٹھ گئے۔ جیلانی بھی اپنے کمرے میں آکر چپ چاپ لیٹ گئے اور آنکھیں بند کر لیں۔

    ریٹائرمنٹ کے بعد جیلانی تنہا ہو گئے۔ کالونی میں کہیں آنا جانا کم تھا۔ ایک ہی بیٹا تھا جو امریکہ میں بس گیا تھا۔ میڈم مہیلا آیوگ کی ممبر تھیں۔ ان کی اپنی مصروفیات تھیں۔ جیلانی کے والد فوت کرچکے تھے۔ آمڈاری ہاؤس پر افتخار کا قبضہ تھا۔

    میڈم نے کالونی میں اپنی کوٹھی بنا لی تھی۔ جیلانی کی نظروں میں کوٹھی کی کوئی وقعت نہیں تھی۔ بیٹا امریکہ سے واپس آنا نہیں چاہتا تھا۔ اس کے بعد آخر رہنے والا کون تھا؟

    مذہب بڑھاپے کا لباس ہے۔ جیلانی کا زیادہ وقت مذہبیات کے مطالعہ میں گذرتا تھا۔ امام غزالی کے بارے میں پڑھا کہ ان کو موت کی آگاہی ہو گئی تھی۔ امام نے اسی وقت وضو کیا اور انّا للہ پڑھتے ہوئے چادر اوڑھ کر سو گئے۔ جیلانی بہت متاثر ہوئے، بے ساختہ دل سے دعا نکلی، یا معبود۔! مجھے بھی ایسی موت دے۔! اپنے وطن لے چل۔۔۔!

    اصل میں کالونی میں مرنے کے خیال سے ہی ان کو وحشت ہوتی تھی۔ یہاں مرنے والوں کا حشر انہوں نے دیکھا تھا۔ تجہیز و تکفین کے لیے کرایے کے آدمی آتے تھے۔ لیڈی عاطفہ حسین کو کوئی غسل دینے والا نہیں تھا۔ کسی طرح پیسے دے کر عالم گنج سے عورتیں منگوائی گئی تھیں۔ جسٹس امام کا لڑکا تو گورکن سے الجھ گیا تھا۔ قبر کھودنے کے ہزار روپے مانگتا تھا۔ آخر سودا ساڑھے سات سو پر طے ہوا ۔جیلانی کو اس بات سے صدمہ پہنچا کہ کالونی میں آدمی سکون سے دفن بھی نہیں ہو سکتا۔ یہ بات وطن میں نہیں تھی۔ محلے میں کسی کے گھر غمی ہو جاتی تو کرایے کے آدمیوں کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ سبھی جٹ جاتے۔ کوئی کفن سیتا، کوئی غسل دیتا۔ صرف گورکن دو سو روپے لیتا تھا۔ قبرستان بھی نزدیک تھا۔ جنازہ کندھوں پر جاتا تھا۔ یہاں تو میت ٹرک پر ڈھوئی جاتی تھی۔ قبرستان ایئرپورٹ کے قریب تھا۔ وہاں تک کندھا کون دیتا۔؟ سبھی اپنی اپنی گاڑٰیوں سے سیدھا قبرستان پہنچ جاتے اور سیاسی گفتگو کرتے۔ جیلانی کو کوفت ہوتی۔ اگر برسات میں موت ہو گئی۔؟ جیلانی اس خیال سے کانپ اٹھتے تھے۔ برسات میں پورا شہر تالاب بن جاتا۔ جھم جھم بارش میں قبرستان تک پہنچنا دشوار ہوتا۔ گاڑی کہیں نہ کہیں گڈھے میں پھنس جاتی اور ٹرک بھی کون لاتا۔؟ اور میت کو غسل دینے والے لوگ۔؟ زیادہ الجھن اس بات کی تھی۔ اگر کوئی نہیں ملا تو غسل کون دےگا۔؟ کیا پتہ میڈم مول تول کریں اور میّت پڑی رہے۔؟

    ایک دن نماز میں دیر تک سجدے میں پڑے رہے۔ گڑ گڑا کر دعا مانگی:

    ’’یا معبود۔! کوئی صورت نکال۔ وطن لے چل ۔یا میرے مولا۔یا پروردگار۔!‘‘

    ایک بار آمڈی ہاؤس جانے کا موقع ملا۔ افتخار کی لڑکی کی شادی تھی۔ وہ خود بلانے آیا تھا۔ میڈم نے گھٹنے میں درد کا بہانہ بنا یا لیکن جیلانی نے شادی میں شرکت کی۔ محلے میں بہت کچھ بدل گیا تھا۔ میدان میں جہاں شطرنج کھیلتے تھے وہا ں سرکاری پمپ ہاؤس بن گیا تھا۔ کھپریل مکان پختہ عمارتوں میں بدل گئے تھے۔ الفت کی دکان پر اس کا لڑکا بیٹھتا تھا۔ وہاں اب بریانی بھی بنتی تھی۔ افتخار کی دکان بھی اب ترقی کر گئی تھی۔ اس کا لڑکا آمڈاری ہاؤس میں سائبر کیفے چلا رہا تھا۔ حیات کو شکایت تھی کہ محلے میں اب وہ بات نہیں تھی۔ باہر کے لوگ آکر بس گئے تھے لیکن حق درزی زندہ تھے اور اسی طرح کفن سیتے تھے اور روتے تھے کہ سب کا کفن سینے کے لیے ایک وہی زندہ ہیں۔ حسن بانو کا مکان جوں کا توں تھا۔ وہ ابھی تک جبریہ اسکول میں پڑھا رہی تھی ؎۔ حیات نے بتایا کہ فنڈ کی کمی کی وجہ سے سال بھر سے اسے تنخواہ نہیں ملی ؎۔ محلے کے بچوں کو قرآن پڑھا کر گذارہ کررہی تھی۔ جیلانی نے پوچھا تھا کہ گھر میں اس کے ساتھ اور کون ہے؟

    ’’اس کی بیوہ بھانجی اپنے دو بچوں کے ساتھ رہتی ہے۔‘‘ حیات نے کہا تھا۔

    اور جیلانی نے حسن بانو کو دیکھا۔ وہ حیات کے ساتھ الفت کی دکان سے چائے پی کر نکلے تھے۔ حسن بانو گھر کی دہلیز پر لاٹھی ٹیک کر کھڑی تھی۔ سارے بال سفید ہو گئے تھے۔ ایک پل کے لیے ان کی نگاہیں ملیں۔ جیلانی ٹھٹھک گئے۔ حسن بانو بھی چونک گئی۔ اس کی آنکھوں میں چمک پیدا ہوئی اور چہرے پر حجاب کا نور چھا گیا۔! جیلانی کے دل میں ہوک سی اٹھی۔ انہوں نے حیات کا ہاتھ تھام لیا۔ حسن بانو اندر چلی گئی۔

    ’’پلیز جیلانی۔ پلیز۔!‘‘

    ’’میں اس کا گناہگار ہوں۔‘‘ جیلانی کمزور لہجے میں بولے۔

    حیات خاموش رہا۔

    ’’مجھے اس کی سزا بھی مل گئی۔ میں جلا وطن ہو گیا۔‘‘

    ’’جانتے ہو تمہارا قصور کیا ہے ۔؟ ‘‘حیات نے پوچھا۔

    ’’کیا۔؟‘‘

    ’’اطاعت گذاری۔!‘‘

    جیلانی دل پر بوجھ لیے اسی دن لوٹ گئے۔

    دوسرے دن صبح صبح حیات کا فون آیا۔

    ’’حسن بانو گذر گئی۔!‘‘

    ’’گذر گئی۔؟‘‘ جیلانی تقریباً چیخ پڑے۔

    ’’ایسا کیسے ہوا۔؟‘‘

    ’’اس دن جب تمہارا دیدار ہوا۔ بستر پر لیٹی۔ پھر نہیں اٹھی۔‘‘

    جیلانی پر سکتہ ساچھا گیا ۔

    ’’وہ جیسے تمہاری ہی راہ تک رہی تھی۔‘‘

    جیلانی نے فون رکھ دیا۔

    ’’کس کا فون تھا؟‘‘میڈم نے پوچھا۔

    جیلانی خاموش رہے، آنسوؤں کو ضبط کرنے کی کوشش کی۔

    ’’مائی فٹ!‘‘ میڈم منھ بچکاتی ہوئی کمرے سے نکل گئیں۔

    جیلانی نے تکیے کو سینے سے دبایا اور آنکھیں بند کرلیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے