شوکاز نوٹس
دلچسپ معلومات
"کراچی کے ایک دفتر میں اس وقت ایک عجیب صورتحال پیدا ہوجاتی ہے جب ایک سفارشی اور اتنہائی ناہل آدمی تعینات کیا جاتا ہے اور پھر۔۔"
ہمارے بنس باغ والے دفتر میں تین آدمی ایسے ہیں جن میں دو کا نام میں اس افسانے صیغہ راز میں رکھوں گا لیکن سب کے بارے میں مجموعی طور پر البتہ یہ ضرور بتانا چاہوں گا کہ وہ سب کام چور ہیں۔ جی ہاں کام چور ہیں۔ مستقل لیٹ آتے ہیں اور ہمیشہ چھٹی کے ٹائم سے تقریبا دوگھنٹے پہلے گھر چلے جاتے ہیں۔ جب ان میں ایک سے پوچھا گیا کہ بھائی یہ کیا وطیرہ ہے تو فرمانے لگے
اتنی تنخواہ میں تو صرف اتنا ہی ہو سکتا ہے بھائی
میں خواہ مخواہ میں کسی کا برا نہیں چاہتا اس لئے میں نےیہ معاملہ تین مہینے تک دبائے رکھا اور اپنی دانست میں یہ کہہ کر ان کو ڈھیل دی کہ شاید کوئی پیچدہ قسم کے گھریلو مسائل ہوں لیکن جب ان کے اس عمل کے تواتر اور تقاطر میں کوئی فرق نہ آیا تو میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگا۔ مجبورا مجھے مشہدی صاحب کو بتانا پڑا۔
کیا کریں ان کا ؟ اس ہٹ دھرمی کا کیا علاج ہو؟ اور آپ یہ بھی بتا رہے ہیں تین ہیں وہ
جی سر تین ہیں ۔۔سر میرا خیال ہے ان کو شوکاز نوٹس بھجوا دیتے ہیں
محترم رضاحسن آفندی صاحب آپ بھی کمال کرتے ہیں ویسے۔ یعنی آپ عابد علی صاحب کو بھی شو کازنوٹس دیں گے؟
سر کوئ چارہ ہی نہیں ۔ جس پوسٹ پر بٹھا کر انہیں چارج دیا گیا ہے ان کے اندر قابلیت ہی نہیں۔۔ وہ نا اہل ہیں ۔۔قابلیت کو تو چھوڑیں انہیں تو ادراک ہی نہیں کہ ان کے جاب کی نوعیت کیا ہے۔۔
سرکاری کام میں غفلت کر رہے ہیں وہ۔۔حرام کھا رہے ہیں وہ۔۔ آپ بتائیں میں اور کیا کروں؟
دیکھیں آفندی صاحب عابد علی صاحب کے سر پر کسی کا دست شفقت ہےاور ان کی نوکری سے یوں سمجھیں ایک طرح سے ہم سب کی نوکریاں وابستہ ہیں۔ آپ ایسا کیوں نہیں کرتے کہ ان کی خطاوں سے درگذر کریں۔ ۔ ان کو ایک ہفتہ اور دیں شاید اس حیلے سے کچھ بہتری آئے۔۔ دو تین دن تو آدمی ویسے بھی لیٹ ہو ہی جاتا ہے۔۔ اس کے لئے بھی اتنی شدت ضروری ہے؟ یا یہ بھی ممکن نہیں آپ کے لئے؟
در گذر ہی کر رہا ہوں سر۔۔ پچھلے تین مہینے سے
تین مہینے سے؟ ہیں ؟ تو کیا آ پ مجھے یہ بتا نا چاہتے ہیں کہ بہتری کی امید بالکل مفقود ہے؟۔ ہنہ ۔۔ پھر بھی کوئی اور طریقہ سوچیں، شوکاز والے طریقے میں شدت ہے۔
یہ باتیں میرے اور مشہدی صاحب کے بیچ ہوئیں نتیجتامیں مخمصے میں پڑ گیا۔
مسئلہ ایسے شروع ہوا کہ ہمارے دفتر میں ایک آدمی تعینات ہوا یا یوں کہیں کہ انتہائی بے قائدگی سے تعینات کیا گیا۔ موصوف کےنہ تو تعلمی اسناد پورے تھے اور نہ ہی وہ اس منصب کے اہل تھے لیکن کسی اثر رسوخ والے کےقریبی حلقہ ارباب میں تھے۔ ان کے لیٹ آنے اور وقت سے پہلے جانے کی روداد میں آپ کو سنا چکا ہوں لیکن یہ بھی بتا چلوں کے ان کے دیکھا دیکھی دو اور بھی صاحبان بھی ان کی تقلید میں اسی روش پر چل پڑے۔
اب مشہدی صاحب کی اس تنبیہ سے یہ مسئلہ پیدا ہوا کہ میں کوئی ایسا کام نہیں کرسکتا تھا جس سے عابد علی صاحب ناراض ہوجائیں۔میرا دل نہ مانا ۔۔ مجھے یہ ایک طرح سے خیانت سی لگی۔۔ اس مسئلے کا حل بھی تو کوئی نہیں تھا سو طوعا کرہا میں نے شوکاز نوٹس والا خیال واپس لے لیا اور اس شام منیر صاحب سے ملا جو میرے ہی دفتر میں کام کرتے ہیں ۔
تو مسئلہ یہ ہے کہ اسے نہ صرف کام پر رکھنا ہے بلکہ اس کا دل بھی رکھنا ہے۔ ہنہ۔
پھر جیسے یکایک چونک پڑے
آپ چشم پوشی سے کام نہیں لے سکتے؟ اس میں کیا دقت ہے
ہنہ۔۔ کتنی چشم پوشی سے کام لوں۔۔ تین مہینے ہوگئے ہیں ؟ تین!
میرا مشورہ مانیں آپ ایسا کریں ان کا کام باقی لوگوں میں برابر بانٹ دیا کریں۔ آپ سومرو صاحب اور نوید صاحب کو ان کا کام تھما دیں ۔ کام بھی ہوجایا کرے گا اور وہ آفس بھی آتا جاتا جاتا رہے۔۔ سانپ مرا نہ مرا لاٹھی ضرور بچ گئی
نہیں نہیں منیر صاحب یہ کام مشکل ہو جائے گا، وہ دونوں پہلے سے اپنے کام دیکھ رہے ہیں اور میں کہوں تو کر تو وہ دیں گے لیکن یہ ٹھیک بات نہیں ہے۔ سومرو صاحب کی بیگم نرس ہے اور نائٹ شفٹ کرتی ہیں۔ انہیں اپنی فالج زدہ والدہ کی خبر گیری کے لئے بروقت پہنچنا پڑتا ہے اور اگر میں ان کا کام ذیادہ کردوں تو شاید انہیں رکنا پڑ جائے۔۔ میں یہ نہیں چاہتا۔۔ ذیادتی ہوجائے گی
یہ بات یہیں ختم ہوگئی لیکن یکایک مجھے خیال آیا کہ اور دفتروں میں بھی تو ایسے لوگ ہونگیں۔ وہ بھلا کیا کرتے ہیں ان کا؟َ
یہ اچھوتا خیال آیا اور میں نےمحکمہ تعلیم میں اپنے بردار نسبتی کا نمبر ملایا
ہاں رضا بھائی یہاں بھی بالکل ایسے لوگ ہیں جن کو تعلیم کی فراہمی یا اس سے جڑے کسی بھی کانسپٹ
سے دور کا بھی واسطہ نہیں ۔۔ سفارشی لوگ ہیں۔۔ علاج کے طور پر ہم انہیں بے تحاشہ چھٹیاں دیتے ہیں ، انہیں ایسے کام دیتے ہیں جن کا تعلیم کی فراہمی سے دور کا تعلق بھی نہیں
مثلا کیسے کام؟کیا آپ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ وہ مفت کی روٹیاں توڑتے ہیں؟
ہنہ ۔۔مفت کی تو خیر نہیں ۔ کام کرتے ہیں ۔۔جیسے ان کو کہہ دیا اخبار کی سرخیاں کاٹ کر کاغذ پر لگا دیں، ریلوے سٹیشن فون کر کے پوچھ لیں کہ شام کی گاڑی لیٹ تو نہیں۔۔بالکل اس قبیل کے کام۔۔ہلکے لیکن شمار میں بہرحال کام؟
شام کی گاڑی والی آپ نے بھلی کہی ویسے۔ ایک سترہ گریڈ آفسر سے آپ یہ کام لے رہے ہیں ۔۔اپریٹر کا کام ؟۔ حیرت کی بات ہے!
رضا بھائی وہ اپریٹر ہی تو ہیں لیکن بس ان پر کوئی مہربان ہوگیا ہے جو ان کو افسر بنا گیا ہے۔۔میں ان کی جگہ ہوتا تو شرم کے مارے خود ہی یہ کام چھوڑ دیتا
مجھے ان یہ بات نہیں بھائی اور میں نے اس مسئلے پر از سر نو سوچا۔
یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ میں انہیں اپنی ماتحتی سے آزاد کروں اور انہیں چانڈیو صاحب یا صدیقی صاحب کے حوالے کروں، دوسرے سیکشن میں۔۔میں نے سوچا یہ بہتر حل ہے۔
اس ترکیب میں کراہت ضرور تھی لیکن اس سے میرے سیکشن میں نظم و ضبط دوبارہ آجاتاالبتہ محکمے کو اس کا فائدہ صفر ہوتا۔ یہ بات درست ہے کہ میرے سیشنو میں عابد علی صاحب ہوں یا نہ ہوں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا لیکن چانڈیو صاحب مفت میں مسئلے میں آجاتے۔۔ اور صدیقی صاحب ۔۔ وہ ایک انتہائی نرم دل آدمی تھے اور مجھے پورا یقین تھا وہ ان کا کام خود کرنا شروع کر دیتے۔ میں نے یہ خیال بھی یکسر ترک کر دیا۔
دفتروں میں اس قسم کے مسائل کے حل کے لئے کافی راستے ہونگیں لیکن سر دست مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ ٹی بریک میں اسحاق بھائی سے بات ہوئی تو وہ پہلے تو بہت مسکرائے اور پھر قہقہ مار کر ہنسنے لگے۔
آپ بھی کمال کرتے ہیں اسحاق بھائی، میں نے کوئی لطیفہ تو نہیں سنایا ہے۔۔ میں ایک سنجیدہ مسئلے میں گرفتار ہوں اور آپ کی مدد یا مشورے کا طالب ہوں
رضا بھائی جب مسئلہ بہت سنجیدہ ہو اور اس کا حل نہ ہو تو اسےمذاق بنا دیا کریں۔ میرے سیکشن میں ایسا ایک آدمی ہے، بالکل اسی طریق پر چلنے والا۔۔ اسے کچھ نہیں آتا لیکن کسی سیاستدان کا چہیتا ہے تو میں کچھ بھی نہیں کر سکتا ۔اور تو اورمیرے سیکشن انچارج خلیق صاحب بھی اس میں کوئی معاونت نہیں کرتے سو میں نے اس کا ایک اچھوتا حل نکالا
ہاں یہی تو میں چاہتا تھا
حل یہ ہے کہ آپ یہ فرض کر لیں کہ وہ وہاں ہے ہی نہیں یا یوں سمجھیں کہ وہ وہاں ہے لیکن آپ اسے کام نہیں دینا چاہتے۔۔ جیسے وہ کام پر مائل ہے لیکن آپ نہیں چاہتے کہ وہ یہ چھوٹا موٹا کام کرے۔۔ یا یوں کہیں یہ سارے کام ان موصوف کے کرنے کے ہیں ہی نہیں وہ تو کسی بڑے کام کے لئے تعینات ہوا ہے۔۔ جب بڑا کام آئے گا تو اسے دے دیں گے۔۔ بسرو چشم
اسحاق بھائی کہ یہ بات سخت منافقت پر مبنی تھی لیکن اس میں ان کا کوئی قصور نہیں۔ سارا قصور ان کے سیکشن انچارج کا تھا یا شاید اس سیاستدان کا تھا۔ میں سارا دن اس مسئلے پر سوچتا شام کو گھر آگیا۔
اگلے دن عبید صاحب نے مجھے ایک اور مشورہ دیا
قبلہ آفندی صاحب آپ ایسا کیوں نہیں کرتے انہیں او -ایس -ڈی بنا دیں۔
میں بھونچکا رہ گیا
آفیسر آن سپشل ڈیوٹی؟ لیکن کس صوابدیدی اختیار کے بل بوتے پر؟ دوسرےوہ کوئی سول سرونٹ تھوڑی ہیں۔۔ آفس ورکر ہیں ۔۔روازانہ کام پر آتے ہیں۔۔چائے پیتے ہیں۔۔آفس میں دکھائی دیتے ہیں۔۔وہ بس کام نہیں کرتے اس کا کوئی حل ہے آپ کے پاس؟
اس لئے تو کہہ رہا ہوں ان کے کام کی نوعیت سرکاری کھاتے میں او -ایس- ڈی لکھ دیں۔۔ یہ ایک ایسی اصطلاح ہے ایک سائبان کی طرح تمام نا پسندیدہ صاحبان کو اپنے نیچے سمو لیتی ہے۔۔
عبید صاحب کا مشورہ ناقابل عمل تھا۔ ایک خیال یہ بھی ذہن میں آیا کہ ان کے لئے کسی کورس وغیرہ کا انتظام کروں جس میں ان کو دفتر کے کام کی ضرورت اور طریقہ کار کے بارے میں پتا چلے۔ یہ اچھوتی ترکیب لے کر میں نے اگلے روز انہیں اپنے دفتر میں بلایا اور انہیں دو دن کی چھٹی دے کر اسلام آباد بجھوا دیا۔
جیسے بعد میں پتہ چلا وہ اسلام آباد نہیں گئے ۔ موصوف چار دن بعد آئے تو یہ عقدہ کھلا کہ وہ بدین میں تیتروں کا شکار کھیلنے گئے تھے۔ مجھے یہ نہیں علم کہ اس بات میں کتنی صداقت ہے یا یہ کہ بدین تیتر کے شکار کے لئے کتنا موزوں مقام ہے لیکن اس بات سے مجھے سخت طیش آیا کہ انہوں نے اس چھٹی کی مد میں ٹی -اے-ڈی-اے کی درخواست بھی دے ڈالی تھی۔
یہ ساری بات مشہدی صاحب سے چھپی نہ رہ سکی
تو آپ مجھے یہ بتا رہے ہیں کہ آپ نے اپنا محدودصوابدیدی اختیار استعمال کرتے ہوئے ان کے لئے کورس کا انتظام کروایا تھا۔۔ کمال کرتے ہیں آپ آفندی صاحب۔۔خود نہیں پتا ہوتا تو پوچھ تو لیتے کم از کم۔۔اب دیکھیں کل کو ان کا پشت پناہ کہہ دے گا کہ یہ صاحب ان کورسوں کی و جہ سے اتنی قابیلت کا اہل ہوگیا ہے کہ اسے محکمے میں انچارج بنایا جائے۔۔ لکھ رکھیں ۔۔آپ ہی کی کرسی آئے گی اس ریلے کی لپیٹ میں
مجھے لفظ ریلے سے کراہت ہے اور وہ ایسے کہ جب میں بلوچستان میں تعینات تھا تو اس کا استعمال پیشاب کے لئے سنا ۔ میں نے ہونٹ کاٹے۔
سر ان صاحب نے وہ کورس آ ٹینڈ ہی نہیں کیا تو وہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے مجوزہ قابلیت کا معیار حاصل کر لیا ہے۔ بقول ان کے وہ تو بدین میں تیتروں کا شکار کھیل رہے تھے۔۔کیا اتنی اندھیر نگری ہے؟
قبلہ آفندی صاحب ہوش کے ناخن لیں۔۔ اتنی ہی اندھیر نگری ہے۔۔ آپ کے اطلاع کے لئےعرض ہے کہ اسلام آباد آفس سے ان کے قابلیت کا امتحان پاس کرنے کا سرٹفیکیٹ آگیا ہے۔۔ امتیازی نمبروں سے آفس منیجمنٹ کا امتحان پاس کیا ہے آپ کے اس عابد علی صاحب نے۔ اب یہ نہ پوچھیں کہ ان کے پاس کونساسلیمانی قالین ہے کہ جس کی بدولت وہ بدین میں رہ کر بھی اسلام آباد ہو آتے ہیں ، کورس میں بھی امتیازی نمبر لے لیتے ہیں اور تیتر بھی شکار لیتے ہیں۔۔ ہے نا کمال کی بات؟
انہوں نے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری
آپ ایک کام یہ کریں کہ ان کو اپنے ساتھ اسسٹنٹ لگا لیں۔۔ وہ آپ کا سایہ بن کر آپ کا کام سیکھیں گے۔ سیکھنا تو انہوں نے ہے ہی نہیں بس اسی طرح کام چلاتے رہیں۔ ان کے جاب پلان میں یہ گنجائش البتہ رکھیں کہ وہ صبح کے دو گھنٹے اور شام کے دو گھنٹے گھر میں کام کرسکتے ہیں۔ یہ فائنل سلوشن ہے۔ اگرآپ یہ نہیں کر سکتے تو پھر کوئی اور بہتر طریقہ نکالیں لیکن مجھے اس مسئلے کا حل چاہیئے۔
میں نے فایلیں ہاتھ میں اٹھائیں اور زیر لب صرف یہ کہا
سر دیکھ لیں اسسٹنٹ تو میں لگا لوں مگر میری کرسی اور ریلے والی بات سچ ہی نہ ہوجائے
میں ان کے افس سے نکل آیا اور سچ پوچھیں مجھے یہ بات ایک آنکھ نہیں بھائی ۔ اسی شام کوئ ڈرامہ دیکھ رہا تھا کہ ایک خیال ذہن میں آیا اور سوچا کل دفتر جاوں گا تو مشہدی صاحب سے بات کروں گا۔
اگلے دن مشہدی صاحب سارا دن میٹنگ میں مصروف رہے اور صرف شام کو چھٹی کے بعد تین چار منٹ مل سکے کہ ان سے ملاقات کر لوں ۔ میں نے ان کے دفتر کے دروازے پر دستک دی۔
کم ان
میں اند ر داخل ہوگیا اور ان کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھا
سر حل مل گیا ہے
وہ مسکرا کر بولے
بتائیں
سر ہم یہ کرتے ہیں کہ ان کے پشت پناہ کو کہتے ہیں، جن کے یہ چہیتے ہیں، کہ ایک نئی آسامی پیدا کرے۔۔ سترہ گریڈ کی ۔ انہی کا محکمہ ہے اس میں ان کے لئے دقت نہیں ہونی چاہیئے۔
یعنی آپ بھی کمال کرتے ہیں آفندی صاحب ، ایک جان کو آیا ہوا ہے اور آپ ایک نیا نالائق اس دفتر میں بو رہے ہیں ۔۔ یہ تو یک نہ شد دو شد والی بات ہوئی
سر اگر آپ میری پوری گزارش سن لیں تو ۔۔
ہاں ہاں بتائیں
اس مرتبہ ہماری ایک شرط ہوگی اور وہ یہ کہ بندہ ایسا ہوگا جس میں اس جاب کے سنبھالنے قابلیت ہوگی بھلے سے اس کا انتخاب وہ صاحب خود کریں
ہوں
اس سے فائدہ یہ ہوگا کہ انہی کی توسط سے ہمیں ایسا آدمی مل جائے گا جو اس نااہل کا کام کرسکتا ہوگا اور یوں ہم بھی خوش اور وہ بھی خوش
ہنہ۔۔۔ معقول بات معلوم ہوتی ہے۔ آپ ایسا کریں اس کی سمری بنائیں اور کل ہی لیٹر وزارت بجھوا دیتے ہیں ابھی تو بہت دیر ہوگئی ہے مجھے اپنے بیٹے کو کراٹے کے لئے کے جانا ہے
میں ساری رات بیٹھا رہا اور ایک ایک حرف چھانک پھٹک کر ایک سمری میں پرو دئے جس سے ہمارا منشا حل ہوجاتا۔
اگلے دن صبح سویرے میں بغل میں فائلیں دبائےمشہدی صاحب کے دفتر میں گیا اور ان کو لیٹر تھما دیا۔ انہوں نے اسے دیکھے بغیر پھاڑ دیا اور ڈسٹ بن میں پھینک کر قدرے جلالی انداز میں کہا
آفندی صاحب آپ نے مجھے تین آدمیوں کے متعلق بتایا تھا کہ وہ آفس کے نظم و ضبط میں بگاڑ لا رہے ہیں، تو ان کا کیا کر رہے ہیں آپ؟۔
ہاں سر لیکن ان کے متعلق تو یہ بات طے ہوچکی ہے کہ وہ قابل اصلاح نہیں ہیں
نہیں یہ بے قائدگی اب ناقابل برداشت ہے۔ آپ فورا محکمانہ تادیبی کاروائی شروع کریں اور اس میں ہر گز لچک کا مظاہرہ نہ کریں۔ آپ ان سے پوچھیں کہ وہ اپنے تین مہینے پر محیط محکمانہ قوانین کو نظر انداز کرنے کی کوئی معقول وجہ بتائیں اور اس بات پر روشنی ڈالیں کہ کیوں نہ ہم انہیں نوکری سے برخاست کریں۔
پھر اپنا قلم میز پر رکھ دیا اور سلسلہ کلام جاری رکھا
آفندی صاحب یہ کوئی طریقہ نہیں کہ آپ جب چاہیں دفتر آئیں اور جب جی بھائے جائیں۔ یہ سرکاری دفتر ہے اور اس کے اندر مروجہ قوانین کا اطلاق ہوتا ہے اور ان قوانین کا پابند میں بھی ہوں، آپ بھی ہیں اور آپ کے عابد علی صاحب اور یہ دو اور صاحبان بھی ہیں۔ یہ ہماری ہی غلطی ہے جب ہم کسی ملازم کو بے جا ڈھیل دیتے ہیں تو اس کی مثال ایک مردہ گھوڑے کی سی ہوجاتی ہے
مردہ گھوڑا؟
ہاں مردہ گھوڑا۔۔ بے کار گھوڑا۔۔ جس کا چاہے آپ سوار تبدیل کریں، اس میں حرکت بڑھانے کے لئے کمیٹی بنائیں، اپنے معیار اور اہداف اتنے گرائیں کہ مردہ گھوڑا بھی ان کو حاصل کرسکے یا بھلے سے کاغذوں میں اسے زندہ ثابت کریں یا اس کی کارکردگی بڑھانے کے لئے دو اور مردہ گھوڑے بھی اس کے ساتھ جوت لیں۔۔ نا صاحب ۔۔ مردہ گھوڑا نہیں ا ٹھے گا۔۔ اور ایک سرطان کی طرح پورے آفس کو نگل لے گا۔۔اسی طریق پر یہ عابد علی صاحب اور یہ دو افراد مردہ گھوڑے ہیں ۔۔کبھی کام نہیں کریں گے۔۔ میری اتھاڑتی پر آپ دفتر سے تمام بیمار عناصر کو تادیبی کاروائی کر کے نکالیں
پھر پان کی پیک تھوکتے ہو ئے کہا
آفندی صاحب ہم سب حکومت پاکستان کے ملازم ہیں اور ہمارے پیش نظر کسی سیاستدان کا نہیں بلکہ مجموعی طور پر ریاست پاکستان کا مفاد ہونا چاہیے۔۔اب آپ کو جو بتایا گیا ہے ایس -او-پیز کے مطابق
کر گذریں۔۔ لیکن ٹہریں آج نہیں ۔۔کل۔۔ صبح ہی صبح
میں مشہدی صاحب کی اس لازوال قسم کی جرائت پر پریشان ہوگیا اور ایک خیال یہ بھی آیا کہ کہیں اس طوفان کی لپیٹ میں میں نہ آجاوں۔میں اپنے آفس میں آکر بیٹھ گیا۔ مجھے ان کی کل والی بات تو بالکل سمجھ نہیں آئی۔ اگر کرنا ہےتو آج کر دیتے کل تک انتظار کی کیا ضرورت تھی۔
گھر آیا تو شام کو ہر طرف ہنگامہ سا مچ گیا ۔ حکومت اور صدر صاحب کے تصادم کے نتیجے میں اسمبلی تحلیل کر دی گئی اور تب مجھ پر مشہدی صاحب کی ایک دن بعد کی جرائت کی حقیقت کھلی ۔
اگلے روز میں اپنےدفتر آیا ، کمپیوٹر میں پرانا شوکاز نوٹس نکالا ۔۔اس پر آج کی تاریخ ڈالی ۔۔اس کو کئی زاویوں سے دیکھا اور پھر کچھ سوچ کر اس پر سات دن پہلے کی تاریخ ڈالی ، اس کی چار کاپیاں پرنٹ کیں ۔۔ ان پر دستخط ثبت کئے اور ایک کاپی فائل میں رکھ کر دوسری کاپیاں عابد علی صاحب اور دوسرے دو صاحبان کو ، جن کا نام میں صیغہ راز میں رکھوں گا، بجھوا دیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.