Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شوکیس والا گڈا

کنور سین

شوکیس والا گڈا

کنور سین

MORE BYکنور سین

    کہانی کی کہانی

    ’’یہ ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے، جو شادی ہو جانے کے بعد بھی اپنے پہلے عاشق کو بھول نہیں پاتی۔ شادی کے بعد کا کچھ عرصہ اچھی طرح سے گزر گیا تھا۔ پھر یکبارگی رنجیت اس کے سامنے آ ن کھڑا ہوا۔ اس کی ایک جھلک نے ماضی کے تمام واقعات کو اس کے سامنے لا کر کھڑا کر دیا اور اسے یوں لگا کہ جیسے ابھی بھی وہ اسکول کے باہر سڑک پر کھڑا اس کا انتظار کر رہا ہے۔‘‘

    کل رات تک وہ سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ اتنی سی بات اس کے من کے موسم کو اس طرح تتر بتر کر دےگی۔ کل رات اسے بچپن کی گھٹنا یاد آئی۔ بمبُو کے ساتھ کھیلتے ہوئے اس کا گڈا ٹوٹ گیا، بمبُو اُداس ہو گئی۔ ’’رنجنا تمہارا گڈا!‘‘

    اس نے بمبو کو جملہ پورا نہیں کرنے دیا۔ اسے بازو سے پکڑکر گھسیٹتی ہوئی بازار لے گئی۔ بساطی کی دکان پر شوکیس میں پڑے گڈے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی، ’’شام کو ماں سے پیسے لے کر اسے خرید لوں گی۔‘‘

    ’’لیکن وہ گڈا تو تمہاری جان تھا۔‘‘ بمبو اس کی بےنیازی پر حیران رہ گئی۔

    ’’اب وہ ہے کہاں؟ وہ تو مر گیا۔‘‘ وہ ہنسنے لگی اور بمبو کی پریشانی پر اور بھی زور سے ہنس پڑی۔

    بڑی ہو کر بھی اسے گڈے والا واقعہ نہیں بھولا۔ ’’کوئی بھی بات بڑی ہونے پر بھی اتنی بڑی نہیں ہوتی۔‘‘ وہ سوچتی۔۔۔ گڈے گڑیائیں ٹوٹتی رہتی ہیں۔ زندگی پھر بھی چلتی رہتی ہے۔ بساطی کا شوکیس کبھی خالی نہیں ہوتا۔ نہ کمہار مرتا ہے نہ کھلونے ختم ہوتے ہیں۔۔۔ من اور خواب کا رشتہ اٹوٹ ہے۔ لوگ خواہ مخواہ اپنے کو کوستے رہتے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ جو ہے اسے پورے من سے اپنانے اور جو نہیں رہا اسے بھول جانے کا نام ہی زندگی ہے۔ ’’ایسا کرنے سے نہ وقت کو ہم سے شکایت رہتی ہے نہ ہم کو وقت سے گلہ۔ سچائی یہی ہے باقی سب سوانگ۔۔۔‘‘

    ٹوٹے ہوئے گڈے اور شو کیس کے سہارے ہی اس نے اتنا بڑا حادثہ برداشت کیا۔ اپنی شادی کی رات لگن منڈپ کے دُھوں دُھوں کرتے ہون کنڈ میں اپنے وجود کے ایک حصے کی آہوتی ڈال کر وہ ماضی سے مکت ہو گئی۔ بچے کھچے کو سمیٹ کر اس نے خود کو نوین کے ساتھ جوڑ دیا۔

    کل رات سے یہ کیا ہونے لگا؟ شوکیس خالی اور سونا کیوں لگنے لگا؟ اس میں پڑے ثابت گڈے کی جگہ کھیل میں ٹوٹا کھلونا کہاں سے آ گیا۔ لوکیش کو بیتے مدت ہو گئی۔ پھر وہ بساطی کی دکان میں کیسے آ داخل ہوا؟ اس نے تو اسے گلی کی نکڑ والے کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا تھا اور ماں کو کہہ کر نیا گڈا خرید لیا تھا۔

    لوکیش سے مکت ہو کر ہی اس نے نئے موسم کو پہنا۔ جاتی ہوئی رت کا ماتم کرتے رہنا اس کی فطرت نہ تھی۔ وہ تو اپنے وجود اور مکمل خود سپردگی کو مانتی تھی۔ ادھوری چیز سے لگاؤ بھی ادھورا ہوتا ہے۔ اسی ترنگ میں وہ لوکیش کے ساتھ بہتی چلی گئی۔ اسے کیا پتہ تھا صرف مٹّی کا کھلونا ہی نہیں ہاڑمانس کا پتلا بھی ٹوٹ جاتا ہے۔

    یاترا میں ایک پڑاؤ پر اچانک ہی لوکیش اٹل سچائی کا روپ دھارن کر کے اسے سمجھانے بیٹھ گیا، ’’رنجنا اب ہم دونوں کے لیے کچھ بھی باقی نہیں بچا۔ انتظار بیکار ہے جو طے ہو گیا ہے اسے ہی ناٹک کا انت سمجھو۔ تم کہا کرتی ہو۔ ہاتھ سے سرکتی ڈوری کو پکڑے رکھنے کے بجائے۔۔۔‘‘

    تھوڑی دیر تک اس کی طرف دیکھتے رہنے کے بعد وہ بولا، ’’آخری فیصلہ کرنا میرے ہاتھ میں نہ تھا۔ یہ بات میں نے تم سے کبھی نہیں چھپائی۔۔۔ میں جانتا ہوں کامنا ظالم ہے اور اچھا اکثر کربناک ندامت کا روپ دھارن کر کے ہمارے من کو کچوکتی ہے۔ پھر بھی ہمیں اپنے میں لوٹ جانا چاہیے اور تمہیں بھی۔۔۔‘‘

    اس سے آگے اسے کچھ سنائی نہ دیا۔ وہ سناٹے میں آ گئی۔ بمبو کی اداس آواز اس کے وجود میں گونجنے لگی لیکن وہ اسے بازار لے جانے سے پہلے لوکیش کے ہونٹوں کو نوچنے پر تل گئی۔۔۔ کیا اپنائیت کی اس سیما پر پہنچ کر فیصلہ، آخری فیصلہ، جیسے شبدوں کا سہارا لے کر اپدیش دینے جیسا پاپ کوئی دوسرا ہو سکتا ہے؟ لیکن اسی وقت پاس بیٹھی سرلا دیدی نے اس کی طرف ممتا بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہنا شروع کر دیا: ’’میں تیرے دکھ کو سمجھتی ہوں، رنجنا۔ تیرا من بھی مجھ سے چھپا نہیں۔ چار سال کالج میں اکٹھے رہنے کے بعد بھی کیا میں تجھے نہیں جان سکی؟ لیکن یہ معاملہ کھلونے توڑنے اور خریدنے کا نہیں۔ آج بھی لوکیش اپنے گھر والوں کے ساتھ کھڑا ہونے کی ہمت کرے تو میں تیرے راستے سے ہٹ جاؤں گی۔‘‘

    دیدی نے لوکیش کی طرف اشارہ کیا اور بولتی چلی گئی، ’’میں تمہیں ماضی کو بھول کر نئی زندگی شروع کرنے کو نہیں کہہ سکتی۔ اب بھی تم دونوں۔۔۔‘‘

    دیدی کے جملہ پورا کرنے سے پہلے ہی وہ اپنے میں لوٹ آئی اور دھرتی پر بکھرے پڑے گڈے کو بےنیازی سے دیکھتے ہوئے کہہ اٹھی، ’’میرا اتنا ہی دوش ہے کہ میں لوکیش کے جیون میں اس کے ماں باپ کی راہ سے ہو کر نہیں آئی۔‘‘ دوسرے ہی پل وہ بساطی کی دکان کے آگے کھڑی بمبو کو شوکیس والا گڈا دکھانے لگی۔

    اسے اپنے میں ڈوبا دیکھ کر سرلا دیدی نے اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لے لیا، ’’جو بھی ہو، میں اپنا جی چھوٹا نہیں ہونے دوں گی۔ تم نے میری عمر کی ہو کر بھی مجھے دیدی مانا ہے۔ اس رشتے کو انت تک نبھانا۔۔۔ رنجنا تم تو جانتی ہو عورت کے لگاؤ کے روپ انیک ہیں۔ یہ تو مرد ہے جو۔۔۔‘‘

    دیدی کی بات سن کر وہ اوربھی پریشان ہو گئی۔ انہیں اس حالت میں بھی مکت من سے مسکراتے اور بے لوث لہجے میں باتیں کرتے دیکھ کر وہ ٹھگی سی رہ گئی۔ پھر اسی معصوم مسکان کے سہارے وہ اپنے کو بٹورنے لگی اور اس نے نوین والا گڈا خرید کر خود کو اس میں سمو دیا۔ اپنے کو وصول کر لیا۔

    لیکن یہ تو کل شام تک ہی تھا۔ کل شام تک موسم ٹھہرا ہوا تھا۔ کوئی الجھن تھی نہ کوئی سمسیا۔ وہ خوش تھی کہ اس نے خود کو وقت پر سنبھال لیا۔ بچپن کی چٹان کا سہارا لے کر کھڑی ہو گئی اور پوری شردھا سے خود کو نوین کو ارپت کر دیا۔ کٹو اور آشو نے اس کی راہ بالکل ہموار کر دی۔ اسے پتہ نہ تھا کہ اپنے خون کا موہ اتنا زیادہ ہوتا ہے۔ بچوں کو دیکھتی ہوئی وہ نوین کو بھی بھول سی گئی۔ پھر ہموار لگن میں یہ گڑ بڑ کیسے ہو گئی؟ چھوٹی سی بات کو لے کر وہ پیچھے کو دیکھتی ہوئی دور تک اڑتی دھول میں کیا ڈھونڈنے لگی؟

    بات سرلا دیدی کے ہاں شروع ہوئی۔ لیکن بات اتنی اسادھارن نہ تھی۔ ایسی باتیں اس کے اور لوکیش کے بیچ اکثر ہوتی رہتیں۔ ماضی اپنا پھن اٹھاتا رہتا لیکن اسے ان کو ڈسنے کا حوصلہ نہ ہوتا۔ کبھی کبھار تو نوین بھی اسے چھیڑ کر ہنسنے لگتا۔ لیکن ماحول کے ڈانوا ڈول ہو جانے کی نوبت نہ آتی۔ طوفان کا تو سوال ہی کیا ہوا کا ہلکا سا ریلا بھی ان کو چھو کر نہ گزرتا۔ سب کچھ مذاق، دل کی وشالتا اور سہن شکتی کے دریا میں بہہ جاتا۔

    کل کی بات الگ، سوال تو آج کی آندھی کا تھا۔ شانت جھیل میں چٹان کہاں سے آ گری؟ وہ بیٹھے بیٹھے بکھرنے کیوں لگی؟ گم پھوڑے کا اسے کبھی احساس تک نہ ہوا۔ من برسوں سے بند پڑے کمرے کے کواڑوں پر جانی پہچانی دستک اور اس کی بالکونی میں قدموں کی بہت پہلے سنی چاپ کیوں گونجنے لگی۔ ان چاہا کرب کیوں ڈسنے لگا۔ کل شام وہ سرلا دیدی کے ہاں سے لوٹی تھی تو بھی اسے اس سب کا پتہ نہ تھا۔ بس میں بیٹھی وہ نوین اور بچوں کا سوچتی رہی۔ گھر پہنچ کر اس نے کٹو اور آشو سے پیار کیا اور نوین سے چائے کو پوچھ کر رسوئی بنانے میں جٹ گئی۔

    لیکن کام سے نپٹ کر جب وہ بستر پر لیٹی تو اپنے من پر اس کے ادھیکار کا پول کھلنے لگا۔ وہ اپنے سے الجھنے لگی۔ سرلا دیدی کے گھر پر ہوئی ایک ایک بات اسے گھیرنے لگی۔ لوکیش کے ساتھ ہوئی مختصر سی گفتگو اس کے دل و دماغ میں کنکھجورے کی طرح چپک گئی۔ دیدی کے گھر سے چلنے سے تھوڑی دیر پہلے وہ بیڈروم میں بیٹھی لوکیش سے ہنسی مذاق میں لگی تھی۔ اچانک لوکیش گمبھیر ہو گیا۔

    ’’آج کل تم کون سے اسکول جاتی ہو؟‘‘

    ’’وہی سروجنی نگر والے۔‘‘

    ’’کل میں تمہارے اسکول آؤں گا۔‘‘

    ’’ضرور آنا۔‘‘

    ’’تم میرے پہنچتے ہی اسکول سے چھٹی کر لینا۔‘‘

    ’’کس لیے؟‘‘ وہ چونکی۔

    ’’میرے ساتھ آوارہ گردی کرنے کے لیے۔‘‘

    ’’نہیں!‘‘ نہ چاہتے ہوئے بھی وہ غصے میں آ گئی۔

    ’’نہیں؟‘‘

    ’’ہرگز نہیں!‘‘ اس کا چہرہ لال ہو گیا۔

    اتنے میں دیدی چائے لے کر آ گئیں۔ لوکیش ہنستا ہوا انہیں اس کے غصے میں آجانے کا کارن بتانے لگا۔ وہ سنبھل سی گئی۔ جیسے جس بات کا اسے انتظار تھا وہ ہونے ہی والی ہو۔ اسے لگا آج دیدی کا موڈ بگڑ جائےگا۔ ان کا چہرہ تمتما اٹھےگا۔ جو بات خود اس سے برداشت نہیں ہوئی اسے دیدی کیسے سہن کر لیں گی؟ لیکن کچھ بھی تو نہیں ہوا۔ دیدی شانت رہیں۔ ان کی آنکھیں بجھیں نہ چہرہ ہی سیاہ پڑا۔ چائے میز پر رکھ کر وہ ہمیشہ کی طرح مکت من سے مسکرانے لگیں اور اپنے معصوم انداز میں بولیں : ’’ماضی بھی زندگی کا رنگ ہے۔ اسے بُھلا دینا بھی کوئی بات ہے بھلا۔۔۔ کچھ تو۔۔۔‘‘

    دیدی کی طرف بوکھلائی نظروں سے دیکھتی ہوئی وہ اندر ہی اندر کسک اٹھی جیسے آج بھی اسی کی ہار ہوئی ہو۔ دیدی کوئی دوسری بات کرنے لگیں اور دیکھتے ہی دیکھتے سب صاف ہو گیا۔ لوکیش ہنسنے لگا۔ وہ بھی مسکرانے لگی۔ ان دونوں سے وداع ہوتے وقت اسے کچھ بھی یاد نہیں رہا۔ اگلی بار بچوں کو ساتھ لانے کا وعدہ کر کے وہ کوٹھی سے باہر آ گئی۔ یہ سب تو اس کے اکیلا نہ ہونے تک تھا۔ رات کی خاموشی میں اس کے اندر کا سناٹا گونجنے لگا۔ اس گونج میں لہراتی لوکیش کی آواز اسے بےحال کرنے لگی۔ وہ سمے اور استھان کو کھوجتی ہوئی بدھ پارک، اوکھلا، قطب مینار اور مجنوں کے ٹیلے کی سیر پر نکل پڑی۔ ان جگہوں پر اسے لے جانے کے لیے لوکیش اکثر اس کے اسکول آ جاتا۔ یہ سجھاؤ لوکیش کو اسی نے دیا تھا۔ جس دن لوکیش کو آنا ہوتا وہ بار بار گیٹ پر جا کر باہر کی سڑک کو دور تک نہارتی رہتی۔

    ان دنوں اسے اور کچھ نہ سوجھتا۔ لوکیش اور اپنی چاہت کے ایک ہو جانے نے اسے پاگل کر دیا تھا۔ پاگل پن سادھنا کا روپ دھارن کر بیٹھا۔ سادھنا کے اڈگ وشواس میں تبدیل ہوتے ہی اس کا تن من آنند سے بھر گیا۔

    ’’ضرور میری سادھنا میں جانے انجانے کوئی کمی رہ گئی۔‘‘ وہ اپنے من کو بلونے لگی۔ ’’ورنہ میں اس ہار کا منہ دیکھتی!‘‘ وہ لوکیش کے پریشان بھولے پن کو یاد کرنے لگی۔ اسی کے کارن وہ اس کی جانب کھنچی اور اس میں ڈوب جانے کے لیے بے قرار ہو اٹھی۔ اس کے من نے کہا۔ لنگڑی محبت تو بس شراپ ہوتی ہے۔ اپنے پر بھروسے کے کارن ہی اسے لوکیش کے من میں کبھی کبھار پیدا ہونے والا شک بے معنی لگتا۔ وہ یونہی ڈر جاتا ہے۔ اس کے ماں باپ نے مجھے اس کے ساتھ ملنے سے پہلے خود نہیں دیکھا تو اس میں کون سی بڑی بات ہے۔ اسی کھائی کو پاٹنے کے لیے وہ اکثر لوکیش کے ساتھ اس کے گھر جانے لگی۔ لوکیش کی ماں نے کوئی اعتراض نہیں کیا لیکن اس کے باپ کی آنکھیں اسے دیکھ کر ضرور گہری ہو جاتیں۔

    اس ناٹک کا دکھانت اس شام ہوا جب وہ لوکیش کے کمرے میں بیٹھی اس کے پاؤں سے جوتے اتارتے ہوئے انہیں بار بار چوم رہی تھی۔ اسی وقت لوکیش کا باپ انجانے ہی اندر چلا آیا۔ ان دونوں کو اس حالت میں دیکھ تھوڑی دیر بُت بنا کھڑا رہنے کے بعد بولا، ’’رنجنا! میں شادی سے پہلے کی محبت کو محض واسنا مانتا ہوں۔ یہ آدمی کے کردار کی لطافت کا ناش کر دیتی ہے۔‘‘

    ’’یہ آپ کا وچار ہے۔‘‘ اپنی سادھنا میں اس کے وشواس نے ہی اسے یہ کہنے کا ساہس دیا تھا۔ ’’میں ایسا نہیں مانتی۔ میرے وچار میں۔۔۔‘‘ وہ لوکیش کی طرف دیکھتی ہوئی اس کے بولنے کا انتظار کرنے لگی لیکن اس نے منہ نہ کھولا۔ اپنے باپ کی آواز میں چھپی ضد کو للکارنے کا حوصلہ اس میں نہیں تھا۔ رنجنا کو اپنی جانب پکارتی نظروں سے دیکھتا پاکر اس نے آنکھیں نیچی کر لیں۔ اس کے باپ کو اپنی حالت پر رحم بھری نگاہیں ڈالتے دیکھ کر وہ لہو روتے دل کے ساتھ وہاں سے چلی آئی۔

    اس کے بعد لوکیش اس کے پاس سرلا دیدی کے ساتھ ہی آیا۔ دیدی اس کی ہم عمر اور ہم جماعت تھی لیکن اس دن اسے لگا وہ اس سے کہیں بڑی ہیں۔ ان کے ساتھ بات کرتے ہی وہ سب کچھ بھول کر ان کی خلوص بھری مسکان میں کھو گئی۔ اپنے من میں سرسراتے زہر کا اس مسکان سے مقابلہ کرتی ہوئی وہ اندر تک کانپ اٹھی۔

    ’’کیا میں اسے جیت سکتی ہوں؟‘‘

    ماضی کو اپنے گردن میں پھندا کستے دیکھ کر وہ بستر سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ جب اتنا کچھ ہو چکا پھر یہ سٹ پٹا ہٹ، تلملاہٹ اور ماضی کے اجگر کی جکڑن کیسی! وہ دور نزدیک کا سوچنے لگی۔ کیا میں اس نئی سادھنا کا گلا گھونٹ دوں! اپنا سروناش کرلوں! جب کوئی پاپ نہیں کیا تب کچھ پراپت نہیں ہوا۔ اب یہ سب کچھ سوچنے کا پاپ اور اس کا دنڈ۔۔۔! وہ اپنے کو سمیٹتی ہوئی من کی سلوٹ نکالنے لگی۔ لیکن گتھی سلجھی نہ سلوٹ نکلی۔ رات بھر اسکول اور لوکیش، لوکیش اور دیدی، دیدی اور خود کو ایک دوسرے سے جوڑتی توڑتی، ہنستی کھیلتی، سسکتی سبکتی ہوئی وہ پہلو بدلتی رہی۔ ماضی کو ماضی سے کاٹنے میں لگی آخر وہ دیدی کی ممتا بھری مسکان کا آنچل تھامے بیٹھی رہ گئی تو اس کا دل اس کی اپنی ہی سمجھ میں نہ آنے والی ندامت سے بھرنے لگا۔ شوکیس میں کبھی ثابت سالم گڈا کبھی ٹوٹے ہوئے کھلونے کے ٹکڑے۔

    صبح ہوتے ہوتے ندامت اسے پوری طرح نگلنے لگی تو آدھی ادھوری تیار ہوکر اس نے نوین کو جگایا۔ پہلی بار کٹو اور آشو کو اسکول بھیجنے کی ذمہ داری اس پر ڈال کر وہ وقت سے بہت پہلے بس اسٹاپ پر آ گئی۔ اسٹاپ پر پھیلے سونے پن کی گود میں سرکتے ہی وہ تلملا اٹھی، ’’دیدی مجھے اس تنہائی کے احساس سے بچانے کے لیے پتہ نہیں کیا کیا کرتی رہتی ہیں۔ خالی پن کا سوچنے تک نہیں دیتیں۔ مجھ میں اپنے کو انڈیلتی رہتی ہیں۔‘‘ وہ انجانی راہ پر بڑھنے لگی۔ ’’آخر یہ سب کرنے کا انہیں کیا حق ہے؟ مجھے اپنی زندگی کیوں نہیں جینے دیتیں سراب کی اپنی کشش ہے۔۔۔!‘‘

    ’’دیدی سے بگڑتے جھگڑتے اس کی بس آگئی۔ بس میں بیٹھتے ہی وہ اپنے کو بٹورنے میں جٹ گئی۔ میں کہاں نکل گئی۔۔۔!‘‘ وہ الٹے پاؤں لوٹی، ’’مجھے نوین کو نہیں بھولنا چاہئے۔ وہ نہ ہوتا تو میں بھی نہ ہوتی۔‘‘

    اسکول پہنچ کر سب سے پہلے اس نے اپنا ٹائم ٹیبل دیکھا۔ یہ دیکھ کر ڈر سی گئی کہ وہ خالی ہے۔ اسے آج کسی کلاس کو کتابیں بانٹنی ہیں نہ کسی سے واپس لینی ہیں۔ صرف رجسٹر پورا کرنا ہے۔ ’’یہ بھی کوئی معمولی کام نہیں۔‘‘ اس نے خود کو تسلی دی۔ ’’اس کے لیے بھی توجہ اور وقت درکار ہے۔‘‘ لائبریری کا دروازہ بند کر کے اُس نے اندر سے چٹخنی چڑھا دی۔ اپنی سیٹ بیٹھ کر رجسٹر کھول لیا۔ دھیرے دھیرے یہ ایکانت بھی اسے اپنی ٹوہ کے مارگ پر لے چلا۔ قلم اس کے ہاتھ میں لٹکنے لگا۔ ایک بار پھر اس کے من میں رنگوں اور آوازوں کے پھول کھلنے لگے۔ وہ ماضی کے رومانس میں بہکنے لگی۔ منزل کے بعد منزل پار کرنے لگی۔ ایک پڑاؤ پر پہنچتے ہی اس کے پاؤں میں کانٹا چبھ گیا۔ وہ وہیں بیٹھ گئی۔ اسی دم سرلا دیدی اپنی میٹھی مسکان کے ساتھ سامنے آکر اسے دلاسہ دینے لگیں۔

    دیدی کو دیکھ کر وہ تڑپ اٹھی۔ ان کی طرف دیکھتی ہوئی وہ ہارے ہوئے جیو کی طرح بے بسی کے احساس سے بھرنے لگی۔ ان کی مسکان کا زہر اس کے انگ انگ میں پھیلنے لگا۔ ان کے کل شام کہے شبد اس کے کانوں میں گونجنے لگے۔ اسی پل سامنے کی کھڑکی کو اپنی آپ کھلتے دیکھ کر وہ جھنجھلا اٹھی اور اسے بند کرنے کو سوچ کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ لیکن پہلا قدم اٹھاتے ہی ایک کسک اس کے دل کو چیرنے لگی۔ وہ مڑی اور کمرے کا دروازہ کھول کر تیز تیز چلتی ہوئی اسکول کے گیٹ پر آ گئی۔ گیٹ کو پار کر کے وہ باہر دور تک پھیلی سنسان سڑک کو نہارنے لگی۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے