aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کارمن

MORE BYقرۃالعین حیدر

    کہانی کی کہانی

    امیر اور متمول خاندان کے ایک نوجوان کے ذریعے ایک غریب لڑکی کے استحصال کی روایتی کہانی ہے جو لڑکی کے بے غرض محبت کی ٹریجڈی ہے۔ کہانی میں سادگی، دلکشی اور جاذبیت ہے۔ قاری آخر میں کہانی کے انجام سے واقف تو ہو جاتا ہے لیکن اس کی تسلی نہیں ہوتی، شاید یہ کہانی کی خوبصورتی ہے۔

    رات کے گیارہ بجے ٹیکسی شہر کی خاموش سڑکوں پر سے گزرتی ایک پرانی وضع کے پھاٹک کے سامنے جاکر رکی۔ ڈرائیور نے دروازہ کھول کر بڑے یقین کے ساتھ میرا سوٹ کیس اتار کر فٹ پاتھ پر رکھ دیا اور پیسوں کے لیے ہاتھ پھیلائے تو مجھے ذرا عجیب سا لگا۔ ’’یہی جگہ ہے؟‘‘ میں نے شبہ سے پوچھا۔

    ’’جی ہاں‘‘ اس نے اطمینان سے جواب دیا۔ میں نیچے اتری۔ ٹیکسی گلی کے اندھیرے میں غائب ہوگئی اور میں سنسان فٹ پاتھ پر کھڑی رہ گئی۔ میں نے پھاٹک کھولنے کی کوشش کی مگر وہ اندر سے بند تھا۔ تب میں نے بڑے دروازے میں جو کھڑکی لگتی تھی اسے کھٹکھٹایا۔ کچھ دیر بعدکھڑکی کھلی۔ میں نے چوروں کی طرح اندر جھانکا۔ اندر نیم تاریک آنگن تھا جس کے ایک کونے میں دو لڑکیاں رات کے کپڑوں میں ملبوس آہستہ آہستہ باتیں کر رہی تھیں۔ آنگن کے سرے پر ایک چھوٹی سی شکستہ عمارت ایستادہ تھی۔ مجھے ایک لمحے کے لیے گھسیاری منڈی لکھنؤ کا اسکول یاد آگیا، جہاں سے میں نے بنارس یونیورسٹی کا میٹرک پاس کیا تھا۔ میں نے پلٹ کر گلی کی طرف دیکھا جہاں مکمل خاموشی طاری تھی۔ فرض کیجیے۔۔۔ میں نے اپنے آپ سے کہا کہ یہ جگہ افیمچیوں، بردہ فروشوں اور اسمگلروں کا اڈّا نکلی تو۔۔۔؟ میں ایک اجنبی ملک کے اجنبی شہر میں رات کے گیارہ بجے ایک گمنام عمارت کا دروازہ کھٹکھٹا رہی تھی جو گھسیاری منڈی کے اسکول سے ملتا جلتا تھا۔ ایک لڑکی کھڑکی کی طرف آئی۔

    ’’گڈ ایوننگ! یہ وائی ڈبلیو سی اے ہے نا۔۔۔؟‘‘ میں نے ذرا عجز سے مسکرا کر پوچھا۔۔۔ ’’میں نے تار دلوا دیا تھا کہ میرے لیے ایک کمرہ ریزرو کردیا جائے۔‘‘ مگر کس قدر خستہ حال وائی ڈبلیو سی اے ہے یہ۔ میں نے دل میں سوچا۔

    ’’ہمیں آپ کا کوئی تار نہیں ملا۔ اور افسوس ہے کہ سارے کمرے گھرے ہوئے ہیں۔‘‘ اب دوسری لڑکی آگے بڑھی۔۔۔ ‘‘یہ ورکنگ گرلز کا ہوسٹل ہے۔ یہاں عام طور پر مسافروں کو نہیں ٹھہرایا جاتا‘‘، اس نے کہا۔ میں یک لخت بے حد گھبرا گئی۔۔۔ اب کیا ہوگا؟ میں اس وقت یہاں سے کہاں جاؤں گی۔۔۔؟ دوسری لڑکی میری پریشانی دیکھ کر خوش خلقی سے مسکرائی۔ ’’کوئی بات نہیں۔ گھبراؤ مت۔۔۔ اندر آجاؤ۔۔۔ لو ادھر سے کود آؤ!‘‘

    ’’مگر کمرہ تو کوئی خالی نہیں ہے۔۔۔‘‘ میں نے ہچکچاتے ہوئے کہا۔ ’’میرے لیے جگہ کہاں ہوگی؟‘‘

    ’’ہاں ہاں، کوئی بات نہیں۔ ہم جگہ بنا دیں گے۔ اب اس وقت آدھی رات کو تم کہاں جاسکتی ہو؟‘‘ اسی لڑکی نے جواب دیا۔۔۔ میں سوٹ کیس اٹھا کر کھڑکی سے اندر آنگن میں کود گئی۔ لڑکی نے سوٹ کیس مجھ سے لے لیا۔ عمارت کی طرف جاتے ہوئے میں نے جلدی جلدی کہا، ’’بس آج کی رات مجھے ٹھہر جانے دو۔ میں کل صبح اپنے دوستوں کو فون کردوں گی۔ میں یہاں تین چار لوگوں کو جانتی ہوں۔ تم کو بالکل زحمت نہ ہوگی۔‘‘

    ’’فکر مت کرو‘‘، اس نے کہا۔ پہلی لڑکی شب بخیر کہہ کر غائب ہو گئی۔ ہم سیڑھیاں چڑھ کر برآمدے میں پہنچے۔ برآمدے کے ایک کونے میں لکڑی کی دیواریں لگا کر ایک کمرہ سا بنا دیا گیا تھا۔ لڑکی سرخ پھولوں والا دبیز پردہ اٹھا کر اس میں داخل ہوئی۔ میں اس کے پیچھے پیچھے گئی۔۔۔ ’’یہاں میں رہتی ہوں۔ تم بھی یہیں سو جاؤ۔۔۔‘‘ اس نے سوٹ کیس ایک کرسی پر رکھ دیا اور الماری میں سے صاف تولیہ اور نیا صابن نکالنے لگی۔ ایک کونے میں چھوٹے سے پلنگ پر مچھر دانی لگی تھی۔ برابر میں سنگھار میز رکھی تھی۔ اورکتابوں کی الماری۔ جیسے کمرے ساری دنیا میں لڑکیوں کے ہوسٹلوں میں ہوتے ہیں۔۔۔ لڑکی نے فوراً دوسری الماری میں سے چادر اور کمبل نکال کر فرش کے گھسے ہوئے بد رنگ قالین پر بستر بچھایا اور پلنگ پر نئی چادر لگا کر مچّھر دانی کے پردے گرا دیئے۔ ’’لو تمہارا بستر تیار ہے!‘‘ مجھے بے حد ندامت ہوئی۔۔۔ ’’سنو‘ میں فرش پر سو جاؤں گی۔‘‘

    ’’ہرگز نہیں۔ اتنے مچھّر کاٹیں گے کہ حالت تباہ ہوجائے گی۔ ہم لوگ ان مچھروں کے عادی ہیں۔ کپڑے بدل لو‘‘ اتنا کہہ کر وہ اطمینان سے فرش پر بیٹھ گئی۔۔۔

    ’’میرا نام کارمن ہے۔ میں ایک دفتر میں ملازم ہوں اور شام کو یونیورسٹی میں ریسرچ کرتی ہوں۔ کیمسٹری میرا مضمون ہے۔ میں وائی ڈبلیو کی سوشل سکریٹری بھی ہوں۔ اب تم اپنے متعلق بتاؤ؟‘‘ میں نے بتایا۔۔۔ ’’اب سو جاؤ‘‘، مجھے اونگھتے دیکھ کر اس نے کہا۔ پھر اس نے دو زانو جھک کر دعا مانگی اور فرش پر لیٹ کر فوراً سو گئی۔

    صبح کو عمارت جاگی۔ لڑکیاں سروں پر تولیہ لپیٹے اور ہاؤس کوٹ پہنے غسل خانوں سے نکل رہی تھیں۔ برآمدے میں سے گرم قہوے کی خوشبو آرہی تھی۔ دو تین لڑکیاں آنگن میں ٹہل ٹہل کر دانتوں پر برش کر رہی تھیں۔

    ’’چلو تمہیں غسل خانہ دکھا دوں‘‘ کارمن نے مجھ سے کہا، اور ہال میں سے گزر کر ایک گلیارے میں لے گئی جس کے سرے پر ایک ٹوٹی پھوٹی کوٹھری سی تھی جس میں صرف ایک نل لگا ہوا تھا اور دیوار پر ایک کھونٹی گڑی تھی۔ اس کا فرش اکھڑا ہوا تھا اور دیواروں پر سیلن تھی۔ روشن دان کے ادھر سے کسی لڑکی کے گانے کی آواز آرہی تھی۔ اس غسل خانے کے اندر کھڑے ہو کر میں نے سوچا۔ کیسی عجیب بات ہے۔۔۔ مدّتوں سے یہ غسل خانہ اس ملک میں، اس شہر میں، اس عمارت میں اپنی جگہ پر موجود ہے۔۔۔ اور میرے وجود سے بالکل بے خبر۔۔۔ اور آج میں اس میں موجود ہوں۔ کیسا بے وقوفی کا خیال تھا۔

    جب میں نہا کے باہر نکلی تو نیم تاریک ہال میں ایک چھوٹی سی میز پر میرے لیے ناشتہ چنا جا چکا تھا۔ کئی لڑکیاں جمع ہوگئی تھیں۔ کارمن نے ان سب سے میرا تعارف کرایا۔ بہت جلد ہم سب پرانے دوستوں کی طرح قہقہے لگا رہے تھے۔

    ’’اب میں ذرا اپنے جاننے والوں کو فون کردوں‘‘ چائے ختم کرنے کے بعد میں نے کہا۔ کارمن شرارت سے مسکرائی۔۔۔ ’’ہاں اب تم اپنے بڑے بڑے مشہور اور اہم دوستوں کو فون کرو، اور ان کے ہاں چلی جاؤ۔ تمہاری پروا کون کرتا ہے۔ کیوں روزا۔۔۔؟‘‘

    ’’ہم اس کی پروا کرتے ہیں؟‘‘

    ’’بالکل نہیں۔۔۔‘‘

    کورس ہوا۔ لڑکیاں میز پر سے اٹھیں۔۔۔’’ہم لوگ اپنے اپنے کام پر جارہے ہیں شام کو تم سے ملاقات ہوگی‘‘ میگدیلنا نے کہا۔ ’’شام کو۔۔۔ ؟‘‘ ایمیلیا نے کہا۔۔۔ ’’شام کو یہ کسی کنٹری کلب میں بیٹھی ہوگی۔۔۔‘‘

    کارمن کے دفتر جانے کے بعد میں نے برآمدے میں جاکر فون کرنے شروع کیے۔۔۔ فوج کے میڈیکل چیف میجر جنرل کیمو گلڈاس جو جنگ کے زمانے میں میرے ماموں جان کے رفیق کار رہ چکے تھے۔۔۔ مسز انطوانیا کوسٹیلو، ایک کروڑ پتی کاروباری کی بیوی جو یہاں کی مشہور سماجی لیڈر تھیں اور جن سے میں کسی بین الاقوامی کانفرنس میں ملی تھی۔۔۔ الفا نسو ولبیرا۔۔۔ اس ملک کا نامور ناول نگار اور جرنلسٹ، جو ایک دفعہ کراچی آیا تھا۔۔۔ ‘‘ہلو۔۔۔ہلو۔۔۔ ارے۔۔۔ تم کب آئیں۔۔۔ ہمیں اطلاع کیوں نہیں دی۔۔۔؟ کہاں ٹھہری ہو۔۔۔؟ وہاں۔۔۔؟ گڈ گاڈ۔۔۔ وہ کوئی ٹھہرنے کی جگہ ہے۔۔۔؟ ہم فورا تمہیں لینے آرہے ہیں۔۔۔‘‘ ان سب نے باری باری مجھ سے یہی الفاظ دہرائے۔ سب سے آخر میں، میں نے ڈون گارسیا ڈیل پریڈوس کو فون کیا۔ یہ مغربی یورپ کے ایک ملک میں اپنے دیس کے سفیر رہ چکے تھے اور وہیں ان سے اور ان کی بیوی سے میری اچھی خاصی دوستی ہوگئی تھی۔ ان کے سکریٹری نے بتایا کہ وہ لوگ آج کل پہاڑ پر گئے ہوئے ہیں۔ اس نے میری کال ان کے پہاڑی محل میں منتقل کردی۔

    تھوڑی دیر بعد مسز کو سٹیلو اپنی مرسی ڈینر میں مجھے لینے کے لیے آگئیں۔ کارمن کے کمرے میں آکر انہوں نے چاروں طرف دیکھا اور میرا سوٹ کیس اٹھا لیا۔۔۔ مجھے دھکّا سا لگا۔ میں ان لوگوں کو چھوڑ کر نہیں جاؤں گی۔ میں کارمن، ایمیلیا، برنارڈا اوروزا، اور مگدیلینیا کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں۔

    ’’سامان ابھی رہنے دیجیے۔ شام کو دیکھا جائے گا‘‘ میں نے ذرا جھینپ کر مسز کوسٹیلو سے کہا۔ ’’مگر تم کو اس نا معقول جگہ پر بے حد تکلیف ہوگی‘‘، وہ برابر دہراتی رہیں۔۔۔

    رات کو جب میں واپس آئی تو کارمن اور ایمیلیا پھاٹک کی کھڑکی میں ٹھنسی میرا انتظار کر رہی تھیں۔ ’’آج ہم نے تمہارے لیے کمرے کا انتظام کر دیا ہے‘‘ کارمن نے کہا۔ میں خوش ہوئی کہ اب اسے فرش پر نہ سونا پڑے گا۔

    ہال کی دوسری طرف ایک اور سیلے ہوئے کمرے میں دوپلنگ بچھے تھے۔ ایک پر میرے لیے بستر لگا تھا اور دوسرے پر مسز سوریل بیٹھی سگریٹ پی رہی تھیں۔ وہ اڑتیس انتالیس سال کی رہی ہوں گی۔ ان کی آنکھوں میں عجیب طرح کی اداسی تھی۔ پولینیزین نسل کی کس شاخ سے ان کا تعلق تھا۔ ان کی شکل سے معلوم نہ ہو سکتا تھا۔ پلنگ پر نیم دراز ہو کر انہوں نے فوراً اپنی زندگی کی کہانی سنانا شروع کردی۔۔۔

    ’’میں گام سے آئی ہوں‘‘ انہوں نے کہا۔۔۔ ’’گام کہاں ہے؟‘‘ میں نے دریافت کیا۔ ’’بحر الکاہل میں ایک جزیرہ ہے۔ اس پر امریکن حکومت ہے۔ وہ اتنا چھوٹا جزیرہ ہے کہ دنیا کے نقشے پر اس کے نام کے نیچے صرف ایک نقطہ لگا ہوا ہے۔ میں امریکن شہری ہوں۔۔۔‘‘ انہوں نے ذرا فخر سے اضافہ کیا۔

    ’’گام۔۔۔‘‘ میں نے دل میں دہرایا۔ کمال ہے۔ دنیامیں کتنی جگہیں ہیں۔ اور ان میں بالکل ہمارے جیسے لوگ بستے ہیں۔

    ’’میری لڑکی ایک وائلن بجانے والے کے ساتھ بھاگ آئی ہے۔ میں اسے پکڑنے آئی ہوں۔ وہ صرف سترہ سال کی ہے۔ مگر حد سے زیادہ خود سر۔۔۔ یہ آج کل کی لڑکیاں۔۔۔‘‘ پھر وہ دفعتاً اٹھ کر بیٹھ گئیں۔۔۔ ’’مجھے کینسر ہوگیا تھا۔‘‘

    ’’اوہ۔۔۔‘‘ میرے منہ سے نکلا۔ ’’مجھے سینے کا کینسر ہوگیا تھا‘‘، انہوں نے بڑے الم سے کہا۔۔۔ ’’ورنہ تین سال قبل۔۔۔ میں بھی۔۔۔ میں بھی اور سب کی طرح نارمل تھی۔۔۔‘‘ ان کی آواز میں بے پایاں کرب تھا۔۔۔ ’’دیکھو۔۔۔‘‘ انہوں نے اپنے نائٹ گون کا کالر سامنے سے ہٹا دیا۔۔۔ میں نے لرز کر آنکھیں بند کرلیں۔۔۔ ایک عورت سے اس کے جسم کی خوب صورتی ہمیشہ کے لیے چھن جائے۔ کتنی قہر ناک بات تھی۔

    تھوڑی دیر بعد مسز سوریل سگریٹ بجھا کر سو گئیں۔ کھڑکی کی سلاخوں میں سے چاند اندر جھانک رہا تھا۔ نزدیک کے کمرے سے میگدیلناکے گانے کی دھیمی آواز آنی بھی بند ہوگئی۔ دفعتاً میرا جی چاہا کہ پھوٹ پھوٹ کر روؤں۔

    اگلا ہفتہ فیشن ایبل رسالوں کی زبان میں ’سوشل اور تہذیبی مصروفیات کی آندھی‘ کی طرح ’آرٹ و کلچر‘ کے معاملات میں گزرا۔ دن مسز کوسٹیلواور ان کے احباب کے حسین، پر فضا مکانوں میں اور شامیں شہر کی جگمگاتی تفریح گاہوں میں بسر ہوتیں۔۔۔ ہر طرح کے لوگ۔۔۔ انٹلکچوئیل، جرنلسٹ، مصنف، سیاسی لیڈر، مسز کوسٹیلو کے گھر آتے اور ان سے بحث مباحثے رہتے اور میں انگریزی محاورے کے الفاظ میں اپنے آپ کو گویا بے حد ’انجوائے‘ کر رہی تھی۔ میں رات کو وائی ڈبلیو واپس آتی اور ہال کی چو کور میز کے ارد گرد بیٹھ کر پانچوں لڑکیاں بڑے اشتیاق سے مجھ سے دن بھر کے واقعات سنتیں۔۔۔ ‘‘کمال ہے!‘‘ روزاکہتی۔۔۔ ’’ہم اسی شہر کے رہنے والے ہیں مگر ہمیں معلوم نہیں کہ یہاں ایسی الف لیلوی فضائیں بھی ہیں۔‘‘

    ’’یہ بے حد امیر لوگ جوہوتے ہیں نا۔ یہ اتنے روپے کا کیا کرتے ہیں۔۔۔؟‘‘ ایمیلیا پوچھتی۔

    ایمیلیا ایک اسکول میں پڑھاتی تھی، روزا ایک سرکاری دفتر میں اسٹینو گرافر تھی۔ میگدیلنا اور برنارڈا ایک میوزک کالج میں پیانو اور وائلن کی اعلا تعلیم حاصل کر رہی تھیں۔ یہ سب متوسط اور نچلے متوسط طبقے کی لڑکیاں تھیں۔

    اتوار کی صبح کارمن ماس میں جانے کی تیاری میں مصروف تھی۔ کوئی چیز نکالنے کے لیے میں نے الماری کی دراز کھولی تو اس کے جھٹکے سے اوپر سے ایک اونی خرگوش نیچے گر پڑا۔ میں اسے واپس رکھنے کے لیے اوپر اچکی تو الماری کی چھت پر بہت سارے کھلونے رکھے نظر آئے۔ ’’یہ میرے بچّے کے کھلونے ہیں‘‘، کارمن نے سنگھار میز کے سامنے بال بناتے ہوئے بڑے اطمینان سے کہا۔ ’’تمہارے بچّے کے۔۔۔؟‘‘ میں ہکّا بکّارہ رہ گئی اورمیں نے بڑے دکھ سے اسے دیکھا۔۔۔

    کارمن بن بیاہی ماں تھی۔ آئینے میں میرا ردّ عمل دیکھ کر وہ میری طرف پلٹی۔ اس کا چہرہ سرخ ہوگیا اور اس نے کہا، ’’تم غلط سمجھیں۔۔۔‘‘ پھر وہ کھل کھلا کر ہنسی اور اس نے الماری کی نچلی دراز میں سے ایک ہلکے نیلے رنگ کی چمکیلی، بے بی بک نکالی۔۔۔ ’’دیکھو! یہ میرے بچّے کی سالگرہ کی کتاب ہے جب وہ ایک سال کا ہوگا تو یہ کرے گا۔ جب وہ دو سال کا ہوجائے گا تویہ کہے گا۔ یہاں اس کی تصویریں چپکاؤں گی۔۔۔‘‘ وہ اطمینان سے آلتی پالتی مار کر پلنگ پر بیٹھ گئی اور اسی کتاب میں سے خوب صورت امریکن بچوں کی رنگین تصویروں کے تراشے نکال کر بستر پر پھیلا دیئے۔۔۔ ’’دیکھو میری ناک کتنی چپٹی ہے اور نِک تو مجھ سے بھی گیا گزرا ہے۔ تو ہم دونوں کے بچّے کی ناک کا سوچو تو کیا حشر ہوگا۔۔۔ ؟ میں اس کی پیدایش سے مہینوں پہلے یہ تصویریں دیکھا کروں گی تاکہ اس بے چارے کی ناک پر کچھ اثر پڑے۔‘‘

    ’’تم دیوانی ہو اچھی خاصی۔۔۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’اور یہ نِک کون بزرگ ہیں۔۔۔؟‘‘ اس کا رنگ ایک دم سفید پڑ گیا۔۔۔ ’’ابھی اس کا ذکر نہ کرو۔ اس کے نام پر مجھے لگتا ہے کہ میرا دل کٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گا۔ ‘‘

    مگر اس کے بعد وہ برابر نِک کا ذکر کرتی رہی۔۔۔ ’’میں اتنی بد صورت ہوں۔ مگر نک کہتا ہے۔۔۔ کارمن۔۔۔ کارمن۔۔۔ مجھے تمہارے دل سے، تمہارے دماغ سے، تمہاری روح سے عشق ہے۔ نک نے اتنی دنیا دیکھی ہے۔ اتنی حسین لڑکیوں سے اس کی دوستی رہی ہے مگر اسے میری بد صورتی کا ذرا بھی احساس نہیں۔‘‘

    گرجا سے واپسی پر، خلیج کے کنارے کنارے سڑک پر چلتے ہوئے، وائی ڈبلیو کے نم ناک ہال میں کپڑوں پر استری کرتے ہوئے کارمن نے مجھے اپنی اور نک کی داستان سنائی۔ نک ڈاکٹر تھا اور ہارٹ سرجری کی اعلا ٹریننگ کے لیے باہر گیا ہوا تھا۔ اور اسے دیوانہ وار چاہتا تھا۔

    رات کو میں مسز سو ریل کے کمرے سے کارمن کے کمرے میں واپس آچکی تھی۔ کیوں کہ مسز سوریل اپنی لڑکی کو پکڑ لانے میں کامیاب ہوگئی تھیں اور لڑکی اب ان کے ساتھ مقیم تھی۔ سونے سے پہلے میں مچھر دانی ٹھیک کر رہی تھی۔ کارمن پھر فرش پر آسن جمائے بیٹھی تھی۔

    ’’نک۔۔۔‘‘ اس نے کہنا شروع کیا۔ ’’آج کل کہاں ہے ؟‘‘ میں نے پوچھا۔ ’’معلوم نہیں۔‘‘

    ’’تم اسے خط نہیں لکھتیں ؟‘‘

    ’’نہیں‘‘

    ’’کیوں؟‘‘ میں نے حیرت سے سوال کیا۔ ’’تم خدا پر یقین رکھتی ہو؟‘‘ اس نے پوچھا۔ ’’یہ تو بہت لمبا چوڑا مسئلہ ہے‘‘، میں نے جمائی لے کر جواب دیا۔۔۔ ’’مگر یہ بتاؤ کہ تم اسے خط کیوں نہیں لکھتیں؟‘‘

    ’’پہلے میرے سوال کا جواب دو۔۔۔ تم خدا پر یقین رکھتی ہو؟‘‘

    ’’ہاں۔۔۔‘‘ میں نے بحث کو مختصر کرنے کے لیے کہا۔ ’’اچھا تو تم خدا کو خط لکھتی ہو ؟‘‘

    عمارت کی روشنیاں بجھ گئیں۔ رات کی ہوا میں آنگن کے درخت سرسرا رہے تھے۔ کمرے کے دروازے پر پڑا ہوا سرخ پھولوں والا پردہ ہوا کے جھونکوں سے پھڑ پھڑائے جارہا تھا۔ میں نے اٹھ کر اسے ایک طرف سر کا دیا۔

    ’’بہت خوب صورت پردہ ہے‘‘، میں نے پلنگ کی طرف لوٹتے ہوئے اظہارِ خیال کیا۔ کارمن فرش پر کروٹ بدل کر آنکھیں بند کیے لیٹی تھی۔ میری بات پر وہ پھر اٹھ کر بیٹھ گئی۔ اور اس نے آہستہ آہستہ کہنا شروع کیا۔۔۔ ’’میں اور نک ایک مرتبہ پہاڑی علاقے میں کئی سو میل کی ڈرائیور کے لیے گئے تھے۔۔۔ سن رہی ہو؟‘‘

    ’’ہاں۔۔۔ ہاں۔۔۔ بتاؤ۔۔۔‘‘

    ’’راستے میں نک نے کہا کہ چلو ڈون ریموں سے ملتے چلیں۔ ڈون ریموں نک کے والد کے دوست اور کابینہ کے وزیر تھے اور انہوں نے حال ہی میں اپنے ضلع کے پہاڑی مقام پر نئی کوٹھی بنوائی تھی۔ جب ہم لوگ ان کی کوٹھی کے نزدیک پہنچے تو سامنے سے سفید فراک پہنے بہت سی چھوٹی چھوٹی بچیاں ایک اسکول سے نکل کر آتی دکھائی دیں۔ مجھے وہ منظر ایک خواب کی طرح یاد ہے۔ پھر ہم لوگ اندر گئے اور مسز ریموں کے انتظار میں ان کے شان دار ڈرائنگ روم میں بیٹھے۔ کیبنٹ منسٹر گھر پر موجود نہیں تھے۔ ڈرائنگ روم اور اسٹڈی کے درمیان جو دیوار تھی اس میں شیشے کی ایک چو کور ڈبّے ایسی کھڑکی میں پلاسٹک کی ایک بہت بڑی گڑیا سجی تھی جو کمرے کی نفیس آرایش کے مقابلے میں بہت بھدّی معلوم ہو رہی تھی۔ ہم دونوں اس بد مذاقی پر چپکے سے مسکرائے پھر مس ریموں برآمد ہوئیں۔ انہوں نے ہمیں ٹھنڈی چائے پلائی اور سارا گھر دکھلایا۔ ان کے غسل خانے سیاہ ٹائل کے تھے اورمہمان کمرے کے نفیس دیوان بیڈ، سرخ پھول دار ٹیپسٹری (Tapestry) کے جھالر والے غلافوں سے ڈھکے ہوئے تھے۔ ان پلنگوں کو دیکھ کر نک نے چپکے سے مجھ سے کہا تھا۔۔۔ ’’بد مذاقی کی انتہا‘‘ اور میں نے اپنے دل میں کہا تھا۔۔۔ کوئی بد مذاقی نہیں۔ میں تو اپنے گھر کے لیے ایسے ہی پلنگ خریدوں گی اور اسی رنگ کے غلاف بنواؤں گی۔ اس کے بعد۔۔۔ میں جب بھی گھریلو ساز و سامان کی دکانوں سے گزرتی تو اس کپڑے کو دیکھ کر میرے قدم ٹھٹھک جاتے۔۔۔ پھر میں نے تنخواہ میں سے بچا بچا کر اسی قیمتی کپڑے کا یہ پردہ خرید لیا۔۔۔

    جب میں ایک مخصوص چینی ریستوران کے آگے سے گزرتی ہوں۔ ‘‘وہ اسی آواز میں کہتی رہی۔۔۔’’ اور شیشے کے دریچے کے قریب رکھی ہوئی میز اور اس پر جلتا ہوا سبز لیمپ نظر آتا ہے۔ تو میرا دل ڈوب سا جاتا ہے وہاں میں نے ایک شام نک کے ساتھ کھانا کھایا تھا۔‘‘

    مجھے نیند آرہی تھی اور میں نک کے اس وظیفے سے اکتا چکی تھی۔ میں نے مچھر دانی کے پردے گراتے ہوئے کہاں۔ ’’ایک بات بتاؤ۔ تم کو اس قدر شدید عشق ہے اپنے اس نک سے،تو تم نے اس سے شادی کیوں نہ کرلی؟ اب تک کیوں جھک مارتی رہیں۔۔۔؟‘‘

    ’’مجھے دس سال تک ایک دور افتادہ جزیرے میں اپنے بابا کے ساتھ رہنا پڑا۔۔۔‘‘ اس نے اداسی سے جواب دیا۔۔۔ ’’پہلے ہم لوگ اسی شہر میں رہتے تھے۔ جنگ کے زمانے میں بمباری سے ہمارا چھوٹا سا مکان جل کر راکھ ہوگیا اور میری ماں اور دونوں بھائی مارے گئے۔ صرف میں اور میرے بابا زندہ بچے۔ بابا ایک اسکول میں سائنس ٹیچر تھے۔ ان کو ٹی بی ہوگئی۔ اور میں نے انہیں سینے ٹوریم میں داخل کرا دیا جو بہت دور کے جزیرے میں تھا۔۔۔ سینے ٹوریم بہت مہنگا تھا اس لیے کالج چھوڑتے ہی میں نے اسی صحت گاہ کے دفتر میں نوکری کر لی اور آس پاس کے دولت مند زمین داروں کے گھروں میں ٹیوشن بھی کرتی رہی، مگر بابا کا علاج اور زیادہ مہنگا ہوتا گیا۔ تب میں نے اپنے گاؤں جاکر انناس کا آبائی باغیچہ رہن رکھ دیا۔ تب بھی بابا اچھے نہ ہوئے۔ میں ایک جزیرے سے دوسرے جزیرے تک کشتی میں بیٹھ کر جاتی اور زمین داروں کے محلوں میں ان کے کند ذہن بچوں کو پڑھاتے پڑھاتے تھک کر چور ہوجاتی۔ تب بھی بابا اچھے نہ ہوئے۔

    نک سے میری ملاقات آج سے دس سال قبل ایک فیسٹا میں ہوئی تھی۔ اس دوران میں جب بھی دارالسلطنت آتی وہ مجھ سے ملتا رہتا۔ تین سال ہوئے اس نے شادی پر اصرار کیا۔ لیکن بابا کی حالت اتنی خراب تھی کہ میں ان کو مرتا چھوڑ کر یہاں نہ آسکتی تھی۔ اسی زمانے میں نک کو باہر جانا پڑ گیا۔ جب بابا مرگئے تو میں یہاں آگئی۔ اب میں یہاں ملازمت کر رہی ہوں اور اگلے سال یونی ورسٹی میں اپنا مقالہ بھی داخل کردوں گی۔ میں چاہتی ہوں کہ بابا کے کھیت بھی رہن سے چھڑا لوں۔ نک میری مدد کرنا چاہتا تھا مگر میں شادی سے پہلے اس سے ایک پیسہ نہ لوں گی۔ اس کے خاندان والے بڑے بد دماغ اور اکڑفوں والے لوگ ہیں۔ اور ایک لڑکی کے لیے اس کی عزت نفس بہت بڑی چیز ہے۔ عزت نفس اور خود داری اور خود اعتمادی، اگر مجھے کبھی یہ احساس ہوجائے کہ نک بھی مجھے حقیر سمجھتا ہے۔۔۔ یا مجھے۔۔۔؟ سو گئیں۔۔۔ ؟ اچھا گڈ نائٹ۔۔۔‘‘

    دوسرے روز صبح وہ تیار ہو کر حسب معمول سب سے پہلے ناشتے کی میز پر انتظام کے لیے پہنچ چکی تھی۔ مسز سوریل گام واپس جارہی تھیں۔ اپنے ہونے والے داماد سے ان کی صلح ہوگئی تھی۔ وہ سویرے ہی سے آن پہنچا تھا۔ وہ ایک منحنی سا نوجوان تھا اور برآمدے کے ایک کونے میں بھیگی بلّی بنا بیٹھا تھا۔ فضا پر عجیب سی بشاشت طاری تھی۔ لڑکیاں بات بات پر قہقہے لگا رہی تھیں۔ میں بھی بہت مسرور تھی اور خود کو بے حد ہلکا پھلکامحسوس کر رہی تھی۔ یہ ہلکے پھلکے پن اور مکمل امن و سکون کا شگفتہ احساس زندگی میں بہت کم آتا ہے اور صرف چند لمحے رہتا ہے۔ مگر وہ لمحے بہت غنیمت ہیں۔ کارمن جلدی جلدی ناشتہ ختم کر کے دفتر چلی گئی۔

    ’’آج بھی تم اپنے شان دار دوستوں سے ملنے نہ جارہی ہوتیں تو تم کو جیپنی (Jeepney) میں بٹھا کر شہر کے گلی کوچوں کی سیر کراتے‘‘ میگدینیا نے مجھ سے کہا۔

    ’’تمہارے لیے ایک کیڈی لیک آئی ہے‘‘، روزانے اندر آکر اطلاع دی۔ ’’کیڈی لیک۔۔۔؟ افوہ۔۔۔‘‘ کورس ہوا۔

    ’’تمہارے لیے ایسی ایسی جغادری موٹریں آتی ہیں کہ ہم لوگوں کی رعب کے مارے بالکل گھگھی بندھ جاتی ہے۔‘‘ برناڈا نے خوش دلی سے اضافہ کیا۔ میں نے لڑکیوں کو خدا حافظ کہا اور اپنا سفری بیگ کندھے سے لٹکا کر باہر آگئی۔ میں سابق سفیر ڈون گارسیاڈیل پریڈوس کے ہاں دو دن کے لیے ان کے ہِل اسٹیشن جارہی تھی۔ ان کے وردی پوش شوفر نے سیاہ کیڈی لیک کا دروازہ مودبانہ بند کیا اور کار شہر سے نکل کر سر سبز پہاڑوں کی سمت روانہ ہوگئی۔

    پہاڑ کی ایک چوٹی پر ڈون گارسیا کا ہسپانوی وضع کا شان دار گھر درختوں میں چھپا دور سے نظر آرہا تھا۔ وادیوں میں کہرا منڈلا رہا تھا اور سفید اور کاسنی اور سرخ اور زرد رنگ کے پہاڑی پھول سارے میں کھلے ہوئے تھے۔ کار پھاٹک میں داخل ہو کر پورج میں رک گئی۔ قبائلی نسلوں والی شایستہ نوکرانیاں باہر نکلیں۔ بٹلر نے نیچے آکر کار کا دروازہ کھولا۔ ہال کے دروازے میں ڈون گارسیا اور ان کی بیوی ڈونا ماریا میرے منتظر تھے۔ ان کا گھر سفید قالینوں اور سنہرے فرنیچر اور انتہائی قیمتی سامانِ آرایش سے سجا ہوا تھا اور اس طرح کے کمرے تھے جن کی تصویریں لائف میگزین کے رنگین صفحات پر ’وپریڈ فرنیچر یا ’انٹریر ڈیکوریشن‘ کے سلسلے میں اکثر شایع کی جاتی ہیں۔ کچھ دیر بعد میں ڈونا ماریا کے ساتھ اوپر کی منزل پر گئی۔ وہاں شیشوں والے برآمدے کے ایک کونے میں ایک نازک سی بید کی ٹوکری میں ایک چھے مہینے کی بے حد گلابی بچّی پڑی غاؤں غاؤں کر رہی تھی۔ وہ بچّی اس قدر پیاری سی تھی کہ میں ڈونا ماریا کی بات ادھوری چھوڑ کر سیدھی ٹوکری کے پاس چلی گئی۔ ایک بے حد حسین، صحت مند، ترو تازہ اور کمسن امریکن لڑکی نزدیک کے صوفے سے اٹھ کر میری جانب آئی اور مسکرا کر مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ ’’یہ میری بہو ہے۔۔۔‘‘ ڈونا ماریا نے کہا۔

    ہم تینوں ٹوکری کے گرد کھڑے ہو کر بچّی سے لاڈپیار میں مصروف ہوگئے۔ دوپہر کو لنچ کی میز پر امریکن لڑکی کا شوہر بھی آگیا۔ ’’یہ ہمارا بیٹا ہوزے ہے۔۔۔‘‘ ڈون گارسیانے کہا۔

    ہوزے کی عمر تقریبا پینتیس سال کی رہی ہوگی۔ اپنی قومی کڑھت کی ہلکے آبی رنگ کی قمیص اور سفید پتلون میں وہ خاص وجیہ معلوم ہو رہا تھا۔ وہ اپنی نو عمر بیوی کو بے انتہا چاہتا تھا اور بچی پر عاشق تھا۔ زیادہ تر وہ اسی کی باتیں کرتا رہا۔

    رات کو میں اپنی بے حد پر تکلف اور بڑھیا خواب گاہ میں گئی جس کے ساز و سامان کو ہاتھ لگاتے فکر ہوتی تھی کہ کہیں میلا نہ ہوجائے۔ اس وقت مجھے دائی ڈبلیو کے سیلے ہوئے کمرے اور تنگ مچھر دانی اور مسز سوریل اور ہال کی بد رنگ میز کر سیاں شدّت سے یاد آئیں۔ دو دن بعد پریڈوس خاندان میرے ساتھ ہی دار السلطنت واپس لوٹا۔

    اپنے ماں باپ کو ان کے ٹاؤن ہاؤس میں اتارنے کے بعد ہوزے نے مجھے میری جائے قیام پر پہنچانے کے لیے کیڈی لیک دوبارہ اسٹارٹ کی۔ ہوز ے اور اس کی بیوی ڈورو تھی صرف دو ہفتے قبل امریکہ سے لوٹے تھے۔ ان کا بہت سا سامان کسٹم ہاؤس میں پڑا تھا جسے چھڑانے کے لیے انہیں جانا تھا۔ شہر کے سب سے اعلا ہوٹل کے سامنے ہوزے نے کار روک لی۔ ’’یہاں کیا کرنا ہے ؟‘‘ میں نے اس سے پوچھا۔ ’’تم یہیں ٹھہری ہو نا؟‘‘

    ’’نہیں! ڈیر ہوزے۔ میں وائی ڈبلیو سی اے میں ٹھہری ہوں۔‘‘

    ’’وائی ڈبلیو۔۔۔؟ گڈ گاڈ۔۔۔! کمال ہے۔ اچھا، وہیں چلتے ہیں مگر کیا تم کو یہاں جگہ نہ مل سکی؟ تمہیں چاہئے تھا کہ آتے ہی ڈیڈی کو اطلاع دیتیں۔۔۔‘‘

    اس وقت مجھے دفعتاً خیال آیا کہ میں ہر طبقے اور ہر قسم کے لوگوں کو اپنی افتادِ طبع کے ذریعے کم از کم اپنی حد تک ذہنی طور پر ہم وار کرتی چلی جاتی ہوں مگر ہوزے اور اس کے والدین اس ملک کے دس دولت مند ترین خاندانوں میں شامل تھے اور یہاں کے حکم ران طبقے کے اہم ستون تھے اور ان لوگوں کو یہ سمجھانا بالکل بے کار تھا کہ مجھے وائی ڈبلیو کیوں اتنا اچھالگا ہے اورمیں وہاں ٹھہرنے پر کیوں اس قدر مصر ہوں۔

    ہوزے نے گلی کے نکّڑ پر کار روک لی۔ کیونکہ جینپیوں کی قطار نے سارا راستہ گھیر رکھا تھا۔ میں جب وائی ڈبلیو کے اندر پہنچی تو سب لوگ سوچکے تھے۔ میں چپکے سے جاکر اپنی مچھر دانی میں گھس گئی۔ کارمن حسب معمول فرش پر سکون کے ساتھ سو رہی تھی۔ اس کے سرہانے سانتو طوماس (سینٹ طاس) کی تصویر پر گلی کے لیمپ کا مدھم عکس جھلملا رہا تھا۔

    صبح چار بجے اٹھ کر میں دبے پاؤں چلتی شکستہ غسل خانے میں گئی اور آہستہ سے پانی کا نل کھولا۔ مگر پانی کی دھار اس زور سے نکلی کہ میں چونک اٹھی۔ اسی طرح چپکے چپکے کمرے میں آکر میں نے اسباب باندھا تاکہ آہٹ سے کارمن کی آنکھ نہ کھل جائے۔ اتنے میں میں نے دیکھا کہ وہ فرش پر سے غائب ہے۔ کچھ دیر بعد اس نے آکر کہا، ’’ناشتہ تیار ہے۔۔۔‘‘ وہ ٹیکسی کے لیے فون بھی کر چکی تھی۔ ’’کیسا سفر رہا۔۔۔؟‘‘ اس نے چائے انڈیلتے ہوئے پوچھا۔ ’’بہت دل چسپ۔‘‘

    ’’یہ تمہارے دوست لوگ کون تھے، جہاں تم گئی تھیں۔۔۔؟ تم نے بتایا ہی نہیں۔‘‘ میں بات شروع کرنے ہی والی تھی کہ مجھے اچانک ایک خیال آیا۔ میں نے جلدی سے کمرے میں جاکر سوٹ کیس کھولا۔ ایک نئی بنارسی ساڑی نکال کر ایک پرچے پر لکھا، ’’تمہاری شادی کے لیے میرا پیشگی تحفہ۔۔۔‘‘ اور ساڑی اور پرچہ کارمن کے تکیے کے نیچے رکھ دیا۔

    ’’ٹیکسی آگئی۔۔۔‘‘ کارمن نے برآمدے میں سے آواز دی۔ ہم دونوں سامان اٹھا کر باہر آئے۔ میں ٹیکسی میں بیٹھ گئی۔ اتنے میں کارمن پھاٹک کی کھڑکی میں سے سرنکال کر چلائی۔۔۔ ’’ارے تم نے اپنا پتا تو دیا ہی نہیں۔۔۔‘‘ میں نے کاغذ کے ٹکڑے پر اپنا پتا گھسیٹ کر اسے تھما دیا۔ پھر مجھے بھی ایک بے حد ضروری بات یاد آئی۔۔۔ ’’حد ہوگئی کارمن! تمہاری وائی ڈبلیو نے مجھے اپنا بلِ نہیں دیا۔‘‘

    ’’بکو مت۔۔۔‘‘

    ’’ارے یہ تمہارا نجی گھر تو نہیں تھا۔‘‘

    ’’تم میری مہمان تھیں۔‘‘

    ’’بکو مت۔۔۔‘‘

    ’’تم خود مت بکو۔ اب بھاگو ورنہ ہوائی جہاز چھٹ جائے گا اور دیکھو، جب میں شادی کا کارڈ بھیجوں تو تم کو آنا پڑے گا۔ میں کوئی بہانہ نہیں سنوں گی۔ ذرا سوچو، نک تم سے مل کر کتنا خوش ہوگا۔‘‘ مگر ہم دونوں کو معلوم تھا کہ میرا دوبارہ اتنی دور آنا بہت مشکل ہے۔ ’’خدا حافظ کارمن۔۔۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’خدا حافظ۔۔۔‘‘ وہ کھڑکی میں سے سر نکال کر بہت دیر تک ہاتھ ہلاتی رہی۔ ٹیکسی صبح کاذب کے دھندلکے میں ایر پورٹ روانہ ہوگئی۔

    ہوائی جہاز تیار کھڑا تھا۔ میں کسٹم کاؤنٹر پر سے لوٹی تو پیچھے سے ڈون گارسیا کی آواز آئی۔۔۔ ’’نک! میں ذرا سگار خرید لوں !‘‘

    ’’بہت اچھا ڈیڈی۔۔۔‘‘ یہ ہوزے کی آواز تھی۔ میں چونک کر پیچھے مڑی۔ ہوزے مسکراتا ہوا میری طرف بڑھا۔۔۔ ’’دیکھا ہم لوگ کیسے ٹھیک وقت پر پہنچے۔‘‘ ہوزے۔۔۔ میں نے ڈوبتے ہوئے دل سے پوچھا۔۔۔ ’’ تمہارا دوسرا نام کیا ہے؟‘‘

    ’’نِک۔۔۔ ڈیڈی جب بہت لاڈ میں آتے ہیں تو مجھے نک پکارتے ہیں۔ ورنہ عام طور پر میں ہوزے ہی کہلاتا ہوں۔ کیوں۔۔۔؟‘‘

    ’’کچھ نہیں۔۔۔‘‘ میں اس کے ساتھ ساتھ لاؤنج کی طرف چلنے لگی۔۔۔ ’’تم امریکہ کیا کرنے گئے تھے؟‘‘ میں نے آہستہ سے پوچھا۔ ’’ہارٹ سرجری میں اسپیشلائز کرنے۔۔۔ تمہیں بتایا تو تھا کیوں۔۔۔؟‘‘

    ’’تم۔۔۔ کبھی تم نے۔۔۔ تم نے۔۔۔‘‘

    ’’کیوں۔۔۔؟ کیا ہوا۔۔۔؟ کیا بات ہے؟‘‘

    ’’کچھ نہیں۔۔۔‘‘ میری آواز ڈوب گئی۔ لاؤڈ اسپیکر نے یکسانیت سے دہرانا شروع کیا۔۔۔ ’’پَین امریکن کے مسافر۔۔۔ پَین امریکن کے مسافر۔۔۔‘‘

    ’’ارے۔۔۔ روانگی کا وقت اتنی جلدی آگیا؟‘‘ نک نے تعجب سے گھڑی دیکھی۔ ڈون گارسیاسگار خرید کر شفقت سے مسکراتے میری طرف آئے، میں نے دونوں باپ بیٹوں کا شکریہ ادا کیا۔ انہیں خدا حافظ کہا اور تیزی سے مسافروں کی قطار میں جا ملی۔ دوڑتے ہوئے طیارے کی کھڑکی میں سے میں نے دیکھا۔ ڈون گارسیااور نک نیچے ریلنگ پر جھکے رومال ہلا رہے تھے۔ طیارے نے زمین سے بلند ہونا شروع کردیا۔۔۔

    یہاں سے بہت دور، خطرناک طوفانوں سے گھرے ہوئے پوربی سمندر میں ہرے بھرے جزیروں کا ایک جھنڈ ہے جو فلپائن کہلاتا ہے۔ اس کے جاگتے جگمگاتے دار السلطنت منیلاکے ایک بے رنگ سے محلے کی ایک شکستہ عمارت کے اندر ایک بے حد چپٹی ناک اور فرشتے کے سے معصوم دل والی فلپنولڑکی رہتی ہے جو اپنے بچے کے لیے کھلونے جمع کر رہی ہے اور اپنے خدا کی واپسی کی منتظر ہے جس کی ذات پر اسے کامل یقین ہے۔

    مأخذ:

    پت جھڑ کی آواز (Pg. 167)

    • مصنف: قرۃالعین حیدر
      • ناشر: مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 1965

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے