منزل
کہانی کی کہانی
’’یہ ایسے بچے کی کہانی ہے جسے لگتا ہے کہ اس کے ماں باپ اس سے پیار نہیں کرتے۔ اس نے اپنے ماں باپ کا پیار حاصل کرنے کے لیے ان کی خدمتیں کی تھی۔ گھر کے کام کاج میں ہاتھ بنٹایا تھا۔ کتا پالا تھا۔ آڑی ترچھی لکیریں کھینچی تھیں۔ بھائیوں سے دوستی کی، بلی پالی۔ مگر کوئی بھی اپنا نہ ہو سکا۔ مٹی کے کھلونوں میں جی لگانا چاہا وہ بھی دور ہو گئے۔ سب طرف سے مایوس ہوکر اس نے مرنے کا فیصلہ کر لیا۔ مگر تبھی اس کی زندگی میں ایک لڑکی آئی اور سب کچھ بدل گیا۔‘‘
مسعود میاں بڑبڑا کر اٹھ بیٹھے۔
ابھی صبح کا ملگجا ملگجا اندھیارا دور نہیں ہوا تھا۔ دالان میں تو آنگن کے مقابلے میں یونہی زیادہ اندھیرا تھا۔ ساری چیزیں مٹی مٹی اور غیرواضح تھیں۔ مگر روشنی کی کمی کے باوجود مسعود میاں نے دیکھ لیا کہ ان کا بستر آج پھر گیلا گیلا سا تھا۔ سانس روک کر ا دھ کھلی ادھ بند آنکھوں کو مل مل کر انھوں نے سر نیچے جھکا دیا۔ ان کا شبہ یقین سے بدل گیا۔ آج پھر وہی واردات ہو گئی تھی۔
انہوں نے آہستہ سے رضائی اٹھا کر پلنگ کے نیچے دھری۔ مگر ان کی مایوسی اور گھبراہٹ دو چند ہو گئی جب انھوں نے دیکھا کہ رضائی کا ایک کونہ بھی گیلا ہو رہا تھا۔ چادر سے لے کر تو شک۔ بلکہ شطرنجی تک اس نامراد نمی کے اثرات پہنچ چکے تھے۔ ان کا جی دھک دھک کرنے لگا۔ اندھیرے میں انھوں نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دوسرے پلنگوں پر نظر دوڑانی شروع کی۔ ’’کوئی مجھے دیکھ تو نہیں رہا ہے؟‘‘
بازو کے پلنگ پر اماں سوئی تھیں۔ ساتھ والے پلنگ پر ابا جان۔ پھر تین پلنگوں پر انور میاں، اخلاق میاں اور عظیم میاں۔ سب کے سب صبح کی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کھاتے مزے سے خرخر کر رہے تھے۔ انھوں نے شکر سے سانس لی۔ اگر تینوں بھائیوں میں سے کوئی بھی دیکھ لیتا تو ان کی شرمندگی کی انتہا نہ رہیت۔ منہ سے تو بھلا کیا کہتے مگر ان کی آنکھیں؟ اچھا ہی تھا جو تینوں سو رہے تھے۔
ابھی تو کسی کے اٹھنے کا امکان نہیں تھا۔ ان کے چہرے پر خوشی سی چھا گئی۔ اپنی چوری ڈھانکنے کا ایک واحد حل انھیں یہی نظر آتا تھا کہ چپکے سے بستر کی گونڈی بنا کر اونچی گھڑونچی پہ رکھ دیں۔ پھر اماں اٹھتیں تو خودہی خبر ہو جاتی۔
وہ بڑی آہستگی کے ساتھ بستر سے اترے، شطرنجی، توشک، چادر اور تکئے سلیقے سے رکھے۔ پھر رضائی تہہ کرکے پورے بستر پر پھیلادی اور بستر لپیٹنا شروع کردیا۔ بڑی نفاست اور آہستگی سے انھوں نے بستر کی گونڈی بنالی۔ ادھر ادھر دیکھ کر چپکے سے وہ گونڈی اٹھا کر کندھے پر دھری اور دبے پاؤں، دالان سے ہوتے برآمدے میں آئے اور کونے میں رکھی تین پاؤں کی گھڑونچی پر وہ گونڈی بوغبن سے ڈھانک کر کر رکھ دی۔
’’دودھ لے جاؤ۔‘‘
باہر سے دودھ والے کی تیز اور بھدی آواز آئی۔ وہ اکدم باورچی خانے کو لپک پڑے وہاں سے لوٹا اٹھایا اور باہر نکل گئے۔ ایسا بہت کم ہوتا تھا کہ ادھر دودھ والے نے پکارا ہو اور ادھر مسعود میاں لپکے آئے ہوں۔ جب تک وہ جھلا جھلا کر تین چار آوازیں نہ دے لیتا یہ بستر سے ہلتے بھی نہ تھے۔ پھر بڑی کسمساہٹ کے ساتھ کروٹ بدلتے، آنکھیں ملتے، منہ ہی منہ میں بد بدالتے اٹھ بیٹھتے۔ لوٹا اٹھا کر باہر نکلتے نکلتے میں ادھر دودھ والے کا مزاج خاصا گرم ہو جاتا۔ الجھ کر بولتا۔
’’مجھے اور بھی گھر ہیں یا بس ایک تمہارا ہی گھر رہ گیا ہے۔‘‘
مسعود میاں نہ ہنستے نہ جھلاتے۔ بغیر منہ سے ایک لفظ نکالے لوٹا آگے بڑھا دیتے اور وہ چار پاؤ دودھ ڈال دیتا۔ جاتے جاتے بڑ بڑا جاتا۔
’’اگر کل سے جلدی دودھ نہ لیا تو میں راتب توڑ دوں گا۔‘‘
یہ کئی زمانے کا بندھا بندھا یا معمول تھا۔
آج مسعود میاں کو ایک ہی آواز میں موجود دیکھ کر دودھ والے کی باچھیں پھٹ پڑیں۔
’’اتے سبیرے سبیرے کیسے جگ پڑے آج؟‘‘
مسعود میاں بری طرح کھسیائے۔ کہیں اسے بھی پتہ نہیں چل گیا۔ ’’ہاں لہجے میں تو خاصا تمسخر ہے اس کے۔ انہوں نے لوٹا پکڑے ہی پکڑے بڑی چور نگاہوں سے اپنے، پاجامے کا جائزہ لینا شروع کر دیا۔ کم بخت نامراد تھی۔ انھوں نے گھبرا کر نظر اٹھائی تو دودھ والا لوٹے میں دودھ ڈال چکا تھا۔
’’یہ ایسے کھوئے کھوئے کا ہے کھڑے ہو جی میاں۔ لوٹا پکڑوگے کہ نہیں۔
انہوں نے بوکھلا کر لوٹا جو زور سے چھینا تو دودھ چھلک کر زمین پر گر پڑا۔ وہ چلا کر بولا۔ ’’اور جو بی بی باتیں کریں گی کہ دودھ کم دیا تھا تو میں صفا بول دوں گا، میاں نے چھلکا دیا تھا ہاں!‘‘ اور وہ بڑے بڑے قدم اٹھاتا آگے بڑھ گیا۔
گھر میں ابھی تک سوتا پڑا تھا۔ اب صبح کی ہلکی ہلکی روشنی سارے گھر میں پھیل رہی تھی آگے سوچنا نہیں چاہتے تھے۔ مارے شرم اور ندامت کے ان کا دماغ بوجھل ہونے لگا۔ وہ لوٹا باورچی خانے میں رکھ، جلدی سے حمام میں گھس گئے۔ دانتوں پر جلدی جلدی منجن گھس کر انھوں نے دو چار الٹی سیدھی کلیاں کیں۔ اور جلدی سے کپڑے اتار کر یونہی کونے میں پھینک دیئے اور خود نل کی ٹونٹی کے نیچے کھڑے ہو گئے۔ نہا دھوکر جب صاف ستھرے کپڑے پہن کر وہ حمام سے باہر نکلے تو گو ان کے دل کر تھوڑا بہت اطمینان مل چکا تھا مگر پھر بھی وہ ذرا گھبرائے گھبرائے سے تھے۔
باہر دالان میں سب اٹھنے لگے تھے۔ شرمندگی کے احساس نے پھر ان کا گلا دبوچ لیا۔ انہوں نے خیریت اسی میں سمجھی کہ چپکے سے بیٹھک میں جاکر بیٹھ جائیں۔ بیٹھک میں دادا میاں تسبیح پر پٹ پٹ منہ ہلاتے وظیفہ پڑھ رہے تھے۔ پوتے کو صبح ہی صبح صاف ستھرا کپڑوں میں ملبوس اور دھلے دھلائے جسم کو دیکھ کر وہ سمجھ گئے کہ آج بھی گھپلا ہو گیا ہے۔ وہ وظیفہ پڑھتے ہی پڑھتے معنی خیز انداز میں مسکرائے۔ جیسے بولتے ہوں۔
’’میاں بوڑھا ہوں تو کیا ہوا، سب سمجھتا ہوں۔ آخر ہم پر بھی کبھی یہ زمانہ آیا تھا۔‘‘
دادا کو مسکراتا دیکھ کر ان کا خون رگوں میں جم گیا۔
اندر جو شوروشر ہو رہا تھا اس سے صاف ظاہر تھا کہ اب سب جاگ پڑے ہیں۔
اماں بستر چھوڑ کر اٹھیں اور منہ ہاتھ دھوکر جب دالان میں آئیں تو ان کا ماتھا ٹھنکا۔
’’آج پھر مسعود میاں نے اپنے ہاتھوں اپنا بستر لپیٹ کر رکھ دیا ہے۔‘‘ انھوں نے دل ہی دل میں سوچا۔
لپکی ہوئی وہ گھڑونچی کے پاس گئیں۔ گونڈی مار جلدی جلدی کھولی تو دیکھا کہ جو کچھ انہوں نے سوچا تھا وہی نکلا۔ اور یہ آج کل کی بات تو تھی نہیں۔ جب کبھی اتفاق سے مسعود میاں کا بستر گیلا ہو جاتا۔ وہ یونہی گھر بھر میں سب سے پہلے اٹھ جاتے اور عیب ڈھانکنے کو اپنا بستر خود اپنے ہاتھوں لپیٹ کر رکھ دیتے۔
اماں نے ہر چیز کا جائزہ لے ڈالا۔ یہ چادر، یہ لحاف، یہ تو شک اور حد تو یہ تھی کہ وہ نمی سرکتی سرکتی شطرنجی تک پہنچ گئی تھی۔ ان کا جی کھول اٹھا۔ انہوں نے زور سے پکار کر کہ میاں بھی سن لیں، کہا۔
’’اجی دیکھتے ہیں۔ اس کم بخت نے آج پھر بستر میں پیشاب کر دیا ہے۔‘‘
’’ابا جان جو دانتوں پر مسواک ملتے بیٹھے تھے۔ ہڑ بڑا کر بولے۔‘‘
’’کیا کہا؟‘‘
اماں جھلا کر بولیں۔ ’’کہنا کیا تھا، یہی کہ صاحب زادے نے پیشاب کر دیا ہے، بھلے خاصے نئے بستر میں۔‘‘
’’پیشاب کر دیا!‘‘ وہ ناقابل یقین انداز سے بولے۔
’’اور کیا کہہ رہی ہوں پھر۔‘‘ وہ الجھ گئیں۔ اس مہینے میں تو یہ چوتھی بار ہے اور چالاکی تو دیکھو موئے کی، صبح ہی صبح بستر لپیٹ کر رکھ دیتا ہے اور نہا دھو کر یوں تیار ہو جاتا ہے جیسے عیدگاہ جانا ہو۔‘‘
میاں نے مسواک منہ میں پکڑے پکڑے۔‘‘ ہوں ہوں، کی۔ اور اس انداز میں ہاتھ سے بی بی کو دلاسہ دیا جیسے۔
’’ٹھہرو ابھی کمبخت کی خبر لیتا ہوں۔‘‘
کلی کر کے انھوں نے زوردار آواز سے پکارا۔ ’’مسعود!‘‘ اس صور اسرافیل کے مسعود میاں بہت دیر سے منتظر تھے جسے سن کر ان کا دم ہی نکل جاتا۔
’’جی۔‘‘ انہوں نے دور سے سہم کر آواز دی اور قریب آ گئے۔
ابا جان نے حسب عادت اور حسب معمول وہی گھسا پٹا اور پرانا سوال دہرایا۔
’’میاں تم کس تاریخ کو پیدا ہوئے تھے؟‘‘
’’جی سولہ دسمبر کو۔‘‘ انہوں نے منمناتی آواز سے کہا۔
’’اس حساب سے تمہاری کتنی عمر ہوئی؟‘‘
’’جی گیارہ برس میں ایک ہفتہ کم۔‘‘ انہوں نے انگلیوں پر حساب جوڑ کر نتیجہ سنایا۔
’’پھر یہ کتنی شرم کی بات ہے کہ تم گیارہ برس کے ہو کر بھی روزانہ بستروں میں موت دیتے ہو۔‘‘ انھوں نے خاصے عبرت انگیز لہجے میں غیرت دلانی چاہی۔
انہوں نے رک رک کر کہا۔ ’’ابا جان روزانہ تو کبھی نہیں کیا، اس سے پہلے مجھے یاد ہے کوئی پندرہ دن پہلے غلطی ہو گئی تھی۔‘‘
’’نامعقول۔ خاموش رہو۔‘‘ ابا جان ادھر سے اماں کی لال لال شکل دیکھ کر پھر سے ابل پڑے۔‘‘ پندھرواڑے کے پندھر واڑے موتنا بھی کیا بڑی اچھی بات ہے؟ تمہارے تین چھوٹے چھوٹے بھائی بھی تو ہیں کیا وہ کبھی ایسی واہیات حرکت کرتے ہیں؟‘‘
’’جی میں خود تھوڑی ہی کرتا ہوں۔ وہ تو آپی آپ غلطی سے نکل جاتا ہے۔‘‘
ابا جان گرج کر بولے، ’’اور جو کبھی آگے ایسی غلطی ہوئی تو یاد رکھو بچو جی ختنے کروا دونگا‘‘ حالان کہ آج سے زمانہ پہلے، جب وہ چھلے کے اندر ہی تھے۔ تبھی ان کے ختنے ہو چکے تھے۔ مگر ڈانٹ میں رنگ بھرنے کے لئے اس سے اچھی بات اور کوئی نہ مل ستی تھی۔ کیوں کہ مسعود میاں کے ہوش و حواس کے عالم میں جب عظیم میاں کے ختنے ہوئے تھے تو وہ مارے گھبراہٹ اور پریشانی کے دو دن تک نہیں سو سکے تھے۔
مسعود میاں اپنے باپ کی سب سے پہلی اولاد تھے۔ پھر ان کے بعد تین بیٹے اور ہوئے سب سے چھوٹے عظیم میاں کوئی دو ڈھائی برس کے ہوں گے۔ مسعود میاں سب میں بڑے تھے اور اس بڑے پن کے ناطے ان کے سر اتنی ساری ذمہ داریاں تھیں کہ اگر ان کا ایک قدم بھی غلط پڑتا تو بھائی چیختے ہی چیختے، ماں باپ بلکہ دادا میاں تک بلبلا اٹھتے۔ اگر کبھی گلی ڈنڈا کھیلنے میدان میں اتر آتے تو وہ کھیل بھی بڑے پن کی نذر ہو جاتا۔ یہ کیسی عجیب بات ہے کہ وہ بڑے ہونے کے باوجود چھوٹے بھائیوں سے داؤں نہیں لے سکتے اماں اور ابا جان کا حکم تھا کہ اگر گلی ہاتھ میں آتی بھی ہو تو جان بوجھ کر اسے چھوڑ دو۔ نشانہ ٹیڑھا کر کے باندھوتا کہ جیتنے کا امکان باقی نہ رہ جائے۔
’’میاں بڑے ہو۔ آخر چھوٹے بھائیوں سے بڑوں کا سا سلوک کیا کرو۔‘‘
گھر میں ابھی سب سوتے ہی ہوتے کہ دروازے پر دودھ دالا پکار جاتا۔ یہ کام مسعود میاں کا ہی تھا کہ صبح سویرے نید کو توڑ کر دودھ لینے دروازے پر جائیں۔ بھلا اولاد اور کون دن کے لئے ہوتی ہے کہ وہ ان کے کام کاج کا بار ہلکا کریں۔
بھلا چھوٹے بھائی کہاں ایسے کام سنبھال سکتے ہیں؟‘‘
دودھ والے سے دودھ لینے کے بعد کاموں کا سلسلہ جو شروع ہوتا تو پھر سوتی رات تک ختم ہونے میں نہ آتا۔ دودھ سے نپٹنے کے بعد وہ مرغیوں کا ڈربہ کھولتے۔ انھیں کھول کر بطخوں کی کابک کی خبر لیتے۔ رات کو اگر بطخوں نے انڈے دئیے ہوتے تو انھیں دھو دھلا کر الماری میں لا کر رکھتے، پھر باورچی خانے میں جا کر پیپے میں سے جواری نکالتے۔ ہاون دستے میں دھمک دھمک کر اسے چورا کرتے۔ اور پھر آنگن بیچ کھڑے ہو کر چلاتے۔ آ۔ آ۔ آ۔
مرغیاں اور بطخیں ان کی مانوس آواز ’’آ۔ آ‘‘ سنتے ہی لپکی چلی آتیں۔ کوئی ان کے ہاتھ کو نوچتا کوئی پیر سے لپٹ جاتا۔ وہ جلدی جلدی اپنے آس پاس کچلے ہوئے دانے بکھیڑتے مرغیاں، بطخیں ادھر دانہ چگنے میں مصروف رہتیں تو یہ بالٹی میں پانی لے، جھاڑو اتھا ڈربوں کے پاس پہنچ جاتے۔ اینٹ کا ٹکڑا لے کر رات بھر کی جمی ہوئی گندگی کھرچتے اور پھرپانی ڈال ڈال کے جھاڑو سے خوف صاف دھو ڈالتے۔ اتنے میں اماں چیخ چیخ کر سارا گھر، سر پر اٹھا لیتیں۔
’’میری آنکھیں پھوٹی جا رہی ہیں نامراد۔ لکڑیاں تو دیکھو ایسی گیلی گیلی ہیں کہ آنکھوں سے بارش ہوئی جارہی ہے۔‘‘
جاڑے ہوں کہ برسات۔ گرمی ہو کہ سردی، اماں کے ہاں لکڑیاں سدا گیلی ہی ہوا کرتیں۔ وہ ہاتھ کی جھاڑو چھوڑ جلدی سے کرتے کے دامن سے ہاتھ صاف کر تے اماں کی طرف لپک جاتے۔
’’جی کیا کہا؟‘‘
’’کیا تمہارا سر۔ دکھتا نہیں ماں کی آنکھوں سے دن بدن کم دکھائی دینے لگا ہے۔ اور اولاد دن بھر مستیاں مچاتی پھرتی ہے۔‘‘
وہ سعادت مندی سے سر جھکا کر کچھ کہنا ہی چاہتے کہ اماں کی نظر ان کے ہاتھوں پر پڑ جاتی۔
’’اے ہے۔ کم بخت مارے۔ ساری قمیص گندی کر دی۔ ارے کلموہے، کوئی یوں کرتے سے گو موت کے ہاتھ پونچھتا ہے۔ اب بولوں تیرے دادا کو۔‘‘
اک دم ڈر کر ہاتھ نیچے چھوڑ دیتے اور کونے میں پڑی ٹوکری اٹھا باہر کو بھاگ جاتے۔ لکڑی کا ٹال گھر سے تین قدم کے فاصلے پر ہی تھا۔ ٹوکری سامنے ڈال کر وہ بولتے۔
’’آلنے بھر کی کلچیاں تو دے دو۔‘‘
لکڑی والا حد درجہ منہ پھٹ تھا۔ اس کے منہ کے ساتھ ہی اس کا کاروبار بھی چلتا تھا ہنس کر بولتا۔ ’’کیوں جورو کا مردہ جلانا ہے کیا؟‘‘
مسعود میاں بغیر کوئی نوٹس لئے دھیرے سے بولتے۔
’’جلدی سے دے دو بھائی، ورنہ اماں پٹائی کریں گی۔‘‘
لکڑیاں لے کر آتے آتے یہاں دوسرے کام ان کے منتظر رہتے کبھی کبھار وہ گھگھیا کر اخلاق یا انو سے کوئی کام بولتے، تو اماں ابا، یا دادا کوئی نہ کوئی چنگھاڑ جاتے۔
’’ایسا کون کام تمہارے سر آ پڑا ہے کہ چھوٹے بھائیوں کو بھی ساجھے دار بنانے پر تلے ہوئے ہو۔‘‘ وہ ذرا منمناتے تو دادا میاں بولتے۔ ’’ارے میاں چھوٹے بھائی ذرا بڑے ہو لیں پھر خود ہی تمہیں آرام مل جائےگا۔‘‘
مگر اتنے زمانے سے کسی بات میں ذرا بھی تو فرق نہیں پڑا تھا۔ وہی روزمرہ کا معمول تھا۔
ناشتہ ہو چکتا تو دادا میاں سارے پوتوں کو عربی کی تعلیم دینے بیٹھ جاتے۔ آدھے وقت سوتے، آدھے وقت جاگتے، غلط پڑھنے پر معاف کر دیتے اور صحیح پڑھنے پر جت جما دیتے۔
’’نامعقول ع کی آواز حلق سے نکالو۔‘‘ پھر اعوذ بااللہ کا ع اس قدر زور سے حلق سے ادا کرتے کہ لگتا دو چار بکرے ذبح ہو رہے ہیں۔
ابا جان شام کو واپس ہوتے تو پھر دھائیں دھائیں مچ جاتی۔ اماں سر پہ پلو رکھے ادھر ادھر ٹپک رہی ہیں۔ چولھے پر چھنن منن ہو رہی ہے۔ چائے بن رہی ہے گوشت ابل رہا ہے۔ بچے صحن میں دوڑ رہے ہیں۔ ایسے میں مسعود میاں ہر کام نبیڑ لیتے۔ ان کا جی آرام کو اور پیاربھری نگاہ کو ترس ترس جاتا، گھر میں دل نہ لگتا۔ جی چاہتا گھر چھوڑ کر بھاگ جائیں، مگر بھاگیں کہاں؟ اتنا ذرا سا تو محلہ تھا۔ اور پھر اس پر بھی اماں، اباجان، اور دادا میاں کی تاکید کہ گھر سے باہر نہ جاؤ محلے کے بچوں کے ساتھ نہ کھیلو۔ دو کوڑی کے ہو جاؤگے اور محلے میں بچے بھی کتنے تھے؟
چار چھ گھروں پر مشتمل تو تھا وہ محلہ۔ بازو والے گھر میں ایک خالہ رہتی تھیں۔ ان کے آل اولاد کوئی نہ تھی، دن بھرے میں کوئی چار چھ مرتبہ دیوار کے ساتھ کھڑی کر کے وہ اس پر چڑھ جاتیں اور اماں سے پوچھتیں۔
’’بہن کیا پکایا ہے؟‘‘
اماں کو بڑا ارمان کہ ان کی منہ بولی بہن کی گود بھر جائے۔ اسی لئے اتنے چاؤ سے انہیں ’’بہن کیا پکایا ہے؟‘‘ پوچھتا دیکھ کر ان کا دل کھل اٹھتا۔ اور وہ بڑے پیار سے پوچھتیں۔
’’کیوں بہن رہ گیا کیا؟‘‘
وہ ذرا ہنس کر، ذرا آزردہ ہو کر، بولتیں، ’’ناں بہن ایسے ہی پوچھ رہی تھی۔‘‘
’’نیں ک میں سمجھی شاید بچے کا دل کسی چیز پر للچا رہا ہوگا۔‘‘
ان سے ہٹ کر ایک اور گھر تھا۔ وہاں دو لڑکے تھے، دونوں ہی سدا ماں کی گود میں ٹھنسے رہتے۔ کبھی گھر میں پسا ہوا آٹا ختم ہو جاتا، یا مہینے سے پہلے تیل ختم ہو جاتا تو ایسے میں اماں کو اپنی آپا کا گھر یاد آتا۔ ڈول لئے لئے مسعود میاں دوڑ جاتے۔
’’جی۔ جی۔‘‘ وہ اٹک اٹک کر بولتے، ’’اماں نے کہا ہے جی وہ آٹا ختم ہو گیا۔ آپ کے پاس ہو تو دے دیں۔ ہمارا اناج پس کر آئےگا تو دے دیں گے۔‘‘
وہ مسکراتی ہوئی اٹھتیں۔ ’’کیا بات ہوئی لے جاؤ، جب آئے دے دینا۔‘‘
پھر اس سے لگ کر ایک منحنی آنکھوں والے مولوی صاحب رہتے تھے۔ مسجد والے پیش امام کی طبیعت اگر کبھی بوجہ زکام یا کھانسی خراب ہو جاتی تو جماعت سے نماز یہی پڑھواتے۔ ان کے گھرمیں بال بچہ کوئی نہ تھا۔ ایک سوکھی ماری بڈھی تھی جوان کے کھانے وانے کا انتظام کر دیا کرتی۔
ان کے بازو ایک چھوٹا سا پکا مکان تھا۔ یہاں کرائے کی دکان والے سلیمان خان رہتے ان کی بیوی کا انتقال آج سے کئی سال پہلے ہو گیا تھا۔ تب سے اب تک انہوں نے کوئی شادی نہ کی، مسعود میاں کی عمر کا ایک بچہ تھا۔ جو سدا اپنی اکڑ میں رہتا۔ سفید ہرک کے کھڑ کھڑاتے پاجامے اور اونچی کالر کی سلگن قمیص پہنے وہ دن بھر المونیم کے بکھر والی غلیل سے (جو اس کے والد شہر سے لائے تھے) گرگٹ اور چڑیاں مارا کرتا۔
سارے محلے میں ملا کر بمشکل دس بارہ لڑکے تھے۔ دوپہر کو جب سارے ماں باپ سو جاتے تو یہ مرغے گھر سے نکل آتے اور لڑ لڑ کر برا حال کر لیتے۔ سہہ پہر کو دھوپیں اپنا رخ بدل دیتیں اور تیز دھوپوں میں ہوا کے جھونکوں کی لہک بھی آنے لگتی تو یہ لڑتے بھڑتے اپنے اپنے ڈربوں میں چلے جاتے، مگر مسعود میاں کا دل شاڑ بوڑ میں اکیلا اکیلا ہی رہتا۔
’’کوئی مجھے پیار نہیں کرتا۔‘‘ رہ رہ کے یہی دکھ ان کے جی کو کھائے جاتا۔ دل بہلنے کا کوئی سامان نہ تھا۔
ایک دن نیم کی ٹھنڈی چھایا تلے سب کھیل کود رہے تھے۔ مسعود میاں چنو سے باتیں کرنے لگے۔ چنو نے باتیں کرتے کرتے غور سے ان کی طرف دیکھا اور بےتکے پن سے بولا۔
’’ارے یار یہ تمہاری انگلیوں کو کیا ہوا؟‘‘
انھوں نے شرما کر قمیص میں اپنے ہاتھ چھپا لینے چاہے۔ مگر تب تک وہ پوری طرح انگلیوں کا جائزہ لے چکا تھا۔ اب سواے سچ بول دینے کے انھیں کچھ نہ سوجھا۔
’’مرغیوں کا ڈربہ صاف کر رہا تھا کہ چھل گئیں۔!‘‘
’’ہات، تمہاری کی۔‘‘ وہ ہنس کر بولا۔ ’’مہتروں کی طرح مرغی کے ڈربے صاف کرتے ہو۔ شو۔ ہی، ہی۔ ہی۔‘‘ وہ اونچے اونچے ہنسنے لگا۔
’’کیوں تم نہیں کرتے؟‘‘ وہ حیرت سے بولے۔ ان کے لئے تو بڑے تعجب کا مقام تھا کہ لڑکے یونہی بیٹھے رہا کریں۔
’’ایسے کام اپن نہیں کرتے۔ بھئی اماں آخر کس لئے ہیں؟‘‘
’’اماں؟‘‘ وہ اچک کر بولے۔ ’’اماں ڈربے صاف کریں گی بھلا؟‘‘
’’ارے واہ یہ کام ہوتے ہیں عورتوں کے۔ ہم تو جناب مزے سے بیٹھے رہتے ہیں پڑھنے کو گئے، وہاں سے آئے کھیلا کودا۔ اور مزے سے لمبی تان دی۔ معاملہ ختم۔‘‘
’’پڑھنے کو کہاں جاتے ہو؟‘‘ انہوں نے بڑی لگن سے پوچھا۔
’’وہ اسکول ہے کہ نئیں۔۔۔‘‘
مسعود میاں خود ہی بول اٹھے۔ باپ رے۔ اتی دور!‘‘
’’تو کیا ہوا؟ ابا کہتے ہیں ورزش ہو جاتی ہے۔ وہاں مزے سے پڑھتے ہیں شام ہوئی گھر واپس۔‘‘
’’کیا پڑھتے ہو؟‘‘ انھوں نے ذرا اشتیاق سے پوچھا۔ ’’عربی؟‘‘
’’عربی۔ ہاں عربی بھی، اردو بھی اور انگریزی بھی۔‘‘
’’انگریزی کیا؟‘‘ وہ حیرت سے بولے۔
’’بھئی ہوتی ہے ایک چیز۔ اب جیسے کتا ہے نا۔ تو ہم اسے کتا کہتے ہیں۔ مگر انگریزی میں اسے ڈوگ بولتے ہیں۔‘‘
’’اور بلی کو؟‘‘ وہ خوشی اور قدرے حیرت سے بولے۔
’’کیٹ۔‘‘
اور بکری کو؟‘‘
’’گوٹ۔‘‘
’’اور مجھے؟‘‘
’’بوائے۔‘‘
’’اور تمہیں؟‘‘
’’مجھے بھی بوائے!‘‘
ان کی آنکھیں حیرت سے کھلی رہ گئیں۔ واہ یہ کیسے ممکن ہے کہ جو تم وہ میں۔ دیکھو تو بھلا تمہاری صورت الگ، تمہارے کپرے الگ اور میں تو تم سے بالکل ہی مختلف ہوں۔‘‘
چنو اکتا سا گیا۔ ٹالنے کے انداز میں بولا۔ ’’یار ایسے ہی انگریزی جاننے کا شوں ہے تو اسکول میں داخلہ کیوں نہیں لے لیتے؟
مسعود میاں کے جی کو بات لگ گئی۔ شام کو باپ لوٹے تو انہوں نے بڑی ہمت کر کے کہا۔ ’’ابا جان! ہمیں اسکول میں بٹھوا دیجئے نا۔‘‘
’’کوئی ضرورت نہیں۔‘‘ وہ حسب عادت اسی تیزی اور تندی سے بولے۔ ’’اسکول جا کر کمین لڑکوں کی صحبت میں ڈیڑھ کوڑی کے ہو جاؤگے۔ ایسا ہی شوق ہے تو ہم پڑھاویں گے انگریزی۔ عربی اور اردو تو دادا میاں پڑھاتے ہی ہیں۔‘‘
ابا جان سے فرمائش کرنا ہی مصیبت ہو گیا۔ اب وہ ہر شام انھیں لے کر بیٹھ جاتے اور سر کی مرمت شروع کر دیتے۔ اے۔ بی۔ سی۔ ڈی۔ کی وہ رٹ لگتی کہ ان کا دماغ چکرا جاتا۔ کس کمبخت کو انگریزی پڑھنے کی ایسی دھن تھی، وہ تو فرار کی ایک راہ تھی مگر بری طرح پھنسے۔ اپنے ہاتھوں اپنے پیروں پر کلہاڑی ماری تھی کوئی کیا کرتا۔
ابا اماں، دادا میاں، بس سارا دن، ساری رات یہی لوگ دماغ پر چھائے رہتے۔ تینوں چھوٹے بھائی بھی تو تھے، اتنا کام وہ بھی کر دیتے۔ مگر مسعود میاں کی سی بری قسمت ان کی کہاں تھی؟ ایک دن انھوں نے دادا میاں سے بڑے دوستانہ انداز سے پوچھا۔
’’کیا بات ہے دادا میاں آپ لوگ مجھے اتنا پیار نہیں کرتے جتنا اخلاق انور اور اجو کو کرتے ہیں۔‘‘
تمہاری سمجھ کا پھیر ہے میاں۔ بھلا اپنی اولاد سے کوئی ایسا کیسے کر سکتا ہے؟‘‘ تمہارا خیال ہی خیال ہے بس۔ دراصل تم بڑے ہونا، تمہارے ماں باپ بھی یہی سمجھتے ہیں کہ تم ماشاء اللہ ذرا سمجھ دار ہو۔ اس لئے تم پر ذرا زیادہ ذمہ داری ہے۔ ورنہ ایسی کوئی بات نہیں اور ایسی باتیں سوچا بھی نہ کرو۔‘‘
’’چنو بھی تو منو سے بڑا ہے مگر اس کے باپ تو اس کے ساتھ ایسے ہی رہتے ہیں جیسے منو کے ساتھ۔‘‘ انہوں نے بڑا واضح ثبوت پیش کیا۔
’’وہ چنو۔ ارے نمبر ایک نا معقول ہے۔ دیکھ لینا بڑا ہو کر باپ کی پگڑی اچھالےگا۔ تمہاری سی بات کہاں؟‘‘
دادا میاں یوں منہ کے منہ پر تعریف کر رہے تھے کہ انھیں خوش ہوتے ہی بن پڑی۔
’’مگر دادا میاں کیا بات ہے اتا کام کرتا ہوں پھر بھی اماں اور ابا جان جھڑکتے ہی رہتے ہیں۔ انہیں ایسا تو نہیں کرنا چاہیے نا۔‘‘
دادا میاں نے غور سے ان کی طرف دیکھا۔
’’تمہارے ہی بھلے کے لئے کہتے ہیں میاں۔ پیار بھی ماں باپ ہی کرتے ہیں اور غصہ بھی وہی کرتے ہیں۔‘‘
انھوں نے ذرا غیر یقینی انداز میں داد کی طرف دیکھا۔
’’ہاں بھئی خوش ہونے کے موقعے پر وہ خوش بھی ہوتے ہیں اور غصے کے موقعے پر ذرا ڈانٹ بھی دیتے ہیں، تو تم خواہ مخواہ دل برا کر لیتے ہو۔‘‘
مسعود میاں ہلکے پھلکے بدن کے آدمی تھے۔ جھاڑوں پر چڑھ جانا، بندروں کی طرح لٹک جانا، دروازوں اور کھٹکوں کا سہارا لیتے لیتے روشندانوں تک پہنچ جانا، ان کے بائیں ہاتھ کے کرتب تھے۔ ابا جان کو جالوں، کچروں، گھونسلوں سے سخت نفرت اور عین میں ان کے بستر کے اوپر چھت میں چڑیوں نے گھونسلہ بنا لیا۔ جب دیکھو تب چڑ چڑ چوں چوں جاری ہے۔ اب لاکھ لاکھ اماں صفائی کرتیں مگر بستر میں گھانس کے تنکے اور کاچر کو چر موجود۔
مسعود میاں کو پتہ چلا کہ ابا جان یوں پریشان ہیں۔ اس دن دوپہر کو جب ان کے دیکھتے چڑیا پھر سے اپنے گھونسلے سے اڑ کے باہر گئی تو ہ پھدکتے پھدکاتے چھت پر جا بیٹھے۔ روشندان سے لگ کے ہی گھونسلہ تھا۔ بڑی احتیاب سے گھونسلے میں ہاتھ ڈالا۔ ننھے منے سفید انڈے جیب میں رکھ لئے اور گھانس پھونس کو کھرچ کھرچا کر نیچے گرا دیا۔
شام کو ابا جان آئے تو بڑی خوشی خوشی پاس گئے اور بولے، ’’دیکھا ابا جان کمبختوں نے چوں چوں کر کے آپ کا دماغ الگ کھا رکھا تھا اور گھانس پھونس سے بستر الگ گندہ کرتی تھیں میں نے چڑھ کر قصہ ہی پاک کر دیا۔‘‘ اور ثبوت کے طور پر انھوں نے چڑیا کے انڈے نکال کر بتائے۔
باپ نے ایک نظر انڈوں کو دیکھا اور پھر چھت پر نظر ڈالی۔ سپاٹ لہجے میں بولے۔
’’اونہہ خواہ مخواہ اتنی اوپر چڑھے۔ بانس سے بھی قصہ پاک ہو سکتا تھا۔ ایسی فضول حماقتیں نہ کیا کرو۔ اگر گر پڑتے اور ہاتھ پیر ٹوٹ جاتے تو؟‘‘
’’کیوں دادا میاں۔ آپ کی نظر میں یہ کوئی اچھا کام تھا یا برا؟‘‘ مسعود میاں کی شنوائی دادا میاں کی عدالت میں ہی ہو سکتی تھی۔
’’میاں یہ بھی تو محبت ہی ہے، کتنے پیار سے انھوں نے کہا کہ اگر ہڈی ٹوٹ جاتی تو۔ محبت نہ ہوتی تو ایسا کیوں بولتے بھلا؟‘‘
کام کاج سے فارغ ہو کر وہ یونہی بدھوؤں کی طرح بیٹھے رہتے۔ کبھی گھونسلوں سے چڑیوں کے انڈے اتارتے تو کبھی چھت پر جا کر پتنگ اڑاتے، کہیں اماں کی نظر پڑ جاتی تو وہ جھڑک کر نیچے بلاتیں۔
’’کیسی مصیبت ہے۔‘‘ وہ تینوں بھائیوں کے، بلکہ محلے کے ہر لڑکے کے مقابل خود کو بے حد بدنصیب محسوس کرتے۔ بڑا ہونا ایسا بھی کیا جرم ہے کہ ساری مصیبتیں اپنے ہی سر۔ اب یوں اخلاق اور مسعود میاں کا کون بڑا فرق تھا۔ مگر کبھی اخلاق میاں بستر میں پیشاب کر دیتے تو یہ کہہ کر ٹال دیئے جاتے۔
’’اونہہ۔ ابھی بچہ ہی تو ہے۔‘‘
اور جو کبھی مسعود میاں کا بستر بھیگا ہوا ملتا تو یوں ناک سے رخائے جاتے۔ پہلی اولاد تو ماں باپ کو اتنی پیاری ہوتی ہے۔ مگر مسعود میاں یہی سوچتے کہ آخر ان کے ساتھ یہ سوتیلا برتاؤ کیوں۔ ان کے نصیب میں پیار کی اتنی کمی کیوں ہے۔
انہوں نے بےبس ہو کر دل بہلانے کی خاطر مولوی صاحب کے یہاں آنا جانا شروع کر دیا بڈھی ماما بڑی باتونی تھی۔ کئی کہانیاں یاد۔ انھوں نے ہفتے بھر میں کئی کہانیاں یاد کرلیں اور پھر دل بہلائی کے لئے آکر تینوں بھائیوں کو سنایا کرتے۔
’’ایک تھا چوہا۔ وہ پھرتا آڑی، باڑی۔‘‘ یہ کہانی وہ بار بار انو، اخلاق اور اجو کو سنا چکے تھے۔ پھر اس دوسرے چوہے کی کہانی۔ ’’ایک تھا چوہا۔ اس نے پایا ایک رنگین ریشمی ٹکڑا۔ وہ پنچار درزی کے پاس۔ درزی دادا، درزی دادا مجھے ایک رنگین ٹوپی، سی دو، پھر ٹوپی سل جاتی، پہنی جاتی۔ چوری بھی ہو جاتی اور مسعود میاں تیسری کہانی شروع کر دیتے۔
ایک تھا چڑا۔ ایک تھی چڑی، چڑا لایا چاول کا دانہ، چڑی لائی مونگ کا دانہ۔ کھچڑی، ابھی پک بھی نہ پاتی کہ مسعود میاں کو احساس ہوتا کہ یہ سب دل بہلاوے ہیں۔ ان کا خاک بھی جی نہیں لگتا ایسی بےتکی باتوں اور بےہودی کہانیوں میں پھر کیا کرتے؟
شرارت سے تو اماں کو باپ مارے کا بیر تھا۔ کبھی وہ چھت چھتاری پر دھپا مچانے جاتے بھی تو فوراً چاروں کے چاروں بھائی کان پکڑ کر نیچے بلا لئے جاتے۔ ایک دن ایسے ہی حلوہ چرا کر کھانے پر وہ چار چوٹوں کی مار پڑی کہ بس دن کو تارے نظر آنے لگے۔ اب اس حلوہ کھانے میں چوری کی نیت کو اتنا دخل نہ تھا جتنا کہ بس شرارت کا۔ مگر باپ رے وہ تو گھمسان کا رن جیسے پڑ گیا۔ اماں باوا دونوں کو ہی تربیت کا وہ نادرموقع ملا کر بس یاد ہی رہ گیا۔
سنسان دو پہر میں وہ کام کاج سے نبٹ کر ڈھائیں ڈھائیں پھرا کرتے۔
اس دن محلے میں کوئی مداری آ نکلا۔ ایک بندر۔ ایک بندریا۔ ڈگ، ڈگ، ڈگ، ڈگ، ڈگڈگی بجی اور محلے بھر کے سارے بچے اس کے پیچھے ہو لئے۔ مداری نے سپر بھر اناج میں بندریا کا تماشا دکھانے کی پیش کش کی۔ ساروں کی صلاح ہوئی اور سب اپنے اپنے گھروں سے مٹھی مٹھی بھر گیہو لے آئے۔
پہلا سین یہ تھا کہ بندر بدریا کی شادی ہو رہی ہے۔ بندریا بی سر جھکائے بیٹھ گئیں۔ مداری قاضی بنا اور اعلان سا کر دیا کہ بس شادی ہو گئی۔ اب دلہا ماں بی دلہن کے پاس آئے اور لگے گھونگٹ کھینچنے۔ وہ جتنا گھونگٹ کھے نچتے یہ اتنا ہی دور، دور بھاگتیں۔ بڑی مشکلوں سے نوشہ میاں گھونگٹ اٹھا پائے تو وہ اپنے ہاتھوں میں منہ گھیسڑ کر بیٹھ گئیں، پھر سین بدلا کر شادی کو دن گزر گئے ہیں اور بی بندریا بچہ جننے والی ہیں۔ کبھی سی رہی ہیں کبھی بن رہی ہیں۔ کبھی زچگی کی تیاری کے لئے میوہ چن رہی ہیں۔ اناج صاف کرا رہی ہیں۔ اور بندرمیاں ہیں کہ آگے پیچھے ہوئے جا رہے ہیں۔ پھر بچہ بھی ہو گیا۔ لکڑی کا چھوٹا سا بلم بطور بچہ سنبھالے، بی بندریا اسے گودی چھاتی کر رہی ہیں۔ اور بندر میاں اچک اچک بچے کو پیار کر رہے ہیں۔ سین پر سین بدلتے گئے۔ مسعود میاں کھیل کہاں دیکھ رہے تھے، بچوں نے تالیاں پیٹیں اور مداری اناج سمیٹ ڈگڈگی بجاتا چلنے لگا تو جیسے یہ جاگ پڑے۔
’’بندر پالنا چاہئے خوب دل بہلےگا۔‘‘ مداری کے پیچھے دور تک چلتے ہی گئے۔ بہت دور جا کر اس سے بڑے سہمے سہمے پوچھا۔
’’اے بھائی۔ یہ بندر کہاں سے لائے تم؟‘‘
’’کھریدے تھے۔‘‘ وہ چل چلاؤ کے انداز سے بولا۔
’’کتنے کو؟‘‘ وہ ذرا آگے بڑھ آئے۔
’’یہاں نہیں ملنے کے، جنگل سے پکڑ کر لاتے ہیں، تب بیچتے ہیں لوگ۔‘‘ وہ دم لینے کو یوں ہی نیم تلے رک گیا۔
’’تم نے انھیں اتنا سارا کھیل سکھایا ہے؟‘‘ وہ بڑی ہمت کر کے ایک ایک کر کے ساری باتیں پوچھ لینا چاہ رہے تھے۔
’’گریب جنور ہوتا ہے۔ تھوڑے دنوں میں سب کچھ سیکھ جاتا ہے۔ بس محبت چاہیے بندر تو پھر بندر ہے انسان سکھانے کو بیٹھے تو کتے بلی تک سدھ جاتے ہیں۔‘‘
مسعود میاں کی آنکھیں چمک اٹھیں۔
’’کتے؟‘‘
’’ہاں میاں۔ میرے پاس ایک کتا بھی ہے۔ سلام تو اس ڈھب کرتا ہے کہ پوچھو مت‘‘
واپسی میں وہ بین۔ خالہ کے یہاں ہوتے ہوئے آئے اور انہیں نیوتہ دینا نہ بھولے کہ آپ کی کتیا پلے جنے تو ایک مجھے بھی دیجئےگا۔
’’اور تمہارے اماں باوا جھڑ بھڑ کریں گے تو۔۔۔؟‘‘
یہ بات انہوں نے سوچی ہی نہ تھی۔ ایک منٹ رک کر بولے،
’’اس کی فکر آپ نہ کریں میں کیسے بھی لے تو جاؤں گا۔‘‘
پندرہ دنوں بعد بینآ خالہ کی کتیا نے پیارے پیارے چار پلے جنے۔ مسعود میاں روزانہ خیرت پوچھنے جاتے تھے۔ اس دن خالہ نے مژدہ سنایا۔
’’میاں کتیا نے چار پلے جنے ہیں۔‘‘
’’چار!‘‘ ان کا منہ فق ہو گیا۔ خوشی کے مارے ان کے ہاتھ پیر کانپ گئے۔ ’’کہاں ہیں؟ وہ حیرت اور خوشی سے بولے۔
’’جھاڑ کے پیچھے مٹی کا ڈھیر پڑا ہے اس کی آڑ میں۔‘‘
’’میں اٹھالوں ایک۔‘‘ وہ ذرا ہچکچا کر بولے۔
’’اوئی میاں ابھی سے؟ ابھی آٹھ چار دن ذرا دودھ پی لیں اپنی ماں کا پھر لے جانا۔ میں اپنی بات سے پھرتی تھوڑی ہی ہوں۔‘‘
پندرہ دنوں بعد جب مسعود میاں پلہ کر آئے چار وں میں بوم ہو گئی۔ اماں تو باورچی خانے میں تھیں۔ ابا جان کام پر، دادا میاں اپنے کمرے میں۔ بس چاروں بھائی تھے اور کتے کا پلہ۔
’’دیکھو اماں، ابا جان، یا دادا میاں سے بولوگے تو نئیں؟‘‘
انھوں نے سب سے ہی گواہی لی۔ سب کسمسانے لگے۔ یوں جیسے راضی نہ ہوں۔
’’ارے دیکھو تو اتا پیارا ہے۔ اگر بڑوں نے پھنکوا دیا تو بے چارہ کدھر جائےگا۔ مر جائےگا بالکل مر جائےگا اور سارا عذاب ہم پر پڑےگا۔ وہ دادا میاں نے پرسوں بتایا نہیں کہ کسی جاندار کو بلا وجہ مار ڈالنا بڑے سخت گناہ کی بات ہے۔‘‘
پہلے گھس گھس ہوئی۔ پھر پھس پھس۔ پھر زور سے سب بولے۔
’’اچھا نئیں بولیں گے۔‘‘
’’ام بی نئیں بولیں نے۔‘‘ اجو میاں فخر سے چلائے۔
مسعود میاں کو ان پر اتا لاڈ آیا کہ پکڑ کر ان کے گال چوم لئے۔ موٹے موٹے گال۔ تم بہت اچھے ہو اجو۔‘‘ وہ پیار کے نشے میں سرشار ہو کر بولے۔
’’مگر بھائی اس کو رکھیں گے کہاں؟ یہ یوں چیں چیں کر رہا ہے تو کیا اماں، ابا اور دادا میاں کو آواز نہ آئےگی؟ انور نے بڑے پتے کی بات کہی۔
’’ہاں ابا اور اماں جان کا سوال ہے اب۔‘‘
’’اگر وہ دونوں بھی بہرے ہوتے تو کیا اچھا تھا۔ ’’اخلاق میاں نے حد درجہ بداخلاقی کی بات کی۔
’’مگر اب تو نہیں ہیں۔‘‘ انور بے بسی سے بولا۔
اکدم مسعود میاں اچھل پڑے۔ ’’ارے دادا میاں بہرے ہیں نا؟‘‘
’’ہاں ہیں تو۔‘‘ دونوں حیرت سے بولے۔ مگر ان کے یوں اچھل پڑنے کا سبب ان کی سمجھ میں خاک بھی نہ آیا۔
’’تو بس وہ دادا میاں کے کمرے کے پیچھے ایک کونا ہے نا۔ مہندی کا جھاڑ ہے جہاں۔‘‘
’’ہاں، ہاں ہے تو۔ وہ دونوں ایک ساتھ بولے۔
اس سے ہٹ کر نیم کا بڑا والا جھاڑ ہے کہ نئیں، تو بس اس کونے میں نیم کے تنے سے رسی باندھ کر رکھا کریں گے۔ وہ چلائے گا بھی تو دادا میاں کہاں سن پائیں گے؟‘‘
’’بات تو ٹھیک ہے۔‘‘ سب کی عقل میں آ گئی۔
انہوں نے ایک بار تہدیدی انداز میں اور بھی سب سے پوچھ لیا۔ ’’دیکھو بھئی کسی سے کہوگے تو نہیں؟
’’نئیں بھئی۔‘‘
نئیں بھئی۔‘‘
’’نئیں بھئی۔‘‘
تینوں چاروں دبے پاؤں گئے، مہندی کی نچلی والی ٹہنی سے رسی باندھ دی جسے کتے کے پلے کے گلے میں اٹکا دیا گیا، چاروں نے بڑے سوچ بچار کے بعد ہیرا نام دے دیا۔
دادا میاں کا کمرہ گھر کے سب سے آخری کونے پر تھا۔ بےچارے اونچا سنتے تھے، کتے کا پلہ رات کو چیاؤں چیاؤں کرتا بھی تو سن نہ پاتے پندرہ دنوں کے پلے کی جان ہی کتنی اور آواز ہی کیا؟ وہیں کے وہیں چلائے جاتا اور یوں اماں اور ابا جان کے کانوں کان پتہ بھی نہ چلا کہ گھر میں پلہ پل رہا ہے۔
اب مسعود میاں کا وقت اچھی طرح گزر جاتا۔ گوجی میں یہی کشمکش لگی رہتی کہ کہیں اماں نہ دیکھ لیں، دادا میاں نہ دیکھ لیں۔ پھر بھی اپنے جی کو کتے کے پلے میں پھنسائے رکھتے۔ پیالوں کی بچی ہوئی ساری چائے وہ چوری چوری ایک الگ سی پیالی میں انڈیلتے جاتے اور جب اماں ادھر ادھر ہو جاتیں تو ہیرا کو پلا آتے۔ دستر جب سمیٹا جاتا تو یہ کچرے کے ڈبے میں دستر تو جھٹک دیتے مگر بعد میں ساری ہڈیاں، چاول، جھوٹن کے ٹکڑے سمیٹ لیتے۔ بڑی آہستگی سے چلتے نیم تلے تک جاتے اور ہیرا کو کھلا آتے۔ اگر مسعود میاں اپنے کام کاج میں ادھر ادھر ہو جاتے تو پھر تینوں بھائی اس کی خیر خبر لیتے۔ اپنے حصے میں آنے والی مٹھائی، روٹی حلوے سب کا حصہ دار ہیرا ضرور بنتا۔
دادا میاں بہرے تھے۔ کتے کا پلہ اتنا بڑا ہو گیا۔ رات بے رات، سردی، گرمی کبھی جو بلبلا کر پیوں پیوں کرتا تو صحن میں شور مچ جاتا، مگر آواز ان کے کانوں تک نہ جاتی۔ اماں کبھی تو کان اونچے کر کے سنتیں اور پھر کام میں الجھ کر بولتیں۔
’’جانے کدھر موئے کتے کے پلے رو رہے ہیں۔ خدا خیر کرے بڑا ہول آتا ہے۔‘‘
بینو خالہ کا گھر ان کے اپنے گھر سے خاصہ قریب تھا۔ ان کے پلوں کے پردے میں ہیرا کی آواز کی لاج رہ جاتی، اور یوں عیب ڈھک جاتا۔
کام کاج سے آ کر جہاں ادھر ادھر سے موقع ملا بس مسعود میاں چلے ہیرا کی سیوا کرنے اب اکثر یوں ہوتا کہ مسعود میاں اماں کی آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے تو پہلے پہل تو یہ ہوتا کہ اماں نے دھیان نہ دیا۔ مگر پھر بھی دھیان دیتے ہی بنی۔ یوں کہ بار بار آوازیں دینے پر بھی ان کا جواب نہ ملتا۔
’’کہاں تھے میاں‘‘؟ اماں پوچھتیں۔
’’ایسے ہی۔‘‘
’’ایسے ہی۔ کیا مطلب؟‘‘
’’وہیں باہر بیٹھا تھا۔‘‘
’’کیوں بیٹھنے کے لئے گھر نہیں دیا اللہ نے؟‘‘
’’گھر ہی میں تو بیٹھا تھا مگر ذرا باہر کی طرف تھا۔‘‘
’’کیوں کمرے نئیں ہیں؟‘‘
مسعود میاں سٹ پٹا جاتے۔ پھر ایک آدھ بار بوم مچتی۔ ابا جان پیر پٹخنے آتے اور چلا چلا کر پکارتے۔
’’مسعود میاں۔ مسعود میاں۔‘‘
بڑی دیر بعد مسعود میاں کسی کونے کھدرے سے برآمدے ہوتے، تو ہئیت کے ساتھ کہ انگلیوں میں روٹی کے ذرے لگے ہوئے ہیں۔ یا پھر کپڑوں پر چائے گری ہوئی ہے۔
’’کہاں تھے صاحب زادے؟‘‘ وہ گرم ہو کر بولتے
’’یہیں تو تھا۔‘‘
’’اور یہ کیا حال بنا رکھا ہے۔ یہ اتنے گندے کیوں ہو رہے ہو؟‘‘
مسعود میاں جھٹ سے اپنے ہاتھ پیچھے باندھ لیتے۔
دادا میاں کو ایک آدھ بار ادبدا کر پوتے کی یاد آ جاتی تو گھر بھرے میں ان کی بوڑھی مگر کراری آواز گونج جاتی۔
’’کہاں تھے عزیزم؟‘‘
عزیزم سٹ پٹا کر رکتے رکتے بولتے۔
’’جی۔ جی سبق پڑھ رہے تھے۔
’’کون سا سبق؟‘‘
وہ مر مر کر یاد کرتے کہ سبق یاد آ جائے، مگر وہ بھی عین موقع پر دھوکا دے جاتا۔ بات بنا کر بولتے۔
’’جی۔ جی وہ میں اکیلے میں کوشش کر رہا تھا کہ عین کو حلق سے کیسے ادا کیا جائے۔‘‘
مفتا مفتی میں یہ سپاٹے میں آ جاتے اور دادا میاں شاگرد کو لے کر بیٹھ جاتے۔
’’ہاں پڑھو۔ اعوذباللہ۔۔۔‘‘
ہیرا مالک کے رنگ میں رنگ رہا تھا۔ چھوٹی چھوٹی کئی باتیں سیکھ کر اب سلام کرنے کی دھن میں تھا۔ ننھا مالک اب کہیں جا کر مسکرانا سیکھا تھا۔ پھر بھی وہ ننھا دل۔ ڈرا، ڈرا سہما سہما دل، کسی طوفان کا منتظر رہتا۔
ان کی ویرانئی دل کا وہی زمانہ پھر لوٹ آیا۔ ابھی وہ نامکمل مسکراہٹ اتنی وسیع بھی نہ ہوئی تھی کہ پورے چہرے پر احاطہ کر لیتی کہ وہ سہارا بھی جاتا رہا۔
ہیرا کو باندھ کر رکھنے کی عادت تھی۔ پتہ نہیں چاروں بھائیوں میں سے کسی کی غلطی تھی کہ ایک دن ہیرا کھلا رہ گیا۔ پہلے تو یونہی اپنی جگہ بیٹھا رہا۔ پھر ذرا گھومنے کی جی میں سمائی اپنا کھونٹا چھور کر اٹھے تو پہلے ابا جان کے کمرے کی طرف، وہ نوکری پر گئے ہوئے تھے۔ گھوم پھر کر باہر نکلے تو دالان سے ہوتے ہوئے دادا میاں کے کمرے کو چلے، وہاں مسجد کا سا حال تھا جانماز، قرآن شریف، تسبیح، پنجسورے، وہ نامراد وہاں گیا ہی تھا کہ دادا میاں نے یہ سمجھ کر کہ گلی کا کتا آ گیا ہوگا۔ اپنی کراری آواز سے اس زورے دھت کہی کہ وہ الٹے پیروں واپس ہو گیا بعد میں بڑی شان سے دم ہلاتے نکلے تو اماں کے کمرے میں ذرا کی جھانک کر باروچی خانے میں پہنچ گئے۔ وہاں تو ایک سے ایک نعمت رکھی تھی۔ چاروں بھائیوں کا کیا تھا۔ جب کھلایا جھوٹا ہی کھلایا۔ یہاں تو سب مال سانچا۔ بڑی بےجگری سے ادھر ادھر منہ مارنے لگے، ۔ اماں ہیں ہیں کرتی لپکتیں۔
’’ارے یہ کم بخت کدھر سے گھس آیا۔ نکالو۔‘‘
ہیرا میاں یوں آسانی سے کیا ٹلنے والے تھے، یونہی منہ مارتے رہے۔ اماں نے تلملا کر چمٹا اٹھایا اور تڑ سے کمرے پردے مارا۔ ہیرا کی کمر اور مسعود میاں کا دل الگ الگ کہاں تھے۔ للک کر بولے۔
’’ہائے اماں جی۔ غضب کرتی ہیں، مر جائےگا بےچارا۔‘‘
’’مر جائےگا تو اپنی جان سے جائےگا۔ ہمارا کیا بگڑےگا۔‘‘
ادھورے ادھورے لفظ ان کے منہ تک آئے مگر نکل نہ پائے۔
اماں نے دھتکار بتائی تو بھی ہیرا وہیں کھڑا رہا۔ اماں ابھی پھکنی الٹانی سے اس کی تواضع کرتی ہی تھیں کہ مسعود میاں نے چمکار کر پاس بلا لیا۔
’’ہیرا۔ ہیرا۔ ثچ۔ ثچ۔ ثچ۔‘‘
کھانے کا لاکھ لالچ تھا۔ مگر تھا تو سدھایا ہوا۔ مالک کی آواز سنتے ہی دوڑا آیا اور پیروں پر دم گھسٹ گھسٹ پنجے چاٹنے لگا۔ اماں پہلے تو یہ راز سمجھ ہی نہ سکیں۔ پھر تو اک دم ان کی آنکھوں میں خون سا اتر آیا۔
’’ہوں۔ تو یوں کہو نا کہ تمہارا پلا ہے ہے یہ۔‘‘
’’جی۔ جی۔ نہیں تو۔‘‘ وہ ہکلا کر رہ گئے۔
’’نہیں تو۔ پھر یہ تمہارے بلانے پر کیسے آیا؟ غضب خدا کا، دیکھو تو نسپ جانور یوں جم پر لوٹیں لگا رہا ہے اور میاں کھڑے ہیں، جاؤ جاؤ کپڑے بدلو اور میں اس گندگی کی پوٹ کو ابھی پھنکواتی ہوں۔‘‘
’’نہیں نہیں۔‘‘ وہ تڑپ کر بولے۔ ’’ایسا نہ کیجئے اماں یہ سچ مچ ہمارے بغیر مر جائےگا۔
’’مر جائے۔‘‘
’’ایسا مت کہئے اماں۔ سچ دیکھئے تو اتا چھوٹا سا تو ہے۔ اس کو کون روٹی پانی دےگا۔ کون اس کو ہڈی ڈالےگا۔ اور پھر میں اس کو کیسے بھولوں گا۔‘‘
’’ہونہہ۔‘‘ اماں نے زور دار ہونہہ کے ساتھ پلو سر پر ڈالا۔ اور ہیرا کے گلے سے بندھی رسی سے اسے گھسیٹتی چلی گئیں۔
دو دن تک تو مسعود میاں کو یہی پتہ نہ چلا کہ رات کب ہوتی ہے اور دن کب نکل آتا ہے بس بستر تھا اور یہ تھے یا پھر آنسو۔ تکئے میں منہ چھپا چھپا کر پھس پھس روئے جاتے۔ اماں نے جو کہا وہ کر کے بتا بھی دیا۔
مسعود میاں نے کہیں سن رکھا تھا کہ کتا کبھی اپنا گھر نہیں بھولتا۔ بارہ مہینے بھی باہر رہے تو کبھی نہ کبھی لوٹ آتا ہے۔ اب ان کا یہ حال تھا کہ روزانہ صبح سے لے کر شام تک کوئی سو مرتبہ دروازے میں جھانک آتے کہ شاید ہیرا چپکے سے آ کر نیم کے تنے سے لگ کر بیٹھ گیا ہوگا۔ کتنے ہی دن گزر گئے مگر ہیرا کو نہ آنا تھا نہ آیا۔ اماں نے ایسی جگہ اسے پھنکوایا تھا کہ کبھی تو نہ پلٹا مسعود میاں ہلکے پتنگ ایسے ہو کر رہ گئے۔ ہیرا کا دھیان ہی سے نہ جاتا۔
اماں سے ان کی حالت چھپی ڈھکی تو تھی نہیں۔ دیکھتی تو وہ بھی تھیں کہ دن رات ہر پہر الو کی سی صورت بنائے، دیدے سجائے، کھڑے راہ دیکھ رہے ہیں نجس مارے جانور کے لئے اتنا جو کھم؟‘‘ انھیں وہ تڑک کر غصہ آیا کہ بیٹے سے بول چال ہی چھوڑ دی۔ کتے کا غم تو ایک طرف رہا۔ اب یہ دوسرا غم چمٹ گیا کہ اماں نے رخ دے کر بات کرنی ہی چھوڑ دی۔ اتنی ساری مصیبتیں تھیں مگر ماں کی محبت سے کھیک نہ ٹوٹے تھے۔ رہ رہ کے ان کا جی کانپ کانپ اٹھتا۔ چھڑ چھر پھڑ پھڑ کرتی تھیں تو کیا ہوا۔ بات چیت تو بند نہ تھی۔
سردی کے دنوں میں ایک بار اماں نہا کے اٹھیں تو ہوا لگ گئی یا جانے کیا ہوا کہ پلنگ پر پڑگیں ت۔ ان کا جی کھویا کھویا تو تھاہی۔ دل بہلانے کا اب کون جتن کریں؟‘‘ کیوں نہ اماں کا دل جیت لوں کہ ساری زندگی کا چین مل جائے۔ ’’یہ خیال دل میں آیا تو مسعود میاں پر زندگی کا نیا دروازہ کھل گیا۔
اماں لیٹی ہوئی تھیں کہ چپکے سے گئے اور پائنتی بیٹھ کر پاؤں دبانے لگے، اماں نے گرم گرم آنکھیں کھول کر دیکھا تو مسعود میاں تھے۔ وہیں لیٹے لیٹے کھینچا اور گلے لگا لیا۔
زندگی اب نئے ڈھرے پر چلنے لگی۔
اب مسعود میاں کا اماں بغیر پتہ بھی نہ ہلتا۔ صبح ہوتے ہی وہ ماں کی سربراہی میں جتتے تو پھر رات آ جائی مگر ان کے کام نہ سرتے۔ صبح اماں کے منہ دھونے کے لئے بدھے ا میں پانی اور منجن کی ڈبیا لاکر چوکی کے پاس رکھ دیتے۔ اماں منہ دھو کر اٹھتیں تو خود ہی چولہے کے پاس دوڑ جاتے۔ عورتوں کی طرح لپ چھپ ہاتھ مارتے، لکڑیاں جمع کرتے، کچرا کاڑی، ڈھونڈ لاتے اور پھونکیں مار مار چولھا سلگا دیتے۔ اگر چولہا جلد نہ سلگتا تو تھوڑا سا جلانے کا تیل انڈیل دیتے۔ دھڑ دھڑ آنچ جلتی تو اماں کی طرف فخر سے دیکھتے۔ ناشتہ چائے تیار کرنے میں اماں کی مدد یوں کرتے جیسے بازو برابر کی بیٹیاں کیا کرتی ہیں۔ ابھی برتن کھنگال رہے ہیں کہ ابھی آٹا گوندھنے لپک پڑے۔ ابھی دال کی ہانڈی میں ڈوئی ہلا رہے ہیں کہ ابھی کے ابھی گوشت دھلنے بیٹھ گئے۔ صبح سے دوپہر ہو جاتی اماں صبح کے کام ہے تھکی ماندی مریل مریل ہاتھوں سے کام کرتیں تو یہ پھر کی بنے گھوم جاتے۔ خود ہی سب کام کرنے کو تیار۔
’’اماں میں تو کر رہا ہوں آپ رہنے دیجئے۔‘‘
’’ارے اماں آٹا آپ نہ گوندھئے۔ مکی لگانے میں زور پڑتا ہے۔ میں جو گوندھ رہا ہوں بھلا‘‘
’’اماں آپ یوں پھونکئے تو نہیں، پھونکنے سے سینہ درد کرنے لگتا ہے۔‘‘
’’اماں آپ ذرا دور ہٹ کر بیٹھئے۔ دھوئیں سے آنکھیں خراب ہو جاتی ہیں۔‘‘
’’اماں آپ اتی دیر تک چولھے کے پاس نہ بیٹھئے، پیر اکڑ کر رہ جائیں گے۔‘‘
اما تو بس اب صرف چولہے میں ڈوئی ہلانے کی روادار رہ گئی تھیں۔ بن داموں جیسے ماما مل گئی تھی کاہے کی فکر؟
ابا جان تو اسکول میں پڑھانے کے سخت خلاف تھے ایک تو وہ خود ہی اتنے پڑھے لکھے تھے کہ اچھی طرح اپنے بچوں کو پڑھا سکتے تھے۔ دوسرے ذرا پیسے کا بھی سوال تھا اور جب گھر میں ہی تعلیم ہو سکتی ہے تو پھر فضول ادھر ادھر لڑکوں کو کیوں بھیجوایا جائے کہ حد درجہ بگڑیل ہو جائیں۔ سو مسعود میاں کے پاس وقت کی خوب فراوانی تھی۔ سبزی ترکاری لانے لے جانے کا سوال تو یوں پیدا نہ ہوتا تھا کہ پھیری والا چھا بڑی لگائے، گھر گھر گھومتا اور ہر گھر میں بیٹھے بٹھائے سبزی پہنچ جاتی۔ ادھر ادھر کے پھیرے بھی نہ تھے۔ اناج پسوانا ہوتا تو ابا جان خود شام کو تھیلی میں اناج بھر کے لے جاتے اور آٹا پسوا لاتے، ایسے میں مسعود میاں کو ایسے کون سے باہر کے کام لگے تھے کہ فرصت کی کمی کا رونا ہوتا۔ دن بھر گھر کے کام کاج اور اماں کی خدمت میں گزر جاتا۔
وہ پہر کو اماں کمر سیدھی کرنے کو لیٹتیں تو یہ خود حالانکہ تھکے ماندے ہوئے تھے مگر بچھے بچھے جاتے۔
’’اماں آپ لیٹ جائیے۔ میں آپ کے پاؤں دبا دوں۔‘‘
رات کو بھی وہی معمول تھا۔ تھوڑے ہی دنوں میں مسعود میاں بھلے خاصے باورچی بن گئے اب تو وہ مزے میں ہانڈی بھون کر اتار سکتے تھے۔ ماش کی دال ادرک کا مسالہ دے کر وہ مزے کی پکاتے کہ ابا جان حیران رہ جاتے کہ بی بی نے پکائی ہے کہ بیٹے نے۔ چاول یوں پھریرے پکا لیتے کہ باورچی بھی کیا پکائے۔ پھلکے پتلے پتلے گول گول اور تو اور انہوں نے الٹے توے کی لکھنوی چپاتیاں بھی سیکھ لیں۔ گھی کا بگھار دے کر تو رکی دال ایسی سوندھی سوندھی بگھارتے کہ مولوی صاحب کے گھر سے بھی پرے خوشبو اڑ جاتی اور آپا چارپائی کھڑی کر جھانک کر پوچھنے پر مجبور ہو جاتیں۔
’’اے بہن، کیا پکایا ہے آج؟‘‘
اماں باورچی خانے میں سے جواب دیتیں۔ ’’مسعود نے دال بگھاری ہے۔‘‘
آپا کے منہ پر حیرت چھا جاتی۔ ’’دوئی بہن، نظر سے اللہ بچائے، تمہارے مسعود میاں کیا سلیقے کے ہیں۔‘‘
آپا کا کیا تھا، مسعود میاں کے سلیقے قرینے کے تو خود اماں اور ابا جان بھی اس قدر قائل ہو چکے تھے کہ کبھی کوئی دعوت ہوتی تو اماں مچلیت، مرغے کے لئے انہی سے پوچھتیں۔ ’’اے میاں دو مرغیوں کے لئے اتنا مسالہ کافی ہو جائےگا۔
کھویا کھویا پن تو اب بھی محسوس ہوتا ہی تھا۔ مگر دل کو اطمینان تھا کہ اب شائد کسی بات میں گنایا جاؤں گا۔ دل بہلنے کے لئے بھی کیا کیا جتن کرنے پڑتے ہیں۔
ایک دن صبح ہی صبح روز کی طرح دودھ والے کی آواز سن کر مسعود میاں نے اٹھنا چاہا تو ہاتھ پیروں میں اس قدر سخت درد ہو رہا تھا کہ ہل نہ سکے۔ ماتھے کو چھوا تو گرم گرم سا پایا۔ ’’شاید مجھے بخار ہو رہا ہے۔‘‘ انھوں نے دل ہی دل میں سوچا۔
دودھ والا دو چار آوازیں دے کر جھلا گیا، مگر یہ بستر سے ہل تک نہ سکے، اماں نے ناگواری سے انھیں کسمسا کر دیکھا۔ الجھ کر بولیں۔ اینڈتے پڑے ہو۔ کیا غیر مرد سے میں جا کر دودھ لوں‘‘ ۔
یہ پھر بھی نہ اٹھ سکے۔ گھگھیا کر بولے۔ ’’اماں ہاتھ پیروں میں بہت درد ہو رہا ہے، ورنہ اٹھ نہ جاتا۔‘‘
اماں خود ہی اٹھیں۔ تناکے کے ساتھ لوٹا اٹھایا اور دیوار کی آڑ سے دودھ لے کر آ گئیں۔
صبح ہوئی دن نکلا۔ چولھے کے پاس گڑبڑ مچی۔ مگر مسعود میاں اپنے بستر میں ہی پڑے رہے۔ اماں کو ہر کام آج ایسا ابھاگا ابھاگا لگ رہا تھا۔ اتنے دنوں سے بیٹے نے ہر کام میں ہاتھ بٹا بٹا کر انھیں آرام طلب بنا دیا تھا۔ جب دیکھا کہ یہ اٹھتے ہی نہیں تو وہیں سے چلا کر بولیں۔
دن چڑھ آیا۔ دھوپیں نکل گئیں۔ اور میاں ہیں کہ لمبی تالنے پڑے ہیں۔ اب پراٹھوں کے لئے آٹا کون گوندھےگا۔
مسعود میان کا دل اندر ہی اندر کہیں ڈوب گیا۔ یوں کہ اتنی دوری اور گہرائی سے اس کی دھڑکن بھی معدوم سی ہو گئی۔ بجائے اس کے اماں پیار کرتیں دلار کرتیں۔ یوں ان کی خدمت گزری سے خوش ہوکر انھیں پیار دیتیں، وہ الٹے کام لینے کی ایسی عادی ہو گئیں کہ اب ایک دن ان کے بیمار پڑ جانے پر یوں طعنے دے رہی تھیں۔ ’’آٹا کون گوندھےگا؟؟‘‘
بڑی دیر بعد ان کا دل دھڑکا۔ دل کو بہلانے کی یہ تمنا بھی کتنی عجیب تھی۔
مسعود میاں کا دل اک دم زندگی سے اچاٹ اچاٹ ہو گیا۔ ایسی زندگی سے موت کیا بری ہے کہ کوئی پیار کی ایک نگاہ بھی نہیں دے سکتا۔ وہ دس گیارہ برس کے ننھے منے سے آدمی بڑی شدت سے یہی سوچتے رہتے کہ زندگی کی مسرت کا راز کا ہے میں پوشیدہ ہے۔ موت میں۔ صرف موت میں۔ اور وہ طرح طرح سے مرنے کی ترکیبیں سوچنے لگے۔
زندگی یوں چیونٹی کی چال گزر رہی تھی، اگر جلدی جلدی ہاتھی کی پیروں چلتی گزرجاتی تو کیا بگڑتا اس کا۔ مگر وہ تو ہر قدم پر جلاتی کڑھاتی بڑھتی تھی۔ دماغ پر اتنا زور ڈال ڈال کر سوچنے کے باوجود مرنے کی کوئی آسان سی صورت دکھائی نہ دی۔ اس دن اسی دھن میں کھوئے کھوئے سیڑھیاں اتر رہے تھے کہ بے خیالی میں دو سیڑھیاں ایک ساتھ پھلانگ گئے۔ جسم جھونک کھا گیا اور یوں لڑھکتے لڑھکتے عین زینے کے نیچے آکر رک گئے۔ ایک ہلکی سی چیخ ان کے منہ سے نکل کر سارے گھر میں گونج گئی۔ ادھر ادھر سے سب دوڑے آئے۔ اماں نے لپک کر گود میں اٹھا لیا۔ ابا جان نے بازو تھام لیا۔ دادا میاں کچھ سن نہیں پا رہے تھے۔ مگر چلا چلا کر پوچھ رہے تھے۔ ’’کیا ہوا۔ ارے کیا ہوا بھئی؟‘‘
گھٹنوں پر، کہنیوں پر، گالوں پر، ہاتھوں پر، یہاں وہاں زخم لگ گئے۔
ٹنکچر آیوڈین لگاؤ جلدی سے۔ ارے کوئی دوڑو۔ لاؤ۔ جلدی۔ ابا جان اس قدر بے کل ہو رہے تھے۔ اماں کی گود سے، اباجان نے اپنی گود میں لے لیا۔ اور دونوں ہاتھوں پر اٹھا کر کمرے میں لابستر پر لٹا دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے مسعود میاں اچھے خاسے بیمار بن گئے۔ ابا جان نے روئی کے پھائے کو ٹنکچر میں ڈبویا اور دھیرے دھیرے زخموں پر لگانے لگ گئے۔ ہلکی ہلکی چرچراہٹ، ہو رہی تھی پھر وہ بڑھتی گئی اور جان سی نکلنے لگی۔ مگر مسعود میاں یوں خوش خوش تھے۔ اماں بولائی۔ بولائی پھر رہی تھیں اور اونچا سننے والے دادا میاں پوچھ رہے تھے۔
’’میاں درد تو نہیں ہو رہا۔ جلن تو نہیں ہو رہی!‘‘
’’بیمار ہونا اس قدر اچھا ہے!‘‘ مسعود میاں نے آج تک نہ سوچا تھا اگر ایسے ہی آگے سے پتہ ہوتا کہ یوں دل جیتے جا سکتے ہیں۔ تو آج سے دنوں پہلے وہ زینے سے لڑھک چکے ہوتے۔
زخموں میں ٹیس تھی مگر دل کو کیسی ٹھنڈک مل گئی تھی۔ اب نہ وہ جھڑ جھڑ پھڑ پھڑ تھی، نہ وہ کام کاج کی بھرمار، صبح ہی صبح دودھ والا آتا تو، اماں، یا انو یا پھر اخلاق دودھ لانے دوڑ جاتے۔ کبھی کبھار تو ابا جان بھی چلے جاتے۔ یوں مسعود میاں ہتھیلی کے چھالے بن گئے۔
ابا جان باہر سے آتے تو موسمبی اور دوسرے پھل لے آتے۔ دادا میاں تسبیحوں پر تسبیحیں پڑھتے اور آکر چھاتی پر دم کرتے۔ اماں اللہ کا شکر بجا لاتیں کہ خیر ہوئی۔ جو ہڈی پسلی نہ ٹوٹی ورنہ لینے کے دینے پڑ جاتے اور عمر بھر کو معذور ہو جاتے وہ الگ۔ دونوں تینوں بھائی کچھ تو محبت کے مارے اور کچھ پھلوں کے لالچ میں آگے پیچھے گھوما کرتے، زندگی کا رخ اکدم بدل گیا۔ کام دھام کی فکر تو دور ہی الٹے بیٹھے بٹھائے ایک سے ایک مقوی غذا اور پھلوں کا عرق، مر بے حلوے ملتے، مسعود میاں جو اس قدر دبلے پتلے تھے، پیلے پڑ چکے تھے، تھے تو اب بھی ویسے ہی مگر بیماری میں بھی وہ تندرست تندرست سے دکھائی دیتے اور گالوں پر کئی بارتو گلابیاں بھی دوڑ جاتیں۔ اب وہ بڑے ہونے کے باوجود بڑے نہ گنائے جاتے۔ نہ کام کرنے کی تنبیہ نہ جلدی اٹھنے کی تاکید۔ مزے میں پڑے پھل چوسا کرتے، ابا جان روز زخموں پر ٹنکچر لگاتے اور پیار سے بولتے جاتے۔
’’دیکھو بیٹے یہ دوا کہیں منہ میں نہ چلی جائے۔ زہریلی ہوتی ہے۔ اس سے انسان مر جاتا ہے۔‘‘
پھر زخم ملنے لگے تو دوسری دوا آ گئی۔ ڈاکٹر تو اب بھی ابا جان ہی تھے۔ کبھی کبھار اماں یا دادا میاں بھی ڈاکٹری جتانے پر تل جاتے۔ مگر معصوم مسرت کا یہ چراغ بھی ہوا کے جھونکے سے بجھ کر رہ گیا۔ مسعود میاں کو بستر پر پڑے پڑے کئی دن ہو چکے تھے۔ اب تو اٹھ کر بیٹھتے تھے اور چار چھ قدم چل بھی لیتے تھے۔ گھر والوں سے ان کی کیفیت بھلا کیسے چھپی رہ سکتی تھی۔ اس دن جب انھوں نے پڑے پڑے انو سے پانی مانگا تو اماں پچھلے دنوں کی طرح جھلا کر بولیں۔
’’اب یہ مکر گانٹھے کب تک پڑے رہو گے۔ بس ہو گئے صحت مند اٹھ کر پی لو۔‘‘
مسعود میاں کے دل کو صدمہ تو بہت ہوا، مگر پھر بھی وہ اٹھے اور مٹکے کے پاس پہنچے پہنچے تک جان بوجھ کر لڑکھڑا کر گر پڑے۔
اماں نے دیکھا تو ہاتھ کا کام چھوڑ کر لپکی آئیں۔ اور بستر پر لے جا کر لٹا دیا۔ مسعود میاں خوش ہو گئے کہ چلو حربہ کارگر ہو گیا۔
مگر اس دن کے بعد سے یہ ہونے لگا کہ ان کی بیماری پہلے کی طرح نظروں میں چڑھی چڑھی نہ رہی۔ یوں بیمار بچہ ماں باپ کی توجہ اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ مگر جب بیماری مستقل ہو جاتی ہے تو وہ اس کے عادی ہو جاتے ہیں اور اگلی سی بات نہیں رہ جاتی۔
اب تو یہ ہوتا تھا کہ جب دیکھو تب مسعود میاں بستر پر پڑے ہیں مگر کوئی توجہ نہیں دیتا پھل پھلاری سب چھوٹ گئے۔ وہ حلوے پراٹھے بھی سب ختم ہو گئے اور وہ پھر گھورے پر کے دھتورے بن گئے۔ ان کے دل میں غم کی دھیمی دھیمی آگ دھیرے دھیرے ہر پل سلگتی رہتی۔ جب بات نہ بن سکی تو مسعود میاں نے خود ہی بستر چھوڑ دیا۔
ٹنکچر آیوڈین کی بڑی سی بوتل ابا جان کے کمرے میں رہتی تھی۔ سرخ سرخ سی، جس کے کارک پر دھجی بھی نہ بندھی رہتی تھی۔ زندگی کا خاتمہ کر لینا ایسی کوئی مشکل بات بھی نہیں کہ انسان پہروں سوچتا ہی رہے اور کوئی حل ہی نہ ملے وہ بھی اس صورت میں کہ ابا جان روز روز چتاونی دیتے تھے کہ دیکھو کہیں دوا منہ میں نہ چلی جائے اس سے انسان مر جاتا ہے۔ انھوں نے بشاشت سے سوچا۔
زخموں کے باعث پیروں میں ہلکا سا لٹک آ گیا تھا اور چلتے میں وہ ڈگمگا جایا کرتے اور پھر ابا جان کی الماری تو اتنی اونچی تھی۔ پھر بھی یہ خیال تھا کہ اگر کوئی پوچھ لے کر میاں یہ ٹنکچر کا کیا کرنے چلے ہو تو۔ تو کیا کہتے۔ پھر خود ہی سوچ لیا۔ اونہہ، کہہ دوں گا۔ زخموں پر لگا رہا ہوں۔
میلے میلے اجالے میں وہ ڈولتے ڈولتے ابا جان کی الماری کے پاس پہنچ ہی گئے اوپری خانے سے بھی اوپر۔ چھت پر ٹنکچر کی بوتل رکھی ہوئی تھی۔ کرسی اور میز کا سہارا لیتے لیتے وہ منزل مقصود تک پہنچ ہی گئے۔ بوتل ہاتھ میں آ گئی تو ان کا جی اتنی زور سے دھڑکا کہ ایک بار تو انہیں بھی اس کی دھڑکن سنائی دے گئی۔ دھڑ، دھڑ، دھڑ۔ مرنے سے پہلے انہیں یونہی ادھر ادھر کے خیال آ گئے۔ واقعی اگر تھورے دن اور زندہ رہ جاتے تو کیا بری بات تھی۔ مگر اب ظلم و ستم کی انتہا ہو چکی تھی۔ اب کتنا صبر کیا جاتا۔ بوتل منہ سے لگانے سے پہلے ان کی آنکھوں تلے اندھیرا چھا گیا۔ مگر زندگی اتنی تلخ اور کڑوی تھی کہ اب وہ ہر منزل سے گزر سکتے تھے۔ آنکھیں بند کر کے انھوں نے ساری بوتل ختم کر ڈالی۔ انھیں آج تک نہ معلوم تھا کہ پنکچر اس قدرمیٹھا ہوتا ہے۔ چلو یہ بھی خوش نصیبی ہی تھی کہ اتنی تلخ زندگی کے بدلے ایسی میٹھی موت نصیب ہوئی۔
بوتل وہیں ٹکا کر وہ ابا جان کے پلنگ پر مرنے کے انتظار میں لیٹ گئے۔ مرنے کا ذرا حال۔ انھوں نے مولوی صاحب کی زبانی سن رکھا تھا کہ اک پری ہنستی گاتی، مسکراتی پھول لے آتی ہے پھر اچھی اچھی خوشبوئیں آتی ہیں۔ عطر کی لپٹیں سی چلی آتی ہیں۔ مہربان اور شفیق پری کی مسکراہٹ وسیع ہو جاتی ہے اور بس۔۔۔ مگر اتنی دیر گزر گئی کوئی پری نہ آئی۔ کوئی خوشبو نہ آئی۔ پھول آئے نہ عطر کی لپٹیں۔ البتہ مہربان پری کی بجائے نا مہربان ابا جان کمرے میں وارد ہو گئے۔ انہوں نے بیٹے پر اچٹتی سی نظر ڈال کر ادھر ادھر آنکھیں بھٹکاتی شروع کر دیں۔ مسعود میاں کا جی غم سے پھٹ کر رہ گیا۔ ’’مرتے مرتے بھی کوئی میرا پرسان حال نہیں خدایا۔‘‘
اک دم اباجان پلٹے اور پوچھا۔ میاں یہاں کی بوتل کیا ہوئی تم نے دیکھی؟‘‘
مسعود میاں نے سوچا اب اعلان کر دینا ہی ٹھیک ہے۔ بڑے کرب سے دکھی لہجے میں بولے۔ ’’ابا جان وہ زہر تو میں نے پی لیا اور اب عنقریب مرنے والا ہوں۔‘‘
ابا جان کو ان کی شرارت ایک آنکھ تو نہ بھائی اور ن کی بیماری کا لحاظ کئے بغیر، دھن دھن دھنک ڈالا۔ روئی دھنکے کی آواز سن کر اماں دوڑی آئیں۔
’’ہوا کیا؟ نامراد یونہی تو مر رہاہے۔ کیوں پیٹ رہے ہیں خواہ مخواہ۔‘‘
’’خواہ مخواہ۔ ابا جان بھبھک اٹھے۔ کھانسی زکام کا زور دیکھو آج کل۔ اس زمانے میں اصلی شہد تو ملتا نہیں۔ اتنی مشکلوں سے جمع کیا۔ اور یہ نامعقول اک دم سارے کا سارا پی گیا اب پیچش ہو جائے تو مرتا پھرے۔ ایک دمڑی کی دوا تولاکے نہ دوں حرامزادے کو۔‘‘
زندگی اس سے پہلے کبھی اتنی بے رنگ نہ تھی۔ وہی دن وہی راتیں۔ دادا میاں کا حقہ بھر کر رکھتے رکھتے کئی بار ان کا جی چاہتا کہ انھیں اپنا سب کچھ مان لیں۔ کیوں کہ گھر بھرے میں وہی ایک قابل قدر ہستی تھے۔ مگر اماں کا قصہ یاد آ جاتا کہ اس جان توڑ فرماں برادری کا کیسا کڑوا پھل ملا کہ محبت تو گئی چولھے میں۔ اماں اس فرماں برداری سے بجائے خوش اور مہربان ہونے کے ایسی عادی ہو گئیں جیسے مسعود میاں نوکر ہی تو تھے۔ محبت کی زبان یہ لوگ سمجھتے کیوں نہیں؟‘‘
اپنے انہی بے ہودہ کاموں سے فارغ ہو کر مسعود میاں باہر بیٹھک میں آ بیٹھتے۔ اور کچھ نہ سوجھتا تو بیٹھے دیکھتے رہتے کہ مرغیاں کیسے دانہ چگتی ہیں۔ وہ وقت گزاری کو باری باری ہر مرغی کا جائزہ لیتے۔ اس کے پیر بھورے ہیں۔‘‘
’’اس کالی مرغی کی چونچ گہری کامنی ہے۔‘‘ لال مرغی کے پروں میں سفید سفید دھبے بھی ہیں۔‘‘ وہ مرغی اور مرغیوں کے مقابل ذرا ناٹی ہے۔ ’’سفید مرغ کی کلغی ذرا ایک طرف کو جھکی ہوئی ہے۔
حددرجہ اکتا کر وہ خود ہی سمجھ جاتے کہ یہ باتیں انتہائی احمقانہ ہیں اور کسی سمجھ دار انسان کا ایسی بےتکی باتوں میں جی نہیں لگ سکتا۔ وہ کھلے آنگن میں اتر آتے اور نظریں اٹھا اٹھا کر اڑتی چیلوں اور کوؤں کو تاکنا شروع کر دیتے۔ شام ڈھلے جب پنکھ پنکھیرو اپنی اپنی دنیاؤں کو لوٹ رہے ہوتے تو وہ بڑے انہماک سے بگلوں کی اڑتی قطار پہ نگاہیں جمائے گنا کرتے۔ ایک دو۔ تین۔ چار۔ پانچ۔ چھ۔ سات۔ آٹھ۔ نو۔ دس۔ گیارہ۔۔۔ وہ گنتے رہتے اور پرّادور نکل جاتا۔
دوپہریوں میں وقت کاٹنا اور مشکل ہو جاتا۔ وہ ادھر ادھر جھانکتے تاکتے پھرتے کہ کہیں گھونسلہ وونسلہ نظر آ جائے تو چڑیوں کے انڈے اتار لیں۔ اس فضول سے کام کی وجہ سے ان کے پاس انڈوں کا ڈھیر لگ گیا۔ پھر خالی وقتوں میں وہ گھوم پھر کر چھپکلیاں اور گرگٹ مارا کرتے او رپھر بڑے انہماک سے کوؤں اور چیلوں کے لئے پچھواڑے میں چھور آتے۔
یہ سب کام اچھے تھے جن میں گھنٹے دو گھنٹے تو بڑی خوشی سے گزر جاتے مگر پہاڑ ایسے دن اور پہاڑ سے بھی بڑی زندگی کے گزرنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔ نیم کے نیچے اب بھی محلے کے چھوکرے جمع ہوتے اور رنگا رنگی باتیں ہوا کرتیں۔ مگر یہ سب کچھ ہفتہ میں ایک بار ہوتا۔ جب اسکول سے چھٹی رہتی۔ ورنہ ان لڑکوں کا وقت تو برے مزے میں کٹ جاتا۔ تھک بار کے انہوں نے وہی پرانی بات سوچی کہ کیسا بھی کر کے اسکول میں داخلہ لے ہی لیں۔ مگر یہ کیسے ممکن تھا؟ اگر کہتے تو وہی جواب سننا پڑتا۔ مگر پھر بھی انہوں نے ’’اپنی کر گزرو‘‘ والی بات سوچ ڈالی۔ کیوں نہ بیچ میں دادا میاں کو لایا جائے۔ وہ ضرور ابا جان سے سفارش کر دیں گے۔ دادا میاں نے کمال مہربانی سے اردو لکھنی پڑھنی سکھا دی تھی۔ اس دن انھوں نے دادا میاں کو بڑا اچھا سا خط لکھا ’’عسلام الیکم اور اس کے نیچے مناسب الفاظ میں درخواست کی کہ انھیں اسکول میں داخلے کی اجازت دیوا دی جائے۔
خط پڑھ کر جو بھی ہنگامہ ہونا تھا وہ ہو کر رہا۔ ابا جان کا تو یہ تھا کہ جب بات کرتے جوتے کی مدد سے، مگر دادا میاں کا کہنا بھی تو ٹھیک ہی تھا کہ میاں اسکول میں جو کچھ پیسہ دے کر پڑھایا جاتا ہے وہ تمہیں گھر بیٹھے مفت اور محبت کے ساتھ پڑھایا جاتا ہے۔ تو پھر اس میں اعتراض کی کون سی بات ہوئی؟
اداسی میں بیٹھے بیٹھے اس دن مسعود میاں نے انگلی سے زمین پر خوب آڑی ترچھی لکیریں کھینچیں بعد میں انھیں لکیروں کو غور سے دیکھ رہے تھے تو ان لکیروں میں ایک صورت ابھر آئی۔ ان کے دل میں خوشی بھر گئی۔ ارے وقت گزاری کا ایک بہترین حل یہ بھی تو ہو سکتا ہے۔
اب دن بھر وہ پنسل کاغذ لئے آڑی ٹیڑھی لکیریں کھینچا کرتے اور جب اس سے ذرا اکتا جاتے تو پھر مٹی گوندھ کر مجسمے ڈھالنے بیٹھ جاتے۔ سب سے پہلے انہوں نے ایک چڑیا کا مجسمہ بنایا۔ بنانے کے بعد خود ہی حیرت زدہ رہ گئے۔ عین مین چھوتی سی چڑیا ہی دیکھ لو جیسے کہ ابھی ابھی پر پھٹ پھٹا کر پھر سے اڑ پڑے گی اور مسعود میاں دیکھتے کے دیکھتے رہ جائیں گے انھوں نے شرارت سے چڑیا لے جاکر میز پر رکھ دی۔ چڑیوں کو ایک رقیب مل گیا دن رات بے چاری کے سر پر ٹھونگیں پڑا کرتیں۔ آخر دوسرے تیسرے دن ہی وہ چڑیا ٹوٹ ٹاٹ کر برابر ہو گئی۔
پھر تو ہر ایک کی شامت آ گئی۔ انور میاں، اخلاق میاں، اجو سے لے کر دادا میاں، اماں اور ابا جان تک کے مجسمے بن گئے۔ ان کے اور بھائیوں کے حصے میں ایک کمرہ تھا۔ وہ کمرہ اب مجسموں سے سج گیا۔ وہ بڑی پھرتائی اور انہماک سے مٹی گوندھتے اور دیکھ دیکھ کر نقوش سنوارتے گھریلو مٹی تو نامراد یونہی جھڑ جھڑ جایا کرتی۔ اب وہ لیپنے والی سے جا کر گھگھیا کر چکنی مٹی مانگتے اور ماچس کی تیلی کی مدد لے لے کر نقوش تیکھے کرتے، تو اس فن میں اتنے ماہر ہو گئے تھے کہ منٹوں میں دیکھتے ہی مجسمہ تیار ہو جاتا۔ بھائیوں کا منہ کتے بلی کے مجسمے دے دلا کر بند کر دیا گیا۔
بڑے شہر سے ماموں جان آئے۔ جانے کتنے ملکوں کی انھوں نے خاک چھانی تھی۔ ابا جان سے بات کرتے تو گٹ پٹ میں، بھانجوں کے خاک تو پلے نہ پڑتی، وہ بھانجوں سے بڑے تپاک سے ملے۔ ان سے باتیں کیں۔ ان کی ننھی منی لڑائیوں کے فیصلے کئے الٹی سیدھی رائیں دیں۔ کبھی آپس میں لڑوا دیا۔ کبھی ملوا دیا۔ بھانجوں کی تعلیمی حالت سے سخت نالاں اور غیرمطمئن نظر آتے تھے۔ ایسے ہی ایک رات کھانے کے بعد بات چل نکلی، تو وہ بہنوئی سے بڑے الجھے لہجے میں بولے۔
’’بھائی جان آپ نے بچوں کی تعلیم کی طرف کوئی دھیان نہ دیا۔ یہ سخت بری بات ہے۔ حالانکہ آس پاس دو چار اسکول بھی ہیں۔
’’بس میاں تم کیا جانو۔ کمبختوں کے دماغ ہی نہیں چلتے ایک لفظ ہفتے ہفتے بھر یاد نہیں ہوتا۔ اور ماموں تعلیم کی طرف دھیان دلا رہے ہیں۔‘‘ ایک دم وہ چڑکر تینوں بڑے بیٹوں کی طرف مخاطب ہو گئے۔،
’’بولو تورے کم بختو وہاٹ ازیورنیم۔‘‘
تینوں ایک دوسرے کا منہ دیکھ دیکھ کر اور ایک دوسرے کی آڑ میں چھپنے کی کوشش کرنے لگے۔ ماموں جان کو بڑا سخت افسوس ہوا۔ ذرا رک کر بولے۔
’’اگر پڑھنے میں دماغ نہیں چلتا تو ابتدائی تعلیم کے بعد کسی ٹیکنکل لائن مین ڈلوا دیجئے۔ یا پھر کسی فن کی طرف راغب ہوں تو یوں کہیئے۔ دراصل بچے کا رجحان جدھر ہو یونہی اسے اٹھانا چاہیئے۔ ہمارے بنگلے کے بازو میں ایک وکیل صاحب رہتے ہیں ان کا بچہ یونہی آڑی ٹیڑھی لکیریں کھینچا کرتا تھا، آدمی تھے سمجھدار۔ اسے آرٹ اسکول جوائن کرا دیا۔ ماشاء اللہ ایسا ہونہار نکلا ہے کہ اس کی بنائی ہوئی ایک تصویر نے دہلی میں پہلا انعام لیا ہے۔ اور یہ نہیں تو پھر اور بھی کئی شعبے ہوتے ہیں بھیں۔ کوئی گانے کی طرف مائل۔ کوئی ناچنے کی طرف کوئی کھیل کھیل میں انجن بنانے کی دھن، توکوئی یوں ہی پتلے ڈھالتا پھرے، ماں باپ کی توجہ کرنی چائیے۔ مگر دھیان کون دیتا ہے۔ اگر مناسب توجہ دی جائے تو آگے، چل کر ایسے ہونہار فنکار جنم لیتے ہیں کہ ساری دنیا میں نام مشہور ہو جائے۔ مگر تنگ ذہننی اور دقیا نوسیت تو پیچھا چھوڑے۔ میری ڈکی تو میوزک سیکھ رہی ہے۔‘‘
ابا جان آنکھیں پھاڑے ان کی بات سن رہے تھے، مگر مسعود میاں اور ہی کسی دنیا میں تھے۔ یہ ماموں جان کتنے اچھے ہیں، کتنے شفیق، کتنے مہربان ہیں۔ کس قدر نرم لہجے میں کیسی اچھی اچھی باتیں کرتے ہیں۔ ان کے اتنے قریب بیٹھنے کے باوجود بھی ڈر نہیں لگتا دل چاہتا ہے یہ باتیں کئے جائیں اور میں سنا ہی کروں۔ سچ ماموں جان آپ اس قدر اچھے ہیں۔ میں تو بس آپ ہی کے ساتھ چلوں گا۔ آپ کے گھر ہی رہوں گا۔ ڈکی میوزک سیکھا کرےگی اور میں پتلے ڈھالا کروں گا۔ تو بس میں یقینی آپ کے ساتھ چل رہا ہوں۔ لے چلیں گے نا مجھے۔‘‘
دماغ نے بہت سمجھایا مگر زبان ساتھ نہ دے سکی اور ماموں جان آئے بھی اور چلے بھی گئے لیکن مسعود میاں کو جو شوق لگ گیا تھا۔ وہ بڑھتا ہی گیا اور ان کے کمرے میں آڑے ٹیڑھے مجسموں کی دکان سی جم گئی۔ ایک دن اماں جو کسی کام سے ادھر گئیں تو دل اچھل کر حلق میں آ گیا انہوں نے غصہ میں آکر میاں کو آواز دی۔ ادھر سے سن گن پاکر دادا بھی دوڑے آئے۔
’’غضب خدا کا، اپنے ہاتھوں مورتیاں بناتا ہے کم بخت۔ ارے نامراد قیامت کے دن ان میں جان بھرنی پڑے گی۔‘‘ اماں ہتڑ پیٹ پیٹ کر دہائی دے رہی تھیں۔
دادا کو عاقبت اندھیر نظر آنے لگی۔
’’ارے میاں مسلمان ہو۔ خدا رسول کا نام لیتے ہو، یہ کیا دھندا اٹھایا ہے۔ اسلام میں اس سے بڑا کوئی گناہ نہیں کہ خدا کے پیدا کئے ہوئے ہو کر اس کی برابری کرنا چاہتے ہو۔ نعوذباللہ۔
اور ابا جان تو اس انکشاف پر حیران ہی رہ گئے، ماموں جان، سامنے ہوتے تو شائد ان کی ناک ہی مروڑ دیتے۔ اماں نے گناہ سے لرز کر اس کا کفارہ ادا کرنا ضروری سمجھا اور دھڑا دھڑ مجسمے زمین پر پٹخنے شروع کر دئیے اور تھوڑی ہی دیر میں کمرے میں مٹی کا ڈھیر لگ گیا۔ جن میں ننھی ننھی چڑیاں بھی تھیں، ہنستے گاتے گول مٹول بچے بھی تھے۔ انور میاں تھے۔ اخلاق میاں تھے اجو۔ پوپلے منہ والے دادا میاں۔ نوکیلی مونچھوں والے ابا میاں اور تو اور اماں بھی ڈھیر ہو گئیں۔ منزل کو جاتا مسافر پھر راہ سے بھٹک گیا۔ اب پھر مسعود میاں تھے اور بیکاری کے دن رات۔ ساری دنیا سے جی اچٹ سا ہو گیا، اتنی بڑی ساری دنیا میں اب اور کون جھمیلہ تھا کہ جس میں جی اٹکایا جاتا۔ تنگ آکر انہوں نے سوچا کہ اب تینوں بھائیوں میں دل لگانا چائیے۔ ممکن ہے کہ ان کے ساتھ کھیلتے کھالتے زندگی کی اتنی بڑی راہ یوں ہنستے ہنستے ہی طے ہو جائے۔
بیٹھے بٹھائے یوں مسعود میاں مہربان ہو گئے تو بھائیوں کی آنکھیں مسرت سے کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ یوں تو مسعود میاں سدا ہی سے نمک کا گھر تھے، کہ کسی نے ذرا پیار سے دیکھا اور یہ بہہ نکلے مگر اب تو بالکل ہی پگھل کر رہ گئے۔ کھانے پینے۔ کھیلنے کودنے، کام دھام، اٹھنے بیٹھنے ہر ہر بات میں انہوں نے اپنے آرم اور اپنی خوشی پر بھائیوں کے آرام اور خوشی کو ترجیح دی۔ گھر میں مٹھائی میوہ آئے اور انہیں بھی ملے تو ناممکن تھا کہ یہ اکیلے بیٹھے بیٹھے کھا جائیں۔ بھلا بھائیوں کو چھوڑ کر کیسے کھایا جا سکتا ہے۔ حلق سے اترے تب نا! اب چھوٹے بھائیوں کے منہ پر سدا بڑے بھائی، بڑے بھائی کی رٹ رہتی۔ نیم نیچے گلی ڈنڈا کھیلنے جاتے تو بڑے بھائی جان بوجھ کر گلی گرادیتے اور یوں خوب جان جان کر داؤ دیتے۔ لونڈ پاٹ کھیلنے کا وقت آتا تو خود ہی ایسے قریب سے گزرتے کہ دشمن پکڑ لے اور دشمن کون۔ اپنے ہی بھائی۔ کبڈی میں جو کبڈی کبڈی بولتے ہوئے بھاگتے تو دشمن کے ہاتھ لگتے ہی سانس توڑ دیتے۔ دشمن جیت جاتا یہ ہار جاتے۔ اس ہار میں کیسا مزہ آتا۔ ہر بھائی کی یہ کوشش ہوتی کہ کھیل میں اس کے مخالف بڑے بھائی ہی بنیں۔ بیچارے ایسے مزے سے ہار جاتے کہ اجو بھی تو کیا ہارے۔
پھیپھڑوں میں تو جیسے دم تھا ہی نہیں کہ جہاں کسی نے ہاتھ لگایا اور سانس ختم۔
انو میاں کوچڑیوں کے انڈے جمع کرنے کا بڑا شوق تھا۔ مسعود میاں نے اپنا تمام خزانہ یوں چپ چاپ ان کے حوالے کر دیا اور ان کا دل جیتے رہنے کو، دوپہر سہ پہر، دھوپ چھاؤں، بس گھومتے جاتے، درختوں، چھتوں چڑھتے جاتے، جیب میں انڈے چھپائے وہ کنپٹیوں سے بہتا ریلے دار پسینہ پونچھتے۔ سانسوں سانس نیچے اتر آتے۔‘‘
’’دیکھا کم بخت کو۔ سالی بیٹھی مجھے ہی تاک رہی تھی۔ میں بھی کیا اسے چھوڑنے والا تھا۔‘‘ انو میاں یوں مزے سے انڈے سمیٹ لیتے جیسے انہیں حاصل کرنے میں کوئی جوکھم ہی نہ پڑا ہو۔
میاں اجو کو کھانے پینے سے خاصا لگاؤ تھا۔ بڑے بھائی اپنے حصے کی ساری چیزیں کھلا دیں پھر ان کا منہ کھلے کا کھلا ہی رہے کھا کر خوب خوش ہوتے اور مسعود میاں انھیں کھینچ کر گلے لگا لیتے۔ گالوں پر پیار کرتے۔
’’اجو تم ہمارے دوست ہونا۔‘‘ وہ بار بار تصدیق کر لینا چاہتے۔ کہ ان کی دوستی یوں ہی کچی تو نہیں ہے۔
’’ہاؤ۔‘‘ وہ اپنا سر ہلا کر بھر پائی سے بولتے۔
اجو میاں کے لئے برے بھائی نے چوری کی نامراد عادت بھی ڈال لی۔ اب گھر میں بری بھلی چیز تو پکتی ہی ہے۔ موسم کے پھلوں کا مربہ بھی پڑتا ہے۔ الماری میں اماں نے ٹماٹر کی جیلی اور پچھلے دنوں آم کا مربہ بنا رکھا تھا۔ اجو میاں کو آم کا مربہ کس قدر پسند تھا۔ بس نگاہ چوکی کہ نروماری۔ ادھر ادھر سے جہاں موقع ملا بڑے بھائی گھسے گودام میں۔ پھر ایک آدھ قاش مٹھی میں دبائے باہر نکل آتے۔ آدھے مرتبان تو خالی ہو گئے اور آدھے۔ آدھوں آدھ رہ گئے۔
اخلاق میاں کو باہر کے کھیل پسند تھے۔ بڑے بھائی ان کے لئے درختوں پر چڑھ کر پھاٹے توڑ لاتے اور ایک سے ایک فیشن ایبل غلیل بنا کر دیتے۔ ربر کے نیچے کنکری رکھ۔ ایک آنکھ میچ سیدھ میں نشانہ باندھنے کی وہ تدبیریں بتاتے کہ چڑیا بیٹھی کی بیٹھی رہے اور دم ہوا۔
اتنے بھائیوں کی خوشی حاصل کرنی سراسر مہنگی پڑی۔ ادھر گھر کے کاموں میں رخنہ پڑ گیا صبح تو خیر سدا ہی سے اٹھتے تھے اور اب بھی اٹھتے۔ اس لئے صبح کے کاموں کی برابری تو ہو ہی جاتی مگر دن بھر جو ادھر ادھر ٹلے کھاتے پھرتے تھے تو پھر کام سمیٹنے کو کون رہ جاتا تھا؟ ایک کام کیا کہ گتی دے کر بھاگے، ادھر ادھر سے آئے۔ وہ چار منٹ پڑے کہ پھر بھاگے، اماں سے چھالا چھپا نہ رہ سکا۔ کھیل بھی وقت پر اچھا لگتا ہے۔ یہ نہیں کہ گھر بھر کے کام کرنے پڑے رہیں اور جت گئے چھیا چھائی میں۔
چریوں کے انڈوں کے رسیا تو دراصل انو میاں تھے مگر اس دن تو سب کا لٹ پٹاکے جی چاہا کہ ہمارے پاس بھی انڈے ہوں اور تو اور اجو میاں بھی کنمانے لگے۔ ہوا یوں کہ مسعود میاں جو بیری پر چڑھے تو پھر سے ایک چتکبری چریا اڑ کر بھاگی، انہوں نے ادھر ادھر ٹوہ لگائی، کانٹوں سے بچتے پتوں سے الجھتے وہ آخر سرے تک پہنچ ہی گئے اور ان کے منہ سے سے مارے خوشی کے ہاں نکل گئی۔ ایک گپھا میں چھوٹا سا گھونسلہ تھا۔ انہوں نے ہاتھ ڈال کر اس میں سے انڈہ بر آمد کر لیا۔ واہ بھئی کیا کہنے! کیا خوب صورت انڈہ۔ ہلکے گلابی رنگ کا۔ جس پر سرخ اور کالے کالے نقطے چمک رہے تھے۔ ان کا دل مارے خوشی کے ڈول گیا۔ وہیں سے بیٹھے بٹھائے نیچے کھڑے تینوں کو انہوں نے ہاتھ میں پکڑا ہوا انڈہ دکھایا۔
’’یہ دیکھ رہے ہو تم لوگ۔‘‘
اتنی اوپر سے پہلے تو کچھ صاف نظر نہ آیا۔ پھر ان لوگوں نے دیدے پٹ پٹاکر ایک دوسرے کو دیکھنا شروع کیا۔
’’ارے واہ۔ بڑے بھائی کیا چیز بتا رہے ہیں آپ۔‘‘
’’ارے واہ۔ اتا بھی نہیں معلوم۔ ارے بھئی انڈہ ہے انڈہ، جس پر لال کالے نقطے ہیں۔ ہاں۔
تینوں ایک ساتھ بول پڑے۔
’’بڑے بھائی وہ میں لوں گا۔
’’بڑے بھائی وہ میں لوں گا۔‘‘
’’نئیں میں۔‘‘
واہ میں۔‘‘
’’اوں اوں، میں۔‘‘
سب سے پیچھے اجو میاں کہے جا رہے تھے۔ ’’ام میں نے۔ ام میں نے۔‘‘
ایک بار تو اوپر بیٹھے ہوئے مسعود میاں اتنی کاؤں کاؤں سن کر چکرا کر رہ گئے۔
’’یہاں توکل دوہی انڈے ہیں۔‘‘
واہ چریوں کے انڈے ہمیں بھاتے ہیں۔ کیوں بڑے بھائی میرے پاس اتے سارے ہیں کہ نئیں؟‘‘ انو میاں چلا ئے۔
’’اتے سارے ہیں تو اب پھر کیا ضرورت ہے۔‘‘ اخلاق میاں چڑ کر بولے۔
انو میاں جل کر بولے، ’’تم تو جا کر غلیل ہی چلاؤ بس۔ ارے واہ ہمارے انڈے ہیں۔‘‘
ان دونوں کو آپس لڑتا دیکھ کر اجو میاں پھک پھک رونے لگے۔ اوں اوں۔ اوں اوں اکدم مسعود میاں کو ایک حل سوجھ گیا۔
بھئی دیکھو۔ اتی اتی باتوں پریوں لڑائی سے فائدہ۔ آخر ادھر ادھر اور بھی تو اتے سارے درخت ہیں، میں ڈھونڈتا ہوں۔ شائد مل جائیں۔
سب کے غصے ٹھنڈے پڑ گئے۔ اب ہوتا یہ تھا کہ پہر دو پہر کو جہاں دادا میاں کے منہ سے فرفر سیٹیاں نکلنے لگیں۔ اور جہاں اماں نے دروازے بھیڑ ہاتھ کا تکیہ بنا آنکھیں موندیں۔ چاروں بھائی دبے پاؤں، دبے قد م اٹھاتے گھر سے باہر نکل آتے، ان کے لئے کڑی دھوپ اور گرمیا ں کوئی معنی نہ رکھتی تھیں۔ سردیاں بے اثر تھیں۔ بس چلے جا رہے ہیں۔ انڈوں کی تلاش میں۔
ڈھونڈھتے، ڈھونڈتے گھر سے خاصے دور نکل آتے، واپسی میں دھوپیں اترتی ہوتیں اور ان کے چہرے پسینے سے تربتر۔ گھر میں داخل ہونے سے قبل قمیصوں کے دامنوں سے پسینہ پونچھ لیتے تھے اور چپ چاپ اپنے کمرے کو چلے جاتے، اماں کی نظر پڑتی تو وہ چنگھاڑتیں۔
’’کدھر مرتے تھے حرام زادو۔‘‘
ایسے ہی جھاڑ کے نیچے کھیل رہے تھے اماں۔‘‘
نیم کے نیچے نا۔‘‘
’’ہاں ہاں نیم کے نیچے ہی۔‘‘
وہ چاروں ایک دوسرے کو اشارے کرتے ہوئے صاف جھوٹ بول جاتے۔
دادا میاں کا کہنا تھا کہ نیم کے نیچے کھیلنے سے کوئی بیماری نہیں آتی۔ کیوں کہ نیم کی کڑوی بو بیماریوں کے کیڑوں کو دور بھگا دیتی ہے۔ اسی مارے اماں غصے میں پوچھنا نہ بھولتیں۔ ’’نیم کے نیچے نا؟‘‘
مسعود میاں کی محبت کا یہ اثر ہوا کہ انو میاں کے پاس چڑیوں کے انڈوں کے ڈھیر لگ گئے۔ اخلاق میاں کے ہاتھوں مارے گئے گرگٹ چھپکلیاں اور لذیز چڑیاں کھاتے کھاتے پچھواڑے کو منڈیروں پر بیٹھنے والے کوے اور منڈلانے والی چلیں یہ موٹی موٹی ہو گئی اور چوری کا مربہ حلوہ کھاتے کھاتے اجو کا پیٹ خوب بڑا ہو گیا، اس کے سوا رنگین چڑیا کے رنگین پر سبھی کے پاس تھے سوائے مسعود میاں کے۔
ایک دن مسعود میاں کی قیادت میں تینوں بھائی تیز دھوپ میں پسینہ پونچھتے، جھاڑوں کے الے تلے انڈوں کی ٹوہ میں پھر رہے تھے۔ ابھی ابھی ایک گھونسلے سے ایک رنگین چڑیا پر جھٹکتی اڑ گئی تھی۔ ان کے دیکھتے ہی دیکھتے چڑیا پھر واپس آئی، چونچ میں دانہ دنکا سمیٹے ہوئے۔
مسعود میاں چڑیوں کی زندگی کے بارے میں اتنی معلومات رکھتے تھے کہ ہر بات جھٹ پہچان جاتے، دیکھتے ہی بولے۔
’’اس گھونسلے میں یقیناًبچے ہیں۔‘‘
’’بچے؟ سب کے چہرے کھل اٹھے۔‘‘ آپ کو کیسے معلوم ہوا؟‘‘
’’ارے تبھی تو وہ دانہ لائی ہے۔ اب ضرور انہیں کھلائےگی۔‘‘
’’بڑے بھائی ہمیں بچہ۔ ہمیں بچہ۔ ہمیں۔۔۔‘‘
سب نے اتنی ضد شروع کی کہ کوئی چارہ نہ رہا۔
’’اچھا ذرا اس چڑیا کو پھر سے اڑ جانے دو، پھر چڑھتے ہیں ذرا۔
کوئی دس منٹ بعد چڑیا پھر اڑی تو مسعود میاں نے پائینچے نیفے میں اڑ سے، آستین چڑھلائیں اور لپک پڑے۔
یوں بندر کی سی پھرتائی سے چڑھتے چڑھتے وہ سیدھے جھاڑ کی چوٹی پر پہنچ گئے۔ پتے اور گھانس پھونس ہٹا کر دیکھا تو چڑ چڑ چوں، چوں کرتے بچے سر اٹھا کر آگے سرکنے کی کوشش کر رہے تھے ان پراتا پیار آیا مسعود میاں کو۔ کتے ذرا ذرا سے تھے۔ ننھے ننھے، چیں چیں۔ پیں پیں کرتے کیسے بھلے لگ رہے تھے۔ وقت کی گھڑی پوچھ کر تھوڑی ہی آتی ہے، مسعود میاں خوشی میں آکر جو اچھلے تو جسم کا تول جاتا رہا، جھوک نیچے کی طرف ہو گیا اور بھد سے زمین پر آ رہے۔
درخت سے گر جانا تو خیر ایک چھوٹا سا ہنگامہ تھا، اصل ہنگامہ تو اس وقت ہونا ٹہرا جب ابا جان کی عدالت میں ساروں کی پیشی ہوئی۔ اماں ہاتھ چلا چلا کر بول رہی تھیں۔
’’حرامزادوں سے ستر بار کہا کہ جھاڑ جھنڈولوں پر نہ چڑھا کر ومگر نا بکار سنتے ہیں کیا۔‘‘
دادا میاں کراری آواز میں چلا رہے تھے۔
’’وہ تو بھلا ہوا کہ بائیں ہاتھ کی ہڈی سر کی ہے۔ جو کبھی سیدھے ہاتھ میں نقص آ جاتا تو میاں جی عمر بھر کو لولے ہو گئے تھے۔‘‘
سب پر باری باری پٹس پڑ رہی تھی کہ ابا جان گرج کر بولے۔
’’یہ نابکار جھاڑ پر چڑھا ہی کیوں تھا؟‘‘
’’یہ تو ان سے ہی پوچھئے جو خود چڑھے تھے۔‘‘ اماں جل کر بولیں۔
ابا جان کا سرخ چہرہ، اماں کی خون بھری آنکھیں اور دادا میاں کی کراری آواز سن کر انو اور اخلاق میاں کی سمجھ میں یہی آیا کہ صاف صاف سچ بات بول دیں۔
’’ابا جان بڑے بھائی چڑیا کے رنگین انڈے اتارنے گئے تھے۔‘‘ اخلاق میاں نے پھر اخلاق سے گری حرکت کی۔
’’چڑیا کے انڈے؟‘‘ ابا جان حیرت سے بولے۔ ’’وہ کس لئے؟‘‘
اب انو میاں کی باری تھی۔ ’’کیوں کہ بڑے بھائی کو اندے جمع کرنے کا بہت شوق ہے۔‘‘
ابا جان نے دیدے گھما گھما کر مسعود میاں کو دیکھنا شروع کیا۔
دونوں ساتھ ساتھ بولے۔ ’’ہاں ابا جان۔ آپ کہیں تو ہم لا کر بتائیں۔ ان کے صندوق میں سے نکال کر۔‘‘
اجو میاں بھی کا ہے کو چپ رہتے، جدھر کا پلڑا جھکا دیکھا جھٹ ادھر جا بیٹھے۔
’’اول ملبا بھی تھائے تھے۔‘‘ (اور مربہ بھی کھائے تھے)
اماں تڑک کر بولیں، ’’وہی تو میں کہوں کہ کم بخت سارا مربہ غارت ہو گیا۔‘‘ انہوں نے زہر بھری نگاہوں سے مسعود میاں کو گھورا۔
تینوں دوڑتے ہوئے گئے اور اپنے اپنے پاس کے انڈے لاکر ابا جان کے قدموں میں ڈال دئیے۔
’’دیکھئے ابا جان یہ اتے سارے انڈے۔ بڑے بھائی روزانہ جھاڑوں پر چڑھ کر جمع کرتے ہیں۔‘‘
ایک خدائی چوٹ تو وہ تھی جو جھاڑ سے گرنے کی وجہ سے ان کی کہنی نے کھائی کہ جگہ چھوڑ کر ہڈی سرک گئی اور دوسری چوٹ ابا جان نے دی کہ ان کے زخموں کی پروانہ کرتے ہوئے مزے سے کوٹ ڈالا۔
اگر درخت سے گر کر مر بھی جاتے تو اتنی کوفت نہ ہوتی۔ مگر باپ کے ڈر سے تینوں بھائی جو اکدم بدل گئے تو ان کی آنکھوں میں دینا ہی اندھیر ہو گئی۔ اس سے بھلا تو یہی تھا کہ درخت سے گرتے ان کا دم نکل جاتا۔ انہوں نے دکھ بھرے دل اور آنسو بھری آنکھوں سے باری باری تینوں بھائیوں کی طرف دیکھا۔ دن اور رات کے کتنے قیمتی لمحے برباد کر کے، اماں باوا کی ڈانٹ سن کر انہوں نے کتنی محبت نذر کی تھی اور پھل کیا ملا؟ ان کے دل سے درد کا بگولہ سا اٹھا جو ان کے وجود پر ان کی آنکھوں پر چھا گیا۔ اور سارے میں اندھیرا چھا گیا۔
اس رات وہ اتنا رؤے، اتنا روئے کہ آنسو جمع کئے جاتے تو چھوٹی موٹی ندی بن جاتی۔ روزانہ جراح آتا اور ان کی کہنی کی سرکی ہوئی ہڈی کو جگہ پر لانے کی کوشش میں ان کی جان نکال لے جاتا درد کی ایسی ٹیسیں اٹھتیں کہ ان کی چیخیں نکل جاتیں۔ جسم کے سارے بال مارے تکلیف کے کھڑے ہو جاتے۔ اب آنسو ضبط کرنے کی انھیں عادت ہو گئی تھی کہ اس تکلیف کے باوجود ہلکی سی نمی بھی ان کے آنکھوں میں نہ تیرتی۔
وہ بستر پر پڑے پڑے اپنے آپ کو اس قدر بے بس نظر آتے، گھٹنوں میں الگ زخم، تلوے الگ آلودہ، کہنی سے معذور، اور دل میں کتنے سارے گھاؤ تھے، جراح نے ہلنے تک سے بھی منع کر رکھا تھا۔ اس سے پہلا زمانہ ہی کیا برا تھا۔ دھتکار پھٹکار جو کچھ بھی تھی اپنی جگہ تھی، مگر یوں قید تو نہ تھی کہ بس ایک ہی جگہ پڑے رہو۔ ہلو تک بھی نہیں۔ آگے گھومنے پھرنے کی تو آزادی تھی۔ مزے سے دوپہر میں جو نیم کے نیچے کھیلا کرتے تھے وہ مزہ بھی گیا۔ اب تو سارا دن لیٹے رہتے، تینوں بھائی دوپہر کا کھانا کھا مزے سے کھیلنے چل دیتے اور یہ دکھ کے ساتھ دیکھتے ہی رہ جاتے۔ خالی وقت میں چھت کی کڑیاں گنا کرتے۔ ایک، دو۔ تین۔ چار۔ ہزار بار تو گن چکے ہوں گے۔ اب تو انھوں نے چھت کی اتنی سیر کر لی، تھی کہ آنکھیں بند کرکے بھی دیکھ سکتے تھے کہ وہاں کونے میں ایک زرد چپکلی چپکی رہتی ہے۔ کوئی کیڑا مکوڑا کھاتی ہے پھر اسی جگہ آ چپکتی ہے۔ دیوار سے لگ کر ایک سیاہ دھبہ ہے جس میں ایک بوڑھے کی شکل بن گئی ہے (ہو بہو دادا میاں) پوری پوری شکل تو نہیں، لیکن اگر ٹھوڑی کی جگہ سے ایک آدھ چونے کا ٹکڑا اور گر جاتا تو پھر پورا بوڑھا ہی تھا اور پھر چھت میں وہ سوراخ جس سے صبح سورج کی کرن جھانکتی ہے اور جیسے جیسے سورج چڑھتا ہے وہ رخ بدلتی جاتی ہے۔ اور یہاں تک کہ معدوم ہو کر رہ جاتی ہے۔ شمالی کونے پر ایک مکڑی کا جالا ہے جو ہوا چاہنے پر بھی اپنی جگہ سے نہیں اڑتا۔
زندگی کا یہ دور سب سے تاریک تھا۔
اماں دن میں تین بار پھیکا شوربہ اور تین پتلی پتلی چپاتیاں پٹخ جاتیں اور یہ آدھا کھاتے آدھا گراتے اور یوں ہی رہ جاتے۔ اماں جھوتے برتن اٹھالے جاتیں تو پلنگ کے نیچے سے ایک بلی دبے پاؤں آتی اور گرے ہوئے ٹکڑے ہڈی کے ٹکڑے چورے کھا کر واپس لوٹ جاتی۔ مسعود میاں بڑی خاموشی سے اسے دیکھتے۔ دیکھتے رہے۔ مگر اس سے پیار کرتے یوں ڈرتے کہ ان کے بدنصیب دل نے سدا زخم ہی کھائے تھے۔ کسی سے دل لگانا انہیں کبھی نہ راس آیا۔ مگر مسعود میاں کا دل بھی کیا دل تھا؟ ایک دن بلی دبے پاؤں وقت مقررہ پر آئی تو وہاں کچھ بھی نہ تھا۔ کیوں کہ آج اماں کو صفائی کا چونچلہ آیا تھا تو جھاڑو دے کر چلی گئی تھیں۔ بلی رہ رہ کر میاؤں میاؤں کرتی رہی اور ان کا جی کلپتا رہا۔
’’ایک ٹکڑا ہی ہوتا تو اس کی بھوک مٹ جاتی۔‘‘ انہوں نے چپکے سے سوچا۔ سوچ کی آواز نہیں ہوتی، پھر بھی بلی کبھی سن گھن پاجاتی تو؟ تو کیا وہ بھی دغا کر جاتی؟ پھر ان کے دل کا کیا حشر پکارتا۔
دوسرے دن اماں برتن لے جانے لگیں تو انھوں نے بالکل بے دھیانی میں روٹی کا آدھا پھلکا اور ہڈی کے ٹکڑے اٹھا کر اپنی شطرنجی کے نیچے چھپا لئے۔ بلی آئی تو پھر کچھ نہ تھا۔ ناک اٹھا اٹھا کر اس نے ادھر ادھر کی بو سونگھنی شروع کی اور کچھ نہ پاکر بڑی ملائم سی آواز میں شکوہ شروع کر دیا۔ میاؤں۔ میاؤں۔ میاؤں۔ میاؤں۔
مسعود میاں نے بڑی مسرت کے ساتھ شطرنجی کے نیچے سے روٹی نکال عین اس کی ناک کے سامنے لٹکا دی، وہ چونکی، اچھلی، اور گول گول گھومتی روٹی پرپل پڑی۔ مسعود میاں کو زندگی ہی مل گئی۔ خوشی خوشی انہوں نے ہڈیاں نکالیں اور وہ بھی کھلا دیں۔ بلی نے بڑی شکرمند نگاہوں سے دیکھا اور دم ہلاتی چل دی۔
اب روزانہ وقت مقررہ پر بلی آتی اور اپنے حصے کا مطالبہ خاموش نگاہوں سے کرنے لگتی مسعود میاں کو اس کی لگاوٹ میں بڑا اطمینان ملتا۔ اب بلی ان سے اتنی مانوس ہو گئی کہ آتے ہی جھٹ پلنگ پر بیٹھ جاتی اور مزے میں خرخر کرتی ان کے پنجے چاٹنے لگتی۔ اگر کبھی کبھار مسعود میاں ستانے کی جون میں ہوتے یا مذاق پر اتر آتے تو وہ بھی سمجھ جاتی اور اپنے پنجوں اور زبان سے انہیں گدگداتی، اتنا ستاتی کہ وہ عاجز آ جاتے اور بےبس ہو کر روٹی اس کے منہ میں بھر دیتے۔ یوں خاموشی سے انجانے ہی انجانے ان کی خزاں بھری زندگی میں بہار لہرائی کہ احساس بھی نہ ہو پایا۔
اب مسعود میاں کو بیماری سے شکایت نہ تھی، ایک تو وہ یونہی روبہ صحت تھے دوسرے بلی کی قربت نے اکیلے پن کا احساس مٹا دیا تھا۔ تینوں بھائی باہر کھیلتے۔ گھر میں آتے پھر باہر جاتے پھر آتے، پھر جاتے، تب بھی ان کا جی نہ چاہتا کہ کسی کی ادا پر جلیں کڑھیں۔ اب وہ حالات سے مطمئن ہو چلے تھے اور تو اور اس دن ان کا بستر سے اٹھنے کو بھی جی نہ چاہا۔ جب محلہ میں ٹانگہ چھن چھنایا۔ گھر کے سامنے گلی میں گھوڑے کے قدموں کی ٹاپ ابھری اور تینوں بھائی اچھلتے کودتے گھر سے باہر بھاگ گئے۔ تھوڑی دیر بعد وہ چھن چھناہٹ اور ٹاپیں عین گھر کے سامنے آ کر رک گئیں اور پھر تھوڑی ہی دیر میں بازو والے گھر میں بیٹھا بیٹھا شور مچ گیا اور دوسرے ہی لمحے تینوں بھائی دوڑتے ہوئے آئے اور چلا چلا کر سب سے پہلے بولنے کی کوشش کر نے لگے۔
’’اماں۔ اماں۔ بازو والے۔‘‘
’’اجی اماں۔ وہ تانگہ آیا کہ نئیں۔‘‘
’’نئیں نئیں۔ وہ۔ وہ۔‘‘
ہر ایک کی کوشش یہ ہو رہی تھی کہ یہ اہم خبر سب سے پہلے میں ہی سناؤں اور اس گڑ بڑی میں کسی کی بات پوری نہ ہو پا رہی تھی۔ ابھی یہ تینوں آپس میں الجھ ہی رہے تھے کہ دیوار کے ساتھ چار پائی کھڑ کھڑائی اور آپا کا چہر نمودار ہوا۔
’’اے بہن کیا پکایا ہے آج‘‘ ۔ کے گھسے پٹے جملے کی بجائے انہوں نے آج نئی بات سنائی۔‘‘ اے بہن تمہارے یہاں کوئی فالتو خالی پلنگ ہوں گے؟‘‘
’’کیوں بھلا؟‘‘ اماں حیرت زدہ رہ گئیں۔
’’دلی سے آپا آئی ہیں۔ وہ ان کی لڑکی اور لڑکا۔ ہمارے ہاں تو تم جانتی ہو پلنگ نہیں ہیں۔ اب انہیں نیچے سلانے سے تو رہی۔‘‘
اماں نے بڑی خوشی سے پلنگ بھیجوالنے کا وعدہ کر لیا۔ ان کو خوشی یوں بھی تھی کہ شہر سے مہمان آئے ہیں، تو ان سے ملنے میں خاص قسم کا مزہ آتا ہے۔ شہر کے لباس۔ نت نئے کپڑے الٹے سیدھے سمجھ میں نہ آنے والے فیشن، رنگ برنگی پہنا وے (وہ کم بخت نامراد ڈکی۔ نوج۔ حیدرآبادی پہناوا۔ اتی بڑی بیٹا اور ٹانگیں کھلی لئے۔ کیا مزے سے گھومتی تھی۔ تھوا) یوں میل جول میں لطف آتا ہی ہے۔ مگر اس میں مسعود میاں کو خوشی کا کوئی پہلو نظر نہ آیا۔ نہ وہ خوش ہی ہوئے۔، آتے رہیں مما ن۔ یہ بچے یوں خوش ہو رہے ہیں اور اماں بھی۔ جیسے دولت ہی مل گئی ہو۔ ہونہہ۔
جراح کی جراحی کام آئی اور کہنی کی ہڈی جگہ پر بیٹھ گئی۔ بسترا ابھی بھی بچھا ہی ہوا تھا اور کھانا بھی وہیں پہنچ جاتا تھا۔ بلی اب بھی آتی تھی۔ اور مسعود میاں کی زندگی کا سامان کر جاتی تھی۔ مہمان تو بازو والے گھر میں آئے تھے۔ مگر لبڑ دھو دھوں ان کے اپنے گھر میں مچی ہوئی تھی۔ خوشی ان کے اپنے گھر میں بکھر کر رہ گئی تھی۔
آپا تو اب چار پائی کھڑی کر کے کبھی کبھار ہی باتیں کرتیں۔ اماں خود ہی چلی جاتیں۔ مماان بی بی کے ساتھ ان کا بیٹا بھی آیا تھا۔ جو تینوں کا گہرا یار غار بن گیا۔ اب سارا سارا دن چاروں ساتھ گھومتے اور مزے اڑاتے۔ مگر پھر بھی مسعود میاں کو تنہائی کا احساس نہ ہوتا۔ لوگ تو بلی کو بے وفا کہتے ہیں۔ مگر اس نے اپنی وفا سے ان کا دل بھر دیا۔ کوئی پلٹے نہ پلٹے وہ برابر وقت آ جاتی۔ چوم چاٹ کے چلی جاتی۔ دوسرے دن دم ہلاتی پھر آتی۔
ایک دن خلاف تو قع دو گھنٹے گزر گئے۔ مگر بلی نہ آئی، مسعود میاں کا دل رہ رہ کے اسے کھوج رہا تھا۔ انہوں نے بستر سے ادھر ادھر دیکھا بھی مگر اس کی ٹوہ نہ لگی۔ مرے مرے قدموں سے چلتے وہ بستر پر آ کر دھم سے بیٹھ گئے، بیٹھے کیا گر گئے۔
کوئی چار بجے کے قریب دیوار کے ساتھ چارپائی کھڑ کھڑائی اور آپا کا اداس چہرہ نمودار ہوا۔
’’ہاں بہن تمہیں وہ مسئلہ معلوم ہے کہ کنوئیں میں بلی مر جائے تو کتنے ڈول پانی نکالنے سے پاک ہو جاتا ہے۔‘‘
اماں نے چونک کر پوچھا۔ ’’کیوں کیا ہوا؟‘‘
وہ اداسی سے بولیں، ’’گورے میاں (ان کااشارہ مہمان بی بی کے شیطان بیٹے کی طرف تھا۔) نے میری پیلی کو شرارت سے کنوئیں میں لوٹ دیا اور کسی سے کہابھی نہیں۔ اب مہتو پانی نکالنے گیا تو بلی دکھائی پڑی۔‘‘ وہ اداسی سے بولیں، ’’میری پالتو بلی تھی اور اب تو بچے جننے والی تھی۔‘‘ کچھ دیر خاموشی کے بعد وہ بھرے بھرے گلے سے پھر پوچھ رہی تھیں۔
’’ہاں تو بہن تمہیں معلوم ہے کتنے ڈول پانی۔۔۔‘‘
مسعود میاں کا دل پہلو میں پر کٹے کبوتر کی طرح پھڑ پھڑانے لگا۔ کبوتر اڑا اور ان کی آنکھوں میں آ بیٹھا۔ خون کے قطرے ایسے ان کی آنکھوں میں سے ٹپکنے لگے۔
اس دن سے اس کی آنکھیں سدا کے لئے سوکھ گئیں۔ وہ ہر لمحہ کے کئے کھوئے کھوئے رہتے زندگی میں کوئی مزہ باقی نہ رہ گیا۔ کتنی بار انھوں نے دنیا سے دل لگانا چاہا اور کتنی بار انہیں مایوسی ہوئی زندگی پھر اسی راہ پر چل پڑی اور وہ یوں بادشاہ کی طرح تاج پہنا کر بٹھائے بھی کیوں جاتے۔ ادھر بستر چھوڑا اور ادھر کام گلے سے لپٹے۔ زندگی کا پھر وہی پرانا انداز تھا۔ وہی اچٹا اچٹا دل۔ وہی بےچین آرزوئیں اور ناکام تمنائیں۔
اس دن انہون نے بڑی سنجیدگی سے سچ مچ مرنے کے بارے میں سوچا۔ ایک سرے سے سب کے بارے میں سوچنا شروع کیا کس کو ان کے مرنے کا افسوس ہوگا؟
ابا جان؟ ارے وہ تو بتاشے باٹیں گے سیر بھر۔
اماں۔ ہونہہ۔ خوش ہو جائیں گی کہ چلو روز روز کی جھک جھک سے نجات ملی۔ ہاں یاد کریں گی بھی تو اپنے مطلب سے کہ آٹا کون گوندھےگا۔ (کیسے مطلبی لوگ ہیں۔ یہ)
دادا میاں۔ واہ۔ کیا کہنے، کون ایسا مجھ میں جی اٹکائے بیٹھے ہیں وہ۔ اگر اپنی پن پناتی آواز سے یاد کریں گے بھی تو بس اس لئے کہ مسعود ان کا حقہ بھرا کرتا تھا۔ بڑے آئے محبت والے۔ بھولا تو نہیں ہوں مورتیاں کیسے تڑ وائی تھیں۔
انو۔ اخلاق۔ اجو۔ (برادران یوسف) انہیں سچ مچ ہنسی آ گئی۔ یہ بھائی ارے یہ بھائی تو ایسے ہیں کہ موت پر بھی خوشیاں منائین کہ سوئم کے دن چنے اور ریوڑیاں کھانے کو ملیں گی۔ بڑے بھائی روز مریں کہ روز سوئم ہو۔
پھر کون ہے جس کے لئے جیا جائے؟ مگر مرا کیسے جائے؟‘‘ ٹنکچر آیوڈین کا واقعہ تو یاد تھا۔ کیسی جھوٹی موت تھی۔ بیٹھے بٹھائے پیچش میں مبتلا ہونا پڑا۔ اب تو مرنے کی کوئی صورت نظر بھی نہیں آتی۔ پھر۔ پھر؟ اکدم ذہن کے باریک گوشے میں جھم جھم سورج جگمگا اٹھا۔ ان کا وجود منور ہوا ٹھا۔
’’کنوئین میں ڈوب کر جان کیوں نہ دے دوں؟ بلی مر سکتی ہے تو انسان کیوں نہیں مر سکتا؟ یقیناًمر سکتا ہے۔‘‘
انہون نے ہر ہر پہلو پر غور کر لیا۔ اور بالکل طے کہ بس کنوئیں میں کود کر مرجانا ہی انتہائی فائدہ مند اور آسان بھی ہے۔ تو بس طے رہا نا۔ آں؟
دوسرے دن وہ انتہائی مطمئن انداز سے بستر سے اٹھے، اماں نے ان کے کے لئے عید کا جو جوڑا سلوایا تھا۔ نیلی نیلی دھاریوں والی سلکن قمیص اور ہرک کا کھڑا کھڑاتا پاجامہ۔ سرخ اور نیلے پھولوں والے جوتے۔
’’مرجاؤں گا تو کون پہنےگا۔ کیوں نہ انہی کو پہن کر مرجاؤں؟‘‘ انھوں نے فیصلہ کن انداز میں سوچا۔
یہ اچھا تھا کہ اماں چولھے کے پاس تھیں۔ انھوں نے جلدی سے صندوق کھولا اور جوڑا پہن لیا۔ ان کا بیمار اور پژمردہ چہرہ نیلی قمیص میں چمک اٹھا۔ گھر سے چلتے چلتے انھوں نے چاہا کہ اپنی پیاری چیزوں پر ایک نظر ہی ڈال لیں۔ مگر اس حقیقت کو جان کر ان کا جی رو اٹھا کہ اتی بڑی دنیا میں کوئی بھی چیز ایسی پیاری نہ تھی جس میں ان جی اٹکتا۔
جچے تلے قدم اٹھاتے وہ خالہ جی کے گھر میں داخل ہو گئے۔ کنواں گھر کے پچھواڑے تھا کوئی نہ تھا۔ بس کنوئیں میں چرخی لگی ہوئی تھی، ڈول پاس پڑا ہوا تھا۔ انہوں نے اندر جھانک کر کنوئیں کی گہرائی کا اندازہ لگانا چاہا۔ خاصا گہر تھا۔ نیچے ہراہرا پانی چمک رہا تھا۔
مرنے سے پہلے نہ چاہتے ہوئے بھی کئی خیال ان کے دماغ میں لہرا گئے۔ دل میں کتنی چھوٹی چھوٹی آرزوئیں تھیں۔ پیار کرنے کی، پیار کئے جانے کی۔ پھر سلسلے وار انہیں خیال آتا گیا کہ انہوں نے پیار کے کتنے سہارے ڈھونڈے تھے۔ اماں، ابا۔ گھر کے کام کاج۔ کتا۔ آڑی ٹیڑھی لکیریں۔ بھائی، بلی، کوئی اپنا تو نہ ہو سکا۔ مٹی کے کھلونوں میں جی اٹکانا چاہا وہ بھی دور ہو گئے۔ پھر کیا دھرا ہے دنیا میں۔ جینے میں؟ انہوں نے اپنے جسم کا تول دیکھا اور۔۔۔
’’ارے رے۔ جھانکوں نہیں۔ گر پڑوگے۔‘‘ پیچھے سے یہ کیسی آواز آئی؟
وہ گھبرا کر پلٹ پڑے۔ گھوم کر دیکھا تو پچھواڑے کے سائبان میں کیسی روائتی پری جیسی بیٹھی تھی۔ لال لال کپڑے پہنے۔ ادا سے سر پر پلو لٹکائے۔ لال فرغل کے جھول دار گھیر دار دامنوں کے خیمے میں مسکراتی، ہنستی۔
وہ جھجکے، سہمے اور پھر آگے بڑھے۔ قریب آ کر بولے۔ ’’کون ہو تم؟‘‘
’’لڑکی۔‘‘ وہ ہنس کر بولی۔
’’لڑکی؟‘‘ اچھا تو کیا یہ لڑکیاں اتنی خوبصورت ہوا کرتی ہیں؟‘‘ لڑکی تو ہو مگر۔ تمہارا نام تو ہوگا؟‘‘
’’ثریا!‘‘ پھر وہ ذرا تنبیہ کے انداز میں بولی۔ ’’ہاں جی کنوئیں میں جھانک کیوں رہے تھے؟ اتا گہرا ہے کبھی گر پڑتے تو؟‘‘
مسعود میاں نے غور سے اس کی طرف دیکھا۔‘‘
’’ہونہہ۔‘‘
بات ٹال کر بولے۔ ’’اور تم یہاں کیا کر رہی ہو؟‘‘
’’گڑیا کھیل رہی ہوں۔ وہ اپنے آس پاس کے بکھرے سامان کو دیکھتی بولی۔ دکھت نہیں۔ پھر کچھ فخر سے گنگنائی۔ ’’اور دیکھو یہ چڑیا کے انڈے بھی ہیں۔‘‘
مسعود میاں نے آگے بڑھ کر دیکھا اور حقار سے بولے۔
’’باس۔ یہ ایسے سڑے مارے انڈے لے کر یوں خوش ہو۔ ہمارے پاس تو ایسے ایسے انڈے ہیں کہ بس۔‘‘
کہاں سے لائے تم؟‘‘
’’میں نے خود گھونسلوں سے اتارے۔‘‘
’’تم نے؟ ارے تم نے؟‘‘ وہ ان کے ہلکے پھلکے جسم کو دیکھ کر ہنسنے لگی، لال پلو میں منہ چھپا کر زور زور سے ہنس کر بولی۔
’’ارے بھائی تم کیسے اتار سکتے ہو انڈے۔ بھلا تمہیں درخت پر چڑھنا آتا ہے؟‘‘
یہ تو بڑی ذلت تھی کہ وہ خوبصورت بلا یوں حقارت سے ان پر ہنسے۔ انہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور پائینچے چڑھائے صحن میں کھڑے جھاڑ پر لپک پڑے۔ ادھر ادھر ہاتھ مار کر انھوں نے چار چھ رنگین انڈے برآمد کر لئے اور جیب میں بھر کر نیچے اتر آئے۔
نیچے آئے تو وہ آنکھوں پر ہاتھ ڈھانکے بیٹھی تھر تھر کانپ رہی تھی۔ انھوں نے ٹھوکا دیا۔
’’یہ لوانڈے اور یہ آنکھیں بند کر کے کیوں بیٹھی ہو بھئی؟‘‘
’’بائیں۔‘‘ اس نے چٹ سے آنکھیں کھول دیں۔ اور شرما کر، ذرا لجا کر بولی۔ ’’مجھ سے دیکھا نہ گیا۔ اللہ نہ کرے تم گر جاتے تو؟‘‘ ۔ پھر اس نے انڈوں پر نظر ڈالی اور کھل کر بولی۔ ہائے سچ۔ ارے کتنے پیارے ہیں۔ کس قدر اچھے ہیں۔‘‘ پھر نگاہیں عین مسعود میاں کی نگاہوں میں ڈال کر بولی۔ ’’تم۔ تم کس قدر اچھے ہو۔ انو، اخلاق، اجو اور وہ (ناک سکوڑ کر) سڑیل گورے۔ سارے کے سارے حد درجہ بگڑیل۔ دیں تو کبھی نہ، الٹے لڑائی کرتے پھریں۔ تم اس قدر اچھے ہو۔‘‘
’’تم بھی تو بڑی اچھی ہو۔‘‘ وہ بڑی معصومیت سے بولے۔
اس کی چمکیلی آنکھوں میں دھیمی دھیمی آگ سلگ اٹھی۔ برسات کے دنوں میں مسعود میاں سردی سے بچنے کے لئے چولھے کے پاس جاکر بیٹھ جاتے۔ یخ جسم کو وہ ہلکی ہلکی تپش کیسی بھلی لگتی تھی۔ وہ زندگی بخش حرارت۔ انہوں نے غور سے ان کی آنکھوں میں جھانکا۔
وہ آگ اتنی روشن، اتنی واضح تھی۔ ان کا انگ انگ جل رہا تھا۔ بھڑک رہاتھا۔ انھوں نے گھبرا کر آنکھیں بند کر لیں۔
ادھر آنگن میں پھولوں کے گچھے کھلے پڑے تھے۔ پتی پتی میں ثریا بی بی کے ہیولے ابھر آئے ابھی وہ گلاب کی پتی میں چھپی ڈھکی مسکرا رہی تھیں۔ ابھی انہوں نے اپنے موم ایسے پیر کنول کے سفید چوڑے چوڑے پتوں پر دھرے تھے۔ ابھی وہ موتیا کی کومل اور نازک پتیوں میں کھل کھلا کر ہنس رہی تھیں، ابھی ابھی وہ سورج مکھی بن کر سارے آنگن میں سنہرے سنہرے اجالے پھیلا رہی تھیں۔ سنہرے اجالالے۔ سنہری آگ۔
انھوں نے آگ کی تپش سے گھبرا کر آنکھیں کھول دیں۔ اک دم انہیں خیال آیا کہ وہ مرنے کے لئے آئے تھے۔ انھوں نے لا پروائی سے پوچھا۔
’’اگر میں جھاڑ سے گر جاتا۔ مر جاتا تو؟‘‘
کس قدر بےباک معصومیت سے وہ بول اٹھی۔
’’تو میں بھی مرجاتی۔‘‘
کئی دنوں سے جو ندیاں اتنی سوکھی تھیں ان میں کہاں سے گھٹا ٹوٹ کر برس پڑی۔‘‘
’’تم بھی مرجاتیں؟‘‘ وہ حیرت سے بولے۔ ان کی چمکیلی آنکھوں میں بادل برس برس گئے ثریا بی بی ہنسنے لگیں۔ ’’ہاں سچ۔ اور جانتے ہو کیوں؟‘‘ وہ آنکھوں میں آنکھیں لہرا کر بولی۔ ’’تم میرے ہی لئے چڑھے تھے نا؟‘‘ سینے پر انگلی ٹکا کر ادا سے بولی۔ ’’میرے لئے۔ ہاں۔‘‘
ان کے دل کے ہزار ٹکڑے ہو گئے اور ایک ایک ٹکڑا دھیرے دھیرے آنسو بن کر بکھرنے گرنے، اور ٹوٹنے لگا۔
’’مگر میں تو کنوئیں میں کود رہا ہوں۔‘‘ وہ بھر پور سنجیدگی سے بولے۔
’’اکدم وہ کھیل چھوڑ چھاڑ کر اٹھ کھڑی ہوئی۔‘‘ اس کے چہرے کا رنگ فق ہو رہا تھا۔ جلتی جلتی آنکھیں اس قدر قریب آ گئی تھیں۔
’’تمہیں میری قسم۔ بھلا وہ کیوں؟‘‘
تمہیں میری قسم۔ تمہیں میری قسم۔ تمہیں میری قسم۔
پیار کا۔ چاہے جانے کا یہ انداز کیسا دل توڑ دینے والا تھا، مگر اب کیا ہو سکتا تھا موت اس قدر قریب تھی۔ اس قدر قریب کہ اس کی آہٹ تک محسوس ہو رہی تھی۔
’’سنو۔‘‘ وہ آگ میں کود پڑے۔ آنکھوں میں جھک کر جھانک کر بولے۔ ’’میں سچ مچ مرجانا چاہتا ہوں۔ کیوں کہ مجھے کوئی پیار نہیں کرتا۔ یہ میرا آخری فیصلہ ہے۔ بہت سوچا۔ بہت سوچا۔ بس یہی سمجھ میں آیا۔‘‘
’’ہاں۔‘‘ تمہیں کیسے خبر کہ تمہیں کوئی پیار نہیں کرتا؟‘‘ گیارہ برس کے ننھے آدمی انہیں خبر بھی کیا ہوتی؟‘‘
’’وہ ہاتھ چھڑا کر چلنے کو ہوئے۔ وہ لپک کر بیچ میں آ گئی۔‘‘ مگر سن رکھو۔ تم کودے تو میں بھی کود جاؤں گی۔ کیا تم چاہتے ہو میں مر جاؤں؟ وہ اس قدر قریب آ گئی تھی۔ وہ مجسم بہار۔ مجسم آگ۔ جو انہیں جلا رہی تھی۔ جلا رہی تھی۔
’’تم کودے تو میں بھی کود جاؤں گی۔‘‘
’’میں بھی کود جاؤں گی۔‘‘
’’میں بھی۔۔۔‘‘
کیا یہ سب کچھ میرے لئے ہے۔ میرے لئے؟ آج تک کوئی ان کی راہ میں نہیں آیا تھا۔ اس عزم کے ساتھ کہ تمہاری زندگی سے میری بھی زندی ہے۔ وہ بے کل ہو کر لپک پڑے۔
’’میں نہیں مروں گا۔ میں جیوں گا تمہارے لئے۔ تمہارے۔ صرف تمہارے لئے۔ میں نہیں مروں گا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.