توبہ شکن
کہانی کی کہانی
یہ ایک پڑھی لکھی لڑکی کی کہانی ہے۔ لڑکی کی زندگی میں ایک ساتھ دو مرد آتے ہیں، ایک یونیورسٹی کا پروفیسر اور دوسرا ہوٹل کا منیجر۔ وہ ہوٹل کے منیجر کا رشتہ ٹھکرا کر پروفیسر سے شادی کر لیتی ہے اور یہی اس کی زندگی کا غلط فیصلہ ثابت ہوتا ہے۔
بی بی رو رو کر ہلکان ہو رہی تھی۔ آنسو بے روک ٹوک گالوں پر نکل کھڑے ہوئے تھے، ‘’مجھے کوئی خوشی راس نہیں آتی۔ میرا نصیب ہی ایسا ہے۔ جو خوشی ملتی ہے، ایسی ملتی ہے کہ گویا کوکا کولا کی بوتل میں ریت ملا دی ہو کسی نے۔’’
بی بی کی آنکھیں سرخ ساٹن کی طرح چمک رہی تھیں اور سانسوں میں دمے کے اکھڑے پن کی سی کیفیت تھی۔ پاس ہی پپو بیٹھا کھانس رہا تھا۔ کالی کھانسی نا مراد کا حملہ جب بھی ہوتا، بیچارے کا منہ کھانس کھانس کر بینگن سا ہو جاتا۔ منہ سے رال بہنے لگتا اور ہاتھ پاؤں اینٹھ سے جاتے۔ امی سامنے چپ چاپ کھڑکی میں بیٹھی ان دنوں کو یاد کر رہی تھیں جب وہ ایک ڈی سی کی بیوی تھیں اور ضلع کے تمام افسروں کی بیویاں ان کی خوشامد کرتی تھیں۔ وہ بڑی بڑی تقریبوں میں مہمان خصوصی ہوا کرتیں اور لوگ ان سے درخت لگواتے، ربن کٹواتے، انعامات تقسیم کرواتے۔
پروفیسر صاحب ہر تیسرے منٹ مدھم سی آواز میں پوچھتے، ‘’لیکن آخر بات کیا ہے بی بی، ہوا کیا ہے؟’’ وہ پروفیسر صاحب کو کیا بتاتی کہ دوسروں کے اصول اپنانے سے اپنے اصول بدل نہیں جاتے، صرف ان پر غلاف بدل جاتا ہے۔ ستار کا غلاف، مشین کا غلاف، تکیے کا غلاف۔ درخت کو ہمیشہ جڑوں کی ضرورت ہوتی ہے! اگر اسے کرسمس ٹری کی طرح یونہی داب داب کر مٹی میں کھڑا کر دیں گے تو کتنے دن کھڑا رہے گا۔ بالآخر تو گرےگا ہی۔
وہ اپنے پروفیسر میاں کو کیا بتاتی کہ اس گھر سے رسہ تڑوا کر جب وہ بانو بازار پہنچی تھی اور جس وقت وہ ربڑ کی ہوائی چپلوں کا بھاؤ چار آنے کم کروا رہی تھی، تو کیا ہوا تھا؟
اس کے بواٹی پھٹے پاؤں ٹوٹی چپلوں میں تھے۔ ہاتھوں کے ناخنوں میں برتن مانجھ مانجھ کر کیچ جمی ہوئی تھی۔ سانس میں پیاز کے باسی لچھوں کی بو تھی۔ قمیض کے بٹن ٹوٹے ہوئے اور دوپٹے کی لیس ادھڑی ہوئی تھی۔ اس ماندے حال میں جب وہ بانو بازار کے ناکے پر کھڑ ی تھی تو کیا ہوا تھا؟ یوں تو دن چڑھتے ہی روز کچھ نہ کچھ ہوتا ہی رہتا تھا پر آج کا دن بھی خوب رہا۔ ادھر پچھلی بات بھولتی تھی ادھرنیا تھپڑ لگتا تھا۔ ادھر تھپڑ کی ٹیس کم ہوتی تھی ادھر کوئی چٹکی کاٹ لیتا تھا۔ جو کچھ بانو بازار میں ہوا وہ تو فقط فل سٹاپ کے طور پر تھا۔
صبح سویرے ہی سنتو جمعدارنی نے برآمدے میں گھستے ہی کام کرنے سے انکار کر دیا۔ رانڈ سے اتنا ہی تو کہا تھا کہ نالیاں صاف نہیں ہوتیں، ذرا دھیان سے کام کیا کر۔ بس جھاڑ و وہیں پٹخ کر بولی، ‘’میرا حساب کر دیں جی۔’’ کتنی خدمتیں کی تھیں بد بخت کی۔ صبح سویرے تام چینی کے مگ میں ایک رس کے ساتھ چائے۔ رات کے جھوٹے چاول اور باسی سالن روز کا بندھا ہوا تھا۔ چھ مہینے کی نوکری میں تین نائلون جالی کے دوپٹے۔ امی کے پرانے سلیپر اور پروفیسر صاحب کی قمیض لے گئی تھی۔ کسی کو جرات نہ تھی کہ اسے جمعدارنی کہہ کر بلا لیتا۔ سب کا سنتو سنتو کہتے منہ سوکھتا تھا۔ پر وہ تو طوطے کی سگی پھوپھی تھی۔ ایسی سفید چشم واقع ہوئی کہ فوراً حساب کر۔ جھاڑو بغل میں داب، سر پر سلفچی دھریہ جا وہ جا۔
بی بی کا خیال تھا کہ تھوڑی دیر میں آ کر پاؤں پکڑےگی۔ معافی مانگےگی اور ساری عمر کی غلامی کا عہد کرےگی۔ بھلا ایسا گھر اسے کہاں ملےگا۔ پر وہ تو ایسی دفان ہوئی کہ دوپہر کا کھانا پک کر تیار ہو گیا پر سنتو مہارانی نہ لوٹی۔ سارے گھر کی صفائیوں کے علاوہ غسل خانے بھی دھونے پڑے اور کمروں میں ٹاکی بھی پھیرنی پڑی۔ ابھی کمر سیدھی کرنے کو لیٹی ہی تھی کہ ایک مہمان بی بی آ گئیں۔ منے کی آنکھ مشکل سے لگی تھی۔ مہمان بی بی حسن اتفاق سے ذرا اونچا بولتی تھیں۔ منا اٹھ بیٹھا اور اٹھتے ہی کھانسنے لگا۔ کالی کھانسی کا بھی ہر علاج کر دیکھا تھا پر نہ تو ہومیوپیتھی سے آرام آیا نہ ڈاکٹری علاج سے۔ حکیموں کے کشتے اور معجون بھی رائیگاں گئے۔ بس ایک علاج رہ گیا تھا اور یہ علاج سنتو جمعدارنی بتایا کرتی تھی۔ بی بی! کسی کالے گھوڑے والے سے پوچھو کہ منے کو کیا کھلائیں۔ جو کہے سو کھلا۔ دنوں میں آرام آ جائےگا۔
لیکن بات تو مہمان بی بی کی ہو رہی تھی۔ ان کے آنے سے سارے گھر والے اپنے اپنے کمروں سے نکل آئے اور گرمیوں کی دوپہر میں خورشید کو ایک بوتل لینے کے لئے بھگا دیا۔ ساتھ ہی اتنا سارا سودا اور بھی یاد آ گیا کہ پورے پانچ روپے دینے پڑے۔ خورشید پورے تین سال سے اس گھر میں ملازم تھی۔ جب آئی تھی تو بغیر دوپٹے کے کھوکھے تک چلی جاتی تھی اور اب وہ بالوں میں پلاسٹک کے کلپ لگانے لگی تھی۔ چوری چوری پیروں کو کیوٹیکس اور منے کو پاؤڈر لگانے کے بعد اپنے چہرے پر بے بی پاؤڈر استعمال کرنے لگی تھی۔ جب خورشید موٹی ململ کا دوپٹہ اوڑھ کر ہاتھ میں خالی سکوائش کی بوتل لے کر سراج کے کھوکھے پر پہنچی تو سڑکیں بےآباد سی ہو رہی تھیں، پانچ روپئے کا نوٹ جو اس کے ہاتھ میں بتی سی بن گیا تھا، نقدی والے ٹین کی ٹرے میں دھرتی ہوئی خورشید بولی، ‘’ایک بوتل مٹی کا تیل لا دو۔ دو سات سو سات کے صابن۔ تین پان سادہ۔ چار میٹھے۔ ایک نلکی سفید دھاگے کی۔ دو لولی پاپ اور ایک بوتل ٹھنڈی ٹھار سیون اپ کی۔’’
روڑی کوٹنے والا انجن بھی جا چکا تھا اور کولتار کے دو تین خالی ڈرم تازہ کوٹی ہوئی سڑک پر اوندھے پڑے تھے۔ سڑک پر سے حدت کی وجہ سے بھاپ سی اٹھتی نظر آتی تھی۔ دائی کی لڑکی خورشید کو دیکھ کر سراج کو اپنا گاؤں دھلا یاد آ گیا۔ دھلے میں اسی وضع قطع، اسی چال کی سیندوری سے رنگ کی نو بالغ لڑکی حکیم صاحب کی ہوا کرتی تھی۔ ٹانسے کا برقعہ پہنتی تھی۔ انگریزی صابن سے منہ دھوتی تھی اور شاید خمیرۂ گاؤ زبان اور کشتہ مروارید بمعہ شربت صندل کے اتنی مقدار میں پی چکی تھی کہ جہاں سے گزر جاتی سیب کے مربے کی خوشبو آنے لگتی۔ گاؤں میں کسی کے گھر کوئی بیمار پڑ جاتا تو سراج اس خیال سے اس کی بیمار پرسی کرنے ضرور جاتا کہ شاید وہ اسے حکیم صاحب کے پاس دوا لینے کے لئے بھیج دے۔ جب کبھی ماں کے پیٹ میں درد اٹھتا تو سراج کو بہت خوشی ہوتی۔ حکیم صاحب ہمیشہ اس نفخ کی مریضہ کے لئے دو پڑیاں دیا کرتے تھے۔ ایک خالی پڑیا گلاب کے عرق کے ساتھ پینا ہوتی تھی اور دوسری سفید پڑیا سونف کے عرق کے ساتھ۔ حکیم صاحب کی بیٹی عموماً اسے اپنے خط پوسٹ کرنے کو دیا کرتی۔ وہ ان خطوں کو لال ڈبے میں ڈالنے سے پہلے کتنی دیر سونگھتا رہتا تھا۔ ان لفافوں سے بھی سیب کے مربے کی خوشبو آیا کرتی تھی۔
اس وقت دائی کرمو کی بیٹی گرم دوپہر میں اس کے سامنے کھڑی تھی اورسارے میں سیب کا مربہ پھیلا ہوا تھا۔ پانچ روپے کا نوٹ نقدی والے ٹرے میں سے اٹھاکر سراج نے چپچی نظروں سے خورشید کی طرف دیکھا اور کھنکھار کر بولا، ‘’ایک ہی سانس میں اتنا کچھ کہہ گئی۔ آہستہ آہستہ کہو نا۔ کیا کیا خریدنا ہے؟’’
‘’ایک بوتل مٹی کا تیل، دو سات سو سات صابن، تین پان سادہ، چار میٹھے۔ ایک نلکی بٹر فلائی والی سفید رنگ کی۔ ایک بوتل سیون اپ کی۔ جلدی کر، گھر میں مہمان آئے ہوئے ہیں۔’’
سب سے پہلے تو سراج نے کھٹاک سے سبز بوتل کا ڈھکنا کھولا اور بوتل کو خورشید کی جانب بڑھا کر بولا، ‘’یہ تو ہو گئی بول اور۔’’
‘’بوتل کیوں کھولی تو نے، اب بی بی جی ناراض ہوں گی۔’’
‘’میں سمجھا کہ کھول کر دینی ہے۔’’
‘’میں نے کوئی کہا تھا تجھے کھولنے کے لئے؟’’
‘’اچھا اچھا بابا۔ میری غلطی تھی۔ یہ بوتل تو پی لے۔ میں ڈھکنے والی اور دے دیتا ہوں تجھے۔’’
جس وقت خورشید بوتل پی رہی تھی، اس وقت بی بی کا چھوٹا بھائی اظہر ادھر سے گزرا۔ اسے سٹرا سے بوتل پیتے دیکھ کر وہ مین بازار جانے کے بجائے الٹا چودھری کالونی کی طرف لوٹ گیا اور این ٹائپ کے کوارٹر میں پہنچ کر برآمدے ہی سے بولا، ‘’بی بی! آپ یہاں بوتل کا انتظار کر رہی ہیں اور وہ لاڈلی وہاں کھوکھے پر خود بوتل پی رہی ہے سٹرا لگاکر۔’’
بھائی تو اخبار والے کے فرائض سر انجام دے کر سائیکل پر چلا گیا لیکن جب دو روپے تیرہ آنے کی ریزگاری مٹھی میں دبائے، دوسرے ہاتھ میں مٹی کے تیل کی بوتل اور بکل میں سات سو سات صابن کے ساتھ سیون اپ کی بوتل لئے خورشید آئی تو سنتو جمعدارنی کے حصے کا غصہ بھی خورشید پر ہی اترا، ‘’اتنی دیر لگ جاتی ہے تجھے کھوکھے پر۔’’
‘’بڑی بھیڑ تھی جی۔’’
‘’سراج کے کھوکھے پر۔۔۔اس وقت؟’’
‘’بہت لوگوں کے مہمان آئے ہوئے ہیں جی۔ سمن آباد میں ویسے ہی مہمان بہت آتے ہیں سب نوکر بوتلیں لے جا رہے تھے۔’’
‘’جھوٹ نہ بول کمبخت! میں سب جانتی ہوں۔’’
خورشید کا رنگ فق ہو گیا۔
‘’کیا جانتی ہیں جی آپ؟’’
‘’ابھی کھوکھے پر کھڑی تو بوتل نہیں پی رہی تھی۔’’
خورشید کی جان میں جان آئی۔ پھر وہ بپھر کر بولی، ‘’وہ میرے پیسوں کی تھی جی۔ آپ حساب کر دیں جی میرا۔ مجھ سے ایسی نوکری نہیں ہوتی۔’’
بی بی تو حیران رہ گئی۔ سنتو کا جانا گویا خورشید کے جانے کی تمہید تھی۔ لمحوں میں بات یوں بڑھی کہ مہمان بی بی سمیت سب برآمدے میں جمع ہو گئے اور کترن بھر لڑکی نے وہ زبان دراز کی کہ جن مہمان بی بی پر بوتل پلا کر رعب گانٹھنا تھا وہ الٹا اس گھر کو دیکھ کر قائل ہو گئیں کہ بد نظمی، بے ترتیبی اور بد تمیزی میں یہ گھر حرف آخر ہے۔ آناً فاناً مکان نوکرانی کے بغیر سونا سونا ہو گیا۔ ادھر جمعدارنی اور خورشید کا رنج تو تھا ہی، اوپر سے پپو کی کھانسی دم نہ لینے دیتی تھی۔ جب تک خورشید کا دم تھا کم از کم اسے اٹھانے پچکارنے والا تو کوئی موجود تھا۔ اب کفگیر توا چھوڑ چھاڑ کے بچے کو اٹھانا پڑتا۔ اسے بھی کالی کھانسی کا دورہ پڑتا تو رنگت بینگن کی سی ہو جاتی۔ آنکھیں سرخا سرخ نکل آتیں اور سانس یوں چلتا جیسے کٹی ہوئی پانی کی ٹیوب سے پانی رس رس کے نکلتا ہے۔
سارا دن وہ یہی سوچتی رہی کہ آخر اس نے کون سا گناہ کیا ہے جس کی پاداش میں اس کی زندگی اتنی کٹھن ہے۔ اس کے ساتھ کالج میں پڑھنے والیاں تو ایسی تھیں گویا ریشم پر چلنے سے پاؤں میں چھالے پڑ جائیں اور یہاں وہ کپڑے دھونے والے تھاپے کی طرح کرخت ہو چکی تھی۔ رات کو پلنگ پر لیٹتی تو جسم سے انگارے جھڑنے لگتے۔ بدبخت خورشید کے دل میں ترس آ جاتا تو دوچار منٹ دکھتی کمر میں مکیاں مار دیتی ورنہ اوئی آئی کرتے نیند آ جاتی اور صبح پھر وہی سفید پوش غریبوں کی سی زندگی اور تندور میں لگی ہوئی روٹیوں کی سی سینک!
اس روز دن میں کئی مرتبہ بی بی نے دل میں کہا، ‘’ہم سے اچھا گھرانہ نہیں ملےگا تو دیکھیں گے۔ ابھی کل برآمدے میں آئی بیٹھی ہوں گی۔ دونوں کالے منہ والیاں۔ پر اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ اس سے اچھا گھر ملے نہ ملے وہ دونوں اب لوٹ کر نہ آئیں گی۔ سارے گھر میں نظر دوڑاتی تو چھت کے جالوں سے لے کر رکی ہوئی نالی تک اور ٹوٹی ہوئی سیڑھیوں سے لے کر اندر ٹپ ٹپ برسنے والے نلکے تک عجیب کسمپرسی کا عالم تھا، ہر جگہ ایک آنچ کی کسر تھی۔ تین کمروں کا مکان جس کے دروازوں کے آگے ڈھیلی ڈوروں میں دھاری دار پردے پڑے تھے، عجیب سی زندگی کا سراغ دیتا تھا۔ نہ تو یہ دولت تھی اور نہ ہی یہ غریبی تھی۔ ردی کے اخبار کی طرح اس کا تشخص ختم ہو چکا تھا۔ جب تک ابا جی زندہ تھے اور بات تھی۔ کبھی کبھار مائیکہ جاکر کھلی ہوا کا احساس پیدا ہو جاتا۔ اب تو ابا جی کی وفات کے بعد امی، اظہر اور منی بھی اس کے پاس آ گئے تھے۔ امی زیادہ وقت پچھلی پوزیشن یاد کر کے رونے میں بسر کرتیں۔ جب رونے سے فراغت ہوتی تو وہ اڑوس پڑوس میں یہ بتانے کے لئے نکل جاتیں کہ وہ ایک ڈپٹی کمشنر کی بیگم تھیں اور حالات نے انہیں یہاں سمن آباد میں رہنے پر مجبور کر دیا ہے۔ منی کو مٹی کھانے کا عارضہ تھا۔ دیواریں کھرچ کھرچ کر کھوکھلی کر دی تھیں۔ نا مراد سیمنٹ کا پکا فرش اپنی نرم نرم انگلیوں سے کرید کر دھر دیتی۔ بہت مرچیں کھلائیں۔ کونین ملی مٹی سے ضیافت کی۔ ہونٹوں پر دہکتا ہوا کوئلہ رکھنے کی دھمکی دی پر وہ شیر کی بچی مٹی کو دیکھ کر بری طرح ریشہ خطمی ہوتی۔‘‘
اظہر جس کالج میں داخلہ لینا چاہتا تھا، جب اس کالج کے پرنسپل نے تھرڈ ڈویژن کے باعث انکار کر دیا تو دن رات ماں بیٹا مرحوم ڈی سی صاحب کو یاد کر کے روتے رہے۔ ان کے ایک فون سے وہ بات بن جاتی جو پروفیسر فخر کے کئی پھیروں سے نہ بنی۔ امی تو دبی زبان میں کئی بار یہاں تک کہہ چکی تھیں کہ ایسا داماد کس کام کا جس کی سفارش ہی شہر میں نہ چلے۔ نتیجے کے طور پر اظہر نے پڑھائی کا سلسلہ منقطع کر لیا۔ پروفیسر صاحب نے بہت سمجھایا پر اس کے پاس تو باپ کی نشانی ایک موٹر سائیکل تھا۔ چند ایک دوست تھے جو سول لائنز میں رہتے تھے وہ بھلا کیا کالج والج جاتا۔
اس سارے ماحول میں پروفیسر فخر کیچڑ کا کنول تھے۔ لمبے قد کے دبلے پتلے پروفیسر، سیاہ آنکھیں جن میں تجسس اور شفقت کا ملا جلا رنگ تھا۔ انہیں دیکھ کر خدا جانے کیوں ریگستان کے گلہ بان یاد آ جاتے۔ وہ ان لوگوں کی طرح تھے جن کے آدرش وقت کے ساتھ دھندلے نہیں پڑ جاتے جو اس لئے محکمہ تعلیم میں نہیں جاتے کہ ان سے سی ایس پی کا امتحان پاس نہیں ہو سکتا۔ وہ دولت کمانے کے کوئی بہتر گر نہیں جانتے۔ انہوں نے تو تعلیم و تدریس کا پیشہ اس لئے چنا تھا کہ انہیں نوجوانوں کی پر تجسس آنکھیں پسند تھیں۔ انہیں فسٹ ائیر کے وہ لڑکے بہت اچھے لگتے تھے جو گاؤں سے آتے تھے اور آہستہ آہستہ شہر کے رنگ میں رنگے جاتے تھے۔ ان کے چہروں سے جو ذہانت ٹپکتی تھی، دھرتی کے قریب رہنے کی وجہ سے ان میں جو دو اور دو چار قسم کی عقل تھی، پروفیسر فخر انہیں صیقل کرنے میں بڑا لطف حاصل کرتے تھے۔
وہ تعلیم کومیلاد النبیﷺ کا فنکشن سمجھتے۔ جب گھر گھر دیے جلتے ہیں اور روشنی سے خوشی کی خوشبو آنے لگتی ہے۔ ان کے ساتھی پروفیسر جب سٹاف روم میں بیٹھ کر خالص Have-Nots کے انداز میں نو دولتی سوسائٹی پر تبصرہ کرتے تو وہ خاموش رہتے کیونکہ ان کا مسلک لوئی پاسچر کا مسلک تھا۔ کولمبس کا مسلک تھا۔ ان کے دوست جب فسٹ کلاس، سیکنڈ کلاس اور سلیکشن گریڈ کی باتیں کرتے تو پروفیسر فخر منہ بند کئے اپنے ہاتھوں پر نگاہیں جما لیتے۔ وہ تو اس زمانے کی نشانیوں میں سے رہ گئے تھے جب شاگرد اپنے استاد کے برابر بیٹھ نہ سکتا تھا۔ جب استاد کے آشیر باد کے بغیر شانتی کا تصور بھی گناہ تھا۔ جب استاد خود کبھی حصول دولت کے لئے نہیں نکلتا تھا لیکن تاجدار اس کے سامنے دو زانو آ کر بیٹھا کرتے تھے۔ جب وہ شاہ جہانگیر کے دربار میں میاں میر صاحب کی طرح کہتا کہ، ‘’اے شاہ! آج تو بلا لیا ہے پر اب شرط عنایت یہی ہے کہ پھر کبھی نہ بلانا۔’’ جب استاد کہتا، ‘’اے حاکم وقت! سورج کی روشنی چھوڑ کر کھڑا ہو جا۔’’
جب بی بی نے پہلی بار پروفیسر فخر کو دیکھا تھا تو فخر کی نظروں کا مجذوبانہ حسن، شہد کی مکھیوں جیسا جذبۂ خدمت اور صوفیائے کرام جیسا اندازِ گفتگو اسے لے ڈوبا۔ بی بی ان لڑکیوں میں سے تھی جو درخت سے مشابہ ہوتی ہیں۔ درخت چاہے کیسا ہی آسمان چھونے لگے، بالآخر مٹی کے خزانوں کو نچوڑتا ہی رہتا ہے۔ وہ چاہے کتنا ہی چھتنار کیوں نہ ہو، بالآخر اس کی جڑوں میں نیچے اترتے رہنے کی ہوس باقی رہتی ہے اور پھر پروفیسر کا آدرش کوئی مانگے کا کپڑا تو تھا نہیں کہ مستعار لیا جاتا لیکن بی بی تو ہوا میں جھولنے والی ڈالیوں کی طرح یہی سوچتی رہی کہ اس کا دھرتی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ وہ ہوا میں زندہ رہ سکتی ہے۔ محبت ان کے لئے کافی ہے۔
تب اباجی زندہ تھے اور ان کے پاس شیشوں والی کار تھی۔ جس روز وہ بی اے کی ڈگری لے کر یونیورسٹی سے نکلی تو اس کے ابا جی ساتھ تھے۔ ان کی کار رش کی وجہ سے عجائب گھر کی طرف کھڑی تھی۔ مال کو کراس کر کے جب وہ دوسری جانب پہنچے تو فٹ پاتھ پر اس نے پروفیسر کو دیکھا۔ وہ جھکے ہوئے اپنی سائیکل کا پیڈل ٹھیک کر رہے تھے۔
‘’سر سلام علیکم!’’ فخر نے سر اٹھایا اور ذہین آنکھوں میں مسکراہٹ آ گئی۔
‘’وعلیکم السلام۔ مبارک ہو آپ کو۔’’
سیاہ گاؤن میں وہ اپنے آپ کو بہت معزز محسوس کر رہی تھی۔
‘’سر میں لے چلوں آپ کو؟’’
بڑی سادگی سے فخر نے سوال کیا، ‘’آپ سائیکل چلانا جانتی ہیں؟’’
‘’سائیکل پر نہیں، جی میرا مطلب ہے کار کھڑی ہے۔ جی میری۔’’
فخر سیدھا کھڑا ہو گیا اور بی بی اس کے کندھے کے برابر نظر آنے لگی، ‘’دیکھیے مس! استادوں کے لئے کاروں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ان کے شاگرد کاروں میں بیٹھ کر دنیا کا نظام چلاتے ہیں۔ استادوں کو دیکھ کر کار روکتے ہیں لیکن استاد شاگردوں کی کار میں کبھی نہیں بیٹھتا کیونکہ شاگرد سے اس کا رشتہ دنیاوی نہیں ہوتا۔ استاد کا آسائش سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ وہ مرگ چھالا پر سوتا ہے۔ بڑ کے درخت تلے بیٹھتا اور جو کی روٹی کھاتا ہے۔’’
بی بی کو تو جیسے ہونٹوں پر بھڑ ڈس گئی۔ ابھی چند ثانیے پہلے وہ ہاتھوں میں ڈگری لے کر فل سائز فوٹو کھنچوانے کا پروگرام بنا رہی تھی اور اب یہ گاؤن، یہ اونچا جوڑا، یہ ڈگری، سب کچھ نفرت انگیز بن گیا۔ جب مال روڈ پر ایک فوٹو گرافر کی دکان کے آگے کار روک کر ابا جی نے کہا، ‘’ایک تو فل سائز تصویر کھنچوا لو اور ایک پورٹریٹ۔’’
‘’ابھی نہیں ابا جی! میں پرسوں اپنی دوستوں کے ساتھ مل کر تصویر کھنچواؤں گی۔’’
‘’صبح کی بات پر ناراض ہو ابھی تک؟’’ اباجی نے سوال کیا۔
‘’نہیں جی وہ بات نہیں ہے۔’’
صبح جب وہ یونیورسٹی جانے کے لئے تیار ہو رہی تھی تو ابا جی نے دبی زبان میں کہا تھا کہ وہ کنووکیشن کے بعد اسے فوٹو گرافر کے پاس نہ لے جا سکیں گے کیونکہ انہیں کمشنر سے ملنا تھا۔ اس بات پر بی بی نے منہ تتھا لیا تھااور جب تک ابا جی نے وعدہ نہیں کر لیا تب تک وہ کار میں سوار نہ ہوئی تھی۔ اب کار فوٹو گرافر کی دکان کے آگے کھڑی تھی۔ اباجی اس کی طرف کا دروازہ کھولے کھڑے تھے لیکن تصویر کھنچوانے کی تمنا آپی آپ مر گئی۔
بی اے کرنے کے بعد کالج کا ماحول دور رہ گیا۔ یہ ملاقات بھی گرد آلود ہو گئی اور غالباً طاق نسیاں پر بھی دھری رہ جاتی اگر اچانک کتابوں کی دکان پر ایک دن اسے پروفیسر فخر نظر نہ آ جاتے۔ وہ حسب معمول سفید قمیض خاکی پتلون میں ملبوس تھے۔ رومن نوز پر عینک ٹکی ہوئی تھی اور وہ کسی کتاب کا غور سے مطالعہ کر رہے تھے۔ بی بی اپنی دو تین سہیلیوں کے ساتھ دکان میں داخل ہوئی۔ اسے ویمن اینڈ ہوم قسم کے رسالے درکار تھے۔ عید کارڈ اور سٹچ کرافٹ کے پمفلٹ خریدنے تھے۔ لو کیلری ڈائٹ قسم کی ایسی کتابوں کی تلاش تھی جو سالوں میں بڑھایا ہوا وزن ہفتوں میں گھٹا دینے کے مشورے جانتی ہیں لیکن اندر گھستے ہی گویا آئینے کا لشکارا پڑا۔
‘’سلام علیکم سر!’’
‘’وعلیکم السلام۔’’ مٹھ کے بھکشو نے جواب دیا۔
‘’آپ نے مجھے شاید پہچانا نہیں سرمیں آپ کی سٹوڈنٹ ہوں جی۔۔۔قمر زبیری!’’ اس نے دوستوں کی طرف خفت سے دیکھ کر کہا۔
‘’میں نے تمہیں پہچان لیا ہے قمر بی بی، کیا کر رہی ہیں آپ ان دنوں؟’’
‘’میں جی کچھ نہیں جی سر!’’
ایک سہیلی نے آگے چلنے کا اشارہ کیا۔ دوسری نے کمر میں چٹکی کاٹی لیکن وہ تو اس طرح کھڑی تھی گویا کسی فلم سٹار کے آگے آٹو گراف لینے کھڑی ہو۔
‘’آپ ایم اے نہیں کر رہی ہیں پولیٹیکل سائنس میں؟’’
‘’اس کی تو شادی ہو رہی ہے سر۔’’
کھی کھی کر کے ساری کبوتر زادیاں ہنس دیں۔ بی بی نے قاتلانہ نظروں سے سب کو دیکھا اور بولی، ‘’جھوٹ بولتی ہیں جی۔ میں تو جی ایم اے کروں گی۔’’
اب پروفیسر مکمل پروفیسر بن گیا، جو ان چہرے پربڑھاپے کی متانت آ گئی، ‘’دیکھئے۔ پڑھی لکھی لڑکیوں کا وہ رول نہیں ہے جو آج کل کی لڑکیاں ادا کر رہی ہیں۔ آپ کو شادی کے بعد یاد رکھنا چاہئے کہ تعلیم سونے کا زیور نہیں ہے جسے بنک کے لاکرز میں بند کر دیا جاتا ہے بلکہ یہ تو جادو کی وہ انگوٹھی ہے جسے جس قدر رگڑتے چلے جاؤ اسی قدر خوشیوں کے دروازے کھلتے جاتے ہیں۔ آپ کو اس تعلیم کی زکوٰۃ دینا ہوگی۔ اسے دوسروں کے ساتھ Share کرنا ہوگا۔’’
بات بہت معمولی اور سادہ تھی۔ اس نوعیت کی باتیں عموماً عورتوں کے رسالوں میں چھپتی رہتی ہیں لیکن فخر کی آنکھوں میں، اس کی باتوں میں وہ حسن تھا جو ہمیشہ سچائی سے پیدا ہوتا ہے۔ جب وہ پمفلٹ اور وزن گھٹانے کی تین کتابیں خرید کر کار میں آ بیٹھی تو اس کی نظروں میں وہی چہرہ تھا، وہی بھیگی بھیگی آواز تھی۔ پروفیسر فخر کو دیکھنے کی کوئی صورت باقی نہ تھی لیکن اس کی آواز کی لہریں اسے ہر لحظہ زیر آب کئے دیتی تھیں۔ اٹھتے بیٹھتے، جاگتے سوتے، وہی شکاری کتے جیسا ستا ہوا چہرہ، اندر کو دھنسی ہوئی چمکدار آنکھیں اور خشک ہونٹ نظروں کے آگے گھومنے لگے۔ پھر یہ چہرہ بھلائے نہ بھولتا اور وہ اندر ہی اندر بل کھائی رسی کی طرح مروڑی جاتی۔
ان ہی دنوں اس نے فیصلہ کیا کہ وہ پولیٹیکل سائنس میں ایم اے کرےگی۔ حالانکہ اس کے گھر والے ایک اچھے بر کی تلاش میں تھے۔ ہاتھی مرا ہوا بھی سوا لاکھ کا ہوتا ہے۔ ڈپٹی کمشنر ریٹائر ہوکر بھی اونچی نشست والی کرسی سے مشابہ ہوتا ہے۔ ابا جی کے مال و متاع کو گو اندر سے گھن لگ چکا تھا لیکن حیثیتِ عرفی بہت تھی۔ نوکر چا کر کم ہو گئے تھے۔ سوشل لائف بھی پہلے سی نہ رہی تھی۔ فنکشنوں کے کارڈ بھی کم ہی آتے لیکن رشتے ڈی سی صاحب کی بیٹی کے چلے آ رہے تھے اور اعلیٰ سے اعلیٰ آ رہے تھے۔ اس کی امی گو پڑھی لکھی عورت نہ تھی لیکن با اثر، با رسوخ خواتین کی صحبت نے اسے خوب صیقل کر دیا تھا۔ اس میں ایک ایسی خوش اعتمادی اور پرکاری پیدا ہو گئی تھی کہ کالجوں کی پروفیسریں اس کے ہوتے ہوئے اپنے آپ کو کمتر سمجھا کرتیں۔
جس وقت بی بی نے پولیٹیکل سائنس کرنے پر ضد کی تو امی نے زبردست مخالفت کی۔ اباجی نے قدم قدم پر اڑچن پیدا کی کہ جو لڑکی ہمیشہ پولیٹیکل سائنس میں کمزور رہی ہے وہ اس مضمون میں ایم اے کیونکر کرےگی۔ کئی گھنٹوں کی بحث کے بعد ابا جی اس بات پر رضامند ہو گئے کہ وہ پروفیسر سے ٹیوشن لے سکتی ہے۔
جس روز ریٹائرڈ ڈی سی صاحب کی کار سمن آباد گئی تو پروفیسر فخر گھر پر موجود نہ تھے۔ دوسری مرتبہ جب بی بی کی امی گئیں تو پروفیسر صاحب کسی سیمینار میں تشریف لے جا چکے تھے۔ ملاقات پھر نہ ہوئی۔ تیسری بار جب بی بی اور اباجی ٹیوشن کا طے کرنے گئے تو پروفیسر صاحب مونڈھے پر بیٹھے ہوئے مطالعہ میں مصروف تھے۔ باہر کے نلکے کے ساتھ نیلے رنگ کی پلاسٹک کی ٹیوب لگی ہوئی تھی۔ ٹیوب ویل کا پانی سامنے کے تنگ احاطے میں اکٹھا ہو رہا تھا لیکن پروفیسر صاحب اس سے غافل مٹتی شفق میں حروف ٹٹول ٹٹول کر پڑھ رہے تھے۔
پہلے ابا جی نے ہارن بجایا۔ پھر خانساماں خانساماں کہہ کر آوازیں دیں۔ نہ تو اندر سے کوئی باورچی قسم کا آدمی نکلا اور نہ ہی پروفیسر صاحب نے سر اٹھا کر دیکھا۔ بالآخر ابا جی نے خفت کے باوجود دروازہ کھولا اور بی بی کو ساتھ لے کر برآمدے کے طرف چلے۔ ٹیوب غالباً دیر سے لگی ہوئی تھی اور مٹی کیچڑ میں بدل چکی تھی۔ بڑی احتیاط سے قدم دھرتے ہوئے سیڑھیوں تک پہنچے اور پھر کھنکار کر پروفیسر صاحب کو متوجہ کیا۔
پون گھنٹہ بیٹھنے رہنے کے باوجود نہ تو اندر سے کوکا کولا آیا نہ چائے کے برتنوں کا شور سنا ئی دیا۔ اس بےاعتنائی کے باوجود دونوں باپ بیٹی سہمے سے بیٹھے تھے۔ شام گہری ہو چلی تھی اور سمن آباد یےگھروں کے آگے چھڑکاؤ کرنے میں مشغول تھے۔ قطار صورت گھروں سے ہر سائز اور ہر عمر کا بچہ نکل کر اس چھڑکاؤ کو بطور ہولی استعمال کر رہا تھا۔ عورتیں نائیلون جالی کے دوپٹے اوڑھے آ جا رہی تھیں۔ ایک ایسے طبقے کی زندگی جاری تھی جو نہ امیر تھا اور نہ ہی غریب۔ دونوں کے درمیان کہیں مرغ بسمل کی طرح لٹک رہا تھا۔ جب بات پڑھانے تک جا پہنچی تو پروفیسر فخر بولے، ‘’جی ہاں۔ میں انہیں پڑھا دوں گا۔ بخوشی۔’’
اب پہلو بدل کر ریٹائرڈ ڈی سی صاحب نے کہا، ‘’معاف کیجئے پروفیسر صاحب! لیکن بات پہلے ہی واضح ہو جانی چاہئے۔ یعنی آپ۔ میرا مطلب ہے آپ کی Renumeration کیا ہوگی؟’’ ٹیوشن کی فیس کو خوبصورت سے انگریزی لفظ میں ڈھال کر گویا ڈی سی صاحب نے اس میں سے ذلت کی پھانس نکال دی۔ لیکن پروفیسر صاحب کا رنگ متغیر ہو گیا اور وہ مونڈھے کی پشت کو دیوار سے لگاکر بولے، ‘’میں۔۔۔مجھے۔۔۔دراصل مجھے گورنمنٹ پڑھانے کا عوضانہ دیتی ہے سر۔ اس کے علاوہ میں ٹیوشن نہیں کرتا، تعلیم دیتا ہوں۔ جو چاہے جب چاہے مجھ سے پڑھ سکتا ہے۔’’
‘’لیکن یہ تو آپ کی آفشیل ڈیوٹی نہیں ہے سر، یہ تو۔۔۔’’
‘’دیکھیے جناب میں اس لئے پڑھاتا ہوں کہ مجھے پڑھانے کا شوق ہے۔ اگر میں تحصیلدار ہوتا تو بھی پڑھاتا۔ اگر ضلع کا ڈی سی ہوتا تو بھی پڑھاتا۔ کچھ لوگ پیدائشی میری طرح ہوتے ہیں۔ ان کے ماتھے پر مہر ہوتی ہے پڑھانے کی۔ ان کے ہاتھوں پر لکیر ہوتی ہے پڑھانے کی۔’’ بی بی کے حلق میں نمکین آنسو آ گئے۔ دو غیرتوں کا مقابلہ تھا۔ ایک طرف ڈی سی صاحب کی وہ غیر ت تھی جسے ہر ضلع کے افسروں نے کلف لگائی تھی۔ دوسری جانب ایک Idealistic آدمی کی غیرت تھی جو گھونگے کی طرح اپنا سارا گھر اپنے ہی جسم پر لاد کر چلا کرتا ہے اور ذراسی آہٹ پاکر اس گھونگے میں گوشہ نشین ہو جاتا ہے۔ پروفیسر صاحب بڑی بھلی سی باتیں کئے جا رہے تھے اور اس کے اباجی مونڈھے میں یوں بیٹھے تھے جیسے بھاگ جانے کی تدبیریں سوچ رہے ہوں۔
‘’فائن آرٹس کا دولت کی ذخیرہ اندوزی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں میرا پروفیشن فائن آرٹس کا ایک شعبہ ہے۔ انسان میں کلچر کا شعور پیدا کرنے کی سعی، انسان میں تحصیل علم کی خواہش بیدار کرنا، عام سطح سے اٹھ کر سوچنا اور سوچتے رہنا۔ ایک صحیح استاد ان نعمتوں کو بیدار کرتا ہے۔ ایک تصویر، ایک گیت، ایک خوبصورت بت بھی یہی کچھ کر پاتے ہیں۔ ساز بجانے والے کو اگر آپ لاکھ روپیہ دیں اور اس پر پابندی لگائیں کہ وہ ساز کو ہاتھ نہ لگائے تو وہ غالباً وہ، اگر وہ Genuine ہے تو آپ کی پیشکش ٹھکرا دےگا۔ میں ٹیچر ہوں۔ Genuine ٹیچر۔ میں Fake نہیں ہوں زبیری صاحب!’’
ڈی سی صاحب اپنی بیٹی کے سامنے ہار ماننے والے نہیں تھے، ‘’اور جو پیٹ میں کچھ نہ ہو تو غالباً سازندہ مان جائےگا۔’’
‘’پھر وہ سازندہ Fake ہوگا۔ Passion کا اس کی زندگی سے کوئی تعلق نہ ہوگا بلکہ غالباً وہ اپنے آرٹ کو ایک تمغہ، ایک پاسپورٹ، ایک اشتہار کی طرح استعمال کرتا ہوگا۔’’
‘’اچھا جی آپ پیسے نہ لیں لیکن بی بی کو پڑھا تو دیا کریں۔’’
‘’جی ہاں۔ میں بخوشی پڑھا دوں گا۔’’
‘’تو کب آیا کریں گے آپ؟ میں کار بھجوا دیا کروں گا۔’’
پروفیسر فخر کی آنکھیں تنگ ہو گئیں اور وہ ہچکچا کر بولے، ‘’میں تو کہیں نہیں جاتا شام کے وقت۔’’
‘’تو میرا، تو میرا مطلب ہے کہ آپ اسے پڑھائیں گے کیسے؟’’
‘’یہ چار پانچ کے درمیان کسی وقت آ جایا کریں۔ میں پڑھا دیا کروں گا۔’’ بی بی کے پیروں تلے سے یوں زمین نکلی کہ اس وقت تک واپس نہ لوٹی جب تک وہ اپنے پلنگ پر لیٹ کر کئی گھنٹے تک آنسوؤں سے اشنان نہ کرتی رہی۔
عورت کے لئے عموماً مرد کی کشش کے تین پہلو ہوتے ہیں۔ بے نیازی، ذہانت اور فصاحت۔ یہ تینوں اوصاف پروفیسروں میں بقدر ضرورت ملتے ہیں۔ اسی لئے ایسے کالجوں میں جہاں مخلوط تعلیم ہو لڑکیاں عموماً اپنے پروفیسروں کی محبت میں مبتلا ہو جاتی ہیں۔ اس محبت کا چاہے کچھ نتیجہ نہ نکلے لیکن ہیروشپ کی طرح اس کا اثر ان کے ذہنوں میں ابدی ہوتا ہے جس طرح ملکیت ظاہر کرنے کے لئے پرانے زمانے میں گھوڑوں کو داغ دیا جاتا تھا اسی طرح اس رات بی بی کے دل پر مہرِ فخر لگ گئی۔ ابا جی ہر آنے جانے والے سے پروفیسر فخر کے احمق پن کی داستان یوں سنانے بیٹھ جاتے جیسے یہ بھی کوئی ویت نام کا مسئلہ ہو۔ ان کے ملنے والے پروفیسر فخر کی باتوں پر خوب ہنستے۔ بی بی کو شبہ ہو چلا تھا کہ انہوں نے بیٹی کو ٹیوشن کی اجازت نہ دی تھی پھر بھی اندر ہی اندر اباجی فخر کی شخصیت سے مرعوب ہو چکے تھے۔
ایک دن جب بی بی اپنی سہیلی سے ملنے سمن آباد گئی اور سامنے والی لائن میں اسے پروفیسر فخر کا مکان دکھائی دیا تو اچانک اس کے دل میں ایک زبردست خواہش اٹھی۔ وہ خوب جانتی تھی کہ اس وقت پروفیسر صاحب کالج جا چکے ہوں گے۔ پھر بھی وہ گھر کے اندر چلی گئی۔ سارے کمرے کھلے پڑے تھے۔ لمبے کمرے میں ایک چارپائی بچھی تھی جس کا ایک پایہ غائب تھا اور اس کی جگہ اینٹوں کی تھئی لگی ہوئی تھی۔ تینوں کمروں میں کتابیں ہی کتابیں تھیں۔ ہر سائز، ہر پیپر اور ہر طرح کی پرنٹنگ والی کتابیں۔ ان کتابوں کو درستگی کے ساتھ آراستہ کرنے کی خواہش بڑی شدت کے ساتھ بی بی کے دل میں اٹھی۔ جستی ٹرنک پر پڑے ہوئے کپڑے، زرد رو چھپکلیاں جو بڑی آزادی سے چھت سے جھانک رہی تھیں اور کونوں میں لگے ہوئے جالے۔ ان چیزوں کا بی بی پر بہت گہرا اثر ہوا۔ باورچی خانے سے کچھ جلنے کی خوشبو آ رہی تھی لیکن پکانے والا دیگچی سٹوو پر رکھ کر کہیں گیا ہوا تھا۔ بی بی نے تھوڑا سا پانی دیگچی میں ڈالا اور سہیلی سے ملے بغیر آ گئی۔
جس روز بی بی نے پروفیسر فخر سے شادی کرنے کا فیصلہ کیا، اسی روز جمالی ملک کا رشتہ بھی آ گیا۔ جمالی ملک لاہور کے ایک نامی گرامی ہوٹل میں مینجر تھے۔ بڑی پریس کی ہوئی شخصیت تھی۔ اپنی پتلون کی کریز کی طرح۔ اپنے چمکدار بوٹوں کی طرح جگمگاتی ہوئی شخصیت۔ وہ کسی ٹوتھ پیسٹ کا اشتہار نظر آتے تھے۔ صاف ستھرے دانتوں کی چمک ہمیشہ چہرے پر رہتی۔ جمالی ملک اپنے ہوٹل کی تنظیم، صفائی اور سروس کا سمبل تھے۔ ائیر کنڈیشنڈ لابی میں پھرتے ہوئے، مدھم بتیوں والی بار میں سرپرائز وزٹ کرتے ہوئے، لفٹ کے بٹن دباتے ہوئے۔ ڈائننگ ہال میں وی آئی پیز کے ساتھ پر تکلف گفتگو کرتے ہوئے، ان کا وجود کٹ گلاس کے فانوس کی طرح خوبصورت اور چمکدار تھا۔
جس روز اس بڑے ہوٹل کے بڑے مینجر نے بی بی کے خاندان کو کھانے کی دعوت دی اسی روز ڈرائی کلینر سے واپسی پر بی بی کی مڈبھیڑ پروفیسر فخر کے ساتھ ہو گئی۔ وہ فٹ پاتھ پر پرانی کتابوں والی دکانوں کے سامنے کھڑے تھے اور ایک پرانا سا مسودہ دیکھ رہے تھے۔ ان سے پانچ قدم چھ قدم دور ‘’ہر مال ملے آٹھ آنے’’ والا چیخ چیخ کر سب کو بلا رہا تھا۔ ذرا سا ہٹ کر وہ دکان تھی جس میں سرخ چونچوں والے ہریل طوطے، افریقہ کی سرخ چڑیاں اور خوبصورت لقے کبوتر غٹر غوں غٹر غوں کر رہے تھے۔ پروفیسر صاحب پر سارے بازار کا کوئی اثر نہ ہو رہا تھا اور وہ بڑے انہماک سے پڑھنے میں مشغول تھے۔
کار پارک کرنے کی کوئی جگہ نہ تھی۔ بالآخر محکمہ تعلیم کے دفتر میں جا کر پارک کروائی اور پیدل چلتی ہوئی پروفیسر فخر تک جا پہنچی۔ پرانی کتابیں بیچنے والے دور دور تک پھیلے ہوئے تھے۔ کرم خوردہ کتابوں کے ڈھیر تھے۔ ایسی کتابیں اور رسالے بھی تھے جنہیں امریکن وطن لوٹنے سے پہلے سیروں کے حساب سے بیچ گئے تھے اور جن کے صفحے بھی ابھی نہ کھلے تھے۔
‘’سلام علیکم سر!’’
چونک کر سر نے پیچھے دیکھا تو بی بی شرمندہ ہو گئی۔ اللہ! اس پروفیسر کی آنکھ میں کبھی تو پہچان کی کرن جاگے گی؟ ہر بار نئے سرے سے اپنا تعارف تو نہ کروانا پڑےگا۔
‘’آپ اتنی دھوپ میں کھڑے ہیں سر!’’
پروفیسر نے جیب سے ایک بوسیدہ اور گندہ رومال نکال کر ماتھا صاف کیا اور آہستہ سے بولے، ‘’ان کتابوں کے پاس آ کر گرمی کا احساس باقی نہیں رہتا۔’’
بی بی کو عجیب شرمندگی سی محسوس ہوئی کیونکہ جب کبھی وہ پڑھنے بیٹھتی تو ہمیشہ گردن پر پیسنے کی نمی سی آ جاتی اور اسے پڑھنے سے الجھن ہونے لگتی۔
‘’آپ کو کہیں جانا ہو تو جی میں چھوڑ آؤں آپ کو۔’’
‘’نہیں میرا سائیکل ہے ساتھ۔ شکریہ!’’
بات کچھ بھی نہ تھی۔ فٹ پاتھ پر پرانی کتابوں کی دکان کے سامنے ایک بےنیاز چھ فٹے پروفیسر کے ساتھ، جس کے کالر پر میل کا نشان تھا، ایک سرسری ملاقات تھی چند ثانیے بھر کی۔ لیکن اس ملاقات کا بی بی پر تو عجیب اثر ہوا۔ سارا وجود تحلیل ہو کر ہوا میں مل گیا۔ کندھوں پر سر نہ رہا اور پاؤں میں ہلنے کی سکت نہ رہی تھی۔ حالانکہ پروفیسر فخر نے اس سے ایک بات بھی ایسی نہ کی جو بظاہر توجہ طلب ہوتی۔ پر بی بی کے تو ماتھے پر جیسے انہوں نے اپنے ہاتھ سے چندن کا ٹیکہ لگا دیا۔ کھوئی کھوئی سی گھر آئی اور غائب سی بڑے ہوٹل پہنچ گئی۔ جب وہ شمووز کی ساڑھی پہنے آئینہ خانے سے لابی میں پہنچی تو دراصل وہ آکسیجن کی طرح ایک ایسی چیز بن چکی تھی جسے صرف محسوس کیا جا سکتا ہے۔ جمالی ملک صاحب شارک سکن کے سوٹ میں ملبوس، کالر میں کارنیشن کا پھول لگائے گھٹنوں پر کلف شدہ سرویٹ رکھے اتنے ٹھوس نظر آ رہے تھے کہ سامنے میز پر کہنیاں ٹکائے جھینگے کا پلاؤ اور چوپ سوٹی کھانے والی لڑکی پر انہیں شبہ تک نہ ہو سکا اور وہ جان ہی نہ سکے کہ مسلسل باتیں کرنے والی لڑکی در اصل ہوٹل میں موجود ہی نہیں ہے۔
اگر بی بی کی شادی جمالی ملک سے ہو جاتی تو کہانی آئسنگ لگے کیک کی طرح دلآویز ہوتی۔ لفٹ کی طرح اوپر کی منزلوں کو چڑھنے والی۔ سوئمنگ پول کے اس تختے کی طرح جس پر چڑ ھ کر ہر تیرنے والا سمرسولٹ کرنے سے پہلے کئی فٹ اوپر چلا جایا کرتا ہے۔ لیکن۔۔۔شادی تو بی بی کی پروفیسر فخر سے ہو گئی۔
ڈی سی صاحب کی بیٹی کا بیاہ اس کی پسند کا ہوا اور اس شادی کی دعوت اس ہوٹل میں دی گئی جس کے مینجر جمالی صاحب تھے۔ دلہن کے گھر والوں نے چار ڈی لکس قسم کے کمرے دو دن پہلے سے بک کر رکھے تھے اور بڑے ہال میں جہاں رات کا آرکسٹرا بجا کرتا ہے، وہیں دولہا دلہن کے اعزاز میں بہت بڑی دعوت رہی۔ نکاح بھی ہوٹل میں ہی ہوا اور رخصتی بھی ہوٹل ہی سے ہوئی۔ ساری شادی کا ہنگامہ مفقود تھا۔ ایک ٹھنڈ کا، ایک خاموشی کا احساس مہمانوں پر طاری تھا۔ ٹھنڈے ٹھنڈے ہال میں یخ بستہ کولڈ ڈرنکز پیتے ہوئے سرد مہر سے مہمانوں سے مل کر بی بی اپنے میاں کے ساتھ سمن آباد چلی گئی۔
لیکن اس رخصتی سے پہلے ایک اور بھی چھوٹا سا واقعہ ہوا۔ نکاح سے پہلے جب دلہن تیار کی جا رہی تھی اور اسے زیور پہنایا جا رہا تھا، اس وقت بجلی اچانک فیوز ہو گئی۔ پہلے بتیاں گئیں پھر ائیر کنڈیشنر کی آواز بند ہو گئی۔ چند ثانئے تو کانوں کو سکون سا محسوس ہوا لیکن پھر لڑکیوں کا گروہ کچھ تو گرمی کے مارے اور کچھ موم بتیوں کی تلاش میں باہر چلا گیا۔ اندھیرے کمرے میں ایک آراستہ دلہن رہ گئی۔ ارد گرد خوشبو کا احساس باقی رہا اور باقی سب کچھ غائب ہو گیا۔ بتیاں پورے آدھے گھنٹے بعد آئیں۔ اب خدا جانے یہ جمالی ملک کی سکیم تھی یا واپڈا والوں کی سازش تھی۔ بجلی چلے جانے کے کوئی دس منٹ بعد بی بی کے دروازے پر دستک ہوئی۔ ڈری ہوئی آواز میں بی بی نے جواب دیا، ‘’کم ان۔’’
ہاتھ میں شمع دان لئے جمالی ملک داخل ہوا۔ اس نے آدھی رات جیسا گہرا نیلا سوٹ پہن رکھا تھا۔ کالر میں کارنیشن کا پھول تھا اور اس کے آتے ہی تمباکو ملی کوئی تیز سی خوشبو کمرے میں پھیل گئی۔ بی بی کا دل زور زور سے بجنے لگا، ‘’میں یہ بتانے آیا تھا کہ ہمارا جنریٹر خراب ہو گیا ہے۔ تھوڑی دیر میں بجلی آ جائےگی کسی چیز کی ضرورت تو نہیں آپ کو؟’’ وہ خاموش رہی۔
‘’میں یہ کینڈل سٹینڈ آپ کے پاس رکھ دوں؟’’ اثبات میں بی بی نے سر ہلا دیا۔ جمالی ملک نے شمع دان ڈریسنگ ٹیبل پر رکھ دیا۔ جب پانچ موم بتیوں کا عکس بی بی کے چہرے پر پڑا اور کنکھیوں سے اس نے آئینے کی طرف دیکھا تو لمحہ بھر کو تو اپنی صورت دیکھ کر وہ خود حیران سی رہ گئی۔
‘’آپ کی سہیلیاں کدھر گئیں؟’’
‘’وہ نیچے چلی گئی ہیں شاید۔’’
‘’اگر آپ کو کوئی اعتراض نہ ہو تو میں یہاں بیٹھ جاؤں چند منٹ۔’’ بی بی نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
وہ اپالو کی طرح وجیہہ تھا۔ جب اس نے ایک گھٹنے پر دوسرا گھٹنا رکھ کر سر کو صوفے کی پشت سے لگایا تو بی بی کو عجیب قسم کی کشش محسوس ہوئی۔ جمالی ملک کے ہاتھ میں سارے ہوٹل کی ماسٹر چابیاں تھیں اور اس کی بڑی سی انگوٹھی نیم روشنی میں چمک رہی تھی۔ اس خاموش خوبصورت آدمی کو بی بی نے اپنے نکاح سے آدھ گھنٹہ پہلے پہلی بار دیکھا اور اس کی ایک نظر نے اسے اپنے اندر اس طرح جذب کر لیا جسے سیاہی چوس سیاہی کو جذب کرتا ہے۔
‘’میں آپ کو مبارکباد پیش کر سکتا ہوں؟’’ اس نے مضطرب نظروں سے بی بی کو دیکھ کر پوچھا۔ وہ بالکل چپ رہی۔
‘’لڑکیاں، خاص کر آپ جیسی لڑکیوں کو ایک بڑا زعم ہوتا ہے اور اسی ایک زعم کے ہاتھوں وہ ایک بہت بڑی غلطی کر بیٹھتی ہیں۔’’
نقلی پلکوں والے بوجھل پپوٹے اٹھا کر بی بی نے پوچھا، ‘’کیسی غلطی؟’’
‘’کچھ لڑکیاں محض رشی سادھوؤں کی تپسیا توڑنے کو خوشی کی معراج سمجھتی ہیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ کسی کی بےنیازی کی ڈھال میں سوراخ کر کے وہ سکون کی معراج کو پالیں گی۔ کسی کے تقویٰ کو برباد کرنا خوشی کے مترادف نہیں ہے۔ کسی کے زہد کو عجز و انکساری میں بدل دینا کچھ اپنی راحت کا باعث نہیں، ہاں دوسروں کے لئے احساسِ شکست کا باعث ہو سکتی ہے یہ بات۔’’
چابیاں ہاتھ میں گھوم پھر رہی تھیں۔ ذہانت اور فصاحت کا دریا رواں تھا، ‘’یہ زعم عورتوں میں، لڑکیوں میں کب ختم ہوگا؟ میرا خیال تھا آپ ذہین ہیں لیکن آپ بھی وہی غلطی کر بیٹھی ہیں جو عام لڑکی کرتی ہے۔ آپ بھی توبہ شکن بننا چاہتی ہیں۔’’
‘’مجھے، مجھے پروفیسر فخر سے محبت ہے۔’’
‘’محبت؟ آپ پروفیسر فخر کو یہ بتانا چاہتی ہیں کہ اندر سے وہ بھی گوشت پوست کے بنے ہوئے ہیں۔ اپنے تمام آئیڈیلز کے باوجود وہ بھی کھانا کھاتے ہیں۔ سوتے ہیں اور محبت کرتے ہیں۔ ان کا کوٹ آف آرمر اتنا سخت نہیں جس قدر وہ سمجھتے ہیں۔’’
وہ چاہتی تھی کہ جمالی ملک سے کہے کہ تم کون ہوتے ہو مجھے پروفیسر فخر کے متعلق کچھ کہنے والے! تمہیں کیا حق پہنچتا ہے کہ یہاں لیدر کے صوفے سے پشت لگا کر سارے ہوٹل کے ماسٹر چابیاں ہاتھ میں لے کر اتنے بڑے آدمی پر تبصرہ کرو لیکن وہ بے بس سنے جا رہی تھی اور کچھ کہہ نہیں سکتی تھی۔
‘’میں پروفیسر صاحب سے واقف نہیں ہوں لیکن جو کچھ سنا ہے اس سے یہی اندازہ لگایا ہے کہ وہ اگر مجرد رہتے تو بہتر ہوتا۔ عورت تو خواہ مخواہ توقعات وابستہ کر لینے والی شے ہے وہ بھلا اس صنف کو کیا سمجھ پائیں گے؟’’
‘’جمالی صاحب۔۔۔!’’ اس نے التجا کی۔
‘’آپ سی لڑکیاں اپنے رفیق حیات کو اس طرح چنتی ہیں جس طرح مینو میں سے کوئی اجنبی نام کی ڈش آرڈر کر دی جائے محض تجربے کی خاطر، محض تجسس کے لئے۔’’ وہ پھر بھی چپ رہی۔ ‘’اتنے سارے حسن کا پروفیسر صاحب کو کیا فائدہ ہوگا بھلا، منی پلانٹ پانی کے بغیر سوکھ جاتا ہے۔ عورت کا حسن پرستش اور ستائش کے بغیر مرجھا جا تا ہے کسی ذہین مرد کو بھلا کسی خوبصورت عورت کی کب ضرورت ہوتی ہے؟ اس کے لئے تو کتابوں کا حسن بہت کافی ہے۔’’
شمعدان اپنی پانچ موم بتیوں سمیت دم سادھے جل رہا تھا اور وہ کیوٹیکس لگے ہاتھوں کو بغور دیکھ رہی تھی۔
‘’مجھ سے بہتر قصیدہ گو آپ کو کبھی نہیں مل سکتا قمر! مجھ سا گھر آپ کو نہیں مل سکتا کیونکہ میرا گھر اس ہوٹل میں ہے اور ہوٹل سروس سے بہتر کوئی سروس نہیں ہوتی اور مجھے یہ بھی یقین ہے کہ میری باتوں پر آپ کو اس وقت یقین آئےگا جب آپ کے چہرے پر جھائیاں پڑ جائیں گی۔ ہاتھ کیکر کی چھال جیسے ہو جائیں گے اور پیٹ چھاگل میں بدل جائےگا۔ میں تو چاہتا تھا میری تو تمنا تھی کہ جب ہم اس ہوٹل کی لابی میں اکٹھے پہنچتے، جب اس کی بار میں ہم دونوں کا گزر ہوتا۔ جب اس کی گیلریوں میں ہم چلتے نظر آتے تو امریکن ٹورسٹ سے لے کر پاکستانی پیٹی بوژوا تک، سب ہماری خوش نصیبی پر رشک کرتے لیکن آپ آئیڈیلسٹ بننے کی کوشش کرتی ہیں۔ یہ حسن کے لئے گڑھا ہے بربادی کا۔’’
ساون کی رات جیسا گہرا نیلا سوٹ، کارنیشن کا سرخ پھول اور آفٹر شیولوشن سے بسا ہوا چہرہ بالآخر دروازے کی طرف بڑھا اور بڑھے ہوئے بولا، ‘’کسی سے آئیڈیلز مستعار لے کر زندگی بسر نہیں ہو سکتی محترمہ! آدرش جب تک اپنے ذاتی نہ ہوں ہمیشہ منتشر ہو جاتے ہیں۔ پہاڑوں کا پودا ریگستان میں نہیں لگا کرتا۔’’
اس میں تو اتنا حوصلہ بھی نہ رہا تھا کہ آخری نظر جمالی ملک پر ہی ڈال لیتی۔ دروازے کے مدوّر ہینڈل پر ہاتھ ڈال کر جمالی ملک نے تھوڑا سا پٹ کھول دیا۔ گیلری سے لڑکیوں کے ہنسنے کی آوازیں آنے لگیں۔
‘’میں بھی کس قدر احمق ہوں۔ اس سے اپنا کیس plead کر رہا ہوں جو کبھی کا فیصلہ کر چکی ہے۔ اچھا جی مبارک ہو آپ کو‘‘
دروازہ کھلا اور پھر بند ہو گیا۔ جاتے ہوئے وجیہہ مینجر کو ایک نظر بی بی نے دیکھا اور اپنے آپ پر لعنت بھیجتی ہوئی اس نے نظریں جھکا لیں۔ چند لمحوں بعد دروازہ پھر کھلا اور ادھ کھلے پٹ سے جمالی ملک نے چہرہ اندر کرکے دیکھا۔ اس کی ہلکی براؤن آنکھوں میں نمی اور شراب کی ملی جلی چمک تھی جیسے گلابی شیشے پر آہوں کی بھاپ اکٹھی ہو گئی ہو۔
‘’مجھ سے بہتر آدمی تو آپ کو مل رہا ہے لیکن مجھ سے بہتر گھر نہ ملےگا آپ کو مغربی پاکستان میں۔’’
اسی طرح سنتو جمعدارنی کے جانے پر بی بی نے سوچا تھا۔ ہم سے بہتر گھر کہاں ملےگا کلموہی کو۔ اسی طرح خورشید کے چلے جانے پر وہ دل کو سمجھاتی تھی کہ اس بدبخت کو اس سے اچھا گھر کہاں ملےگا اور ساتھ ساتھ بی بی یہ بھی جانتی تھی کہ اس سے بہتر گھر چاہے نہ ملے وہ لوٹ کر آنے والیوں میں سے نہیں تھیں۔ اتنے برس گزرنے کے بعد آج ایک پل تعمیر ہو گیا آپی آپ، ماضی سے جوڑنے والا۔ وہ دل برداشتہ انار کلی چلی گئی، اس کا خیال تھا کہ وہ چار گھٹنے کی غیر موجودگی میں سب کچھ ٹھیک کر دے گی۔ سنتو جمعدارنی اور خورشید تک کو آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو جائے گا۔ لیکن ہوا یوں کہ جب وہ اپنے اکلوتے دس روپے کے نوٹ کو ہاتھ میں لئے بانو بازار میں کھڑ ی تھی اور سامنے ربڑ کی چپلوں والے سے بھاؤ کر رہی تھی اور نہ چپلوں والا پونے تین سے نیچے اترتا تھا اور نہ وہ ڈھائی روپے سے اوپر چڑھتی تھی، عین اس وقت ایک سیاہ کار اس کے پاس آ کر رکی۔ اپنے بوائی پھٹے پیروں کو نئی چپل میں پھنساتے ہوئے اس نے ایک نظر کار والے پر ڈالی۔
وہ اپالو کے بت کی طرح وجیہہ تھا۔ کنپٹیوں کے قریب پہلے چند سفید بالوں نے اس کی وجاہت پر رعبِ حسن کی مہر بھی لگا دی تھی۔ وقت نے اس سینٹ کا کچھ نہ بگاڑا تھا۔ وہ اسی طرح محفوظ تھا جیسے ابھی کولڈ سٹوریج سے نکلا ہو۔ بی بی نے اپنے کیکر کے چھال جیسے ہاتھ دیکھے، پیٹ پر نظر ڈالی جو چھاگل میں بدل چکا تھا اور ان نظروں کو جھکا لیا جن میں اب کتیرہ گوند کی بجھی بجھی سی چمک تھی۔ جمالی ملک اس کے پاس سے گزرا لیکن اس کی نظروں میں پہچان کی گرمی نہ سلگی۔ واپسی پر وہ پروفیسر صاحب سے آنکھیں چرا کر بستر پر لیٹ گئی اور آنسوؤں کا رکا ہوا سیلاب اس کی آنکھوں سے بہہ نکلا۔
پروفیسر صاحب نے بہت پوچھا لیکن وہ انہیں کیا بتاتی کہ درخت چاہے کتنا ہی اونچا کیوں نہ ہو جائے، اس کی جڑیں ہمیشہ زمین کو ہوس سے کریدتی رہتی ہیں۔ وہ انہیں کیا سمجھاتی کہ آئیڈیلز کچھ مانگے کا کپڑا نہیں جو پہن لیا جائے۔ وہ انہیں کیا کہتی کہ عورت کیسے توقعات وابستہ کرتی ہے۔
اور۔۔۔
یہ توقعات کا محل کیونکر ٹوٹتا ہے؟
وہ غریب پروفیسر صاحب کو کیا سمجھاتی!
ایسی باتیں تو غالباً جمالی ملک بھی بھول چکا تھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.