Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

الجھا بال

محمد ہمایوں

الجھا بال

محمد ہمایوں

MORE BYمحمد ہمایوں

    میں دفتر سے کافی لیٹ آیا اور سیدھا بیڈ روم جا کر جلدی جلدی لباس تبدیل کیا۔ جب الماری میں شرٹ لٹکانے لگا تو میری پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔۔۔ میرے شرٹ پر سامنے کی جانب، جیب سے زرا اوپر، ایک لمبا بال چپکا ہوا تھا جو پیچ در پیچ تقریبا آٹھ کا ہندسہ لگ رہا تھا۔ میں نے ادھر ادھر دیکھا اور اسے فورا اچک کر اپنے جیب میں اڑس لیا۔ عین اسی وقت شازیہ اندر آگئی۔ میں بال بال بچا۔

    ’’کیا بات ہے آپ کچھ پریشان لگ رہے ہیں، دفتر میں خیریت تو تھی؟‘‘

    ’’نہ ہی پوچھو تو بہتر ہے۔۔۔ کچھ کام زیادہ تھااور پھر آتے ہوئے راستے میں ایر فورس میوزیم کے قریب گاڑیاں پھنس گئیں۔۔۔ کوفت ہی کوفت۔۔۔ بس کیا بتاوں؟‘‘

    میں نے فورا ایک کہانی بن کر اس کے سامنے بیان کی،

    ’’کوئی حادثہ ہوا تھا؟ خبروں میں تو ایسی کوئی بات نہیں تھی، کوئی اور بات تو نہیں؟‘‘

    شازیہ نے ہونٹ سکیڑے اور بھنویں تنا کر اپنی تیز آنکھوں سے میری طرف دیکھا۔

    مجھے ایسا لگا جیسے میرا جھوٹ جیسے پکڑا گیا ہے اور شازیہ کو سب پتہ لگ چکا ہے،

    ’’نہیں نہیں ایکسیڈنٹ تو نہیں ہوا لیکن شاہرا ہ فیصل ہے۔۔۔ تمہیں تو پتہ ہی ہے۔۔۔ خیر کھانا لگ گیا؟ زوروں کی بھوک لگی ہے میری جان۔‘‘

    میں پاسپورٹ آفس میں ملازم ہوں اور شازیہ سے میری شادی چار سال قبل ہوئی۔ اس کو ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتاہے کہ میں کہیں دوسری شادی نہ کر لوں۔ اگرچہ اس کے اندر، عام بیویوں کے برعکس بے جا تجسس کا عنصر تقریبا ناپید ہے لیکن اس کے باجود محتاط رہنا پڑتا ہے، آخر کو بیوی ہے۔ میں بے انتہا کوشش کرتا ہوں کہ اس کو ذرا بھی شک نہ ہو۔ یہ اچھا ہوا میں اسے ملے بغیر سیدھا کمرے میں گیا ورنہ کہیں اگر اس بال پر اس کی نظر پڑ جاتی تو یقین کریں یہی بال میرے گلے کا پھندہ بن جاتا۔

    کھانے کے دوران شازیہ بار بار میری طرف دیکھتی رہی لیکن اس نے کچھ کہا نہیں۔ اس سے میری تشویش اور بڑھی لیکن چہرے پر کوئی تاثر لائے بغیر میں نے خلاف عادت جلدی جلدی کھانا کھایا اور پھر ٹی وی دیکھنے لگا۔

    ’’شازی یہ' لوز ٹاک ' آج ہے؟‘‘

    مجھے اچھی طرح علم تھا کہ نہ تو یہ لوز ٹاک کے نشریئے کا ٹائم ہے اور نہ ہی دن لیکن صرف بات بدلنے کے لئے کہ میں کسی طریقے سے اس کی توجہ بٹاوں تاکہ کسی حلیے بہانے سے اس بال سے نجات حاصل کروں جو میری پتلون کی جیب میں بجلی کے گرم تار کی طرح پڑا میری ران داغ رہا تھا۔

    ’’نہیں آج تو نہیں لیکن آپ کو کیا ہو گیا ہے؟ آپ کا حافظہ تو کافی تیز ہے۔ ایسے سوال تو آپ نہیں کرتے ہوتے۔ کوئی بات ہوئی ہے آج؟ کھانے کے دوران بھی آپ نے کوئی بات نہیں کی، خیر تو ہے۔‘‘

    آپ میں سے جو لوگ شادی شدہ ہیں، ان کو اکثر اس قسم کے بے تکے سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن کا نہ سر ہوتا ہے نہ پیر لیکن انداز ایک ہی ہوتا ہے، بال کی کھال اتارنا۔

    ’’نہیں کچھ بھی تو نہیں۔ بتایا تو تھا کچھ کام اور کچھ ٹریفک۔۔۔ بس یہی کچھ۔۔۔ خیر کافی مل سکتی ہے، تھکن دور ہوجائے گی۔‘‘

    ’’نو بجنے والے ہیں۔ آپ کافی پئیں گے تو ساری رات کروٹیں بدلتے رہیں گے، کیا خیال ہے؟ بنانے کو میں بنا دیتی ہوں ویسے۔‘‘

    ’’میرا خیال ہے رہنے ہی دیں۔‘‘

    میرا مقصد حل ہوگیا۔ ہم دونوں کے درمیان ایک روان قسم کی گفتگو چل پڑی اور اس سے کچھ میرا تناو بھی کم ہوگیا۔ میں بیڈ روم میں چلا آیا اور باتھ روم کا دروازہ بند کرکے بال اپنی جیب میں ڈھونڈنے لگا۔ کچھ دقّت سے، لیکن بلاخر وہ بال سالم حالت میں اپنی جیب سے نکالنے میں کامیاب ہوگیا۔ میں نے بال انگوٹھے اور شہادت کی انگلی میں پکڑ کر اس کا بغور مشاہدہ کیا۔

    بال لمبا تھا اور اگرچہ اب سیدھا نظر آرہا تھا لیکن اس کی ہیت میں کچھ ایسی کجی تھی کہ تاو در تاو بل کھاتا دکھائی دے رہا تھا۔ رنگت شاید سیاہ رہی ہوگی لیکن اب اس میں بے انتہا قسم کی سنہری چمک تھی۔۔۔ شاید ہایڈروجن پر اوکسائڈ کا اثر تھا۔ میں نے غور سے دیکھا تو اس کا ایک سرا کچھ جیلی نما اور بھرا ہوا لگ رہا تھا اور یہ یقیناوہ سرا تھا جو سر کے چمڑے میں پیوست رہا ہوگا اور وہاں اس بال کا کچھ نوخیز حصہ با لکل سیاہ تھا۔ مدھم روشنی میں بس میں اتنا ہی دیکھ سکا۔

    میں نے اسے سونگھا اور اس سے ایسی خوشبو آرہی تھی جسے میں شیمپو سمجھا لیکن مجھے یقین ہے یہ میری ذہنی اختراع تھی اور حقیقتا اس بال میں خوشبو ناپید تھی۔ وہ ایک لمبا زنانہ بال تھا جو میرے لئے ایک مسئلہ تھا اور بس۔

    اب میں نے سوچنا شروع کیا کہ اس سے نجات کیسے حاصل کروں۔ اس کو فلش کروں تو ہو سکتا ہے یہ فلش نہ ہوپائے اور پھر شازیہ کو وہاں ہایڈروجن پر اوکسائڈ لگے بال کی کیا توجیہ دوں گا۔ جلا بھی نہیں سکتا تھا کہ جلتے بال کی عجیب سی بدبو ہوتی ہے اور اس کی بھی شازیہ کو قابل قبول قسم کی وضاحت سر دست میرے زاویہ نگاہ میں نہیں تھی۔ بال کو سالم حالت باتھ روم کے ڈسٹ بن میں پھینکناتو اور بھی خطرناک بات تھی۔۔۔ نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن۔

    پھر مجھے یکایک ایک خیال سوجھا اور میں نے باریک بینی سے اس بال کو قینچی سے بے انتہا چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹ کر ڈسٹ بن کے سدا کھلے منہ میں ڈال دیا اور ڈسٹ بن کو ٹشو پیپر کے چھوٹے چھوٹے مرغولوں سے ڈھک دیا۔

    باہر آیا تو میرے سامنے شازیہ کھڑی تھی۔ میں اندر اندر گھبرایا اور حواس باختہ بھی ہوا۔ اس کی نظریں میرے اندر گڑی رہیں۔ میں نے نظریں چرانی چاہیں تو اس نے ایک لمبی سانس بھری،

    ’’آپ نے دوبارہ فلش نہیں کیا نا؟‘‘

    ’’شازی میں صرف ہاتھ دھو رہا تھا، یقین کریں۔‘‘

    اس نے ایک پولیس والے کی طرح میرے ہاتھ پکڑے اور اسے سونگھا۔

    ’’ہاتھ خشک ہیں۔۔۔ گڈ۔۔۔ لیکن آپ صابن کب استعمال کریں گے؟۔ میں جتنا بھی کہوں میری نہیں سننی آپ نے لیکن ایک بات میری بھی سن لیں۔ خبردار اگر یہ ہاتھ میرے قریب لائے۔‘‘

    شازیہ بہت نفاست پسند ہے اور اس کا بس چلے تو میں دن میں پانچ بارغسل کروں۔ میں جھٹ سے باتھ روم گیا اور صابن سے ہاتھ دھو کر اس کی طرف بڑھائے۔ اس نے اپنے اوپر مصنوعی قسم کا غصہ طاری کیا اور ناک بھوں چڑھا کر میرے ہاتھ سونگھے بغیر کمرے سے نکل گئی۔ میری جان میں جان آئی، بال سے نجات تو ملی لیکن اب یہ سوچا کہ یہ آیا کہاں سے تھا۔

    لاونج میں آکر ٹی وی آن کیااور دکھاوے کا خبرنامہ دیکھنے لگا۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ آج ہی آیااور صدرصاحب کی کُو۔ دیتا کو، جسے اب ان کا استحقاق ہی سمجھنا چاہیئے، قانونی تحفظ حاصل ہو گیا لیکن میرا ذہن کہیں اور تھا۔۔۔ میلوں دور۔ بال کہاں سے آیا؟

    یہ سوال مشکل تھا لیکن بڑی مشکلوں سے بچنے کے لئے اس کا جواب جاننا اشد ضروری تھا کیونکہ جیسا کہ میں نے پہلے بتایا مجھے، شازیہ، جو بالفعل ایک انتہای حساس قسم کی شکی مزاج خاتون تھی سے ہر وقت دھڑکا سا لگا رہتا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ کسی دن وہ مجھے کسی ایسے معاملے میں رنگے ہاتھوں پکڑ لے گی جس میں میرا قصور بھی نہ ہوگا اور یوں یہ ناکردہ گناہ میرے کسی کردہ گناہ کفارہ بن جائے گا۔۔۔ نہیں نہیں۔۔۔ مجھے بہت محتاط رہنا ہوگا۔

    میرے دفتر میں تین خواتین تھیں۔ ایک تو ذات سے شاید پٹھان یا کشمیری لڑکی تھی، بہت ہی خوب صورت تھی۔ اس کا جتنا رنگ صاف تھا اتنی ہی اس کی اردو بھی صاف تھی۔۔۔ شاید کراچی ہی میں پلی بڑھی تھی۔ یہ اس کا بال ہر گز نہیں تھا کیونکہ اس کے سارے بال قدرتی طور پر سنہرے اور چمکدار تھے اور اس کی آنکھیں گہری نیلی تھیں۔ وہ مجھ سے تو اچھی طرح سے ملتی تھی لیکن کسی اور کے قریب بھی نہیں کھڑی ہوتی تھی، دور ہی دور سے فائل پکڑا دی اور اس کا لہجہ ہمیشہ سپاٹ اور تاثرات سے عاری ہوتا تھا۔ مجھے لگتا تھا شاید اسے مجھ سے عشق ہے لیکن بتا نہیں سکتی۔ میں نے سوچا اگر میں شادی شدہ نہ ہوتا تو یہ بال یقینا اس کا ہوتا۔

    دوسری لڑکی جو قدرے کھلتے گندمی رنگ کی تھی، قبول صورت تھی اور بہت ہی عربوں والا حجاب پہنتی تھی۔ ماسوائے اس کے بھنوں کے، اس کے بالوں کی جھلک تک ناپید تھی۔ بھنوں کے رنگ سے یہ تاثر ملتا تھا کہ اس کے بال سیاہ ہونگیں، ورنہ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا کہ اسکے حجاب کے قلعے سے کوئی بال باہر آئے۔ اس کا باقی لباس قدرے چست تھا، جسم سے چپکا ہوا۔ نہیں یہ اس کا بال ہر گز نہیں تھا۔ مجھے انتہائی شرمندگی سے یہ بھی کہنا پڑ رہا ہے کہ مجھے ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ پتہ کروں کہ اس کے بال کیسے، کس رنگ کے ہیں، پیچدار ہیں، سیدھے ہیں۔ حجاب والی خواتین خواہ کتنی بھی معصوم اور مقدس نظر آئیں، ان کی طرف نگاہیں ضرور اٹھتی ہیں اور دل میں کھلبلی سی مچ جاتی ہے۔۔۔ خیر یہ ضمنی بات ہوگئی اور میں اب تیسری خاتون کی طرف آتا ہوں۔

    اس کی عمر تقریبا پچاس پچپن کے لگ بھگ تھی، دبلی پتلی، سانولے رنگ کی۔ اس کی نگاہ میں بلا کا اعتماد تھا اور کام میں نفاست تھی۔ اس کے بالوں میں چاندی آچکی تھی اور آنکھوں کے کونوں میں ترشول نما جھریاں گزرتے عمر کی چغلی کھا رہی تھیں۔ اگرچہ وہ عام عورتوں کی طرح شلوار قمیص ہی پہنتی تھی اور سر پر باریک دوپٹہ بھی لیتی تھی اور۔۔۔ معاف فرمایئے گا۔۔۔ اس کے اندر کشش نام کو نہیں تھی۔ باقی دو خواتین کا تو مجھے اور شاید ہر کسی کو نام بھی پتہ تھا لیکن ان محترمہ کو ہم سب ان کی غیر موجودگی میں آپا کہتے تھے اور لہجوں میں احترام نمایاں رہتا تھا۔

    میں نے کسی کو بھی اس کے متعلق جنسی انداز سے بات کرتے نہیں دیکھا، ہاں اگر بات کرتے دیکھا ہے تو اس کے کام کی تعریف میں، ستائش میں کیونکہ اس کا کام ہمیشہ ٹھیک ہوتا تھا۔ سنا تھا اس کی اپنے میاں سے طلاق ہوگئی تھی اور معاشی حالات سے تنگ آکر اس نے جاب شروع کی تھی۔ یہ بھی سنا تھا کہ دو بڑی بیٹیوں کے ساتھ بہادر آباد میں رہتی تھی جن کی شادی نہیں ہو رہی تھی۔ اس کے حالات سخت ہونگیں لیکن مجھے اس کی فکر نہیں تھی۔ مجھے بال کی فکر کھائے جا رہی تھی۔

    جیسے ہی خبرنامہ ختم ہوگیا میرے سوچ کی ٹرین بھی رک گئی۔۔۔ بلا نتیجہ۔۔۔ میں نے محسوس کیا کہ میں اس ذہنی مشقت سے بہت تھک گیاہوں۔ ہم اس دن مصروف ضرور رہے لیکن ان تین خواتین میں کوئی بھی میرے اتنے قریب نہیں آئی کہ ان میں کسی کا بال میرے شرٹ سے چپک جائے۔ یہ معمہ سمجھ سے باہر تھا۔ میں اٹھ کر کمرے میں آگیا۔ شب خوابی کا لباس پہنا اور بستر پر لیٹ گیا۔

    کچھ لمحے خلوت میں گذارے اور پھر شازیہ اندر اگئی۔ ہم نے تھوڑی دیر باتیں کیں۔ اس کا سارا دن حسب معمول مشقت میں گذر ا۔ صبح دودھ والے سے کھٹ پٹ ہوئی کیونکہ دودھ سے گوبر کی بدبو آ رہی تھی۔ بل جمع کرنے گئی تو حسب معمول لوگ اسے گھور گھور کر دیکھتے رہے۔ ایک خبیث نے تو یہاں تک جرات کی کہ اس کے سامنے گذرتے ہوئے جھوٹ موٹ کی لڑکھڑاہٹ بنا کر، گرتے ہوئے، غیر اردتا اسے چھونا بھی چاہا اور اس سے اسے بہت کوفت ہوئی۔ سپر مارکیٹ میں دبیز شیشوں والی عینک پہنے ادھیڑ عمر آدمی نے اسے ریزگاری واپس کرتے ہوئے مس بھی کرنا چاہا۔ اس نے روتے ہوئے مجھ سے پوچھا کہ ہم نوکر کیوں نہیں رکھتے۔

    مجھے ان سوالوں کا جواب دینے کی فرصت نہیں تھی۔ نوکر کے لئے جو پیسے درکار تھے وہ میری تنخواہ میں پورے نہیں ہو سکتے تھے۔ میں نے اسے تسلی دی اور اسے جی بھر کر اپنی محبت کا یقین دلایا۔۔۔ ہم ایک دوسرے سے لپٹ گئے۔۔۔ میں نے اسے اپنے قریب کیا لیکن دن بھر کی تھکن اتنی تھی کہ مجھے کچھ یاد نہیں رہا اور جب شازیہ صبح نماز کے لئے اٹھی تو تب انکھ کھلی۔

    میں باتھ روم میں داخل ہوا تو کن انکھیوں سے ڈسٹ بن کی طرف دیکھا جو ٹشو پیپر کے مرغولوں سے پر تھا۔۔۔ میں نے اسے ستائش سے دیکھا۔۔۔ پھر ازراہ تجسس ٹشو پیپر اٹھائے۔۔۔ میری جان نکل گئی۔ بال وہاں صحیح سالم موجود تھا، بعینی جیسے مجھے شرٹ کے اوپر چپکا نظر آیا تھا۔۔۔ تڑا مڑا، الجھا ہوا، دہرے آٹھ کی شکل میں۔۔۔ ایک سرا ابھرا ہوا، دوسرا سلیقے سے کٹا ہوا، کچھ ہایدڑوجن پر اکسائڈ زدہ کچھ قدرتی سیاہ۔۔۔ اب میرا خوف گمان کے درجے سے یقین کے درجے میں آگیا۔

    ’’میں نے تو اسے کاٹا تھا یہ یہاں کیسے سالم حالت میں موجود ہے؟‘‘

    میں نے خود کلامی کے انداز میں کہا۔ پھر میں نے سوچا ہوسکتا ہے، شاید میں نے اسے تخیل میں کاٹا ہے۔۔۔ یہ وقت سوچنے کا نہیں تھا اور ظاہر ہے اس بال کو میں، بھلے سے تخیل میں ایک بار کترکتر کرکاٹ چکا تھا لیکن دوبارہ کاٹنا اور یہاں گڑنا حماقت تھی۔ وہ اس لئے کہ بالفرض میں دوبارہ وہی عمل دہرا بھی دوں،۔۔۔ پورے ہوش حواس میں۔۔۔ پھر بھی یہ احتمال تھا کہ شازیہ کو ڈسٹ بن خالی کرتے ہوئے یہ بال سالم مل جائے۔۔۔ قیامت آجائے صاحب۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ بال مجھے ہی سالم ملا ورنہ شازیہ۔۔۔ میں نے ماتھے سے پسینا پونچھا۔

    اگلے لمحے میں نے بال احتیاط سے مو چنے سے اٹھایا اور اسے اپنی پتلون کی جیب میں اڑس لیا۔ چونکہ ممکنہ خلش کا محرک اب میرے قبضے میں تھا تو مجھے اطمینان ہوا کہ چلیں بال کسی وجہ سے تلف تو نہیں ہوسکتا لیکن معاملہ تو قابو میں ہے اور میں شام تک اس کا کوئی نہ کوئی حل نکال ہی لوں گا۔ ناشتہ کرکے اور ایک الوداعی بوسے کے ساتھ میں گھر سے نکل آیا۔۔۔ جان میں جان آئی۔

    دفتر پہنچا تو میں نے دیکھا کہ ایک بہت ہی گرم قسم کی سیاسی بحث جاری تھی۔ ایک بڑا جھتہ سپریم کورٹ اور صدر صاحب کے حق میں تھا اور دوسرا دبی دبی آواز میں مخالف۔ میں جو عموما اس قسم کی بحثوں میں ہمیشہ حصہ لیتا رہتا ہوں اس دن کسی بہانے اس سیاسی مجلس میں نہیں بیٹھا بلکہ اپنے کمرے میں آگیا۔ میزپر بہت سارا کام کرنے کو پڑا ہوا تھا لیکن میرا خیال اس بال میں الجھا ہوا تھا جس کا ایک سرا کند اور دوسرا بچھو کے ڈنگ کی طرح تیز تھا۔

    میں نے بال اپنی پتلون کی جیب سے نکالا اور اس سفید اے۔ فور کاغذ پر پھیلایا لیکن جب دیکھا کہ وہ ایک کاغذ کے دامن میں سمٹنے میں نہیں آرہا تو اس کے ساتھ بہت احتیاط سے ایک اور کاغذ کا کندھا ملایا اور اب جو ماپا تو بال دیڑھ کاغذلمبا تھا، تقریبا۔

    میں نے دراز سے ایک محدب عدسہ نکالا اور اس کا تفصیلی معائنہ کیا۔۔۔ بالکل تفشیشی انداز میں جیسے میں پا سپورٹ کے دستخط کو دیکھتا ہوں۔۔۔ محدب عدسے کے باوجود میں ان خدوخال میں زیادہ اضافہ نہ کر سکا جو میں نے مدھم روشنی میں دیکھے تھے۔ ہاں میں نے یہ ضرورو دیکھا کہ اس کا کٹا ہوا سرا، دو سرا تھا۔ میں بال کو گھما پھر کر دو دائروں کی شکل دے دی کیونکہ میں نہیں چاہتا تھا کہ کوئی اس کو دیکھے اور میرے بارے میں خدا جانے کیا تصور کر بیٹھے۔۔۔ مجھے بار بار خیال آیا کہ یہیں دفتر میں اسے بعینہی اس انداز سے کتر کتر کر کاٹوں، دھیان سے اور پھر ایک کاغذ پر لکھوں کہ میں نے اسے یعنی بال کو تلف کر دیا ہے۔ اس سے میں اپنے آپ یہ باورتو کرا سکتا ہوں کہ یہ مافوق الفطرت بال نہیں اور بہ ہوش وحواس کاٹا جاسکتا ہے۔

    پھر میں نے سوچا کہ میں ذیادہ یقین کے لئے ’’اسے‘‘ کی بجائے ’’بال‘‘ بھی لکھ سکتا تھا لیکن حفظ تاقدم کے طور پر کہ اس سے راز افشا نہ ہوجائے میں نے ’’اسے‘‘ لکھنے پر اکتفا کی۔ اس سے مقصد یہ تھا کہ ایک تحریری ثبوت کی موجودگی میں بھول چوک کا عنصر زائل ہوجاتا اور میں وثوق سے کہہ سکتا تھا کہ میں بال کاٹ چکا ہوں۔

    اس میں البتہ ایک قباحت بھی تھی اور وہ یہ کہ ’’اسے‘‘ جو ایک بالفعل ایک عمومی لفظ ہے، سے کچھ بھی مراد لیا جا سکتا ہے اور یہ امکان تھا کہ میرے دل میں یہ شک دوبارہ جڑ پکڑ لے کہ آیا یہ ’’اسے‘‘ بال ہی تھا یا کچھ اور۔ میں نے بال کاٹنے کا ارادہ ترک کر دیا اور لکھا رقعہ ترور مروڑ کے ڈسٹ بن میں پھینک دیا۔ پھر کچھ سوچ کے اسے نکالا اور اسے کتر کتر کے کاٹا اور دوبارہ ڈسٹ بن میں ڈال دیا۔

    ایک بال بیٹھے بٹھائے میرے لئے وبال جان بن گیا اور جب کچھ عملی ترکیب سمجھ میں نہ آئی تو سوچا زبیر سے مل لوں اور اسے پوری بات بتاوں۔ میں دفتر سے پہلے نکل آیا۔ میں نے سوچا یہ سارا مسئلہ زبیر سے ایک مرتبہ بیان کروں دیکھئے تو وہ کیا مشورہ دیتا ہے۔ مین نے بال دو کاغذوں میں تہہ کرکے اور زبیر کے پاس جانے کی ٹھانی۔

    زبیر میرا پرانا دوست تھا اور بنگلور ٹاون میں فرنیچر کے بزنس کا مالک تھا۔ خاصا جہاندیدہ آمی تھا اور مجھے تو مجھ سے ذیادہ سمجھتا تھا۔ جب میں نے اسے یہ ساری بات بتائی تو اس نے پہلے تو مجھے خاصا کریدا،

    ’’کہیں بھی، کہیں ایسا تو نہیں کہ تم۔۔۔ میرا مطلب ہے۔‘‘

    ’’یار میں بہت احتیاط کرتا ہوں، ہر چیز میں، تم تو شازیہ کو جانتے ہی ہو میں بھلا ایسا کیوں کرنے لگا کہ کسی بھی طرف سے اسے شک ہوجائے۔‘‘

    ’’اچھا یہ بتاو تمہارے دفتر کی ان تین لڑکیوں کے علاوہ۔۔۔‘‘

    ’’میں فارمیسی کی ایک لڑکی کو جانتا ہوں لیکن وہ صرف سلام دعا کی حد تک۔۔۔ ہے وہ خاصی خوبصورت، گول گول آنکھیں۔۔۔ دبلی پتلی۔۔۔ ہر لحاظ سے آئیڈئیل عورت ہے، مجھے بڑے لگاو سے دیکھتی ہے۔۔۔ اگر میری شازیہ سے شادی نہ ہوئی ہوتی تو۔۔۔ خیر میں شازیہ کے ساتھ خوش ہوں۔‘‘

    ’’یار برا نہ منانا، ہر آدمی کا بال بال گناہ گار ہے۔۔۔ کہیں نیپئر روڈ۔۔۔‘‘

    میں نے اس کے سوال سے پہلے اس کا سوال بھانپ لیا،

    ’’زبیر کبھی بھی نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ میں دفتر گھر دفتر قسم کا ادمی ہوں، تم جانتے ہو یہ۔ میں کیوں بھلا اپنے گھر بیماریاں لاتا پھروں اور یہ میری کلاس بھی نہیں۔۔۔ رقم بھی خاصی لگتی ہے ان معاملات میں۔۔۔ تم سمجھ رہے ہو۔‘‘

    ’’یار میں سمجھوں یا نہیں۔۔۔ تم معاملے کی نزاکت نہیں سمجھ رہے ہو۔۔۔ خیر مجھے بال دکھاو۔‘‘

    میں نے پتلون کی جیب میں ہاتھ ڈالا اور احتیاط سے تہہ شدہ دونوں کاغذ کھول کے اسے دکھائے لیکن بال ندارد۔ میں نے دوبارہ ٹٹول کر دیکھا اور آخر میں کندھے اچکاے۔ اس نے بھی کندھے اچکائے اور مجھے ایسے لگا کہ جیسے اسے اب تک کے قصے پر شک سا ہوگیا۔ میں نے اسے قسم کھاکر یقین دلایا کہ بال یہیں ہی تھا۔

    ’’چلو جہاں بھی تھا تمہارہ مسئلہ تو حل ہوگیا۔ کوٹ اتارو ریلکس ہوجاو۔ چاینیزمنگواتے ہیں۔‘‘

    میں نے کوٹ اتار دیا تو بال میری جیب کے ساتھ چپکا ہوا تھا اور میں نے زبیر سے کہا،

    ’’لیجئے صاحب، پیش خدمت ہے وہ جس کی آپ کو طلب تھی۔۔۔ یار میں کہہ رہا تھا کہ میں سچ بول رہا ہوں اور آپ۔۔۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے، ٹھیک ہے ذرا دکھاو۔‘‘

    اس نے باریک بینی سے اسی بال کا مشاہدہ کیا اور تقریبا وہی نتایج اخذ کئے جو میں اس کو بتا چکا تھا۔ مجھے یہ سمجھ نہیں آیا کہ بال کاغذوں کہ تہہ سے جیب تک کا فاصلہ کیسے پھلانگ گیا؟ اب مجھے یاد نہیں لیکن میں نے فورا یہ ایک طرح سے گھڑ لیا کہ کہ شاید وہ دونوں تہہ شدہ کاغذات میں نے پہلے اپنے اوپر کی جیب میں ڈالے تھے سو اس وجہ سے وہ اس سے پھسل گیا ہوا اور ویسے بھی بال اور شرٹ کے کپڑے میں ایک طرح کی برقی کشش تو ہوتی ہی ہے۔۔۔ یہ توضیح مجھے قابل قبول ضرور لگی لیکن اس پر حتمی ایمان میرا اب بھی نہیں تھا اور مجھے ایسا لگا کہ کوئی سحر یا تعویذ قسم کا معاملہ ہے اور اس سے میرے اوپر خوف سا طاری ہوا۔

    میں نے زبیر کو بار بار بتایا لیکن اس نے پھر بھی مجھے ایک طویل لیکچر دیا کہ بیوی سے باہر کے معاملات کو کیسے چھپاتے ہیں، کیسے کالر پر لگی لپس سٹک کو مٹاتے ہیں اور زنانہ خوشبو کو کیسے مدھم کرتے ہیں۔ میرے لئے اس کی کوئی اہمیت نہیں تھی کیونکہ میں اس معاملے میں شازیہ کے ساتھ بہت وفادار تھا ہاں یہ تھا کہ میری نگاہیں مشکل میں تھیں۔

    چائینز کھانے کے بعد میں نے شازیہ کو فون کیاوہ شام کا کھانا نہ بنائے۔ ہم بہت دیر تک بیٹھے مختلف موضوعات پر باتیں کرتے رہے۔ موضوعات خیر کیا تھیں کچھ غیر سیاسی اور کچھ سیاسی باتیں اور لڑکیاں۔ اس نے دو گلاس نکال کر صاف کئے اور سافٹ ڈرنک سے پر کئے۔

    باتوں باتوں میں زبیر نے لائٹر نکالا اور ہاتھوں کے اشارے سے مجھ سے بال مانگ کر، اسے غور سے دیکھا اور پھرجلادیا۔۔۔ بال آگ کی حدت سے تاو کھانے لگا اور ایک احتجاجی شور سے خاکستر ہوگیا۔ اس کے جلنے کی عجیب سی بدبو تھی۔۔۔ مجھے اب پورا اطمینان ہوگیا کہ معاملہ دفن ہوگیا ہے۔

    اس کے بعد ہم دونوں دیر تک قہقہے لگا کر ہنستے رہے، دیوانوں کی مانند۔ ہنستے ہنستے یکایک میں نے دیکھا کہ زبیر کے گلاس میں بھی بال تھا، لب جام سے تہہ جام تک۔ میں نے کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کہ مجھے احساس ہوا کہ کہیں ایسا نہ ہو وہ اسے بدتمیزی سمجھے سو چپ رہا۔

    میں گھر کافی لیٹ آیا اور اس دن شاہرا ہ فیصل پر واقعی بہت بھیڑ تھی۔ میرے دماغ پر اب تک وہی بال سوار تھاجو اب جل کر خاکستر ہوچکا تھا لیکن ظاہر ہے میں باوجود کوشش کے اسے اپنے دماغ سے جھٹک نہ سکا اور نہ ہی میرے پاس اس بال کی میرے جیب یا کوٹ پر موجودگی کی کی کوئی قابل قبول وجہ تھی۔ خیر بال جہاں سے بھی آیا تھا، معاملہ ختم ہو چکا تھا۔

    گھر میں داخل ہوا تو دروازے کے ساتھ شازیہ کھڑی مسکرا رہی تھی۔ میں نے ایک مصنوعی مسکراہٹ چہرے پر سجا لی اور اسے کچھ فائلیں پکڑائیں۔ میں جلدی سے بیڈ روم جاکر لباس بدلنا چاہتا تھا۔

    ’’آپ نے کچھ نوٹ ہی نہیں کیا؟‘‘

    میں نے اس کی طرف دوبارہ دیکھا،

    ’’کیا؟‘‘

    اس نے اپنے بالوں کی طرف اشارہ کیا۔ میں نے دیکھا کہ اس نے اپنے بال ہایڈروجن پر اوکسائڈ سے رنگے ہوئے تھے سنہرے، چمکدار۔ اس نے انتہائی چست قسم کا لباس پہن رکھا تھا جس میں اس کا انگ انگ نمایاں تھا۔ اسے دیکھ کر میرے دل کی دھڑکن خاصی تیز ہوئی۔ میں نے دل سے اس کی ستائش کی اور اس کی تعریف میں دو ایک شعر بھی کہے۔ وہ اتنی خوش ہوئی کہ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور میرے قریب آکر میرے کندھے پر سر رکھ دیا اورآئی لو یو اور آئی مس یو سو مچ بار بارکہتی رہی۔

    جب شازیہ نے اپنا سر اٹھایا تو میں نے اس کی آنکھوں میں ٹمٹماتے آنسو جھل مل کرتے دیکھ لئے۔ میں نے اسے تسلی دی اور اس کے گال چوم کر خجالت بھرا چہرہ لئے کمرے میں آیا۔ میں نے لباس تبدیل کیا اور شرٹ کی طرف دیکھا تو وہ وہاں اب بھی ایک بال تھا، الجھا ہوا نہیں، بالکل سیدھا، اور پورا کا پورا ہائڈروجن پر اوکسائڈ میں رنگا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے