وزیٹنگ کارڈ
”اب اِس لاش کا کیا کریں؟“
اس نے نفرت بھرے لہجے میں تاؤ کھاتی ناگن کی طرح پھنکارکرکہا۔
مجھے اس کا کچھ جواب نہ سوجھا۔
میں تو بلکہ اس لمحے کے بارے میں سوچنے لگا جب اس پرمیری پہلی نظر پڑی تھی۔
یہ سن چھیالیس کی بات ہے جب میری تیسری بڑی پینٹنگ ایگزیبیشن تھی جو دلی میں میو نسپل کارپوریشن کے دفتر میں تھی۔ ہال تمباکو کے دھوئیں اور قہقہوں میں ڈوبا ہوا تھا اور میر دل بلیوں اچھل رہا تھا۔ کلکٹر صاحب فیملی کے ساتھ آ کرجا چکے تھے۔ کئی گورے اور متعددمیمیں تصویروں میں از حد دلچسپی لے رہی تھیں۔
میں ایک گورے نقاد کو ورما کی”شکنتلا۔“ کی نقل دکھاہی رہا تھا کہ عین اسی لمحے دروازہ کھلا۔۔۔ وہ سیماب صفت اندر آئی۔
اس کے لئے ہال کا بڑا دروازہ جیسے آپ ہی آپ کھلا اور اس کے قدموں کی تال کے ساتھ رقص کرنے لگا۔ وہ اند رکیا آئی مجھے یوں لگا جیسے وقت تھم گیا ہو، سب لوگ ساکت ہوگئے ہوں مگر دیواروں پر لگی تصویروں میں جان پڑ گئی ہو۔
وہ نسبتاً لمبے قد اور باریک نقوش والی اِنتہائی جاذب نظر خاتون تھی اور اس دن اس نے ہلکے گلابی رنگ کی جارجٹ کی ساڑھی پہنی ہوئی تھی جس کا چست بلاؤز اس کے گورے بدن کو ڈھاپننے میں تقریباً ناکا م تھا۔ پہلے تو مجھے یوں لگا کہ وہ سیدھی میری طرف ہی آ رہی ہے۔ میں نے دھک دھک کرتے دل کے ساتھ سانس اندر کھینچی، منتشرحو اس بحال کئے تاکہ اسے بہتر طور پر اپنی طرف راغب کرسکوں لیکن پھر شاید اس کووہاں اپنی کوئی جاننے والی مل گئی۔۔۔ وہ رک گئی۔۔۔ اسے بھیڑ میں بازو سے کھینچ کر ایک طرف کونے میں لے گئی۔
دور سے مجھے یوں لگا جیسے وہ دونوں آپس میں کوئی ناراضگی مٹا رہی ہوں۔
اسے اپنی طرف متوجہ نہ پا کر میرے دل کی دھڑکن مزید بے ترتیب ہوگئی۔ میں نے شِری بینرجی سے کچھ تصویروں پر تبادلہئ خیالات شروع تو کیالیکن میرا دل کہیں اور تھا، توجہ بٹ چکی تھی۔ میں نے دل ہی دل میں اس سے بات کرنے کی ٹھان لی اور پھر جیسے انجان بن کر، کھسکتے ہوئے اور لوگوں کی بھیڑ پرگویا تیرتے ہوئے اس کے قریب پہنچا۔ میری موجودگی سے بے خبر، وہ دوسری لڑکی کے ساتھ، جو بس قبول صورت ہی تھی، آنے والی کسی شادی میں ساڑھی کے رنگ کے انتخاب پر گفت وشنید میں مصروف تھی۔ میں نے انتہائی غیر محسوس انداز میں دونوں کے پہلو میں پہنچ کرآہستہ سے گلا کھنکار ا،
”آر یو بوتھ کمفر ٹیبل ہیر؟، بائی دا وے آئی ایم نبیل، آئی ہیو آرگنائزڈ دِس ا یونٹ۔“
”ارے نبیل صاحب آپ؟ بڑی خوشی ہوئی آپ کی ایگزیبیشن دیکھ کر۔ بہت بڑھیا کام کرتے ہیں آپ۔ میرا نام مالا ہے اور یہ ہے میری سہیلی بِملا۔“
پھر دونوں نے ہنستے ہوئے بیک زبان کہا،
”یو لک ینگر دن یور پکچر آوٹ سائڈ، وی آرامپریسڈ مسٹر نبیل۔“
میں نے ذراجھک کر اور مسکرا کر اپنے بارے میں ان کے تعریفی کلمات کو سراہا اور ساتھ ہی اپنا وزیٹنگ کارڈ ان کو تھما دیا۔ میں نے دل میں یہ باندھا کہ تھوڑی دیر بعد اس سے دوبارہ ملنے کا کوئی بہانہ کروں گا لیکن میں کچھ ایسا الجھ گیا کہ ہوتے ہوتے ایگزیبیشن ہی ختم ہوگئی۔
لو گ آہستہ آہستہ سرکتے گئے اور ہال خالی ہوگیا۔ میری اس سے دوبارہ ملنے کی کوشش، شدید خواہش کے باوجود بھی بار آور ثابت نہ ہوسکی۔ میں نے ہال کے بلند دروازے کو کئی مرتبہ دیکھا۔ شاید وہ کوئی چیز بھول گئی ہو۔۔۔ کسی تصویر کی قیمت یامصور کے بارے میں پوچھنے کے لئے دوبارہ واپس آجائے۔
شام ہوگئی۔ میں نے بچی کھچی تصاویر اسسٹنٹ کو دیں کہ انہیں مکر جی کے ہاں چھوڑ آئیں اور گھر چلا آیا۔ وزیٹنگ کارڈ پرفون نمبر تھا اور میں نے اسی امید پر تین دن انتطار کیا کہ وہ رابطہ کرے گی لیکن اس کا فون نہیں آیا۔ اس کے باوجود بھی میں اس کا خیال دل سے کھرچ نہ سکا، وہ میرے حواس پر چھائی رہی۔
اچانک ملک کی سیاسی فضا میں کشیدگی آئی۔ ر است اقدام کے ساتھ ہی بٹوارے کا سفر تیزہوگیا اور ساتھ ہی ساتھ ملک بھر میں تناؤبھی بڑھ گیا۔ کلکتہ میں ہزاروں جانیں گئیں لیکن مجھے اس کا ایک فائدہ ہوا۔۔۔ مالا مجھے دسمبر میں دوبارہ ایک نیم سیاسی تقریب میں ملی جو بنگال اور بہار کے ہندو مسلم فسادات جیسے واقعات کے سد باب کے لئے منعقد کی گئی تھی۔ میں ایسی محفلوں سے دور بھاگتا ہوں لیکن چونکہ وہ تقریب کمال رضوی صاحب اور شِری رام چرن نے مل کر منعقد کروائی تھی اور یہ دونوں کسی زمانے میں میرے سرپرست رہے تھے، سوان کو خوش کرنے کے لئے مجھے وہاں جانا ہی پڑ ا۔
مجھے دیکھ کر وہ جیسے کِھل اٹھی یا شاید ہم دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کرکِھل اٹھے۔۔۔ یہ تعین کرنا مشکل تھا۔ یہ غیر متوقع ملاقات البتہ میرے لئے ایک قسم کا بہانہ بن گئی کہ میں دوبارہ اس سے رابطہ جوڑوں۔ اس دن اس نے سیاہ رنگ کی ساٹن کی ساڑھی پہنی ہوئی تھی جو اس پر بہت جچ رہی تھی۔ لوگ اسے گھور گھور کے دیکھ رہے تھے اور میری نظر یں بھی اس کے کٹیلے بدن میں پیوست تھیں۔ اس نے مجھے پہچاننے میں ذرا بھی دیر نہ لگائی اورقدرے اونچی اور شوخ آواز میں کہا
”نبیل صاحب اِن سے ملیے یہ ہیں میرے مسٹر، رندھیر چوپڑا اور یہ ہیں نبیل صاحب، میں نے بتایا تھا ناڈارلنگ اس ایگزیبیشن کا جس میں بِملا میرے ساتھ تھی۔“
چوپڑا صاحب لمبے قد کے خوش پوش اور جنٹلمین قسم کے مرد تھے۔ پتلی مونچھیں، باریک قلمیں، نئے فیشن کی صاف کوٹ پتلون پہنے اور یک چشمی عینک لگائے ہوئے وہ با سلیقہ قسم کے آدمی معلوم ہوتے تھے۔ جب میں نے غور کیا تو وہ مجھے کچھ سن رسیدہ سے دکھائی دئیے، یہی ساٹھ سے کچھ اوپر۔۔۔ میں نے ایک لمحے کے لئے سوچا کہ شاید یہ ان کے پتا جی ہونگے۔
”میرے مسٹر، مطلب؟“
میں نے مصنوعی مسکراہٹ چہرے پر سجائی اور جواب جانتے ہوئے بھی شوخی سے پوچھا،
”ارے ہاں، میں اِن کی مسز ہوں تو یہ میرے مسٹر ہوئے۔“
اگر چہ مجھے اندازہ تھا لیکن پھر بھی یہ انکشاف میرے لئے ایک دھماکے سے کم نہیں تھا۔ تعلق، راہ ورسم اور آگے جانے کے تمام ر استے جیسے یقینی طور پر مسدودہوتے دکھائے دئیے۔ میں نے اپنے تاثرات کو چھپایا اور ایک طرح سے چوپڑا صاحب سے خندہ پیشانی سے ملا اور ان کو اپنا وزیٹنگ کارڈ بھی دیا جس کے جواب میں انہوں نے بھی مجھے اپنا کارڈ تھمایا۔ میں نے اسے پلٹ کر دیکھا۔
”میجر (ریٹائرڈ) رندھیر چوپڑا، ایکس ایڈم آفیسر فرسٹ پنجاب رجمنٹ۔“
”میجر صاحب آپ تو پہلی جنگ عظیم کے ہیرو ہیں۔ فرسٹ پنجاب تو شیر دلوں کی رجمنٹ تھی۔ عراق میں تو آپ کی یونٹ نے کمال ہی کردیا تھا، واہ واہ، مجھے بڑی خوشی ہوئی آپ سے مل کر۔“
مجھے جنگ اور فوج سے تو خیر کیا دلچسپی ہونی تھی لیکن اس بات کا یوں پتہ تھا کہ صوبیداربہادر سنگھ، جو میرا پکا گاہک تھا، کسی زمانے میں فرسٹ پنجاب میں رہا تھا اور اس کے طولانی فوجی قصے سن سن کر میرے کان پک گئے تھے۔ آج ان معلومات کا کچھ مصرف بھی نظر آیا سو داغ دیں۔
اس نے شستہ انگریزی میں کہا،
”ہاں میں 62 پنجاب میں 1914 میں میسوپٹیمیا کے محاذپر لڑا ہوں، بے جگری سے۔“
پھر پتہ نہیں وہ کیا کیاکہتا رہا لیکن تمام فوجیوں کی باتیں ایک جیسی ہوتی ہیں: میری یونٹ، کمانڈنٹ، وردی، ایڈجوٹنٹ، راشن، قوت، بندوق، پروموشن، یہ جنگ وہ جنگ، پوسٹنگ۔ مجھے اس کی بے مزہ کہانیاں سنتے ہوئے صرف سر ہلانا پڑاکیونکہ میرا دماغ کہیں اور تھا۔ آپ جانتے ہیں کہاں!
رات کو میں دیر تک اسی وزیٹنگ کارڈ کو الٹ پلٹ کر کئی زاویوں سے دیکھتا رہا۔ نام کے نیچے ان کے گھر کا پتہ تھا اور ساتھ ہی فون نمبر۔ میں پیگ کی چسکیاں لیتے لیتے تقریبا ایک بوتل چڑھا گیا۔ مجھے یکبارگی ایک خیال سوجھا لیکن اس کو عملی جامہ نہیں پہنا سکا۔۔۔ میرے اوپر نیند غالب آنا شروع ہوگئی۔
نیند کی وادی میں اترتے ہوئے میرے ذہن پر یہ خیال چھایا رہا کہ کیا بد قسمت لڑکی ہے مالا، بیس بائیس برس کی اچھی بھلی خوبصورت نین نقشے والی جاذب نظر لڑکی، جس کے نخرے اٹھانے والے ہزار وں لوگ اس پر مر مٹیں۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ وہ کیوں اس بڈھے کھوسٹ کی بغل میں ہے؟ جیسے راکشس کی قید میں پری۔ میں نے سوچا ہو نہ ہویہ بڈھا اس کی زندگی میں زہر گھول رہا ہے، سکھ کا ایک بھی سانس نہیں میسر اس کامنی صورت جل پری کو۔۔۔ اس طرح تو یہ گھٹ گھٹ کے مر جائے گی۔
میں نے نیم غنودگی کی حالت میں سوچا کہ اسے تو کسی جوان اور خوبصورت مرد کے پہلو میں ہونا چاہیئے تھا، جو اس کی تعریف کرتا، اسے بانہوں میں اٹھاتا، اس کی باتیں سنتا اور اس کے خوبصورت اور رسیلے ہونٹوں کو۔۔۔ کیا حسن۔۔۔ دلآویز خطوط۔۔۔ ہونٹ۔۔۔ جسم۔۔۔ میں سو گیا۔
اگلے دن زور کی بارش ہوئی اور مجھے یوں لگا جیسے مجھے فلو یا کوئی موسمی بخارہوگیا ہو۔ میں آتش دان کے سامنے صوفے پر بیٹھ گیا۔ میں نے کارڈ دوبار ہ ہاتھ میں پکڑا اور سوچا کہ اس کارڈ کا مالا کے ساتھ کچھ تو تعلق ہے کہ میرا دل اس کی طرف کھِچاچلا جاتا ہے۔
رات کی شراب نوشی کے باعث میرے ہاتھ میں ہلکا سا رعشہ تھا اور کچھ موڈ بھی ٹھیک نہیں تھا، عجیب سی بد مزگی تھی طبعیت میں، سو مزید شراب نوشی سے دِل کو بہلایا اور بے خیالی کی کفیت میں ایک مرتبہ پھر کارڈ کو الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا۔ گاہے گاہے اس کو سونگھ کر لطف اٹھایا، کبھی دِل پر رکھا اور ایک موقع پر اس کے بارے میں سوچتے ہوئے میں کچھ اتنا جذباتی ہوگیا کہ میں نے اُس کو اپنے گالوں سے مس کیا۔۔۔ پھر میں نے ایک مشکل فیصلہ کیا،
”ہیلو کو ن بول رہے ہیں؟“
اس کی آواز ایسے آئی جیسے جلترنگ بج اٹھیں،
”مسز چوپڑامیں نبیل بول رہا ہوں۔“
”نبیل صاحب آپ؟ آپ کو یہ فون نمبر کیسے ملا؟“
اس نے قدرے شک اور تردد والے لہجے میں ذرا ٹھہر ٹھہر کر کہا،
”مالا جی مجھے یہ نمبر چوپڑا صاحب کے وزٹنگ کارڈپر ملا۔ یاد ہے انہوں نے پارٹی میں مجھے اپنا کارڈ دیا تھا۔ آپ کو تو یاد ہی ہوگا ہم دونوں ملے تھے، آپ نے سیاہ رنگ کی ساٹن کی چست ساڑھی۔۔۔“
”ہاں وہ سب ٹھیک ہے، یادآیا لیکن ابھی رندھیر جی گھر پر نہیں ہیں۔“
اس نے بات کاٹ کر جذبات سے عاری خشک لہجہ اپنایا،
”میں جانتا ہوں کہ وہ گھر پر نہیں ہیں، اس لئے تو فون کیا ہے۔ میں صرف آپ ہی سے بات کرنا چاہتا ہوں۔۔۔ صرف آپ سے۔“
”مجھ ہی سے؟ وہ کیوں نبیل صاحب؟“
”اس لئے کہ آپ نے مجھے رِنگ ہی نہیں کیا۔“
”نبیل صاحب وٹ ڈو یو مین؟ واے وڈ آئی کال یو۔“
”شریمتی جی آپ بن رہی ہیں، آپ کو اچھی طرح پتہ ہے کہ میں نے کس لئے فون کیا ہے۔“
میں نے سیدھا تیر داغ دیا اور وہ نشانے پر لگا۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ اس نے مجھے ہفتے میں سے دو دن ایسے بتائے جن میں میں اس سے بلا جھجھک بات کر سکتا تھا کیونکہ میجر صاحب اس دوران اپنے دوستوں کے ساتھ برج کھیلنے جاتے تھے۔
مالا لکھنو کی تھی لیکن پلی بڑھی دلی میں تھی اور بڑے ہی مزے کی چیز تھی۔ اس کو مہا بھارت، اور اس قسم کی دیو مالائی چیزوں کا علم تو تھا ہی لیکن ساتھ ساتھ پینٹنگز اور اردو ادب سے بھی بہت لگاو تھا۔ وہ ایک ابھرتے لکھاری سعادت حسن منٹو کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتی تھی۔ زبانوں میں اسے انگریزی اور فرانسیسی پر پورا عبور تھا اور اس کے علاوہ اسے موسیقی اور مجسمہ سازی سے بھی لگاو تھا اور جیسے بعد میں یہ بات کھلی کہ وہ مجھ پر پہلی نظر میں اس لئے مر مٹی تھی کیونکہ میری شکل راج کپور سے ملتی تھی۔
خیر ہماری ملاقاتیں ہونے لگیں جس میں کچھ اس کی دوست بِملا کے ہاں اور کچھ ریس کورس کلب، لیکن وہ میرے گھر آنے سے کترا رہی تھی۔ ادھر میں بھی تعلق کی اگلی سیڑھی کیلئے جلدی میں بالکل نہیں تھا۔ اسے متاثر کرنے کے لئے البتہ مجھے بہت کچھ پڑھنا پڑتا تھا اور یہ دکھانے کے لئے کہ میں ان موضوعات میں، جن میں اس کا مطالعہ وسیع تھا، اناڑی ہوں، بننا بھی پڑتا تھا اور یوں دھیرے دھیرے میں اس کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوگیا کہ میں ایک بے ضرر قسم کا آدمی ہوں۔
ایک دن اس نے انتہائی گھبرائے ہوئے لہجے میں مجھے بتایا،
”رندھیر کو ہلکا سا بھی سندھے ہوگیا تو وہ ہم دونوں کو جان سے مار دے گا۔ آپ اسے نہیں جانتے وہ بڑا کمینہ آدمی ہے۔ اس کے پاس اس کا پستول ہر سمے موجود رہتا ہے جسے اس نے کئی بار میرے اوپرتانا بھی ہے۔ میں اس کے غصے سے بہت ڈرتی ہوں، وہ پاگل ہوجاتا ہے، یو ڈونٹ نو ہِم۔“
مجھے ان دونوں کے پیچیدہ تعلقات کا سن کر ایک طرح سے بڑی خوشی ہوئی کیونکہ اسی چور دروازے سے مجھے مالاسے قربت بڑھانے کا موقع مل سکتا تھا۔ بات صرف اتنی تھی کہ کسی طریقے سے اس کو بس ہمت دینی تھی۔ مظلوم عورت تو گھائل شیرنی ہوتی ہے، اس میں ہمت آجائے تو بڑے بڑے سور ماؤں کو چت کرجاتی ہے۔ اسے رندھیر کے سامنے کھڑے ہو کر بس یہ کہنا تھا،
”آئی ڈونٹ کیر، اینڈ آئی وانٹ ٹو لِو مائی لائف مائی وے۔“
ایک دن رات کو اس کا رنگ آیا۔ وہ بہت گھبرائی ہوئی تھی اور اس نے مجھ سے کہا کہ میں ابھی اس کے گھر آجاؤں۔ میں نے رندھیر کا پوچھا تو لمبا سانس لیا،
”ہی از نوٹ ہیر، ہری اپ پلیز جسٹ کم نا۔“
گھبرائی عورت کو تسلی دینے کا خوش کن موقع دیکھا تو میں نے گاڑی نکالی اور سخت بارش میں ان کے گھر کی طرف چلا۔
جب میں وہاں پہنچا تو کافی رات بیت چکی تھی اور ان کی کوٹھی کا گیٹ کھلا ہوا تھا۔ میں نے موٹر باہر درخت کے نیچے کھڑی کی، بارش سے بچتا بچاتا تیزی سے ان کی کوٹھی میں داخل ہوا۔ اندر کا دروازہ بھی کھلا ہوا تھا جس سے گزر کر میں نے اپنے آپ کو ایک بڑے لمبے چوڑے ہال میں پایاجس کے دائیں بائیں کمرے تھے جن میں ایک شاید ان کا ڈراینگ روم تھا اور پھر دائیں جانب ایک طرف شاید سٹڈی بھی تھی لیکن میرا ہدف وہ کمرہ تھا جس سے مالا کی آواز آرہی تھی۔
وہ زور زور سے کسی سے محو گفتگو تھی اور ساتھ ہی سسکیاں بھی لے رہی تھی۔
میں آگے بڑھا اور کمرے کے دروازے کو ہلکا سا دبایا تو وہ آپ ہی کھلتا گیا۔ اندر میں نے اسے فون پر باتیں کرتے اور آنسو پونچھتے دیکھا۔ جب اس کی نظر مجھ پر پڑی تو گھبرا کر فوراً فون رکھ دیا اور آگے بڑھ کرمجھ سے لپٹ کر رونا شروع ہوگئی۔ میں نے اسے تسلی دی تو اس نے مجھے ہال کی طرف کھینچا اور روتے ہوئے بتانا شروع کیا۔
میں نے محسوس کیا کہ اس کی گفتگو میں شراب نوشی کی وجہ سے ہکلاہٹ تھی۔
”نبیل صاحب آج رندھیر نے مجھے بہت ڈانٹا وہ بار بار آپ کا پوچھ رہا تھا۔ اسے پورا وشواس تھا کہ میں آپ کے ساتھ یعنی۔۔۔ میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ وہ اتنا گھٹیا ہو سکتا تھا۔ میں مکر گئی تو اس نے پہلے تو مجھے دھکا دیا اور پھرمارنا شروع کیا۔“
یہ کہہ کروہ ہچکیاں لینے لگی اور ساتھ ہی اس کی ساڑھی کا پلو سرک گیا۔
میں نے دیکھا کہ اس کے گورے بدن پر نیل ہی نیل تھے۔ مجھے اس کے جسم سے نظریں ہٹانے میں خاصی دشواری محسوس ہو رہی تھی۔
اس نے کندھا سہلاتے، غصے بھرے لہجے میں غراتے ہوئے بات جاری رکھی،
”اس کتے نے مجھے ذلیل کیا اور کہا کہ میں جو کچھ بھی ہوں اس کے کارن ہوں۔ اس نے میرے پتا جی کو بھی بہت برا بھلا کہا۔۔۔ ان کو بھکاری تک کہہ دیا۔ نبیل صاحب میں سنتی رہی لیکن پھر جب اس نے مجھے اور میری ماتا کو ویشیا کہا تو مجھ سے سہن نہیں ہو سکا اور میں نے کرودھ میں آ کر پھولدان اٹھا یا اور اس کے سر پر دے مارا۔ وہ گر کر تڑپنے لگا اور اس کی سانسیں اکھڑ سی گئیں۔“
وہ رک گئی اور اٹکتے لہجے میں کہا،
”آپ وشو اس کریں میرا آشے اس کی ہتیا کانہیں تھا۔“
اس نے زور زور سے سسکیاں لینی شروع کیں۔
مجھے جیسے جھٹکا سا لگا،
”مالا آر یو شور ہی از ڈیڈ؟ میرا مطلب ہے ہمیں انہیں ہسپتال لے جانے کی ضرورت تو نہیں؟“
اس نے میرے سوال کا جواب تو نہیں دیا لیکن مجھے کھینچ کر بغلی بیڈ روم میں لے گئی جہاں فرش پر شب خوابی کے لباس میں رندھیر اوندھا پڑا تھا، بغیر کسی حرکت کے، اکڑی ہوئی حالت میں اور عینک قریب ہی ٹوٹی پڑی تھی۔
میں نے جھک کر اس کی گردن کی نبض کو ٹٹولا جوغائب تھی۔ میں نے سیدھا لٹاکر اسے چھو کر دیکھا تو اس کا پورا جسم ٹھنڈا یخ تھا۔۔۔ اس کی پتلیاں چڑھی ہوئی تھیں اورسر پر داہنی طرف گہرے زخم کا نشان تھا جس کے ارد گرد خون لوتھڑوں کی شکل میں جم چکا تھا۔
یہ سب دیکھ کر مجھے اتنا اندازہ توہو گیا کہ اسے مرے ہوئے کافی وقت گذر چکا ہے لیکن یہ وقت اِس بات کا نہیں تھا کہ میں مالا سے اِن باتوں کی تفصیلات پوچھوں، یہ وقت تو اس کی مدد کرنے کا تھا۔
اِس غیر متوقع صورتحال میں میرا ذہن ایک ساتھ کئی تانے بانے بننے لگا۔ میں کسی ایسے لائحہ عمل کے بارے میں سوچنے لگا کہ وہ میری جھولی میں پکے ہوئے آم کی طرح آگرے اور معاملہ وہاں تک تب پہنچتا جب رندھیر کی لاش ٹھکانے لگتی۔
اس نے دوبارہ پوچھا۔
”اب اِس لاش کا کیا کریں؟“
میں یکدم چونکالیکن دوبارہ خیالات میں الجھ گیا۔
میں نے پھر سوچا کہ مالا ایک طرح سے رندھیر کو میرے لئے ر استے سے ہٹا چکی ہے اب اس کی لاش کو ٹھکانے لگاؤں تو میری دال گلے۔ وہ سالا گھٹیا بڈھا کھوسٹ ایک ہی وار میں گر کر ڈھیر ہوگیا ہوگا۔
میں نے ایک مرتبہ پھر اس کی نبض ٹٹولی اور پوری طرح سے تسلی کر لی کہ وہ بے ہوش نہیں بلکہ آنجہانی ہو چکا ہے تو پھرمالا کا سوال سامنے آیا
”لاش کا کیا کریں؟“
”میں اس کمینے بڈھے کی وجہ سے نرک میں تھی۔ یہ کرو یہ نہ کرو، کس سے ملوں کس سے نہ ملوں، کیا پہنوں کیا نہ پہنوں ہر جگہ روک ٹوک۔۔۔ میں تومانسک روگی بن گئی تھی۔ مجھے یہ کام بہت پہلے کر لینا چاہئے تھا لیکن ساہس ہی نہیں پڑی۔ اب کیا کریں؟ یہ کہہ دیں کہ سیڑھیوں سے گرگیا، اس کو ہارٹ اٹیک ہوگیا۔ ہائے بھگوان مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آرہا۔۔۔ آپ ہی کچھ بتائیں کیا کریں؟آپ بولتے کیوں نہیں؟“
وہ بار بار سسکیاں لے کر بے ربط انداز میں میرا بازو پکڑ کے مجھے بتاتی رہی لیکن میرا ذہن کچھ اور کھچڑی پکا رہا تھا
”میں صرف آپ کے ساتھ جیون بتانا چاہتی ہوں، میرے لئے اِس سنسار میں صرف تم ہی ہو۔“
یہ کہتے ہوئے وہ میرے قریب آگئی اور اس نے اپنا سر میرے کندھے پر رکھ دیا۔
جب وہ آپ سے تم پر آگئی تو میں نے بھی اسے اپنے قریب کیا اور اس کے بدن کی حرارت کو اپنے اندر محسوس کیا۔ وہ میرے سینے پر اپنا سر رکھے کچھ دیرتک اتنی شدت سے روتی رہی کہ میری شرٹ بھیگ گئی۔ دھڑکتے دل کے ساتھ میں نے اسے کافی تسلی دی اور اسے کرسی پر بٹھایا۔ اسے ایک پیگ بنا کے دیا اور ایک اپنے لئے اورجب اس کے حو اس قدرے بحال ہوئے تو میں نے سنجیدہ لہجے میں کہنا شروع کیا
”مالاجو ہونا تھا وہ ہو چکا، رندھیر ایک برا آدمی تھا۔ وہ اپنے انجام کو پہنچ گیااور اس نے جو بویا وہی کاٹا۔“
میں نے مالاکی تائید میں کچھ ابتدائی جملے کہے جس سے مجھے یہ لگا کہ اسے کچھ تسلی سی ہوئی
”لیکن مالا یہ لاش اب ایک بہت بڑاسنکٹ ہے۔ اب ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ آپ ہی مر گیا۔ اس کے سر پر نشان اور جس زاوئیے سے یہ چوٹ لگی ہے۔۔۔ صاف دکھائی دیتا ہے کہ یہ سیڑھیاں گرنے سے نہیں۔۔۔ بلکہ۔۔۔“
میں نے رک کر اس کی آنکھوں میں دیکھا۔
”مالا اس کا اندازہ تو احمق ترین پولیس والے کو بھی منٹوں میں ہوجائے گا کہ اس کی موت گرنے سے نہیں بلکہ کاری ضرب لگنے سے ہوئی ہے اور پھر کڑیاں ملانا۔۔۔ وہ تو اس کے لئے بالکل مشکل نہیں ہوگا۔“
یہ کہہ کر میں نے دوبارہ اس کی آنکھوں میں دیکھا۔
”مالا ایک بات توطے ہے، پولیس جب بھی تفتیش کرے گی پہلا شک تم پر ہی ہوگا۔ مجھے لگتا یہ ہے کہ تم لامحالہ پکڑی جاو گی۔“
میں نے تسلی آمیز لہجے میں بات جاری رکھی،
”لیکن گھبرانے کی بات نہیں میری جان، میرے پاس ایک پلان ہے۔ ایسا کرتے ہیں لاش کو کسی سوٹ کیس میں بند کرتے ہیں۔ میں یہاں سے انبالہ نکلتا ہوں اور اس کو میں کہیں پھینک دوں گا میرا مطلب ہے گاڑ دوں گا۔ پھر میں جان بوجھ کر کرنال سٹیشن پر اتروں گا اور باقی رات وہیں پر گزاروں گا۔ اِس طرح تمہیں وقت مل جائے گا کہ انبالہ تک اپنی گاڑی میں آجاو جہاں میں آکر تم سے ملوں گا۔ پھرہم دونوں ایک ہفتے کے لئے شملہ چلے جائیں گے اور واپسی پر آکر رندھیر کی گم شدگی کی رپورٹ پولیس کو کردیں گے، کیا خیال ہے؟ اِس طرح تمہارے اوپر کسی کو شک بھی نہیں ہوگا۔ میرا خیال ہے یہ سب سے محفوظ راستہ ہے۔“
میں نے اسے ایک اللٹپ پلان بتا دیا جو لگتا ہے اس کو آدھا ہی سمجھ آیا لیکن وہ اثبات میں سر ہلاتی رہی۔ مجھے خود اس پلان میں کئی جھول نظر آئے لیکن سوچا میرے پاس اس کا ٹیلیفون نمبر تو ہے ہی اگرپلان میں کوئی تبدیلی کرنی بھی پڑی تو میں اسے فون کرکے بتا سکتا ہوں۔
شملہ میں اس کے پہلو کی حدت کے تصور سے میرا پورا بدن سرور سے بھر گیا۔
پھر ہم دونوں نے مل کر لاش کو کئی بیڈ شیٹوں میں لپیٹا، گھٹنے چھاتی سے لگا کر، کمر کو خم دے کر اسے رندھیر ہی کے نئے سوٹ کیس میں بند کر دیا۔ مسئلہ یہ تھا کہ اس سوٹ کیس کے پہیئے نہیں تھے لیکن پھر مالا نے بتایا کہ اس کے پاس پہیوں والا سٹیل کا ایک سٹینڈ ہے جس میں یہ سوٹ کیس ایسے فِٹ بیٹھ سکتا ہے کہ اس کے پہیوں سے اسے کھینچا جا سکے۔
مجھے یہ تجویز قابلِ عمل لگی اور زِپ بند کرکے جب مالا کی طرف دیکھا تو اس نے مجھے ایک چھوٹا سا تالا تھما دیا جسے میں نے زِپ کو لگا یا۔ جب میں نے سوٹ کیس اٹھا کر کھڑا کرنا چاہا تو میری تو جان ہی نکل گئی لیکن جیسے تیسے اسے پہیوں والے دھاتی فریم میں فکس کیا اور اسے فریم سمیت آگے پیچھے ہِلا یا۔
”یہ فریم ٹوٹ تو نہیں جائے گا؟“
”نہیں یہ نہیں ٹوٹے گا۔۔۔ اب تم یہاں سے نکلوپلیز، میں بنتی کرتی ہوں ان کو لے جا ؤ، مجھے بہت ڈرلگ رہا ہے۔ ہائے بھگوان میں کس سمسیا میں پھنس گئی ہوں۔“
جانے سے پہلے میں نے اسے اپنی طرف کھنچ کر گال پر چوما جو اس کے آنسوں سے نمکین ہوچکا تھا لیکن اس نے سردمہری سے کام لیا۔ شاید وہ ابھی تک اس واقعے کے خوف سے سکتے کی حالت میں تھی۔
سوٹ کیس کھنچتے ہوئے میں نے دروازے سے باہر دیکھا۔ مجھے کوئی نظر نہیں آیا اور بارش بھی رک چکی تھی۔ میں نے ہمت مجتمع کی اور اسے کھینچ کر پچھلی سیٹ پر رکھا۔ مجھے کمر میں ٹیسیں سی محسوس ہوئیں۔ بجلی چمکنے لگی اور میں دوبارہ بارش کا سوچ کر اتنا ڈرا کہ جلدی سے گاڑی سٹارٹ کی۔
راستے میں مجھے خیال آیا کہ میں نے اس کو یہ کیوں بتایا کہ میں اسے انبالہ سٹیشن میں ملوں گا کیونکہ میرے پاس میری گاڑی تھی جسے میں دلی سٹیشن میں تو نہیں چھوڑ سکتا تھا لیکن پھر یہ سوچ کر کہ اسے کسی قسم کی دقت نہ ہو میں نے پلان تبدیل نہیں کیا۔ پہلے گاڑی گھر میں چھوڑی اور پھرسوٹ کیس کھینچتے خود وہاں سے چلتا ہوا سٹینڈ آیا۔ کافی انتظار کے بعد مجھے ایک وکٹوریہ ملی جس میں میں نے سوٹ کیس لوڈ کروا دیا۔ اسی وقت ہلکی سی بارش شروع ہوگئی۔
کوچوان نے شک سے بھری نظروں سے اسے دیکھا
”صاب! اِس میں کیا ہے؟ بہت بھاری ہے۔“
”اپنے کام سے کام رکھو اور ٹیشن چلو۔۔۔ جلدی کرو۔“
سٹیشن میں رش نہیں تھا اور جو گاڑی میں نے پکڑنی تھی وہ تو جا چکی تھی۔ پلان میں اِس غیر متوقع تبدیلی کا یہ اثرہوا کہ اب مجھے لاہور تک جانے والی ٹرین کا انتظار کرنا تھا جو انبالہ سے ہو کر گزرتی تھی۔ اس پوری اونچ نیچ میں میں ایک بات تو بالکل ہی بھول گیا کہ مجھے اس سوٹ کیس سے بھی جان چھڑانی تھی لیکن وہ سب ممکن نہ رہا اور کیسے ہوتا، کوچوان کو تو جیسے شبہ ہو گیا تھا۔ وہ بار بار ترچھی نظروں سے سوٹ کیس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ سٹیشن کے اندر آتے ہو ئے قلی نے بھی اسے ایسے دیکھا جیسے اسے سب پتہ ہو۔
میں نے آنے سے پہلے ایک پیگ اور چڑھا لیا تھا تاکہ حواس بحال رہیں اور کچھ ہمت ایسی ملے کہ چہرے سے خوف عیاں نہ ہو۔ میں نے فرسٹ کلاس کا ٹکٹ لیا اور ویٹنگ روم میں آکر بیٹھ گیا۔ اتنے میں گاڑی آگئی، اور میں انتہائی اعتماد کے ساتھ سوٹ کیس کھینچتے ہوئے ڈبے میں داخل ہوگیا۔
سیٹی بجی، گارڈ نے ہری جھنڈی ہلائی، انجن نے ایک لمبا ہوک بھرا اور تیز سیٹی کے ساتھ جھرجھرا کر لاہور کا سفر شروع کیا۔
باہر ہلکی سی پھوار اب بھی جاری تھی اور بارش کے قطرے، جو کھڑکی کے شیشوں پر پڑکر اور پھر آپس میں مل کر لمبے لمبے سانپوں کی صورت میں نظر آتے تھے، مجھے بہت ڈرانے لگے۔ ایک بار تو مجھے یوں لگا کہ یہ سانپ نہیں پولیس کے ہاتھ ہیں جو میری طرف بڑھ رہے ہیں، میں ڈر گیا۔
گاڑی سونی پت جنکشن پر رکی لیکن نہ تو اس سے کوئی اترا اور نہ کوئی چڑھا۔
اگلا سٹیشن پانی پت تھا اور یکایک مجھے پتہ نہیں ایسا کیوں لگا کہ میں پکڑا جاں گا۔ اب رات ڈھل چکی تھی اور صبح کی سفیدی نموردار ہوچکی تھی۔
اب تک میں نے جو ہمت کی تھی وہ بخارات بن کے اڑ چکی تھی، اور ساتھ ہی میرے اندر سے وہ تمام بہادری بھی نکل گئی تھی جس کے بل بوتے پر میں یہاں تک آ پہنچا تھا۔ مجھے یہ سوچ کر ہول آنے لگے کہ گاڑی آہستہ آہستہ مجھے اپنی موت کی طرف لے کے جارہی تھی۔
پانی پت میں گاڑی ایک جھٹکے کے ساتھ رکی اور میں نے وہاں لاٹھیاں تھامے، دو ایک حوالدار پلیٹ فارم پر بِیڑیاں پھونکتے مستعدی سے پھرتے دیکھے۔ ان میں سے ایک نے مجھے گھور کر بھی دیکھا جس سے میری بے چینی بڑھ گئی۔ وہ گاڑی کی طرف تو نہیں آیا لیکن لوگوں کا ایک سیلاب ٹرین سے اترا اور اسی طرح لوگوں کا ایک غول گاڑی میں سوار ہوا۔
گارڈ نے جھنڈی لہرائی اور گاڑی نے دوبارہ رینگنا شروع کیا اور کرنال سٹیشن کی طرف بڑھنے لگی۔ یہ وہی سٹیشن تھا جس کا میں نے مالا کو بتایا تھا لیکن ظاہرہے اب اِس کی ضرورت نہیں تھی اور مجھے سیدھا انبالہ ہی جانا تھاجہاں مجھے اس سے ملنا تھا۔
گاڑی نے لمحے بعد اپنی پوری رفتار پکڑ لی اور اندر سے میری حالت دِگرگوں ہوگئی۔
پھر جیسے میں اس پورے منظر سے اچھل کر باہر آگیا اور گو اگلے سٹیشن کے آنے میں دس ہی منٹ رہ گئے تھے لیکن میں نے اسی حالت میں گھنٹوں گزارے، وقت میرے لئے کھنچ سا گیا۔
اِس طویل وقفے میں معلق میں نے سوچا کہ آگے میرے لئے پھندا تیار ہے۔ وہ حرافہ اگر اپنے میاں کو قتل کر سکتی ہے تو میں کس شمار میں ہوں۔ اس کا کٹیلابدن بھاڑ میں جائے، بھاڑ میں جائیں اس کی زلفیں اور اس کی مخمور آنکھیں۔ یہ بات تو پکی تھی کہ میں اس جال میں پھنس چکا تھا جسے میں نے اپنے لئے خود بنا تھا، میں بھی کتنا بے وقوف ہوں، لڑکی دیکھی اور میں۔۔۔ خیر۔
یکایک مجھے یوں لگا کہ رندھیر اچھل کرسوٹ کیس سے نکل آیا ہے اور مجھ سے کہہ رہا ہے
”میری طرح تم بھی اس چھِنال کے جال میں آگئے ایگزیبیشن ماسٹر، نگل لیا ناکانٹا؟ اب بھگتو۔ ابے گدھے اس ویشیاکی یاری تیرے سے نہیں، مراٹھی مینیجرسے ہے جس کے لئے اس بیسوا نے تجھے بلی کا بکرا بنایا ہے۔۔۔ یہ رنڈی ذہنی مریضہ ہے۔۔۔ نمفومینیک ہے یہ کنچنی۔ اس کسبی کی مسکراہٹ اور کٹیلے بدن کے چکمے میں آگئے نا، اب بھگتو۔ سالے پولیس اگلے سٹیشن پر تیرا انتظار کر رہی ہے۔ ایسے سیدھے سادھے قتل کے کیس میں کورٹ کچہری میں بھلا وقت ہی کتنا لگتا ہے۔۔۔ سوچنے دو۔۔۔ ہنہ۔۔۔ تین ہی مہینے۔۔۔ شاید چار۔ نہیں نہیں پانچ۔۔۔ پھر پھندہ ادھر۔۔۔ ادھر۔۔۔ اور تو یوں لٹکا ہوگا۔۔“
یہ کہتے ہوئے رندھیر نے اپنے ہاتھ سے پھندہ سا بنایا اور گلے کے گرد ڈال کر اسے دبایا اور پھر اپنی آنکھیں یوں باہر نکال دیں جیسے رسی کی گرفت سے نہ صرف اس کی گردن کا منکا ٹوٹ گیا ہو بلکہ ساتھ ساتھ اس کی سانس کی نالی اور پوری گردن بھنچ سی گئی ہو۔ پھر تو جیسے وہ ہوا میں معلق ہوگیا اور پھندے سے لٹکے رندھیر کو جھٹکے سے لگے اور اکڑی حالت میں اس کا بدن تنا ہواکمان بن گیا۔
یہ دیکھ کر مجھے جھر جھری سی آگئی۔
یہی وہ لمحہ تھا جب گاڑی کرنال سٹیشن میں داخل ہوگئی اور میں نے حسب توقع پلیٹ فارم پر بہت سارے سپاہی اور کئی حوالدار ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لیے تیار کھڑے دیکھے۔
میرا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔
گاڑی کی رفتار بہت آہستہ ہوگئی مجھے یوں لگا کہ گاڑی رکی ہوئی ہے اور پلیٹ فارم ایک پھانسی گھاٹ بن کر گاڑی کی طرف رینگتے ہوئے آرہا ہے۔۔۔ میری حالت غیر ہوگئی۔
گاڑی آہستہ ہوتے ہوتے ایک جھٹکے سے رُک گئی۔
متعدد پولیس والے تیزی سے اس کے قریب آئے اور میرے ڈبے کی طرف اشارے کر کے چیخ چیخ کے کچھ کہتے ہوئے بڑی سرعت سے اس کی طرف بڑھے۔
خوف سے میرا پورا بدن پیلا پڑ گیا۔ اب بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔
یکایک میرے سلیپر کا دروازہ زور سے ہلنے لگا۔ چابیاں کھنکھنانے کی آواز آئی اور پھر دروازہ ایک جھٹکے سے کھسکا اور اگلے لمحے نصف درجن پولیس والے ہتھکڑیوں سمیت سلیپر کے اندر تھے۔
میرا گلا خشک ہوگیا، دل کی دھڑکن بے قابو ہوگئی، ہاتھ پیر ٹھنڈے ہوگئے اور میں خزاں رسیدہ پتے کی طرح لرزنے لگا۔ کئی پولیس والے ایک ساتھ میری طرف بڑھے اور مجھے چکر سا آگیا جب مجھے اپنے ہاتھ میں دھات سے بنی کوئی چیز چبھتی ہوئی محسوس ہوئی۔
”مسٹرنبیل پھر ہماری یونٹ واپس انڈیا آئی اور مجھے میرے کمانڈنٹ، کرنل جارج براون، نے میری بے مثال جرات اور بہادری پر یہ میڈل دیا۔“
رندھیر نے یہ کہتے ہوئے دھات سے بنا میڈل میرے ہاتھ میں تھما دیا، جو مجھے قدرے چبھا اور جسے پکڑتے ہوئے اس کا وزیٹنگ کارڈ میرے ہاتھ سے پھسل کر گر گیا۔
اسی لمحے میں نے اپنے سامنے مالا کی خوبصورت اور قاتل آنکھیں مسکراتی دیکھیں۔ اس نے رندھیر کے داہنے ہاتھ میں اپنا ہاتھ حمائل کیا ہوا تھا۔
”نبیل صاحب آپ کی اگلی ایگزیبیشن کب ہے، اب تو میں اور رندھیر دونوں آئیں گے اور ہاں بِملا آپ کا بڑا پوچھ رہی تھی، کہہ رہی تھی نبیل صاحب بہت سمارٹ ہیں، فلمی ہیرو، آر-کے کی طرح۔“
عین اسی لمحے سٹیج پرر ضوی صاحب اور شِری رام چرن مل کر کوئی قراداد منظور کروا رہے تھے اوررندھیر اور مالا مجھے دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔ میں نے میڈل کی طرف دیکھا اور ہال کی مدھم روشنی میں بھی اس کی چمک سے میری آنکھیں چندھیا سی گئیں۔
میرے منہ سے بے ساختہ نکلا،
”میجر کیا ہے کہ آپ کی بہادری کی داددینی پڑے گی۔ آپ تو عراق میں موت کو غچہ دے آئے ہیں۔ کیا اس بے مثال بہادری کا یہ میڈل میں بطور نشانی اپنے پاس رکھ سکتا ہوں؟“
”ہر گز نہیں۔“
اس نے مسکراتے ہوئے میڈل میرے ہاتھ سے اچک لیا۔ اس کے بعد وہ دونوں ہال سے نکل گئے۔ میں نے نیچے دیکھا اور وزٹنگ کارڈ کو اپنے پیروں میں مسلا دیکھا۔
”میجر (ریٹائرڈ) رندھیر چوپڑا، ایکس ایڈم آفیسر فرسٹ پنجاب رجمنٹ۔“
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.