ذرا ہور اوپر
کہانی کی کہانی
حیدرآباد کے ایک ایسے نواب کی کہانی، جو گھر میں بیوی کے ہوتے ہوئے بھی باندیوں سے دل بہلاتا ہے۔ اس پر اس کا بیوی کے ساتھ بہت جھگڑا ہوتا ہے۔ مگر وہ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتا۔ شوہر کی حرکتوں سے بیزار ہوکر بدلے کے جذبہ سے اس کی بیوی بھی گھر میں کام کرنے والوں نوکروں کے ساتھ لطف اٹھانے لگتی ہے۔
نواب صاحب نوکر خانے سے جھومتے جھامتے نکلے تو اصلی چنبیلی کے تیل کی خوشبو سے ان کا سارا بدن مہکا جا رہا تھا۔
اپنے شاندار کمرے کی بے پناہ شاندار مسہری پر آ کر وہ دھپ سے گرے تو سارا کمرہ معطر ہو گیا۔۔۔ پاشا دولہن نے ناک اٹھا کر فضا میں کچھ سونگھتے ہی خطرہ محسوس کیا۔ اگلے ہی لمحے وہ نواب صاحب کے پاس پہنچ چکی تھیں۔۔۔ سراپا انگارہ بنی ہوئی۔
’’سچی سچی بول دیو، آپ کاں سے آرئیں۔۔۔ جھوٹ بولنے کی کوشش نکو کرو۔۔۔‘‘
نواب صاحب ایک شاندار ہنسی ہنسے۔
’’ہمنا جھوٹ بولنے کی ضرورت بھی کیا ہے؟ جو تمے سمجھے وہ ہیچ سچ ہے۔‘‘
’’گل بدن کے پاس سے آرئیں نا آپ؟‘‘
’’معلوم ہے تو پھر پوچھنا کائے کو؟‘‘
جیسے آگ کو کسی نے بارود دکھا دی ہو۔ پاشا دولہن نے دھنا دھن پہلے تو تکیہ کوٹ ڈالا، پھر ایک ایک چیز اٹھا اٹھا کر کمرے میں پھینکنی شروع کر دی، ساتھ ہی ساتھ ان کی زبان بھی چلتی جا رہی تھی۔
’’اجاڑ انے ابا جان اور امنی جان کیسے مردوئے کے حوالے میرے کو دیئے غیرت شرم تو چھوکر بھی نئیں گئی۔ دنیا کے مردوئے ادھر ادھر تانک جھانک کرتے نہیں کیا، پر انے تو میرے سامنے کے سامنے اودھم مچائے رہئیں۔ ہور اجاگری تو دیکھو، کتے مزے سے بولتیں ، معلوم ہے تو پھر پوچھنا کائے کو؟ میں بولتیوں اجاڑ یہ آگ ہے کیسی کی بجھتی اچ نئیں۔ کتے عورتوں انے ایک مردوئے کو ہونا جی‘‘۔۔۔ اب وہ ساتھ ساتھ پھپھک پھپھک کر رونے بھی لگی تھیں۔۔۔ ’’اجاڑ میرے کو یہ زندگی نکو۔ اپنا راج محل تمچ سنبھالو۔۔۔ میرے کو آجچ طلاخ دے دیو، میں ایسی کال کونڈی میں نئیں رہنے والی۔۔۔‘‘
مگر جو پیاسا زور کی پیاس میں پانی چھوڑ شراب پی کر آیا ہو، وہ بھلا کہیں اتنی دیر تک جاگتا ہے؟ اور عورت کی گرمی ملے تو یوں بھی اچھا بھلا مرد پٹ کر کے سو جاتا ہے۔۔۔ نواب صاحب بھی اس وقت اس تمام ہنگامے سے بے خبر گہری نیند سو چکے تھے۔
کیسی زندگی پاشا دولہن گزار رہی تھیں۔ بیاہ کر آئیں تو بیس سے ادھر ہی تھیں۔ اچھے برے کی اتنی بھی تمیز نہ تھی کہ میاں کے پیر دکھیں تو رات بے رات خود ہی دبا دیں۔ جوانی کی نیند یوں بھی کیسی ہوتی ہے کہ کوئی گھر لوٹ کر لے جائے اور آنکھ تک نہ پھڑکے۔ جب بھی راتوں میں نواب صاحب نے درد کی شکایت کی، انہوں نے ایک کروٹ لے کر اپنے ساتھ آئی باندیوں میں سے ایک آدھ کو میاں کی پائنتی بٹھا دیا اور اسے ہدایت کر دی، ’’لے ذرا سرکار کے پاؤں دبا دے، میرے کو تو نیند آرئی۔‘‘
صبح کو یہ خود بھی خوش باش اٹھتیں اور نواب صاحب بھی۔۔۔ کبھی کبھار نواب صاحب لگاوٹ سے شکایت بھی کرتے۔
’’بیگم آپ بھی تو ہمارے پاواں دبا دیو، آپ کے ہاتھاں میں جو لذت ملےگی، وہ انے حرام زادیاں کاں سے لائیں گے۔‘‘
مگر یہ بلبلا جاتیں۔۔۔ ’’ہور یہ ایک نوی بات سنو، میں بھلا پاواں دبانے کے لاخ ہوں کیا، اس واسطے تو امنی جان باندیاں کی ایک فوج میرے ساتھ کر کو دیئے کہ بیٹی کو تخلیف نئیں ہونا بول کے۔‘‘
اور نواب صاحب دل میں بولتے۔۔۔ خدا کرے تمے ہور گہری نیند سو۔۔۔ تمہارے سوتے اچ ہمارے واسطے تو جنت کے دروازے کھل جا تئیں۔
مگر دھیرے دھیرے پاشا دولہن پر یہ بھید یوں کھلا کہ نواب صاحب نئی نویلی دولہن سے ایک سر بے گانہ ہوتے چلے گئے۔۔۔ اب بیاہی بھری تھیں اتنا تو معلوم ہی تھا کہ جس طرح پیٹ کی ایک بھوک ہوتی ہے اور بھوک لگنے پر کھانا کھایا جاتا ہے اسی طرح جسم کی ایک بھوک ہوتی ہے اور اس بھوک کو بھی بہرطور مٹایا ہی جاتا ہے۔ پھر نواب صاحب ایسے کیسے مرد تھے کہ برابر میں خوشبوؤں میں بسی دولہن ہوتی اور وہ ہاتھ تک نہ لگاتے۔۔۔ اور اب تو یہ بھی ہونے لگا تھا کہ رات بےرات کبھی ان کی آنکھ کھلتی۔۔۔ تو دیکھتیں کہ نواب صاحب مسہری سے غائب ہیں۔۔۔
اب غائب ہیں تو کہاں ڈھونڈیں؟ حویلی بھی تو کوئی ایسی ویسی حویلی نہ تھی۔ حیدرآباد کن کے مشہور نواب ریاست یار جنگ کی حویلی تھی کہ پوری حویلی کا ایک ہی چکر لگانے بیٹھو تو موئی ٹانگیں ٹوٹ کے چورا ہو جائیں۔ پھر رفتہ رفتہ آنکھیں کھلنی شروع ہوئیں۔ کچھ ساتھ کی بیاہی سہیلیوں کے تجربوں سے پتہ چلا کہ مرد پندرہ پندرہ بیس بیس دن ہاتھ تک نہ لگائے، راتوں کو مسہری سے غائب ہو جائے تو دراصل معاملہ کیا ہوتا ہے۔۔۔ لیکن یہ ایسی بات تھی کہ کسی سے کچھ بولتے بنتی نہ بتاتے۔۔۔ مشورہ بھی کرتیں تو کس سے؟ اور کرتیں بھی تو کیا کہہ کر؟ کیا یہ کہہ کر میرا میاں عورتوں کے پھیر میں پڑ گیا ہے، اسے بچاؤں کیسے؟ اور صاف سیدھی بات تو یہ تھی کہ مرد وہی بھٹکتے ہیں جن کی بیویوں میں انہیں اپنے گھٹنے سے باندھ کر رکھنے کا سلیقہ نہیں ہوتا۔۔۔ وہ بھی تو آخر مرد ہی ہوتے ہیں جو اپنی ادھیڑ ادھیڑ عمر کی بیویوں سے گوند کی طرح چپکے رہتے ہیں۔ غرض ہر طرف سے اپنی ہاری اپنی ماری تھی، لیکن کر بھی کیا سکتی تھیں؟ خود میاں سے بولنے کی تو کبھی ہمت ہی نہ پڑی۔ مرد جب تک چوری چھپے منہ کالا کرتا ہے، ڈرا سہما ہی رہتا ہے اور جہاں بات کھل گئی وہیں اس کا منہ بھی کھل گیا۔ پھر تو ڈنکے کی چوٹ کچھ کرتے نہیں ڈرتا۔ لیکن ضبط کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔۔۔ ایک دن آدھی رات کو یہ تاک میں بیٹھی ہوئی تھیں، آخر شادی کے اتنے سال گزار چکی تھیں، دو تین بچوں کی ماں بھی بن چکی تھیں، اتنا حق تو رکھتی ہی تھیں، اور عقل بھی کہ آدھی رات کو جب مرد کہیں سے آئے اور یوں آئے کہ چہرے پر یہاں وہاں کالک ہو تو وہ سوا پرائی عورت کے کاجل کے اور کاہے کی کالک ہو سکتی ہے؟ کیونکہ بہرحال دنیا میں اب تک یہ تو نہیں ہوا ہے کہ کسی کے گناہوں سے منہ کالا ہو جائے۔
جیسے ہی نواب صاحب کمرے میں داخل ہوئے کہ چیل کی طرح جھپٹیں اور ان کے چہرے کے سامنے انگلیاں نچا کر بولیں، ’’یہ کالک کاں سے تھوپ کو لائے؟‘‘
اور نواب صاحب بھی آخر نواب ہی تھے، کسی حرام کا تخم تو تھے نہیں ، اپنے ہی باپ کی عقد خوانی کے بعد والی حلال کی اولاد تھے، ڈرتا ان کا جوتا۔ بڑے رسان سے بولے ’’یہ مہرو کم بخت بہت کاجل بھرتی ہے اپنے آنکھاں میں، لگ گیا ہوئیں گا، اسی کا۔۔۔‘‘
ایسے تہئے سے تو پاشا دولہن اٹھی تھیں مگر یہ سن کر وہیں ڈھیر ہو گئیں۔۔۔ اگر مرد ذرا بھی آناکانی کرے تو عورت کو گالیاں دینے کا موقع مل جاتا ہے۔ لیکن یہاں تو صاف سیدھی طرح انہوں نے گویا اعلان کر دیا کہ۔۔۔ ’’ہاں ، ہاں۔۔۔ میں نے بھاڑ جھونکا۔۔۔ اب بولو۔۔۔!‘‘
پاشا دولہن کچھ بول ہی نہ سکیں، بولنے کو تھا بھی کیا؟ جو چپکی ہوئیں تو بس چپ ہی لگ گئی۔ اب محل کے سارے ہنگامے، ساری چہل پہل، ساری دھوم دھام ان کے لئے بےمعنی تھی۔ ورنہ وہی پاشا دولہن تھیں کہ ہر کام میں گھسی پڑتی تھیں۔۔۔ پہلے تو دل میں آیا کہ جتنی بھی یہ جوان جوان حرام خورنیاں ہیں انہیں سب کو ایک سرے سے برطرف کر دیں، لیکن روایت سے اتنی بڑی بغاوت کر بھی کیسے سکتی تھیں؟ پھر اپنے مقابل کی حیثیت والیوں میں یہ مشہور ہو جاتا کہ اللہ مارے کیسے نواباں ہیں کہ کام کاج کو چھوکریاں نہیں رکھے۔ بس ہر طرف سے ہار ہی ہار تھی۔ دل پر دکھ کی مار پڑی تو جیسے ڈھیر ہی ہو گئیں۔ نئی نئی بیماریاں بھی سر اٹھانے لگیں، کمر میں درد، سر میں درد، پیروں میں درد، ایک اینٹھن تھی کہ جان لئے ڈالتی۔ حکیم صاحب بلوائے گئے، اس زمانے کے حیدرآباد میں مجال نہ تھی کہ حکیم صاحب محل والیوں کی جھپک تک دیکھ سکیں۔ بس پردے کے پیچھے سے ہاتھ دکھا دیا جاتا۔ پھر ساتھ میں ایک بی بی ہوتیں جو حکیمن اماں کہلاتی تھیں۔۔۔ وہ سارے معائنے کرتیں اور یوں دوا تجویز ہوتی بس حکیم صاحب نبض دیکھنے کے گناہگار ہوتے۔
پاشا دولہن کی کیفیت سن کر حکیم صاحب کچھ دیر کے لئے خاموش رہ گئے انہوں نے بظاہر غیر متعلق سی باتیں پوچھیں جس کا دراصل اس بیماری سے بڑا گہرا تعلق تھا۔
’’نواب صاحب کہاں سوتے ہیں؟‘‘
حکیمن اماں نے پاشا دولہن سے پوچھ کر بات آگے بڑھائی۔۔۔ ’’جی انوں تو مردانے میں اچ سوتے ہیں۔‘‘
اب حکیم صاحب بالکل خاموش رہ گئے۔ سوئے ادب! کچھ کہتے تو مشکل نہ کہتے تو مشکل۔ بہرحال ایک تیل مالش کے لئے دے گئے۔
پاشا دلہن کو ان کم بخت باندیوں سے نفرت ہو گئی تھی۔ بس نہ چلتا کہ سامنے آتیں اور یہ کچا چبا جاتیں۔ باندیوں میں سے کسی کو انہوں نے اپنے کام کے لئے نہ چنا۔ حویلی کا ہی پالا ہوا چھوٹا سا چھوکرا تھا۔ انہوں نے طے کر لیا کہ مالش اسی سے کرائیں گے۔ چودہ پندرہ برس کے چھوکرے سے کیا شرم؟
اسی بیچ میں دو تین بار نواب صاحب اور دولہن پاشا کی خوب زور دار لڑائی ہوئی۔ شکر ہے کہ جو نوبت طلاق تک نہ پہنچی۔ اب تو نواب صاحب کھلم کھلا کہتے تھے۔۔۔ ہاں میں آج اس کے ساتھ رات گزارا۔ اس کے ساتھ مستی کیا، تم نا کچھ بولنا ہے؟‘‘
پاشا دولہن بھی جی کھول کر کوستیں کاٹتیں۔ ایک دن دبے الفاظ میں جب انہوں نے اپنی ’’بھوک‘‘ کا ذکر کیا تو نواب صاحب ذرا حیرت سے انہیں دیکھ کر بولے، ’’دیکھو اللہ میاں کو معلوم تھا کہ مرد کو کچھ زیادہ ہونا پڑتا اس واسطے اچ اللہ میاں مردوں چار، چار شادیوں کی اجازت دیا۔ ایسا ہوتا تو عورتاں کو کیوں نئیں دے دیتا تھا۔‘‘
یہ ایک ایسا نکتہ نواب صاحب نے پکڑا کہ پاشا دولہن تو بالکل ہی لاجواب ہو کر رہ گئیں اور یوں رہی سہی جو بھی پردہ داری تھی بالکل ہی ختم ہو کر رہ گئی۔ اس صبح ہی کی بات تھی کہ انہوں نے سر میں تیل ڈالنے کو چنبیلی کے تیل کی شیشی اٹھائی اور وہ کم بخت ہاتھ سے ایسی چھوٹی کہ ندی سی بہہ اٹھی۔ گھبرا کر انہوں نے پاس کھڑی گل بدن کو پکارا ’’بیکار بہہ کو جارا تو اچ اپنے سر میں چپڑ لے۔‘‘
اور رات کو وہ ساری خوشبو نواب صاحب کے بدن میں منتقل ہو گئی، جس کے بارے میں اعلان کرتے ہوئے انہیں ذرا سی جھجک یا شرم محسوس نہیں ہوئی۔
پتہ نہیں یہ کون لوگ ہیں جو کہتے ہیں عورت بیسی اور گھیسی۔ عورت تو تیس کی ہو کر کچھ اور ہی چیز ہو جاتی ہے۔ ان دنوں کوئی پاشا دولہن کا روپ دیکھتا۔
چڑھتے چاند کی سی جوانی، پور پور چٹخا پڑتا۔ برسات کی راتوں میں ان کے جسم میں وہ تناؤ پیدا ہو جاتا جو کسی استاد کے کسے ہوئے ستار میں کیا ہو گا۔ اتنا سا چھوکرا کیا اور اس کی بساط کیا۔ سر اور کمر سے نپٹ کر وہ پیروں کے پاس آ کر بیٹھتا تو اس کے ہاتھ دکھ دکھ جاتے۔ پنڈلیوں کو جتنی زور سے دباتا، وہ یہی کہے جاتی۔
’’کتے! ہلو ہلو دباتا رے تو۔۔۔ ذرا تو طاقت لگا۔‘‘
چودہ پندرہ سال کا چھوکرا، ڈر ڈر کے سہم سہم کر دبائے جاتا کہ کہیں زور سے دبا دینے پر پاشا ڈانٹ نہ دیں، اتنی بڑی حویلی کی مالک جو تھیں۔
حویلی میں ان دنوں خواتین میں کلی دار کرتوں پر چوڑی دار پاجامے پہننے کا رواج تھا۔ لڑکیاں بالیاں غرارے بھی پہن لیتیں۔۔۔ اور بڑے ہنگاموں کے بعد اب ساڑھی کا بھی نزول ہوا تھا، مگر بہت ہی کم پیمانے پر۔۔۔
چوڑی دار پاجامے میں پنڈلیاں صرف دبائی جا سکتی تھیں، تیل مالش کیا خاک ہوتی؟ پاشا دولہن نے ماما کو بلوا کر اپنے پاس کھڑا کیا، یہ حویلی کے کسی بھی نوکر کے لئے بڑے اعزاز کی بات تھی۔ پھر پاشا بولیں۔
’’دیکھو یہ انے چھوکرا رحمت ہے نا؟ اس کو کھانے پینے کو اچھا اچھا دیو۔۔۔ ناشتے میں اصلی گھی کے پراٹھے بھی دیو۔ انے میرے پیراں کی مالش کرتا، مگر ذرا بھی اس میں طاخت نئیں۔ اب میں جتا کو دی۔‘‘
پھر خود انہوں نے غرارہ پہننا شروع کر دیا تاکہ پنڈلیوں کی اچھی طرح مالش ہو سکے اور انہیں درد سے نجات ملے۔
اب جو دوپہر کو مالش شروع ہوتی تو ایک ہی مکالمے کی گردان رحمت کے کانوں سے ٹکراتی۔
’’ذرا ہور اوپر!‘‘
وہ سہم سہم کر مالش کرتا، ڈر ڈر کر پاشا کا منہ تکتا۔ تیل میں انگلیاں چپڑ کر وہ غرارہ ڈرتے ڈرتے ذرا اوپر کھسکاتا کہ کہیں سجر، اطلاس یا کمخواب کے غرارے کو تیل کے دھبے بدنما نہ بنا دیں۔ چم چماتی پنڈلیاں تیل کی مالش سے آئینہ بنتی جا رہی تھیں۔ رحمت غور سے دیکھتے دیکھتے گھبرا گھبرا کر اٹھتا کہ کہیں ان میں اس کا چہرہ نہ دکھائی دے جائے۔
ایک رات دولہن پاشا کے پیروں میں کچھ زیادہ ہی درد اور اینٹھن تھی۔ رحمت مالش کرنے بیٹھا تو سہمتے سہمتے اس نے پنڈلیوں تک غرارہ کھسکایا۔
’’ذرا ہور اوپر‘‘ دولہن پاشا کسمسا کر بولیں ، ’’آج اجاڑ اتا درد ہو ریا کہ میرے کو بخار جیسا لگ ریا۔ گھونہں تک مالش کر ذرا، تو تو خالی بس پنڈلیاں اچ دبا ریا۔‘‘
رحمت نے بخار کی سی کیفیت اپنے اندر محسوس کی۔ اس نے لرزتے ہاتھوں سے غرارہ اور ’’اوپر‘‘ کھسکایا اور ایک دم ناریل کی طرح چکنے چکنے اور سفید مدور گھٹنے دیکھ کر بوکھلا سا گیا۔ ترتراتے گھی کے پراٹھوں، دن رات کے میوؤں اور مرغن کھانوں نے اسے وقت سے پہلے ہی اس مقام پر لا کھڑا کیا تھا، جہاں نیند کی بجائے جاگتے میں ایسے ویسے خواب دکھائی دینے لگتے ہیں۔ اس نے ہڑبڑا کر غرارہ ٹخنوں تک کھینچ دیا تو اونگھتی ہوئی پاشا دولہن بھنا گئیں۔
’’ہورے، میں کیا بول رئی ہو، تو کیا کر ریا؟‘‘ انہوں نے ذرا سر اٹھا کر غصے سے کہا۔۔۔ وہاں ان کے سرہانے سنسناتا ہوا، جوان ہوتا ہوا، وہ چھوکرا بیٹھا تھا جسے انہوں نے اس لئے چنا تھا کہ انہیں چھوکریوں سے از حد نفرت ہو گئی تھی کہ۔۔۔ کم بختیں ان کے میاں کو ہتھیا ہتھیا لیتی تھیں۔
انہوں نے غور سے اسے دیکھا۔ اسے نے بھی ڈرتے ڈرتے سہمی، مگر ذرا غور سے انہیں دیکھا اور اک دم سر جھکا لیا۔
ٹھیک اسی وقت نواب صاحب کمرے میں داخل ہو گئے۔ جانے کون سا نشہ چڑھا کر آئے تھے کہ جھولے ہی جا رہے تھے۔ آنکھیں چڑھی پڑ رہی تھیں۔ مگر اتنے نشے میں بھی بیگم کے قدموں میں اسے بیٹھا دیکھ کر چونک اٹھے۔
’’یہ انے حرام زادہ مسٹنڈا یہاں کیا کرنے کو آیا بول کے؟‘‘
رحمت تو نواب صاحب کو دیکھتے ہی دم دبا کر بھاگ گیا مگر پاشا دولہن بڑی رعونت سے بولیں، ’’آپ کو میرے بیچ میں بولنے کا کیا حخ ہے؟‘‘
’’حخ؟ وہ گھور کر بولے، ’’تمہارا دھگڑا ہوں، کوئی پالکڑا نئیں، سمجھے۔ رہی حخ کی بات، سو یہ حخ اللہ اور اس کا رسول دیا۔۔۔ کون تھا وہ مردود؟‘‘
’’آپ اتنے سالاں ہو گئے، آپ ایکو ایک چھوکری سے پاواں دبائے رئیں، ہور اللہ معلوم ہور کیا کیا تماشے کر لے رئیں، وہ سب کچھ نئیں، ہور میں کبھی دکھ میں، بیماری میں مالش کرانے ایک آدھ چھوکرے کو بٹھا لی تو اتے حساباں کائے کو؟‘‘
’’اس واسطے کی مرد بولے تو دالان میں بچھا خالین ہوتا کہ کتے بھی پاواں اس پہ پڑے تو کچھ فرخ نئیں پڑتا۔ ہور عورت بولے تو عزت کی سفید چدر ہوتی کہ ذرا بھی دھبا پڑا تو سب کی نظر پڑ جاتی۔۔۔‘‘
دولہن پاشا بلبلا کر بولیں، ’’ائی اماں، بڑی تمہاری عزت جی، ہور تمہاری بڑی شان، اپنے دامن میں اتے داغاں رکھ کو دوسرے کو کیا نام رکھتے جی تمے، ہور کچھ نئیں تو اتے سے پوٹے کے اپر اتا واویلا کر لیتے بیٹھیں۔‘‘
اک دم نواب صاحب چلائے، تمنا وہ پوٹا اتا اتا سا دکھتا؟ ارے آج اس کی شادی کرو نو مہینے میں باپ بن کر دکھا دیں گا۔ میں جتا دیا آج سے اس کا پاؤں نئیں دکھنا تمہارے کمرے میں۔۔۔‘‘
پاشا دولہن تن کر بولیں، ’’ہور دکھا تو؟‘‘
’’دکھا تو طلاخ۔۔۔‘‘ وہ آخری فیصلہ سناتے ہوئے بولے۔
’’ابھی کھڑے کھڑے دے دیو۔‘‘ پاشا دولہن اسی تہئے سے بولیں۔
ایک دم نواب صاحب سٹ پٹا کر رہ گئے۔ بارہ تیرہ سال میں کتنی بار تو تو، میں میں ہوئی، کتنے رگڑے جھگڑے ہوئے۔۔۔ با عزت، با وقار دو خاندانوں کے معزز میاں بیوی، جو پہلے ایک دوسرے کو آپ، آپ کہتے نہ تھکتے تھے اب تم تمار تک آ گئے تھے۔۔۔ مگر یہ نوبت تو کبھی نہ آئی تھی، خود پاشا دولہن نے ہی کئی بار یہ پیشکش کی کہ ایسی زندگی سے تو اجاڑ میرے کو طلاخ دے دیو۔۔۔ لیکن یہ کبھی نہ ہوا تھا کہ خود نواب صاحب نے یہ فال بدمنہ سے نکالی ہو۔۔۔ اور اب منہ سے نکالی بھی تو یہ کہاں سوچا تھا کہ وہ کہیں گی کہ ’’ہاں۔۔۔ ابھی کھڑے کھڑے دے دیو!!‘‘
مگر پاشا دولہن کی بات پوری نہیں ہوئی تھی۔ ایک ایک لفظ پہ زور دیتے ہوئے وہ تمتماتے چہرے کے ساتھ بولیں۔۔۔ ’’ہور طلاخ لئے بعد سارے حیدرآباد کو سناتی پھروں گی کہ تمے عورت کے لائخ مرد نئیں تھے۔ یہ بچے تمہارے نئیں۔ اب چھوڑو میرے کو۔۔۔ ہور دیو میرے کو طلاخ!‘‘
یہ عورت چاہتی کیا ہے آخر؟۔۔۔ نواب صاحب نے سر پکڑ لیا۔۔۔ انہوں نے ذرا شک بھری نظروں سے بی بی کو دیکھا۔۔۔ کہیں دماغی حالت مشتبہ تو نہیں وہ سنا رہی تھیں۔
’’اس حویلی میں دکھ اٹھائی نا میں۔۔۔ تمہارے ہوتے اب سکھ میں بھی اٹھاؤں گی۔۔۔ تمہارے اچ ہوتے سن لیو۔‘‘
دوسری رات پاشا دولہن نے سرسراتی ریشمی ساڑھی اور لہنگا پہنا۔ خود بھی تو ریشم کی بنی ہوئی تھیں۔ اپنے آپ میں پھسلی پڑ رہی تھیں۔ پھر جب رحمت مالش کرنے بیٹھا تو بس بیٹھا ہی رہ گیا۔
دیکھتا کیا ہے رے؟ ہاتھوں میں دم نئیں کیا؟
اس نے سرسراتا لہنگا ڈرتے ڈرتے ذرا اوپر کیا۔
اس کو مالش بولتے کیا رے نکمے! ان کی ڈانٹ میں لگاوٹ بھی تھی۔
رحمت نے سرخ ہوتی کانوں سے پھر اور سنا۔۔۔ ’’ذرا ہور اوپر۔‘‘
’’ذرا ہور اوپر۔۔۔‘‘
گہرے اودے رنگ کا لہنگا اور گہرے رنگ کی ساڑھی ذرا اوپر ہوئی اور جیسے بادلوں میں بجلیاں کوندیں۔
’’ذرا ہور اوپر۔۔۔‘‘
’’ذرا ہور اوپر۔۔۔‘‘
’’ذرا ہور اوپر۔۔۔‘‘
’’ذرا ہور اوپر۔۔۔‘‘
تلملا کر صندل کے تیل سے بھری کٹوری اٹھا کر رحمت نے دور پھینک دی اور اس ’’بلندی‘‘ پر پہنچ گیا جہاں تک ایک مرد پہنچ سکتا ہے اور جس کے بعد ’’ذرا ہور اوپر‘‘ کہنے سننے کی
ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔
دوسرے دن پاشا دولہن پھول کی طرح کھلی ہوئی تھیں۔ صندل ان کی من پسند خوشبو تھی۔ صندل کی مہک سے ان کا جسم لدا ہوا تھا۔۔۔ نواب صاحب نے رحمت سے پانی مانگا تو وہ بڑے ادب سے چاندی کی طشتری میں چاندی کا گلاس رکھ کر لایا۔۔۔ جھک کر پانی پیش کیا تو نہیں ایسا لگا کہ وہ صندل کی خوشبو میں ڈوبے جا رہے ہیں۔ گلاس اٹھاتے اٹھاتے انہوں نے مڑ کر بیگم کو دیکھا جو ریشمی گدگدے بستر میں اپنے بالوں کا سیاہ آبشار پھیلائے کھلی جا رہی تھیں۔۔۔ ایک فاتح مسکراہٹ ان کے چہرے پر تھی۔
وہ انہیں سنانے کو رحمت کی طرف دیکھتے ہوئے زور سے بولے ’’کل تیرے کو گاؤں جانے کا ہے، وہاں پر ایک منشی کی ضرورت ہے بول کے۔‘‘
رحمت نے سر جھکا کر کہا، ’’جو حکم سرکار۔۔۔‘‘
نواب صاحب نے پاشا دولہن کی طرف مسکرا کر دیکھا۔۔۔ ایک فاتح کی مسکراہٹ۔
دو گھنٹے بعد پاشا دولہن اپنی شاندار حویلی کے بےپناہ شان دار باورچی خانے میں کھڑی ماما کو ہدایت دے رہی تھیں۔
’’دیکھو ماما بی، انے یہ اپنی زبیدہ کا چھوکرا ہے نا شرفو۔۔۔ اس کو ذرا اچھا کھانا دیا کرنا۔۔۔ آج سے یہ میرے پاواں دبایا کریں گا۔۔۔ مالش کرنے کو ذرا ہاتھاں پاواں میں دم ہونے کو ہونا نا؟‘‘
’’بروبر بولتے بی پاشا آپ۔‘‘ ماما بی نے اصلی گھی ٹپکتا انڈوں کا حلوہ شرفو کے سامنے رکھتے ہوئے پاشا دولہن کے حکم کی تعمیل اسی گھڑی سے شروع کر دی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.