سر پر ہوائے ظلم چلے سو جتن کے ساتھ
اپنی کلاہ کج ہے اسی بانکپن کے ساتھ
سینہ فگار چاک گریباں کفن بہ دوش
آئے ہیں تیری بزم میں اس بانکپن سے ہم
عاشق کا بانکپن نہ گیا بعد مرگ بھی
تختے پہ غسل کے جو لٹایا اکڑ گیا
بدلتے وقت نے بدلے مزاج بھی کیسے
تری ادا بھی گئی میرا بانکپن بھی گیا
کبھی نہ حسن و محبت میں بن سکی واحدؔ
وہ اپنے ناز میں ہم اپنے بانکپن میں رہے
کرو کج جبیں پہ سر کفن مرے قاتلوں کو گماں نہ ہو
کہ غرور عشق کا بانکپن پس مرگ ہم نے بھلا دیا
ہماری گفتگو سب سے جدا ہے
ہمارے سب سخن ہیں بانکپن کے