
لاہور کی بعض گلیاں اتنی تنگ ہیں کہ اگر ایک طرف سے عورت آ رہی ہو اور دوسری طرف سے مرد تو درمیان میں صرف نکاح کی گنجائش بچتی ہے۔

مرد کی آنکھ اور عورت کی زبان کا دم سب سے آخر میں نکلتا ہے۔

مونگ پھلی اور آوارگی میں خرابی یہ ہے کہ آدمی ایک دفعہ شروع کردے تو سمجھ میں نہیں آتا ختم کیسے کرے۔

غالب دنیا میں واحد شاعر ہے جو سمجھ میں نہ آئے تو دگنا مزہ دیتا ہے۔

عورتیں پیدائشی محنتی ہوتی ہیں۔ اس کا اندازہ اس سے لگا لیں کہ صرف ۱۲ فیصد خواتین خوبصورت پیدا ہوتی ہیں، باقی اپنی محنت سے یہ مقام حاصل کرتی ہیں۔

جس دن بچے کی جیب سے فضول چیزوں کے بجائے پیسے برآمد ہوں تو سمجھ لینا چاہیے کہ اسے بے فکری کی نیند کبھی نصیب نہیں ہوگی۔

داغ تو دو ہی چیزوں پر سجتا ہے۔ دل اور جوانی۔

مسلمان ہمیشہ ایک عملی قوم رہے ہیں۔ وہ کسی ایسے جانور کو محبت سے نہیں پالتے جسے ذبح کر کے کھا نہ سکیں۔

انسان وہ واحد حیوان ہے جو اپنا زہر دل میں رکھتا ہے۔

جو ملک جتنا غربت زدہ ہوگا اتنا ہی آلو اور مذہب کا چلن زیادہ ہوگا۔

جوان لڑکی کی ایڑی میں بھی آنکھیں ہوتی ہیں۔ وہ چلتی ہے تو اسے پتہ ہوتا ہے کہ پیچھے کون کیسی نظروں سے دیکھ رہا ہے۔
آسان، ایکسلنٹ، رکمنڈیڈ
عورت، مرد، مزاحیہ کوٹ

گالی، گنتی، سرگوشی اور گندا لطیفہ تو صرف اپنی مادری زبان میں ہی مزہ دیتا ہے۔
-
موضوع : مادری زبان

پرائیوٹ اسپتال اور کلینک میں مرنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ موحوم کی جائداد، جمع جتھا اور بینک بیلنس کے بٹوارے پر پسماندگان میں خون خرابا نہیں ہوتا کیونکہ سب ڈاکٹروں کے حصے میں آجاتے ہیں۔
-
موضوعات : طبی دھوکہ دہیاور 3 مزید

جب شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ پر پانی پینے لگیں تو سمجھ لو کہ شیر کی نیت اور بکری کی عقل میں فتور ہے۔

گھوڑے اور عورت کی ذات کا اندازہ اس کی لات اور بات سے کیا جاتا ہے۔

بڑھاپے کی شادی اور بینک کی چوکیداری میں ذرا فرق نہیں۔ سوتے میں بھی آنکھ کھلی رکھنی پڑتی ہے۔

مرد کی پسند وہ پل صراط ہے جس پر کوئی موٹی عورت نہیں چل سکتی۔

سچ بول کر ذلیل خوار ہونے کی بہ نسبت جھوٹ بول کر ذلیل و خوار ہونا بہتر ہے۔ آدمی کو کم از کم صبر تو آجاتا ہے کہ کس بات کی سزا مل رہی ہے۔

ہماری گائکی کی بنیاد طبلے پر ہے۔ گفتگو کی بنیاد گالی پر۔

عورت کی ایڑی ہٹاؤ تو اس کے نیچے سے کسی نہ کسی مرد کی ناک ضرور نکلے گی۔


اس زمانہ میں سو فیصد سچ بول کر زندگی کرنا ایسا ہی ہے جیسے بجری ملائے بغیر صرف سیمنٹ سے مکان بنانا۔

مڈل کلاس غریبی کی سب سے قابل رحم اور لا علاج قسم وہ ہے جس میں آدمی کے پاس کچھ نہ ہو لیکن اسے کسی چیز کی کمی محسوس نہ ہو۔

مسلمان لڑکے حساب میں فیل ہونے کو اپنے مسلمان ہونے کی آسمانی دلیل سمجھتے ہیں۔

آزاد شاعری کی مثال ایسی ہے جیسے بغیر نیٹ کے ٹینس کھیلنا۔

بے سبب دشمنی اور بدصورت عورت سے عشق حقیقت میں دشمنی اور عشق کی سب سے نخالص قسم ہے۔ یہ شروع ہی وہاں سے ہوتے ہیں جہاں عقل ختم ہو جاوے ہے۔

داغ تو دو ہی چیزوں پر سجتا ہے، دل اور جوانی۔

گانے والی صورت اچھی ہو تو مہمل شعر کا مطلب بھی سمجھ میں آجاتا ہے۔

شیر، ہوائی جہاز، گولی، ٹرک اور پٹھان ریورس گئیر میں چل ہی نہیں سکتے۔

پہاڑ اور ادھیڑ عورت در اصل آئل پینٹنگ کی طرح ہوتے ہیں۔ انہیں زرا فاصلے سے دیکھنا چاہیے۔

بعض اوقات غریب کو مونچھ اس لیے رکھنی پڑتی ہے کہ وقت ضرورت نیچی کر کے جان کی امان پائے۔

جو شخص کتے سے بھی نہ ڈرے اس کی ولدیت میں شبہ ہے۔

بندر میں ہمیں اس کے علاوہ اور کوئی عیب نظر نہیں آتا کہ وہ انسان کا جد اعلی ہے۔

جب آدمی کو یہ نہ معلوم ہو کہ اس کی نال کہاں گڑی ہے اور پرکھوں کی ہڈیاں کہاں دفن ہیں تو منی پلانٹ کی طرح ہوجاتا ہے۔ جو مٹی کے بغیر صرف بوتلوں میں پھلتا پھولتا ہے۔

مرغ کی آواز اس کی جسامت سے کم از کم سو گنا زیادہ ہوتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اگر گھوڑے کی آواز اسی مناسبت سے ہوتی تو تاریخی جنگوں میں توپ چلانے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔

بادشاہوں اور مطلق العنان حکمرانوں کی مستقل اور دل پسند سواری در حقیقت رعایا ہوتی ہے۔

طعن و تشنیع سے اگر دوسروں کی اصلاح ہو جاتی تو بارود ایجاد کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔

عمر طبیعی تک تو صرف کوے، کچھوے، گدھے اور وہ جانور پہنچتے ہیں جن کا کھانا شرعاً حرام ہے۔

میٹھا پان، ٹھمری اور ناول، یہ سب نابالغوں کے شغل ہیں۔

آپ راشی، زانی اور شرابی کو ہمیشہ خوش اخلاق، ملنسار اور میٹھا پائیں گے۔ اس واسطے کہ وہ نخوت، سخت گیری اور بد مزاجی افورڈ ہی نہیں کر سکتے۔

مزاح، مذہب اور الکحل ہر چیز میں بآسانی حل ہو جاتے ہیں۔

شعر کتنا ہی لغو اور کمزور کیوں نہ ہو اسے بقلم خود کاٹنا اور حذف کرنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا اپنی اولاد کو بدصورت کہنا یا زنبور سے اپنا ہلتا ہوا دانت خود اکھاڑنا۔

اختصار ظرافت اور زنانہ لباس کی جان ہے۔

میں نے کبھی پختہ کار مولوی یا مزاح نگار کو محض تقریر و تحریر کی پاداش میں جیل جاتے نہیں دیکھا۔

مزاح کی میٹھی مار بھی شوخ آنکھ، پرکار عورت اور دلیر کے وار کی طرح کبھی خالی نہیں جاتی۔