نیا قانون
آزادی کے دیوانے منگو کوچوان کی کہانی ہے۔ وہ ناخواندہ ہے پھر بھی اسے ساری دنیا کی معلومات ہے جنھیں وہ اپنی سواریوں سے سن کر معلوم کرتا رہتا ہے۔ ایک دن اسے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان میں نیا قانون آنے والا ہے جس سے ہندوستان کی انگریزی حکومت ختم ہو جائے گی۔ اسی خوشی میں وہ قانون لاگو ہونے والی تاریخ کو ایک انگریز سے جھگڑا کر بیٹھتا ہے اور جیل پہنچ جاتا ہے۔
سعادت حسن منٹو
ترقی پسند
طنز و مزاح کے پیرایہ میں لکھا گیا یہ افسانہ ترقی پسند افسانہ نگاروں پر بھی چوٹ کرتا ہے۔ جوگندر سنگھ ایک ترقی پسند افسانہ نگار ہے جس کے یہاں ہریندر سنگھ آکر پڑاؤ ڈال دیتا ہے اور مسلسل اپنے افسانے سنا کر بو رکرتا رہتا ہے۔ ایک دن اچانک جوگندر سنگھ کو احساس ہوتا ہے کہ وہ اپنی بیوی کی حق تلفی کر رہا ہے۔ اسی خیال کے تحت وہ ہریندر سے باہر جانے کا بہانہ کرکے بیوی سے رات بارہ بجے آنے کا وعدہ کرتا ہے۔ لیکن جب رات میں جوگندر اپنے گھر کے دروازہ پر دستک دیتا ہے تو اس کی بیوی کے بجائے ہریندر دروزہ کھولتا ہے اور کہتا ہے جلدی آ گئے، آو، ابھی ایک افسانہ مکمل کیا ہے، اسے سنو۔
سعادت حسن منٹو
انقلاب پسند
اس کہانی کا مرکزی کردار سلیم ایک فطری انقلاب پسند واقع ہوا ہے۔ وہ کائنات کی ہر شے حتی کہ اپنے کمرے کی ترتیب میں بھی انقلاب دیکھنا پسند کرتا ہے۔ وہ دنیا سے غربت، بے روزگاری، ناانصافی اور استحصالی نظام کا خاتمہ چاہتا ہے اور اس کے لیے وہ بازاروں میں تقریریں کرتا ہے لیکن اسے پاگل سمجھ کر پاگل خانے میں ڈال دیا جاتا ہے۔
سعادت حسن منٹو
دیکھ کبیرا رویا
کبیر کو علامت بنا کر یہ کہانی ہمارے معاشرے کی اس حقیقت کو بیان کرتی ہے جس کے بنا پر لوگ ہر اصلاح پسند کو کمیونسٹ، آمریت پسند قرار دے دیتے ہیں۔ سماج میں ہو رہی برائیوں کو دیکھ کر کبیر روتا ہے اور لوگوں کو ان برائیوں سے روکتا ہے۔ لیکن سب جگہ اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ لوگ اسے برا بھلا کہتے ہیں اور مار کر بھگا دیتے ہیں۔
سعادت حسن منٹو
دیوانہ شاعر
یہ امرتسر کے جلیانوالا باغ میں ہوئے قتل عام پر مبنی افسانہ ہے۔ اس قتل عام کے بعد شہر میں بہت کچھ بدلا تھا۔ اس سے کئی انقلابی پیدا ہوئے تھے اور بہتوں نے انتقام کے لیے اپنی جانیں قربان کی تھیں۔ انہیں لوگوں میں ایک انقلابی شاعر بھی تھا، جس کی شاعری دل چیر دینے والی تھی۔ ایک روز شام کو ادیب کو وہ دیوانہ شاعر باغ کے ایک کنویں کے پاس ملا تھا، جہاں اس نے اس سے اپنے انقلابی ہو جانے کی داستان بیان کی تھی۔
سعادت حسن منٹو
خودکشی کا اقدام
افسانہ ملک کی معاشی اور قانونی صورتحال کی ابتری پر مبنی ہے۔ اقبال فاقہ کشی اور غربت سے تنگ آکر خود کشی کی کوشش کرتا ہے جس کی وجہ سے اسے قید با مشقت کی سزا سنائی جاتی ہے۔ عدالت میں وہ طنزیہ انداز میں دریافت کرتا ہے کہ صرف اتنی سزا؟ مجھے تو زندگی سے نجات چاہیے۔ اس ملک نے غربت ختم کرنے کا کوئی راستہ نہیں نکالا تو تعذیرات میں میرے لیے کیا قانون ہوگا؟
سعادت حسن منٹو
نعرہ
یہ افسانہ ایک متوسط طبقہ کے آدمی کی انا کو ٹھیس پہنچنے سے ہونے والی درد کو بیاں کرتا ہے۔ بیوی کی بیماری اور بچوں کے اخراجات کی وجہ سے وہ مکان مالک کو پچھلے دو مہینے کا کرایہ نہیں دے پایا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ مالک مکان اسے ایک مہینے کی اور مہلت دے دے۔ اس درخواست کے ساتھ جب وہ مالک مکان کے پاس گیا تو اس نے اس کی بات سنے بغیر ہی اسے دو گندی گالیاں دیں۔ ان گالیوں کو سن کر اسے بہت تکلیف ہوئی اور وہ مختلف خیالوں میں گم شہر کے دوسرے سرے پر جا پہنچا۔ وہاں اس نے اپنی پوری قوت سے ایک ’نعرہ‘ لگایا اور خود کو بہت ہلکا محسوس کرنے لگا۔
سعادت حسن منٹو
رشوت
’’ایک نوجوان کی زندگی کے تلخ تجربوں کی کہانی ہے۔ نوجوان نے جب بی۔ اے پاس کیا تو اس کے باپ کا ارادہ تھا کہ وہ اسے اعلیٰ تعلیم کے لیے ولایت بھیجیں گے۔ اس درمیان اس کے باپ کو جوا کھیلنے کی عادت پڑ گئی اور وہ اپنا سب کچھ جوئے میں ہار کر مر گیا۔ نوجوان خالی ہاتھ جد و جہد کرنے لگا۔ وہ جہاں بھی نوکری کے لیے جاتا، سب جگہ اس سے رشوت مانگی جاتی۔ آخر میں پریشان ہو کر اس نے اللہ کو ایک خط لکھا اور اس خط کے ساتھ رشوت کے طور پر وہ تیس روپیے بھی ڈال دیے، جو اس نے مزدوری کر کے کمائے تھے۔ اس کا یہ خط ایک اخبار کے ایڈیٹر کے پاس پہنچ جاتا ہے، جہاں سے اسے دو سو روپیے ماہوار کی تنخواہ پر نوکری کے لیے بلاوا آ جاتا ہے۔‘‘
سعادت حسن منٹو
پھولوں کی سازش
مختلف حیلوں اور بہانوں سے اتحاد و اتفاق کو پارہ پارہ کرنے والے عناصر کی نشاندہی تمثیلی پیرایہ میں کی گئی ہے۔ ایک دن گلاب مالی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتا ہے اور سارے پھولوں کو اپنی آزادی اور حقوق کی طرف متوجہ کرتا ہے لیکن چنبیلی اپنی نرم و نازک باتوں سے گلاب کو اپنی طرف ملتفت کرکے اصل مقصد سے غافل کر دیتی ہے۔ صبح مالی آکر دونوں کو توڑ لیتا ہے۔
سعادت حسن منٹو
نیا سال
یہ زندگی سے جدوجہد کرتے ایک اخبار کے ایڈٹر کی کہانی ہے۔ حالانکہ اسے اس اخبار سے دولت مل رہی تھی اور نہ ہی شہرت۔ پھر بھی وہ اپنے کام سے خوش تھا۔ اس کے مخالف اس کے خلاف کیا کہتے ہیں؟ لوگ اس کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟ یا پھر دنیا اس کی راہ میں کتنی مشکلیں پیدا کر رہی ہے، اس سے اسے کوئی مطلب نہیں تھا۔ اسے تو بس مطلب ہے اپنے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو دور کرنے سے۔ یہی کام وہ گزشتہ چار سال سے کرتا آ رہا تھا اور اب جب نئے سال کا آغاز ہونے والا ہے تو وہ اس سے بھی مقابلے کے لیے تیار ہے۔
سعادت حسن منٹو
روغنی پتلے
’’قوم پرستی جیسے مدعے پر بات کرتی کہانی، جو شاپنگ آرکیڈ میں رکھے رنگین بتوں کے گرد گھومتی ہے۔ جن کے آس پاس سارا دن طرح طرح کے فیشن پرست لوگ اور نوجوان لڑکے لڑکیاں گھومتے رہتے ہیں۔ مگر رات ہوتے ہی وہ بت آپس میں گفتگو کرتے ہوئے موجودہ حالات پر اپنی رائے ظاہر کرتے ہیں۔ صبح میں آرکیڈ کا مالک آتا ہے اور وہ کاریگروں کو پورے شاپنگ سینٹر اور تمام بتوں کو پاکستانی رنگ میں رنگنے کا حکم سناتا ہے۔‘‘
ممتاز مفتی
نفسیاتی مطالعہ
ایک ایسی ادیبہ کی داستان اس کہانی میں بیان کی گئی ہے جو مردوں کی نفسیات پر لکھنے کے لیے مشہور ہے۔ کچھ ادیب دوست بیٹھے ہو ئے اسی مصنفہ بلقیس کے بارے میں باتیں کر رہے ہیں۔ ادیب جس گھر میں بیٹھے ہیں اس گھر کی خاتون بلقیس کی دوست ہے۔ دوران گفتگو ہی فون آتا ہے اور وہ خاتون بلقیس سے ملنے چلی جاتی ہے۔ بلقیس اسے بتاتی ہے کہ وہ گھر میں سفیدی کر رہے ایک مزدور کی نفسیات کا مطالعہ کر رہی تھی کہ اسی درمیان اس مزدور نے اسے اپنی ہوس کا شکار بنا لیا۔
سعادت حسن منٹو
باغی
’’یہ کہانی ایک ریلوے اسٹیشن، اس کےاسٹیشن ماسٹر اور ٹکٹ بابو کے گرد گھومتی ہے۔ اسٹیشن ماسٹر کا ماننا ہے کہ پورے ہندوستان میں ہر چیز ایک دوسرے سے جڑی ہے۔ بہت کم لوگ ہی اس رشتہ کو دیکھ پاتے ہیں اور اس کی قدر کرتے ہیں۔ مگر جو لوگ اس رشتہ سے انکار کرتے ہیں وہ باغی ہیں۔ اسٹیشن ماسٹر کے مطابق ان رشتوں کو جوڑے رکھنے میں آم کے باغ اہم رول نبھاتے ہیں۔ اگر کہیں آم کے باغ نہیں ہیں تو وہ علاقہ اور وہاں کے لوگ سرے سے ہندوستانی ہی نہیں ہے۔ کسی بھی شخص کو ہندستانی ہونے کے لیے یہاں کی تہذیب میں آم کے باغ کی اہمیت کو سمجھنا ہی ہوگا۔‘‘
محمد مجیب
غلامی
سرمایہ داری نے ہر غریب انسان کو غلام بنا دیا ہے۔ ایک خوشگوار شام کو دو دوست ندی کنارے بیٹھ کر اپنی غربت کے بارے میں باتیں کر رہے ہیں۔ وہ اس بات سے افسردہ ہیں کہ غریب کتنی مصیبتوں کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہے۔ دونوں دوست اب یہاں سے چلنے کی تیاری کرتے ہیں، جبھی ایک غریب عورت ان کے پاس سے گزرتی ہے۔ ان میں سے ایک اس عورت سے فصل کے بارے میں دریافت کرتا ہے کہ وہ عورت رونے لگتی ہے۔ دوسرا دوست اس کی مدد کرنا چاہتا ہے کہ پہلا دوست یہ کہہ کر اسے مدد کرنے سے روک دیتا ہے کہ غلامی تو ان کے اندر بسی ہوئی ہے۔
احمد علی
مزدور
ہمارا مہذب سماج مزدوروں کو انسان نہیں سمجھتا۔ ایک غریب مزدور طبیعت ٹھیک نہ ہونے کے باوجود مجبوری میں بجلی کے کھمبے پر چڑھ کر بجلی ٹھیک کر رہا ہوتا ہے کہ اچانک اس کا توازن بگڑتا ہے اور وہ نیچے آ رہتا ہے۔ کسی طرح اسے اسپتال پہنچایا جاتا ہے۔ ابھی اس کی سانسیں چل رہی ہیں کہ ڈاکٹر اسے مردہ اعلان کر دیتا ہے۔
احمد علی
بنارس کا ٹھگ
ایک ایسے فرد کی کہانی ہے جو بنارس سیر کے لیے آتا ہے تو اسے ہر جگہ وارانسی لکھا دکھائی دیتا ہے۔ شہر میں گھومتے ہوئے اسے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شہر میں جہاں ایک طرف بہت امیر لوگ ہیں وہیں دوسری طرف ایسے لوگ بھی ہیں جن کے تن پر کپڑے تک نہیں ہیں۔ سیر کرتے ہوئے وہ سارناتھ جاتا ہے، وہاں گوتم بدھ کی سونے کی مورتی دیکھتا ہے۔ سونے کی مورتی دیکھ کر اسے بہت غصہ آتا ہے اور وہ مورتی کو توڑ دیتا ہے۔ وہ شہر میں اسی طرح کے اور بھی تخریبی کام کرتا ہے۔ آخر میں اسے پولس پکڑ لیتی ہے اور پاگل خانے کو سونپتے وقت جب اسکا نام پوچھا جاتا ہے تو وہ اپنا نام کبیر بتاتا ہے۔
خواجہ احمد عباس
قید خانہ
ایک ایسے شخص کی کہانی جو تنہا ہے اور وقت گزارنے کے لیے ہر روز شام کو شراب خانے میں جاتا ہے۔ وہاں روز کے ساتھیوں سے اس کی بات چیت ہوتی ہے اور پھر وہ درختوں کے جھرمٹ میں چھپے اپنے گھر میں آ جاتا ہے۔ گھر اسے کسی قید خانے کی طرح لگتا ہے۔ وہ گھر سے نکل پڑتا ہے، قبرستان، پہاڑیوں اور دوسری جگہوں سے گزرتے، لوگوں سے میل ملاقات کرتے، ان کے ساتھ وقت گزارتے وہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ یہ زندگی ایک قید خانہ ہے۔
احمد علی
شاہی رقاصہ
ایک ایسی رقاصہ کی داستان جو محل کی زندگی سے اوب کر آزادی کے لیے بے چین رہتی ہے۔ وہ جب بھی باہر نکلتی ہے وہاں لوگوں کو ہنستے گاتے اپنی مرضی کی زندگی گزارتے دیکھتی ہے تو اسے اپنی زندگی سے نفرت ہونے لگتی ہے۔ اسے وہ محل کسی سونے کے پنجرے کی طرح لگتا ہے اور وہ خود کو اس میں قید چڑیا کی طرح تصور کرتی ہے۔