مضمون نگار دماغی عیاش نہیں۔ افسانہ نگار خیراتی ہسپتال نہیں ہیں۔ ہم لوگوں کے دماغ لنگر خانے نہیں ہیں۔
ہندی ہندوستانی اور اردو ہندی کے قضیے سے ہمیں کوئی واسطہ نہیں۔ ہم اپنی محنت کے دام چاہتے ہیں۔ مضمون نویسی ہمارا پیشہ ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ ہم اس کے ذریعے سے زندہ رہنے کا مطالبہ نہ کریں۔ جو پرچے، جو رسالے، جو اخبار ہماری تحریروں کے دام ادا نہیں کر سکتے بالکل بند ہو جانے چاہئیں۔
سب سے بڑی شکایت مجھے ان ادیبوں، شاعروں اور افسانہ نگاروں سے ہے جو اخباروں اور رسالوں میں بغیر معاوضے کے مضمون بھیجتے ہیں۔ وہ کیوں اس چیز کو پالتے ہیں جو ایک کھیل بھی ان کے منہ میں نہیں ڈالتی۔ وہ کیوں ایسا کام کرتے ہیں جس سے ان کو ذاتی فائدہ نہیں پہنچتا۔ وہ کیوں ان کاغذوں پر نقش و نگار بناتے ہیں جو ان کے لئے کفن کا کام بھی نہیں دے سکتے۔
زبان اور ادب کی خدمت ہو سکتی ہے صرف ادیبوں اور زبان دانوں کی حوصلہ افزائی سے اور حوصلہ افزائی صرف ان کی محنت کا معاوضہ ادا کرنے ہی سے ہو سکتی ہے۔