Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

آب رواں

شعیب شاہد

آب رواں

شعیب شاہد

MORE BYشعیب شاہد

    بس میں کھڑکی سے لگا میں روڈویز بسوں کی تنگدامنی پر غور وفکر ہی کر رہا تھا کہ بس اچانک ایک تیز جھٹکے سے رک گئی۔ بس میں سوار درجنوں زبانوں پر مشترکہ طور پر مغلظات کا ورد سا ہوا۔ میں نے کھڑکی سے ذرا جھانک کر جو دیکھا تو کچھ نظر نہ آیا۔ کنڈکٹر کے بتانے پر ماجرا کھلا۔ یہ کوئی خاتون تھیں جو بس کو رکوانے کی غرض سے تقریباً بس کے آگے ہی آ گئی تھیں۔ ڈرائیور بیچارہ لاچار ومددگار۔ بس رکی۔ اور رفتہ رفتہ کاروان اطفال نمودار ہوا۔ پہلے چیختا چلاتا سا ایک بچہ اندر آیا۔ پھر دوسرا، پھر تیسرا۔۔۔

    میں نے کل مردم شماری کی غرض سے پھر اپنا گنہگار سر باہر نکالا۔ دیکھتا کیا ہوں، کہ دروازے پر کثیرو جمیل عوام الناس کا ایک ہجوم ہے۔ جسمیں بچوں اور بیگوں کو الگ الگ نہ گنا جا سکا۔ مگر کوئی خاتون کہیں نظر نہ آئیں۔ بچہ اور بیگ اندر داخل ہوئے جاتے تھے۔ یکے بعد دیگرے پورے چھ بچہ اور تقریباً اتنے ہی بیگ اندر آ گئے تو ڈرائیور نے دروازے سے نظر ہٹا لیں۔ اور چلنے کے لیے ذرا حرکت میں ہی آیا تھا کہ ایک ساتھ ان سبھی نے شور مچا دیا۔

    ’’امی۔۔۔‘‘

    ’’ہماری امی رے گیین۔۔۔‘‘

    پھر جھٹکے سے بریک لگے۔

    پوری بس میں ایک خاموشی سی تھی۔ بس کے دروازے سے کچھ مغلظات کی آوازیں آنے لگیں۔ اور سب کی نظریں دروازے کی طرف ٹک گئیں۔ کنڈکٹر نے اٹھ کر مدد کی تو ایک موٹی عورت ہاتھ میں ایک نازک سی بچی دبائے، دروازے میں پھنستی پھنساتی سی اوپر چڑھی۔ وسعت اور فراوانی کا یہ عالم کہ محض لفظ ’’موٹی‘‘سے حق ادا نہیں ہوتا۔ اندر آئیں تو پہلے تو اندر آتے ہی ایک بچہ (جس کا سن پانچ کا ہوگا) کے گال پر پنپناتا سا تماچا آ رکھا۔

    ’’ستیناسی! چولہے سرکے! گلپسا کو پکڑ نا سکییا۔‘‘

    لڑکا بیچارہ پشیمان ہوا اور احساس ندامت میں اپنے ہم پیالہ وہم نوالہ چھوٹے یا بڑے بھائی کی کمر میں ایک گٹ جڑتے ہوئے بولا، “تسے پیلیئی کیرائا‘‘

    یہ خاتون جنت اب عین اس جگہ کھڑی تھیں کہ جہاں کچھ دیر پہلے ایک شخص کمپنی کے پرچار اور ہم لوگوں کے فائدے کی خاطر خود کو برباد کر دینے پر تلا تھا۔ ان بی بی کا حلیہ تو ذرا ملاحظہ ہو۔ سانس پھول رہی تھی۔ چہرہ ابھی بھی غصے سے تمتما رہا تھا۔ گلپسا کو ہاتھوں میں پھنسائے اپنی لہلہاتی فصل کے بیچ کھڑی تھیں۔ اگر انکا وجود کسی پتلی چھڑی کا سا ہوتا تو ہم انکی تشبیہ لکڑی کے اس پتلے سے دیتے کہ جو فصل کے بیچ پرندوں کو ڈرانے کی غرض سے لگائے جاتے ہیں۔ مگر اس وقت تو حالات یہ تھے کہ یہ بی بی پوری بس کو خوفزدہ کرنے کے لیے کافی تھیں۔ سرخ سا جوڑا زیب تن، دوپٹہ فطرت سے آزاد، زلفیں الجھی ہوئیں مگر شاعر انہیں سلجھانے کا متمنی نہیں۔ آنکھوں میں کاجل، مگر چٹکی بھر نہیں، بلکہ کٹوری بھر۔ بچوں کو دیکھ کر معلوم ہوتا تھا کہ غالباً ان بچوں کے ابا کاجل بنانے والے کسی کارخانے میں ملزم تھے۔ گالوں پر سرخی کے حلقے بنے ہوئے تھے۔ اور آنکھوں کے کاجل آنسوؤں کے آبشاروں میں بہتا اسی لالی گلفام سے ساغر میں جا ملتی تھی۔

    بیگم صاحبہ میرے قریب آئیں تو وہی ہوا۔ جسکے نہ ہونے کی دعائیں کر رہا تھا۔ ڈیڑھ افراد کی گنجائش والی اس سیٹ پر کھڑکی سے چپکا میں اور اندر کی طرف ٹیک لگائے شریف نوجوان بیٹھا تھا۔ مگر اس شرافت یا حماقت پر کیا کہئے کہ جیسے ہی بی بی نے ہمارے قریب آکر معصوم نظروں سے دیکھا تو ’’مارے شرم کے اکبر غیرت قومی سے گڑ گیا۔‘‘ فوراً اٹھ کھڑا ہوا اور سیٹ پیش کی۔ میں ابھی سیٹ کی پیمائیش اور خود کے تحفظ ہی کے منصوبے بنا رہا تھا کہ ایک اسکائلیب تقریباً میرے اوپر آ گرا۔ مجھے تو موقع نہ مل سکا لیکن بس کی چیخ سی نکل گئی۔ اور ایک طرف جھک گئی۔ فصل بہاراں آس پاس کھڑی لہلہا رہی تھی۔ بغل میں دبی گلپسا کا منہ میرے عین کندھے پر۔ اسکی ناک سے آب رواں اسکے سرخ ہونٹوں سے ہوتا ہوا میرے کندھے کی سست باندھ رہا تھا۔

    اس گلستان اطفال کو جو اتنے قریب سے دیکھا تو یہ انکشاف ہوا کہ شاید انکے ابا کے کارخانے میں لپسٹک بھی بنائی جاتی ہو۔ تمام بچوں کے لبوں پر حیا کی سرخی پھیلی تھی۔ بنا مرد خواتین کی تفریق کے۔

    ایک سب سے واضح خوف جو ان حالات میں لاحق ہے، وہ یہ کہ اس صورت میں کسی خلق خداوند کو الٹی نہ ہو جائے۔

    ظاہر ہے ایسے حالات میں دعا ہی کی جا سکتی ہے۔ لہذا میں بڑے دل سوز لہجے میں دعاگو ہوا کہ ’’اے میرے پروردگار! تیرے حبیب نے ہم سے کہا ہے کہ صفائی آدھا ایمان ہے۔ تو اے ہمارے رب! بس میرے ایمان کی حفاظت فرما۔ مجھ گنہگار کو آزمائش میں نہ ڈال۔‘‘

    مگر خدا کی اپنی مصلحت ہوتی ہے۔ اسے تو آزمائش ہی میں ڈالنا منظور تھا۔ لہذا وہی ہوا۔۔۔

    اللہ جب کسی پر آزمائش ڈالتا ہے تو اس سے نکلنے کی قوت بھی بخشتا ہے۔ لڑکے نے جو بڑا سا منہ بنا کر منہ کھولا تو کراماً کاتبین نے کان میں اپنی پنسل چبھو کر ٹہوکا دیا۔ اور میں اچھل کر سیٹ کے اوپر کھڑا ہو گیا۔ سر سمان کے مچان سے ٹکرایا۔ غشی سی آ گئی۔ مگر خیر ہو۔ کپڑے بچ گئے۔ اب جو بیگم صاحبہ کو دیکھا تو حسرت کا وہ شعر صادق آتا تھا،

    اللہ رے جسم یار کہ خوبی کہ خود بخود

    رنگینیوں میں ڈوب گیا پیرہن تمام۔۔۔

    آنکھوں میں دہکتے شعلہ لیے بچہ کی طرف جو دیکھا تو مارے خوف کے اسکی پینٹ بھی بھیگ گئی، اور آب گم آہستہ آہستہ جوتوں سے نمودار ہوا۔ باقی بچہ آنے والی شامت کو بھانپ کر حرکت میں آ گئے۔ کچھ رونے لگے اور جو ذرا سمجھدار تھے انہوں نے اپنے گالوں کو طمانچے کی حد سے دور کر لیا۔ یہ سراپا مجرم بیگم صاحبہ کے پیروں میں پھنسا ہوا تھا تو ہل نہ سکا اور سارا غضب اسی پر نازل ہوا۔

    الامان! الحفیظ!

    وہ لٹا لٹا کر کٹائی ہوئی کہ رہے نام مالک کا۔ لوگ دور دور سے چلاتے رہے۔

    ’’بی بی جانے دیں!‘‘

    ’’بی بی بچہ ہے!‘‘

    ’’بھین کوئی بات نائے بچہ ہے!‘‘

    ’’بھین اب نہ کریگا۔۔۔‘‘

    قریب کوئی نہ آیا کہ کہیں خود بھی اس عذاب کی زد میں نہ پکڑ لیا جائے۔ میں اب تک سیٹ پر کھڑا فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ گویا اترنا ہے یا ابھی کسی اور سانحہ کے گزر جانے کا انتظار کرنا ہے۔

    بس ایک اسٹاپ تک پہنچی تو میں سیٹوں پر اچھلتا پھاندتا دروازے تک پہنچا۔ بس سے اترنے ہی والا تھا کہ شور ہوا۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو اس بار گلپسا بیگم جان کو پانی پانی کر چکی تھی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے