Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دلی کی پھٹ پھٹ سیوا

شعیب شاہد

دلی کی پھٹ پھٹ سیوا

شعیب شاہد

MORE BYشعیب شاہد

    آپنے کبھی پھٹ پھٹ سیوا میں سفر کیا ہے؟

    پھٹ پھٹ سیوا دلی کے کچھ علاقوں سے دوسرے مخصوص علاقوں کے بیچ چلتی ہے۔ پھٹ پھٹ سیوا کہلانے کے لیے گاڑی کا اتنا پرانا ہونا شرط ہے کہ اسکو دیکھتے ہی بہادر شاہ ظفر کا دور حکمت کی یاد آتی ہو۔ ایک بڑی سی پرانی گاڑی۔ جسمیں جب تک سیٹوں کے برابر۔۔۔ نہیں، بلکہ یوں کہئے کہ ڈرائیور کی مرضی کے برابر سواری سوار نہیں ہوتیں، تب تک چلنا خلاف شریعت عمل ہے۔ مجھے جب بھی جلدی دریا گنج جانا ہوتا ہے تو اکثر اسی سے سفر کرتا ہوں۔ کل بھی کر رہا تھا۔ سٹینڈ پر کھڑی ہوئی پھٹ پھٹ کو دیکھ کر برملا جیلوں کی ان گاڑیوں کی یاد آتی ہے کہ جسمیں قیدیوں سوار کرکے۔۔۔ بلکہ یوں کہنا قدرے مناسب ہوگا کہ ’’قیدیوں کو بھرکے‘‘ ایک جگہ سے دوسری جگہ ڈھویا جاتا ہے۔ ویسے جن صاحبان کا واسطہ کبھی جیل سے نہی پڑا ہے وہ پھٹ پھٹ کی مشابہت میونسپل بورڈ کی ان گاڑیوں سے کر سکتے ہیں کہ جن کا استعمال عموماً آوارہ کتوں کو قید کرنے اور انکی منزل مقصود تک پہنچانے کے لیے کیا جاتا ہے۔

    لہذا میرے پہنچتے ہی مجھے ڈرائیور نے اندر کو دھکیل دیا۔ ایک کونے میں یہ اطمینان کرکے بیٹھ گیا کہ آس پاس کوئی کیل وغیراہ نہیں نکلی ہے۔ گاڑی کے مین ہال میں چاروں طرف سیٹیں تھیں۔ جسمیں میرے سامنے کی سیٹ پر ایک صحتمند خاتون تشریف رکھتی تھیں۔ گرمی، بھیڑ، غیرمعیاری ماحول اور ڈرائیور کی ابھی بھی مسلسل سواریوں کے بھرے جانے کہ ضد نے انکے نورانی چہرے کی بناوٹ کچھ ایسی کر دی تھی، کہ رہے نام مالک کا۔۔۔!

    لیجئے برابر میں حاجی صاحب تشریف رکھتے ہیں جن کی جان الف لیلیٰ کے طوطے کی طرح ان کے کلف کے کرتے میں پھنسی معلوم ہوتی تھی۔ دیگر سواریوں کا وہ ہجوم جو ایک دوسرے سے چڑھا ہوا سا بیٹھا تھا وہ اس کرب واذیت سے خوب اچھی طرح متعارف تھا شاید۔ گاڑی چلنے ہی والی تھی میرے برابر میں بیٹھے ایک بزرگ حرکت میں آئے اور میرے گھٹنے پر تیز ہاتھ مارا۔ میں حیران۔ انکو دیکھا تو بولے، ’’جانتے ہو شہزادے، جب اس پورے علاقے میں کچھ نہی تھا، تب سے یہاں رہ رہا ہوں۔ یہ سامنے والی عمارت دیکھ رہے ہو، یہاں ایک عورت بہت ساری مرغیاں پالا کرتی تھی۔ بڑی کمبخت تھی۔‘‘ میں نے ان صاحب کو غور سے دیکھا۔ پوپلا سا منہ، مگر شیو کیا ہوا۔ سیاہ جلد پلاسٹک کی بنی معلوم ہوتی تھی۔ ایسا عموماً دو ہی صورتوں میں ہوتا ہے، یا تو انسان کو مسلسل ریزر نے گھسا ہو یا زمانہ نے۔ سر پر ایلی گیرین ٹوپی۔ کیونکہ سر پر بال بالکل نہیں تھے اسلئے ڈھیلی سی ٹوپی سر پر ادھر سے ادھر دوڑتی معلوم ہوتی تھی۔ پتلون اتنی ڈھیلی تھی کہ مجھے راجکماری کی وہ تصویر یاد آئی جسمیں مصور نے لہنگے کی وسعت میں دو جہان کے راز نقش کر دیئے تھے۔ میری ناقص رائے میں انہیں محکمۂ آثار قدیر کا کوئی توپ افسر ہونا چاہیے تھا۔ چاچا بولتے رہے۔ گاڑی چلی۔ چاچا بھی نہیں رکے۔ جس بھی علاقے سے گزرتے وہیں کا قصہ شروع ہو جاتا۔ اور کمال یہ کہ پچھلے قصہ سے اگلے قصہ کا سرا اس طرح ایک دوسرے سے ملاتے، جس طرح وہ علاقے ایک دوسرے سے ملے ہوئے تھے۔ میں ان تمام کرداروں کے بیچ تماشائی بنا ایک کونے میں تقریباً دبا بیٹھا تھا۔ لوگ اس طرح ایک دوسرے سے بغل گیر ہوئے بیٹھے تھے کہ ہلنا محال تھا۔ وہ نوجوان لڑکی جس کا نام ابھی اسکی سہیلی نے انجم پکارا تھا، وہ ہسٹری کے نوٹس چاہتی ہے۔ اور دوسری، جس کا نام انجم نہیں تھا۔ وہ شام کو اسے دور مغلیات کی وہ رودادیں بھجوا دے گی۔ ادھر سامنے داہنی سیٹ پر جو خاتون، (جو غالباً کسی تقریب کے لیے تیار ہوکر آئی ہیں) اب تک ان کے چہرے کے میک اپ کی وہ موٹی سی پرت پسینوں سے بہنے لگی تھی۔ میں دعا کر رہا تھا کہ الٰہی اسکی اصل صورت کے ظہور سے پہلے میرا سفر تمام کر دے۔ اس گاڑی نما محلے میں ایک نوجوان دور ہنگامۂ گلزار سے یکسو بیٹھا تھا۔ باربار چہرہ پونچھتا۔ کبھی کبھی موبائل میں جھانکتا۔ کبھی سامنے دیکھتا۔ اب جو ان نگاہوں کی سمت دیکھی تو معاملہ سمجھ آیا کہ یہ تمام حجت تو اس خوبصورت لڑکی کے لیے ہے کہ جو اسکے ٹھیک سامنے شاید امتحان لینے کی نیت سے بیٹھی ہے کہ شاعر کی وہ کیفیت صادق آتی ہے،

    رخ روشن کے آگے شمع رکھ کے وہ یہ کہتے ہیں

    ادھر جاتا ہے پروانہ یا دیکھیں ادھر آتا ہے

    مگر اس پر غضب خدا کا کہ وہ زہرہ جبیں کا حال یہ ہے جواباً دیکھتی تو ہے، لیکن یہ بھی دیکھتی ہے کہ کوئی دیکھتا نہ ہو۔

    اور یہ لیجئے، ہو گیا کام! ایک گٹکھا کھا رہے نوجوان نے اپنی گردن 120 ڈگری کے زاویے سے گھمائی۔ ساتھ ہی پورے بدن میں 15-20 ڈگری کے زاویے کی حرکت ہوئی۔ اور جیسے ہی کھڑکی پر نشانہ لگا کر تھوکنا چاہا، تھوک کی کچھ چھینٹے اس کلف کے کرتے پر جا گریں۔ اور الف لیلیٰ کے طوطے پر اچانک لگی اس ضرب سے حاجی صاحب کے مزاج اور شخصیت میں جو واضح تبدیلیاں نمودار ہوئیں وہ دیکھنے سے تعلق رکھتی تھیں۔ ان تمام کرداروں کے درمیان وہ چاچا (جنہیں انگریزی کے Father of Characters کے اردو متبادل سے تشبیہ دینا عین مناسب ہوگا)ذرا خفا سے بیٹھے تھے۔ اور اس خفگی کی وجہ خود انہوں نے یہ بیان کی، کہ میں انکی باتیں غور سے نہیں سن رہا ہوں۔

    یہ کل کی بات ہے۔ میں نے سوچا کہ اب کبھی پھٹ پھٹ میں نہیں بیٹھوں گا۔ لیکن شہروں کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں۔ لہذا آج پھر پھٹ پھٹ میں بیٹھا ہوں۔ بس آج والے چاچا محترم کے چہرے پر داڑھی ہونے کی وجہ سے ان کی جلد پلاسٹک کی نہیں ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے