Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مرزا غالب کی پریس کانفرنس

مجتبی حسین

مرزا غالب کی پریس کانفرنس

مجتبی حسین

MORE BYمجتبی حسین

    عالمِ بالا میں جب نجم الدولہ دبیر الملک اسد اللہ خاں نظام جنگ بہادر المتخلص بہ غالبؔ کو فرصت کے رات دن میسر آگئے تو وہ تصورِ جاناں کرنے بیٹھ گئے اور اس قدر بیٹھ گئے کہ اگر بر وقت نہ چونکتے تو بہشت کی زمین میں مرزا غالبؔ کی جڑیں پھوٹ جاتیں اور وہ ایک ہرے بھرے درخت میں تبدیل ہو کر رہ جاتے اور بعد میں یہ درخت دیوانِ غالبؔ کے نسخوں سے لد جاتا۔ مگر خدا بھلا کرے میر مہدی مجروحؔ کا کہ ان کی کھانسی نے مرزا غالبؔ کو چونکادیا، اور انہوں نے چونکتے ہی میر مہدی مجروحؔ سے پوچھا، ’’بھئی کیا وقت ہے؟‘‘ میر مہدی مجروحؔ نے پہلے تو اپنی گھڑی کو اچھی طرح ہلا کر یقین کر لیا کہ یہ چل رہی ہے یا نہیں، پھر گھڑی کی طرف غور سے دیکھ کر کہا، ’’استاد محترم، آپ وقت کیا پوچھتے ہیں، کافی برا وقت آگیا ہے۔ پوری ایک صدی بیت گئی ہے اور آپ صرف تصورِ جاناں میں کھوئے رہ گئے۔ اب ذرا جاگئے کہ زمانہ قیامت کی چال چل گیا ہے اور شاعر کہہ گیا ہے ؎

    نہ سمجھو گے تو مٹ جائوگے اے ہندوستاں والو

    تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں

    شعر کو سنتے ہی مرزا غالبؔ جو پہلے ہی سے چونک گئے تھے، کافی سے زیادہ چونک گئے اور بولے، ’’یہ کیا کہہ رہے ہو میاں میر مہدی! ذرا ہوش کے ناخن لو، کیا ہم پوری ایک صدی تک ’تصورِ جاناں‘ کرتے رہے؟‘‘

    میر مہدی بولے، ’’اور نہیں تو کیا۔ آپ نے تو تصورِ جاناں کے سارے عالمی بلکہ کائناتی ریکارڈ توڑ کر رکھ دیے ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر میر مہدی نے ایک ٹوٹے ہوئے ریکارڈ کے چند ٹکڑے مرزا غالبؔ کی خدمت میں پیش کیے اور ایک سردآہ کھنچ کریوں گویا ہوئے، ’’اے میرے استادِ محترم! مجھے آپ سے پوری ہمدردی ہے، جو ہونا تھا وہ ہو چکا، قسمت کے لکھے کو بھلا کون مٹا سکتا ہے۔ آپ ادھر تصورِ جاناں میں مگن رہے اور ادھر دنیا والوں نے آپ کی صدسالہ تقاریب منا ڈالیں۔ بچے بچے کی زبان پر آپ کا نام تو تھا ہی، اب بڑوں کی زبان پر بھی آپ کا نام ہے۔ دنیا میں اب یہ رواج عام ہو گیا ہے کہ اگر کسی کو دھمکی دینا ہو تو کہا جاتا ہے، ’’میاں! ذرا ہوشیار رہنا، نہیں تو تمہاری غالبؔ صدی تقاریب منا کر رکھ دوں گا۔‘‘ میں نے بارہا اس قسم کے جملے سنے ہیں۔

    ’’اگر کل تک مکان کا کرایہ ادا نہ ہوا تو سرِ بازار تمہاری غالب صدی تقاریب منا دوں گا۔‘‘

    ’’اگر ٹھیک سے کام نہ کرو گے تو تمہارا غالب سیمینار منعقد کروں گا۔‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ مائیں اپنے بچوں کو آپ کی تصویر بتا کر ڈراتی ہیں، ’’اگر شور کروگے تو غالبؔ کو بلائوں گی۔‘‘

    قبلہ! اب آپ سے کیا عرض کروں کہ آپ غالبؔ سے ’’گالبؔ‘‘ بن گئے ہیں۔ اور بعض بعض مقامات بلکہ مقاماتِ آہ وفغاں پر تو آپ ’’گلیبؔ‘‘ بھی بن چکے ہیں۔ لہٰذا اب خوابِ غفلت سے جاگئے اور دشمنوں کا منہ توڑ جواب دیجیے، ورنہ عین ممکن ہے کہ آپ کی شاعری صرف فیشن بن کر رہ جائے۔‘‘

    مرزا غالبؔ میاں میر مہدی کی اس تقریر دل پذیر کو بڑے غور سے سنتے رہے پھر بولے، ’’تم نے ہمیں پہلے ہی کیوں نہ جگایا؟‘‘

    میر مہدی بولے، ’’حضور! آپ کو تو یک گونہ بے خودی دن رات چاہئے بلکہ یہی تو آپ کا واحد پسندیدہ ’’ان ڈورگیم‘‘ ہے۔ بس اسی خیال سے نہ جگایا،

    ورنہ کیا بات کرنہیں آتی

    مرزا غالبؔ بولے، ’’وہ تو ایک صدی پہلے کی بات تھی۔ اب تو ’’حالات‘‘ اور ہماری ’’حالت‘‘ دونوں تبدیل ہو چکے ہیں۔ مگر بھئی کوئی سبیل تو بتائو کہ اب ہم کیا کریں؟‘‘

    تھوڑی دیر خاموشی طاری رہی۔ پھر اچانک میر مہدی نے چٹکی بجا کر کہا، ’’قبلہ! ایک ترکیب ذہن میں آئی ہے۔ اگر اس پر عمل کیا جائے تو شاید آپ اپنے موقف کی وضاحت کر سکیں۔‘‘

    مرزا غالبؔ نے پوچھا، ’’وہ کیا ترکیب ہے؟‘‘

    میر مہدی بولے، ’’حضور ان دنوں ہندوستان میں پریس کا بول بالا ہے۔ پریس کی طاقت بہت بڑی طاقت ہے۔ ایسے آڑے وقت میں پریس ہی آپ کی مدد کر سکتا ہے۔ کیوں نہ ہم پریس والوں کو طلب کریں۔‘‘

    مرزا غالبؔ نے کسی قدر حیرانی سے پوچھا، ’’کیا منشی نول کشور کا پریس اب تک موجود ہے؟‘‘ میر مہدی نے مرزا غالبؔ کی سادگی پر کف افسوس ملتے ہوئے کہا، ’’حضور! منشی نول کشور کا پریس تو اسی وقت بند ہو گیا تھا جب اس نے آپ کا دیوان چھاپا تھا۔ پریس والوں سے میری مراد اخباروالوں سے ہے۔ ہم ایک پریس کانفرنس طلب کریں گے جس میں آپ اپنے موقف کی وضاحت کریں۔‘‘

    مرزا غالبؔ نے تقریباً نڈھال ہو کر کہا، ’’میاں میر مہدی! ہم تو کچھ بھی نہیں جانتے۔ ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی کچھ ہماری خبر نہیں آتی۔ ہمیں تم پر پورا پورا بھروسہ ہے۔ تم جو کچھ کروگے وہ اچھا ہی کرو گے۔ مناسب سمجھو تو پریس کانفرنس بلا لینا مگر خیال رہے کہ یہ پریس کانفرنس دلّی میں منعقد ہو، کیوں کہ ہم نے بہت دنوں سے دلّی نہیں دیکھی۔ آنکھیں ترس گئی ہیں اسے دیکھنے کے لیے۔‘‘

    میر مہدی نے فوراً بات کو کاٹ کر کہا، ’’حضور پریس کانفرنس دلّی میں نہیں ہوگی کیوں کہ دلّی ’’ڈرائی ایریا‘‘ ہے اور پریس میں کوئی بات۔۔۔

    بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر

    لہٰذا پریس کانفرنس حیدرآباد میں منعقد ہوگی کیوں کہ یہ ابھی تک خوش قسمتی سے ’ویٹ ایریا‘ہے۔‘‘

    بالآخر پریس کانفرنس طلب کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ میر مہدی نے مرزا غالبؔ کو پریس کانفرنس کے اسرار و رموز سے واقف کرایا۔ انہیں ان ساری زیادتیوں کا حال سنایا جو ایک صدی کے عرصہ میں ان کی ذات کے ساتھ کی گئی تھیں۔ مرزا غالبؔ ان زیادتیوں کو سنتے جاتے اور زارو قطار روتے جاتے تھے اور ان کی زبان پر یہ شعر تھا ؎

    غم سے مرتا ہوں کہ اتنا نہیں دنیا میں کوئی

    کہ کرے تعزیت مہرو وفا میرے بعد

    میر مہدی بار بار انہیں دلاسہ دیتے اور کہتے،

    غالبؔ خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں

    روئیے زار زار کیا کیجئے ہائے ہائے کیوں

    میر مہدی نے مرزا غالبؔ کو سمجھایا اور کہا کہ ’’حضور اب رونے کا وقت نہیں رہا۔ اب ذرا سنبھل جائیے اور ایک تفصیلی صحافتی بیان تیار کیجئے تاکہ اس کی سائیکلو اسٹائل کا پیاں پریس کانفرنس میں اخبار والوں کے حوالے کی جاسکیں۔‘‘

    پریس کانفرنس کی تیاریاں شروع ہو گئیں، مرزا غالبؔ اور میاں میر مہدی دوسری دنیا سے اس دنیا میں عارضی طور پر آگئے۔ غالبؔ دن بھر پریس کانفرنس کی تیاریوں میں مصروف رہتے اور راتوں کو اپنا صحافتی بیان لکھنے میں مگن ہو جاتے۔ مرزا غالبؔ نے بڑے انہماک کے ساتھ ان غالبؔ نمبروں کا مطالعہ شروع کر دیا جو مختلف رسالوں نے ان کی صدی تقاریب کے موقع پر شائع کیے تھے۔ مرزا غالبؔ نے غالبیات کا مطالعہ یوں شروع کر دیا جیسے وہ خود اپنے آپ پر ریسرچ کرنے چلے ہوں۔ کسی کو مرزا غالبؔ کی آمد کی اطلاع نہیں دی گئی اور کسی کو یہ پتہ نہ چلا کہ مرزا غالبؔ ان کے درمیان یوں موجود ہیں جیسے چور کی داڑھی میں تنکا موجود ہوتا ہے۔

    چاروں طرف غالبؔ صدی تقاریب کا غلغلہ مچا ہوا تھا۔ ’’یومِ غالبؔ‘‘ ، ’’جشنِ غالب‘‘ ، ’’یادِ غالبؔ‘‘ ، ’’غالبؔ ڈے‘‘ ، ’’غالبؔ فیسٹیول‘‘ ، ’’غالبؔ فنڈ‘‘ ، ’’غالبؔ میموریل‘‘ ، ’’غالب بال روم ڈانس‘‘ ، ’’غالبؔ سمیتی‘‘ ، ’’غالبؔ سبھا‘‘ ، ’’غالبؔ سنستھا‘‘ ، ’’غالبؔ مہیلا وِ بھاگ‘‘ ، ’’غالبؔ کاریہ کرم‘‘ اور ’’غالبؔ پر یہ درشنی‘‘ کا اس قدر غلبہ تھا کہ غالبؔ نے حیران ہو کر خود سے سوال کیا ؎

    جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود

    پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے

    حد ہوگئی کہ انہوں نے سڑکوں پر ایسے بورڈ بھی آویزاں دیکھے : ’’غالبؔ پان شاپ‘‘ ، ’’غالبؔ ہیر کٹنگ سیلون‘‘ ، ’’غالبؔ اینڈسنس‘‘ ، ’’غالبؔ انجینئرنگ ورکس‘‘ ، ’’غالبؔ اسٹون پالشنگ ورکس‘‘ ، ’’غالبؔ کلاتھ مرچنٹ‘‘ ، ’’غالب کراکری‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ مرزا غالبؔ ان ساری زیادتیوں بلکہ مظالم کا بغور جائزہ لیتے رہے اور دل میں کڑھتے رہے۔

    جب مرزا غالبؔ کا صحافتی بیان تیار ہو گیا تو مرزا غالبؔ نے میر مہدی کے مشورے سے پریس کانفرنس کی تاریخ مقرر کی اور ایک اخبار کے ایڈیٹر سے ملنے چلے گئے۔ اخبار کے ایڈیٹر نے پہلے تو بڑے تپاک سے ان کا استقبال کیا مگر جب مرزا غالبؔ نے بتایا کہ وہ مرزا غالبؔ ہیں تو اس نے فوراً اپنے نوکر کو آواز دی اور کہا، ’’ان صاحب کو باہر لے جائو۔ مجھے غالبؔ پر ایک مقالہ لکھنا ہے، میرے پاس ایسے غیر ضروری لوگوں سے ملاقات کے لئے وقت نہیں ہے۔‘‘

    مرزا غالبؔ نے جو ملازم کی گرفت میں آچکے تھے، چیخ کر کہا،

    تمہیں کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے

    ’’صاحب یہ کہاں کا انصاف ہے کہ آپ مجھ پر تو مقالہ لکھ سکتے ہیں لیکن مجھ سے ملاقات کے لیے وقت نہیں نکال سکتے؟‘‘

    ایڈیٹر نے کہا، ’’صاف صاف بتائیے کہ آپ کون ہیں؟‘‘

    مرزا غالبؔ بولے، ’’میں مرزا غالبؔ ہوں اور یہ میر مہدی مجروحؔ ہیں۔‘‘

    ایڈیٹر نے طنز آمیز مسکراہٹ کے ساتھ کہا، ’’آپ کا نمبر کون سا ہے؟‘‘

    غالبؔ بولے، ’’نمبر سے آپ کا کیا مطلب ہے؟‘‘

    ایڈیٹر نے کہا، ’’نمبر سے مطلب یہ ہے کہ اس سے پہلے پانچ مرزا غالبؔ میرے پاس آچکے ہیں۔ آپ کا نمبر چھٹواں ہے۔‘‘

    مرزا غالبؔ کا چہرہ تمتما گیا اور انھوں نے بڑی درشتگی کے ساتھ کہا: ’’مذاق بند کیجئے۔ میں مرزا غالبؔ ہوں اور صدفی صد غالبؔ ہوں، میں دوسری دنیا سے اس دنیا میں بطور خاص اس لیے آیا ہوں کہ اب تک میرے خلاف جو کچھ کہا گیا ہے اس کا جواب دوں۔ اگر آپ کو یقین نہیں آتا تو آپ دیوانِ غالبؔ سے اشعار پوچھ سکتے ہیں، مجھے اپنے سارے اشعار زبانی یاد ہیں۔ ایڈیٹر بولا، ’’دیوانِ غالب کے سارے اشعار تو مجھے بھی یاد ہیں۔ کیا میں محض اس قصور کی پاداش میں غالب کہلائوں گا؟‘‘

    مرزا غالبؔ نے زور دے کر کہا، ’’خدا کے لئے اس بات کا یقین کیجیے کہ میں مرزا غالبؔ ہوں۔‘‘

    ایڈیٹر بولا، ’’اگر آپ مرزا غالبؔ ہیں بھی تو مجھ سے کیا واسطہ؟‘‘

    مرزا غالبؔ بولے، ’’آپ سے صرف اتنا واسطہ ہے کہ آپ غالبؔ صدی تقاریب کے خلاف میرا بیان شائع کریں اور میری پریس کانفرنس میں شرکت کریں جو اگلے اتوار کو منعقد ہو رہی ہے۔‘‘

    ایڈیٹر نے کہا، ’’معاف کیجئے، میں غالبؔ صدی تقاریب کے خلاف آپ کا بیان اپنے اخبار میں نہیں چھاپ سکتا۔ کیوں کہ ہمارا اخبار اگر ایسا کوئی بیان شائع کرے تو غالبؔ صدی تقاریب کمیٹی ہمیں اشتہار دینا بند کر دے گی اور ہم آپ کی خاطر کوئی خطرہ نہیں مول لینا چاہتے اور میرے لئے اگلے اتوار کو آپ کی پریس کانفرنس میں شرکت کرنا اس لیے ناممکن ہے کہ اسی روز غالبؔ اکیڈیمی کی جانب سے غالبؔ تقاریب منائی جا رہی ہیں اور ان تقاریب کا آپٖ کی پریس کانفرنس سے کلیش (Clash) ہوگیا ہے۔ لہٰذا مجھے معاف کیجئے۔ میں آپ کے کلام سے قریب اور آپ سے دور رہنا چاہتا ہوں۔ یہ کہہ کر ایڈیٹر اٹھ کھڑا ہوا اور مرزا غالبؔ کو چھوڑ کر اپنے کمرے سے باہر چلا گیا۔

    مرزا غالبؔ بہت بے آبرو ہو کر اس کوچہ سے نکلے اور اس کے بعد انہوں نے میاں میر مہدی سے کہہ دیا کہ وہ آئندہ کسی ایڈیٹر کے پاس نہیں جائیں گے۔ لہٰذا پریس کانفرنس کے سارے امور وہ خود انجام دے لیں۔

    میر مہدی مجروحؔ نے کافی دوڑ دھوپ کی بلکہ دھوپ زیادہ کھائی اور دوڑ کم لگائی۔ بالآ خر پریس کانفرنس کا وقت آگیا۔ مرزا غالبؔ پریس کانفرنس کے دن اپنا مخصوص چغہ پہننا چاہتے تھے لیکن معلوم ہوا کہ ان کا چغہ غالبؔ صدی تقاریب کمیٹی کے قبضہ میں ہے۔ لہٰذا انہیں اپنے یو نیفارم کے بغیر ہی پریس کانفرنس میں آنا پڑا۔

    پریس کانفرنس کے دن کافی چہل پہل تھی۔ انواع و اقسام کے اخباروں کے پریس رپورٹرس جمع ہونے لگے۔ جب سارے رپورٹرس جمع ہوگئے تو میاں میر مہدی مجروحؔ ڈائس پر آئے اور بولے، ’’دوستو! آپ لوگ اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ جائیں، اردو کے ممتاز شاعر مرزا غالبؔ ابھی آپ کے سامنے آئیں گے، آپ تھوڑی دیر صبر کریں۔‘‘

    اس پر اخبار ’’ٹیوز ڈے ٹائمز‘‘ کے نمائندے نے کہا، ’’آخر ہم کب تک صبر کریں۔ پریس کا نفرنس کا مینو (Menu) کیا ہوگا۔ محض آپ کی پریس کانفرنس کے خیال سے ہم نے دوپہر کا کھانا نہیں کھایا ہے۔ لہٰذا ہمیں مرزا غالبؔ کو دکھانے سے پہلے یہ بتائیے کہ آپ نے کھانے پینے کی اشیاء کہاں سجا رکھی ہیں۔‘‘

    اس پرمیاں میر مہدی مجروحؔ نے کہا، ’’حضرات، آپ اطمینان رکھیں کہ ہم نے ایٹ ہوم کا مناسب بندوبست کر رکھا ہے لیکن ایٹ ہوم پریس کانفرنس کے بعد ہی ہوگا، ورنہ اندیشہ ہے کہ کہیں آپ لوگ ایٹ ہوم کے بعد سیدھے اپنے گھروں کو روانہ ہو جائیں۔ لہٰذا صبر کیجئے کہ صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے۔‘‘

    ابھی میر مہدی مجروحؔ کا بیان جاری ہی تھا کہ مرزا غالبؔ اچانک ڈائس پر نمودار ہوگئے۔ انہوں نے صحیفہ نگاروں کو بیٹھ جانے کے لئے کہا اور اپنا صحافتی بیان پڑھنا شروع کر دیا۔

    ’’ساتھیو! میں مرزا غالبؔ ہوں، اسد اللہ خاں غالبؔ، میں وہی غالبؔ ہوں، جس نے ’دیوانِ غالب‘ لکھا اور جو قرض کی مے پیتا تھا اور جس کے اشعار آپ یوں استعمال کرتے ہیں جیسے یہ آپ کے ذاتی اشعار ہوں۔ میرا انتقال ایک سو سال پہلے ہوا تھا۔ جب میرا انتقال ہوا تھا تو مجھے یہ اندیشہ نہیں تھا کہ میرے بعد آپ لوگ میری ایسی درگت بنائیں گے کہ میرا جغرافیہ ہی بگڑ جائے گا۔ میں نے احتیاطاً اپنی زندگی میں ہی عرض کر دیا تھا۔

    بارے آرام سے ہیں اہلِ جفا میرے بعد

    مگر بعد میں پتہ چلا کہ اہلِ جفا کی اصل سرگرمیاں تو میرے مرنے کے بعد ہی شروع ہوئی ہیں۔ میرے انتقال کے بعد لوگوں نے خواہ مخواہ میرے حالاتِ زندگی میں دلچسپی لینی شروع کی۔ یقین مانیے کہ اگر لوگ میرے جیتے جی میرے حالاتِ زندگی میں دلچسپی لیتے تو شاید میں آج تک بھی نہ مرتا اور اب تک میرے کئی دیوان شائع ہو چکے ہوتے۔ مگر جن دنوں میں قرض خواہوں سے منہ چھپاتا پھرتا تھا، اپنی پنشن کے اجرا کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھایا کرتا تھا، ان دنوں کسی نے پلٹ کر بھی یہ پوچھنے کی کوشش نہیں کی کہ میرے منہ میں کتنے دانت ہیں۔ جو لوگ میرے اشعار پر ناک بھوں چڑھایا کرتے تھے، وہ آج میرے اشعار کی تعریف کرتے ہیں تو یوں معلوم ہوتا ہے جیسے وہ پاگل ہوگئے ہوں۔ میں نے بڑی کس مپرسی کی حالت میں اپنی عمر کا آخری حصہ گزارا۔ مگر آج جب جگہ جگہ ’’غالبؔ میموریل فنڈ‘‘ قائم کیے جارہے ہیں تو مجھے یہ پوچھنے کا حق پہنچتا ہے کہ،

    حیراں ہوں پھر ’’مشاہرہ‘‘ ہے کس حساب میں

    میں بہت ادب کے ساتھ یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ لوگ میرے پیچھے ہاتھ دھوکے کیوں پڑے ہوئے ہیں۔ اگر آپ کو کسی کی ’’صدی تقاریب‘‘ ہی منانا مقصود تھا تو اس کے لیے مومنؔ کیا برے تھے، ذوقؔ میں کیا برائی تھی اور پھر اگلے زمانے میں ایک میرؔ بھی تو تھے۔ ان سارے شعراء کی موجودگی میں صدی تقاریب کے انعقاد کے لئے میرے انتخاب کی کیا وجہ ہے، مجھے آپ لوگوں کی نیت پر شبہ ہے۔ آپ نے میرے چھوٹے سے دیوان اور چند نجی خطوط کو اتنی اہمیت دے ڈالی ہے کہ میرے دیوان کا حلیہ بگڑ گیا ہے۔ آپ نے میری اجازت کے بغیر ’’غالبیات‘‘ کا ایک شعبہ قائم کر رکھا ہے۔ بحیثیت غالبؔ میں نے غالبیات کا گہرا مطالعہ کیا ہے اور اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ آپ لوگوں نے اب تک مجھ پر اتنی ریسرچ کی ہے کہ میں اکیلا شخص ریسرچ کے اس بھاری بوجھ کو برداشت نہیں کر سکتا۔ اتنی ریسرچ کے لیے تو پندرہ بیس غالبوں کی ضرورت تھی۔ میں نے غالبیات کے مطالعہ کے دوران ایسے مضامین بھی پڑھے ہیں جو ’’عالم غیب‘‘ سے میرے خیال میں بھی نہ آسکتے تھے۔ مثال کے طور پر چند مضامین کے عنوانات ملاحظہ فرمائیے : ’’غالبؔ اور ایٹمی دور‘‘ ، ’’غالب اور منصوبہ بندی‘‘ ، ’’غالب کی شاعری میں پنچایتی عنصر‘‘ ، ’’غالبؔ کی شاعری پر غالبؔ کا اثر‘‘ ، ’’اقبالؔ غالبؔ کے آئینے میں‘‘ ، ’’غالبؔ کی شراب نوشی ایک سنگِ میل‘‘ ، ’’فلمی صنعت پر غالبؔ کے احسانات‘‘ ، ’’غالبؔ اور کفایت شعاری‘‘ ، ’’ہماری معیشت غالبؔ کے کلام کے آئینے میں‘‘ ، ’’غالبؔ اور فیملی پلاننگ۔‘‘

    حضرات! اگر مجھے معلوم ہوتا کہ میری شاعری کا تعلق فیملی پلاننگ سے پیدا کیا جائے گا تو سچ مچ شاعری کے معاملہ میں بھی ’’فیملی پلاننگ‘‘ پر عمل کرتا اور دو یا تین شعر بس کے اصول پر کار بند رہتا۔ غالبیات کے مطالعہ کے دوران مجھے بار بار یہ احساس ہوا کہ آپ جس غالبؔ کا ذکر کر رہے ہیں وہ شاید میں نہیں ہوں لیکن جب میں نے اپنا نام اپنی ولدیت کے ساتھ پڑھا تو یقین کرنا پڑا کہ وہ غالبؔ میں ہی ہوں جس کی مٹی پلید کی جارہی ہے۔ حد ہوگئی کہ ایک ماہر غالبیات نے میری شاعری کے دو دیوان شائع کیے ہیں اور ان کے نام علی الترتیب ’’دیوانِ غالبؔ‘‘ اور ’’دیوانِ اسدؔ‘‘ رکھے ہیں۔ ’’دیوانِ غالبؔ‘‘ میں غالبؔ والے تخلص کے اشعار موجود ہیں اور ’’دیوانِ اسدؔ‘‘ میں وہ غزلیں ہیں جن میں میرا تخلص اسدؔ ہے۔ آپ ہی بتائیے کہ اس تکلف کی کیا ضرورت تھی۔

    ماہرین غالبیات کا تو ذکر ہی چھوڑیے۔ جب سے اسکولوں کے تعلیمی نصاب میں میرے کلام کو شامل کیا گیا ہے، اس وقت سے مجھے یہ گمان ہونے لگا ہے،

    تمہارے شعر ہیں اب صرف دل لگی کے اسدؔ

    میں نے ایک طالب علم کی جوابی بیاض دیکھی تھی جس میں اس نے میرے ’’حالاتِ زندگی‘‘ کچھ اس طرح بیان کئے تھے :

    ’’غالبؔ آگرہ کے تاج محل میں پیدا ہوئے۔ بہت دنوں تک تاج محل کی سیر کرتے رہے۔ جب خوب سیر تفریح کر چکے تو انہیں ایک شریف آدمی کی طرح فکر معاش لاحق ہوگئی۔ چونکہ آگرہ میں رہ کر فکر معاش کرنا بے سود تھا۔ اسی لیے وہ آگرہ سے نکل گئے اور بلا ٹکٹ سفر کی صعوبتیں جھیلتے ہوئے حیدرآباد پہنچے۔ یہاں انہوں نے عثمانیہ یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور یہیں انگریزی کے استاد مقرر ہوئے۔ چونکہ غالبؔ کو اردو شاعری سے بہت دلچسپی تھی، اس لیے وہ بات بات پر شعر کہتے تھے۔ وہ اردو کے واحد شاعر ہیں جنہوں نے ازار بند کی مدد سے شعر کہے۔ ہر غزل کے لیے ایک نیا ازار بند استعمال کرتے تھے اور جیسے ہی کوئی شعر ہوتا تھا فوراً ازار بند میں گرہ لگا دیتے تھے۔ شعروں اور ازار بند میں گرہ لگانا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ غالبؔ شراب بہت شوق سے پیتے تھے اور دوسروں کو پینے کا کوئی موقع ہی عطا نہیں کرتے تھے۔ اسی لئے ان کے بہت سے دشمن پیدا ہو گئے۔ انہوں نے غالبؔ کے خلاف سازش کی اور بالآخر غالبؔ کو دہلی واپس ہو جانا پڑا۔‘‘

    حضرات! ان حالات زندگی کو پڑھ کر میری کیا حالت نہ ہوئی ہوگی، آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اگر کوئی آپ کے حالات زندگی اس طرح لکھتا تو آپ کے دل پر کیا نہ گزرتی۔

    دوستو! میں نے ’’غالبؔ تقاریب‘‘ کا حال تفصیل سے پڑھا ہے۔ ان تقاریب میں ملک کے ایسے سیاسی لیڈروں نے بھی حصہ لیا جو میرے نام اور کام سے قطعاً واقف نہ تھے۔ کسی نے مجھے ’’پرجا سوشلسٹ‘‘ ثابت کرنے کی کوشش کی تو کسی نے کہا کہ غالبؔ کا نگریس کے حامی تھے۔ اس سے بڑھ کر اور کیا ذلت ہو سکتی ہے کہ ایک لیڈر نے میرا تعلق ’’سوتنتراپارٹی‘‘ سے پیدا کرنے کی کوشش کی تھی۔ میں اس سیاسی لیڈر کے بارے میں بھی سن چکا ہوں جو میری صدی تقاریب کے افتتاح کے لیے آیا تھا اور بار بار لوگوں سے پوچھ رہا تھا کہ ’’گالبؔ صاحب کہاں ہیں، ان کے بغیر یہ اُدگھاٹن کیوں کر ہو سکے گا؟‘‘ ان لیڈروں نے لوگوں کو مشورہ دیا کہ وہ میرے نقش قدم پر چلیں۔ انہیں یہ تک نہیں معلوم کہ میرے نقش قدم پر چل کر آدمی صرف مقروض ہی بن سکتا ہے۔ میں نے یہاں تک سنا ہے کہ سیاسی انتخابات میں لیڈروں نے میرے نام پر ووٹ حاصل کیے اور یہ کیسی بدقسمتی ہے کہ میں خود اپنے نام سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکا۔ فلمی صنعت نے بھی مجھے نہ بخشا اور میری زندگی کو کچھ اس طرح فلمایا کہ یہ فلمیں ’’باکس آفس پرہٹ‘‘ ہوگئیں۔ ایسے گھٹیا مکالمے جو میں زندگی بھر اپنی زبان سے ادا نہ کرسکا، وہ میری زبان سے کہلوائے گئے۔ میری بیوی کو فلموں میں اس قدر حسین دکھایا گیا کہ اگر وہ سچ مچ اتنی ہی حسین ہوتی تو میرے حالاتِ زندگی مختلف ہوتے۔ قوالوں نے میری غزلوں کا قتل عام کیا۔ مجھے گلی گلی رسوا کیا گیا اور میں ضبط کرتا رہا۔ مگر اب پانی سر سے اونچا ہو گیا ہے، اب تک میری جو رسوائی ہوئی ہے، اس کی تلافی ہونی چاہئے ورنہ میں ازالۂ حیثیت عرفی کا مقدمہ دائر کردوں گا۔‘‘

    مرزا غالبؔ نے اپنا صحافتی بیان ختم کیا اور نڈھال ہو کر کرسی پر گر گئے۔ میاں مہدی مجروحؔ نے فوراً انہیں پانی پلایا اور پنکھا جھلنے لگے۔ جب مرزا غالبؔ کو ہوش آیا تو میر مہدی نے اخباری نمائندوں سے کہا کہ وہ اگر کوئی سوال کرنا چاہتے ہوں تو کر سکتے ہیں۔ اخباری نمائندوں نے جو پہلے ہی سے اس موقع کی تاک میں بیٹھے ہوئے تھے، مرزا غالبؔ پر سوالات کی بوچھار کردی۔

    ایک صحافی نے پوچھا، ’’ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے؟‘‘

    تیسرے صحافی نے پوچھا، ’’نقش فریادی ہے کس کی شوخئی تحریر کا؟‘‘

    چوتھے صحافی نے پوچھا، ’’آہ کا کس نے اثر دیکھا ہے؟‘‘

    پانچویں صحافی نے پوچھا، ’’نیند کیوں رات بھر نہیں آتی؟‘‘

    چھٹے نے پوچھا، ’’موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں؟‘‘

    مرزا غالبؔ نے اچانک اتنے سارے سوالات کو سن کر کہا،

    آتا ہے ابھی دیکھئے کیا کیا میرے آگے

    ’’دوستو! مجھ سے آسان سوالات پوچھئے، آپ مجھ سے ایسے سوالات کیوں پوچھتے ہیں جن کے جوابات میں خود اپنی زندگی میں دے نہ سکا تھا۔ میرے ہی سوالوں کے ذریعہ مجھے لا جواب کرنے کی سازش اچھی نہیں۔‘‘

    اس پر پریس کانفرنس میں تھوڑی دیر سکتہ طاری رہا، پھر ایک صحافی نے اٹھ کر پوچھا، ’’مسٹر غالبؔ! جدید شاعری کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘

    غالبؔ نے کہا، ’’جناب والا، آپ جسے جدید شاعری کہتے ہیں وہ اصل میں کافی قدیم شاعری ہے۔ یہ اس وقت کی شاعری ہے جب انسان کو لکھنا پڑھنا نہیں آتا تھا اور وہ ابھی علمِ عروض کی باریکیوں سے واقف نہ ہوا تھا۔ لہٰذا جدید شاعری کو جدید شاعری نہ کہیے بلکہ قدیم شاعری کہئے۔ جدید شاعری تو وہ ہے جو میں نے کی ہے۔‘‘

    اس کے بعد ایک اور صحافی نے پوچھا، ’’محکمہ ڈاک نے آپ کے جو یادگاری ٹکٹ جاری کیے ہیں، ان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘

    مرزا غالبؔ بولے، ’’ٹکٹ تو بہت اچھے ہیں مگر مجھے یہ شکایت ہے کہ ڈاک والے ان ٹکٹوں پر بہت زور سے مہر لگاتے ہیں اور اس کے بعد ان ٹکٹوں میں ’یادگار‘ نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہتی۔‘‘

    تھوڑی دیر پھر خاموشی رہی۔ اتنے میں اچانک ایک نوجوان صحافی نے اٹھ کر پوچھا، ’’مسٹر غالبؔ! سچ سچ بتائیے کہ اس پریس کانفرنس کے انعقاد کا مقصد کیا ہے؟‘‘

    غالبؔ نے کچھ دیر سوچ کر کہا، ’’بھئی! سچ بات تو یہ ہے کہ میں اس پریس کانفرنس کے ذریعہ اس رقم کا حساب کتاب پوچھنا چاہتا ہوں جو’غالب میموریل فنڈ‘ کے کھاتے میں جمع ہوئی ہے۔ بحیثیت غالبؔ اس رقم پر میرا حق ہے، لہٰذا مجھے یہ رقم ملنی چاہئے اور میں اسے حاصل کر کے ہی رہوں گا۔‘‘

    اس پر ایک صحافی نے دیگر صحافیوں کو مخاطب کر کے کہا، ’’بھائیو! مجھے تو یہ کوئی دھاندلی نظر آرہی ہے۔ اصل میں یہ شخص غالبؔ کا روپ دھارن کر کے پیسے بٹورنا چاہتا ہے۔‘‘

    اچانک کسی نے آواز لگائی، ’’پکڑواسے۔ کوئی اچکا نظر آتا ہے، جانے نہ پائے۔ اسے پولیس کے حوالے کردو۔‘‘

    پریس کانفرنس میں اچانک بھگدڑ مچ گئی اور مرزا غالبؔ میر مجروحؔ کے ساتھ فرار ہوگئے۔ پریس کانفرنس خود بخود ختم ہوگئی۔ البتہ دوسرے دن اخباروں میں اس قسم کی سرخیاں چھپیں،

    ’’مرزا غالبؔ کا روپ اختیار کر کے عوام کو دھوکہ دینے کی کوشش۔‘‘

    ’’نقلی مرزا غالبؔ کے خطرناک عزائم کو ناکام بنا دیا گیا۔‘‘

    ’’عوام، دھوکہ بازوں سے خبردار رہیں۔ غالب صدی تقاریب کمیٹی کا انتباہ۔‘‘

    لوگوں نے بہت تلاش کیا مگر پھر کہیں ان غالب صاحب کا پتہ نہ چل سکا، جو میاں میر مہدی مجروحؔ کے ہمراہ اپنے دشمنوں کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے دوسری دنیا سے اس دنیا میں آئے تھے۔ پتہ نہیں وہ اصلی تھے یا نقلی۔ واللہ اعلم بالصواب۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے