Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پیر صاحب کی کرامت

محمد یونس بٹ

پیر صاحب کی کرامت

محمد یونس بٹ

MORE BYمحمد یونس بٹ

    اس سے قبل ہم نے صرف ایک پیر صاحب کی کرامت دیکھی تھی، ان کے مرید نے بتایا کہ پیر صاحب بے جان کو جاندار بنا دیتے ہیں۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ پیر صاحب کے سامنے جو مٹھائی کا ڈھیر تھا، وہ ایک منٹ میں گوشت پوست کا ڈھیر بن گیا۔ بس ایک لڈو گوشت میں بدلنے سےرہ گیا۔ یہ وہ لڈو تھا جو پیر صاحب نے خود کھانے کی بجائے ہمیں پکڑوا دیا تھا۔ مرید نے کہا، ’’پیر صاحب کے ہاں شیر اور بکری ساتھ ساتھ بیٹھے ہوتے ہیں۔ یہ بھی ہم نے آنکھوں سےدیکھا کہ شیر اور بکری اتنے ساتھ ساتھ تھے کہ شیر اور بکری علیحدہ علیحدہ کرنے کے لیے شیر کا پیٹ چاک کرنے کی ضرورت تھی۔ دوسری کرامت ہم نے پیر اقتدار شاہ مردان شاہ پیر صاحب آف پگاڑہ شریف کی دیکھی کہ انہوں نے بے جان پی این اے کو پھر زندہ کرکے نواب زادہ نصر اللہ خاں کی گود میں ڈال دیا۔ اس سے پہلے مرحوم پی این اے کے صدر مفتی محمد اللہ اور نائب صدر نواب زادہ نصراللہ خاں لوگوں کو پیارے ہو چکے تھے۔

    پیر اقتدار دیکھنے میں سیاست دان نہیں لگتے اور بولنے میں پیر نہیں لگتے۔ یہ وہ پیر نہیں جو والدین کو اولاد دیتے ہیں۔ اس خاندان کے چشم و چراغ جس کی چشم بھی چراغ ہے۔ مزاج شروع سے ایسا کہ بچپن میں جلا وطن ہوئے تو یوں جیسے پاکستان کو جلا وطن کر رہے ہیں۔ پاکستان سے اس قدر محبت کہ اب تک برطانیہ میں ہوتے تو برطانیہ اب تک پاکستان میں ہوتا۔ سیاسی پیش گوئیوں میں پیش پیش رہتے ہیں۔ ونسٹن چرچل نے کہا ہے کہ سیاسی قابلیت دراصل اس بات کی اہلیت ہے کہ آپ بتا سکیں کہ، اگلے ہفتے، اگلے مہینے اور اگلے سال کیا ہوگا، یہی نہیں آپ یہ بھی بتا سکیں کہ یہ کیوں نہیں ہوا۔ پیر صاحب دیر کے بعد بولتے ہیں مگر یوں کہ دیر تک بولنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ سیاست دان ہوکر مختصر بات کرتے ہیں۔ ایک بار ایک سیاست دان سے کسی نے پوچھا، ’’آپ اتنی لمبی تقریریں کیوں کرتے ہیں؟‘‘ تو اس نے کہا، ’’میرے پاس مختصر تقریر کرنے کا وقت نہیں ہے۔‘‘

    پیر صاحب کو کوئی فکر نہیں ہوتی البتہ ان کی باتوں میں فکر ہوتی ہے۔ منیر نیازی پرفیوم لگا کر مشاعروں میں جاتے ہیں تاکہ آرام سے شاعروں میں بیٹھ سکیں۔ پیر صاحب بھی ہر وقت درود اور توبہ استغفار کرتے رہتے ہیں کہ تاکہ سیاست دانوں کے ملنے جلنے سے کوئی فرق نہ پڑے۔ شریعت بل کے ذکر سے ان کی وہی حالت ہو جاتی ہے جو ہم جیسوں کی بجلی کے بل سے ہوتی ہے۔ لوگ ان کا اس قدر احترام کرتے ہیں کہ وہ نہ بھی بول رہے ہوں تب بھی سن کر واہ واہ کہہ رہے ہوتے ہیں۔ مولانا شبلی نعمانی نے محمد حسین آزاد کے بارے میں کہا تھا کہ وہ گپ بھی ہانکتا ہے تو وحی معلوم ہوتی ہے۔ پیر صاحب بھی سچ یوں بیان کرتے ہیں جیسے لطیفہ سنا رہے ہوں اور لطیفہ یوں سناتے ہیں جیسے سچ۔ اگر کوئی شخص کہہ رہا ہو کہ مچھلیاں درختوں پر چڑھ جائیں گی، چوہابلی پر بھاری ہوگا وغیرہ وغیرہ، اس کا یقین کر لیں، کہ اس کی ذہنی حالت خراب نہیں وہ پیر صاحب کے بیان سنا رہا ہے۔

    اپنی خوشی سے زیادہ دوستوں کی خوشی کا خیال رکھتے ہیں۔ اس لیے دوبار اپنے حلقے سے پریز علی شاہ کو جتوایا۔ کراچی پسند ہے، میرے ایک جاننے والے کو بھی کراچی پسند ہے مگر کہتا ہے کہ اگر کراچی پیر جو گوٹھ شریف میں ہوتا تو مزا آ جاتا۔ وہ کہتا ہے، ’’پیر صاحب نےاخبار میں مجھے ایک فرشتہ کہا تھا۔‘‘ میں حیران ہوا تو اس نے بتایا پیر صاحب نے اخبار میں بیان دیا تھاکہ فرشتوں نے میرے خلاف ووٹ ڈالے ہیں اور میں نے پیر صاحب کے خلاف ووٹ ڈالا تھا۔ پیر صاحب کے پاس اللہ اور مریدوں کا دیا سب کچھ ہے لیکن اگر آپ انہیں امیر کہیں تو فرمائیں گے امیر تو جماعت اسلامی کے ہوتے ہیں۔ ایک بار بھٹو صاحب نے پیر پگاڑو کو دھمکی دی، ’’میں تم سے نپٹ لوں گا۔‘‘ تو پیر صاحب نے کہا، ’’کوئی بات نہیں میں پیر پگاڑو ہفتم ہوں۔ میرے بعد آٹھواں بھی ہوگا، تم بتاؤ تمہارے بعد کون آئے گا؟‘‘

    مسلم لیگ ان کی کمزوری ہے۔ پہلے کالعدم مسلم لیگ کے صدر بنے پھر مسلم لیگ کے کالعدم صدر بنے۔ کہتے ہیں اب تو پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، پی این اے مسلم لیگ، دادا گیر مسلم لیگ اور مفلوج مسلم لیگ بن چکی ہیں۔ ویسے جس تیزی سے مسلم لیگیں پیدا ہو رہی ہیں اس لحاظ سے تو مسلم لیگ کو منصوبہ بندی کے ساتھ ساتھ محکمہ منصوبہ بندی کی بھی ضرورت ہے تاکہ مسلم لیگ، مسلم لیگ بن سکے۔ اصلی اور نقلی مسلم لیگ میں آپ اصلی برانڈ کی مسلم لیگ چاہتے ہیں تو اس میں شناختی نشان کے طور پر پیر صاحب کو دیکھیں کیونکہ بقول ان کے اصلی مسلم لیگ وہی ہوگی جس میں ہم ہوں گے۔ کبھی مسلم لیگ کی صدارت سے الگ نہیں ہوئے، ہمیشہ مسلم لیگ کو اپنی صدارت سے الگ کیا۔

    امام خمینی نے گوربا چوف بلکہ گربہ چوف کو مسلم بننے کی دعوت دی تو پیر صاحب نے اسے مسلم لیگی بننے کی دعوت دے دی۔ بلاول کی پیدائش پر فرمایا کہ اکیس سال بعد یہ بچہ مسلم لیگی ووٹر ہوگا۔ تو اس پر نسیم آہیر نے کہا چلو اکیس سال بعد تو پیر صاحب کو ایک ووٹر مل جائے گا۔ خود کو جی ایچ کیو کا پیر کہتے ہیں۔ دن میں اتنی بار ماشاء اللہ اور انشاء اللہ نہیں کہتے جتنی بار مارشل لاء کہتے ہیں۔ چوتھے مارشل لاء کے بارےمیں فرماتے ہیں کہ میں صبح ہوتے ہی کھڑکیاں کھول کر دیکھنے لگتا ہوں کہ ہمیں کوئی پکڑنے تو نہیں آیا! حالانکہ ان کی نظر ایسی ہے کھڑکی تو کیا آنکھیں بھی بند ہوں تو بھی دیکھ سکتے ہیں۔

    وہ سیاسی منجم ہیں۔ ستاروں کا علم جانتے ہیں، ریما شیما کا ذکر کرکے ہر قسم کے ستاروں کے علم پر اپنا عبور ظاہر کر دیتے ہیں۔ پیر صاحب صرف اہم سوالوں کے جواب ہی نہیں دیتے بلکہ جن سوالوں کے جواب دیتے ہیں انہیں اہم بنا دیتے ہیں، سیاسی صورت حال چاہے’’سیاہ سی صورت حال‘‘ ہو مگر اپنی منظر کشی سے وہ ’’سیاح سی صورت حال‘‘ ظاہر کرتے ہیں۔ اپنی تعریف سننا تو انہیں اتنا اچھا نہیں لگتا، ظاہر ہے بندہ چوبیس گھنٹے ایک ہی بات تو نہیں سن سکتا ناں۔

    ہم پیر صاحب کے پہلے ہی سے معتقد تھے۔ جب سے انہوں نے پی این اے تحریک کو زندہ کرنے کی کرامت دکھائی ہے، اب تو لگتا ہے کہ لوگ بالخصوص سیاست دان خود کو زندہ کرانے کے لیے ان کے در پر حاضر ہونے لگیں گے۔ کہیں مہناز رفیع تحریک کی انگلی پکڑ کر اسے پیر صاحب کے پاس لا رہی ہوگی تو کہیں مولانا طاہر القادری اپنی نومولود تحریک گود میں لیے پیر صاحب سے پھونکیں مروا رہے ہوں گے۔ ہوسکتا ہے اب لوگ نئی پیدا ہونے والی تحریکوں کے کانوں میں اذان دلوانے بھی ان کے ہاں ہی آنے لگیں۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے