Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Rasheed lakhnavi's Photo'

رشید لکھنوی

1847 - 1918 | لکھنؤ, انڈیا

مرثیہ ، غزل اور رباعی کے ممتاز شاعر - میر انیس کے نواسے

مرثیہ ، غزل اور رباعی کے ممتاز شاعر - میر انیس کے نواسے

رشید لکھنوی کے اشعار

716
Favorite

باعتبار

زندگی کہتے ہیں کس کو موت کس کا نام ہے

مہربانی آپ کی نا مہربانی آپ کی

ہنس ہنس کے کہہ رہا ہے جلانا ثواب ہے

ظالم یہ میرا دل ہے چراغ حرم نہیں

تم نے احسان کیا ہے کہ نمک چھڑکا ہے

اب مجھے زخم جگر اور مزا دیتے ہیں

ہماری زندگی و موت کی ہو تم رونق

چراغ بزم بھی ہو اور چراغ فن بھی ہو

دونوں آنکھیں دل جگر ہیں عشق ہونے میں شریک

یہ تو سب اچھے رہیں گے مجھ پر الزام آئے گا

دیکھیے لازم و ملزوم اسے کہتے ہیں

دل ہے داغوں کے لیے داغ مرے دل کے لیے

ہوا ہے سخت مشکل دفن ہونا تیرے وحشی کا

جہاں پر قبر کھودی جاتی ہے پتھر نکلتے ہیں

گئے تھے حضرت زاہد تو زرد تھا چہرہ

شراب خانے سے نکلے تو سرخ رو نکلے

انتظار آپ کا ایسا ہے کہ دم کہتا ہے

نگہ شوق ہوں آنکھوں سے نکل جاؤں گا

اے گل اندام یہ ہے فصل جوانی کا عروج

حسن کا رنگ ٹپکنے کو ہے رخساروں سے

اپنی وحشت سے ہے شکوہ دوسرے سے کیا گلہ

ہم سے جب بیٹھا نہ جائے کوئے جاناں کیا کرے

دل ہے شوق وصل میں مضطر نظر مشتاق دید

جو ہے مشغول اپنی اپنی سعئ لا حاصل میں ہے

نہیں ہے جس میں تیرا عشق وہ دل ہے تباہی میں

وہ کشتی ڈوب جائے گی نہ جس میں نا خدا ہوگا

بتوں کے دل میں ہماری کچھ اب ہوئی ہے جگہ

خدا نے رحم کیا ورنہ مر گئے ہوتے

قید کی مدت بڑھی چھٹنے کی جب تدبیر کی

روز بدلی جاتی ہیں کڑیاں مری زنجیر کی

سبھوں کی آ گئی پیری جو تم جوان ہوئے

زمیں کا دل ہوا مٹی خم آسمان ہوئے

سئے جاتے ہیں کفن آپ کے دیوانوں کے

تار دامن کے ہیں ٹکڑے ہیں گریبانوں کے

راس آئے تم کو ملک عشق کی آب و ہوا

عاشقو ہر وقت شغل آہ و زاری چاہیے

معشوق کون سا ہے نہ ہو دل میں جس کی یاد

اس مختصر سے باغ میں کس گل کی بو نہیں

کبھی مدفون ہوئے تھے جس جگہ پر کشتہ ابرو

ابھی تک اس زمیں سے سیکڑوں خنجر نکلتے ہیں

وہ گیسو بڑھتے جاتے ہیں بلائیں ہوتی ہیں نازل

قدم تک آ گئے جب حشر عالم میں بپا ہوگا

سزا ہر ایک کو دینے لگی حیا ان کی

کہ چاک ہو گئی لپٹی جہاں قبا ان کی

ہمیشہ بے دلی کی کیجیے کیوں کر نہ دل داری

نہ ہونا پاس دل کا ہے نشانی ایک دلبر کی

خدا جانے یہ گردش کا طریقہ کب نکالا ہے

جسے کہتے ہیں گردوں اک مرے پاؤں کا چھالا ہے

جو میری چشم کے پردے شریک ہو جاتے

کمال دامن ابر بہار بڑھ جاتا

Recitation

بولیے