Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Anwar Sabri's Photo'

انور صابری

1901 - 1985 | دلی, انڈیا

عالم ،دانشور،مجاہد آزادی اورخطیب،اپنی شاعری میں مستانہ روی اور صوفیانہ رنگ کے لیے معروف

عالم ،دانشور،مجاہد آزادی اورخطیب،اپنی شاعری میں مستانہ روی اور صوفیانہ رنگ کے لیے معروف

انور صابری کے اشعار

2.3K
Favorite

باعتبار

ظلمتوں میں روشنی کی جستجو کرتے رہو

زندگی بھر زندگی کی جستجو کرتے رہو

میں جو رویا ان کی آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے

حسن کی فطرت میں شامل ہے محبت کا مزاج

تمام عمر قفس میں گزار دی ہم نے

خبر نہیں کہ نشیمن کی زندگی کیا ہے

جینے والے ترے بغیر اے دوست

مر نہ جاتے تو اور کیا کرتے

آپ کرتے جو احترام بتاں

بتکدے خود خدا خدا کرتے

اف وہ معصوم و حیا ریز نگاہیں جن پر

قتل کے بعد بھی الزام نہیں آتا ہے

وقت جب کروٹیں بدلتا ہے

فتنۂ حشر ساتھ چلتا ہے

لب پہ کانٹوں کے ہے فریاد و بکا میرے بعد

کوئی آیا ہی نہیں آبلہ پا میرے بعد

روز آپس میں لڑا کرتے ہیں ارباب خرد

کوئی دیوانہ الجھتا نہیں دیوانے سے

ممکن ہے مرے بعد بھلا دیں مجھے لیکن

تا عمر انہیں میری وفا یاد رہے گی

جب زمانے کا غم اٹھا نہ سکے

ہم ہی خود اٹھ گئے زمانے سے

حاصل غم یہی سمجھتے ہیں

موت کو زندگی سمجھتے ہیں

عشق کی آگ اے معاذ اللہ

نہ کبھی دب سکی دبانے سے

آدمیت کے سوا جس کا کوئی مقصد نہ ہو

عمر بھر اس آدمی کی جستجو کرتے رہو

شب فراق کی ظلمت ہے نا گوار مجھے

نقاب اٹھا کہ سحر کا ہے انتظار مجھے

جس کو تیرے الم سے نسبت ہے

ہم اسی کو خوشی سمجھتے ہیں

اف وہ آنکھیں مرتے دم تک جو رہی ہیں اشک بار

ہائے وہ لب عمر بھر جن پر ہنسی دیکھی نہیں

تصور کے سہارے یوں شب غم ختم کی میں نے

جہاں دل کی خلش ابھری تمہیں آواز دی میں نے

عطائے غم پہ بھی خوش ہوں مری خوشی کیا ہے

رضا طلب جو نہیں ہے وہ بندگی کیا ہے

اللہ اللہ یہ فضائے دشمن مہر و وفا

آشنا کے نام سے ہوتا ہے برہم آشنا

مجھے تسلیم ہے قید قفس سے موت بہتر ہے

نشیمن پر ہجوم برق و باراں کون دیکھے گا

نگاہ و دل سے گزری داستاں تک بات جا پہنچی

مرے ہونٹوں سے نکلی اور کہاں تک بات جا پہنچی

ممکن ہے مل ہی جائے مقام سکوں کہیں

تا مرگ ہم رکاب رہو زندگی کے ساتھ

شامل ہو گر نہ غم کی خلش زندگی کے ساتھ

رکھے نہ کوئی ربط محبت کسی کے ساتھ

جفا و جور مسلسل وفا و ضبط الم

وہ اختیار تمہیں ہے یہ اختیار مجھے

مایوس نہ ہو بے رخیٔ چشم جہاں سے

شائستہ احساس کوئی کام کیے جا

محبت ہے ازل کے دن سے شامل میری فطرت میں

بلا تفریق شیخ و برہمن سے عشق ہے مجھ کو

آیا ہے کوئی پرسش احوال کے لیے

پیش آنسوؤں کی آپ بھی سوغات کیجیے

میری نگاہ فکر میں انورؔ

عشق فسانہ حسن ہے عریاں

دے کر نوید نغمۂ غم ساز عشق کو

ٹوٹے ہوئے دلوں کی صدا ہو گئے ہو تم

لپکا ہے بگولہ سا ابھی ان کی طرف کو

شاید کسی مجبور کی آہوں کا دھواں تھا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے