جگر بریلوی کے اشعار
قدم ملا کے زمانے کے ساتھ چل نہ سکے
بہت سنبھل کے چلے ہم مگر سنبھل نہ سکے
عشق کو ایک عمر چاہئے اور
عمر کا کوئی اعتبار نہیں
تم نہیں پاس کوئی پاس نہیں
اب مجھے زندگی کی آس نہیں
نہیں علاج غم ہجر یار کیا کیجے
تڑپ رہا ہے دل بے قرار کیا کیجے
درد ہو دکھ ہو تو دوا کیجے
پھٹ پڑے آسماں تو کیا کیجے
مرض عشق کو شفا سمجھے
درد کو درد کی دوا سمجھے
آستاں بھی کوئی مل جائے گا اے ذوق نیاز
سر سلامت ہے تو سجدہ بھی ادا ہو جائے گا
سانس لینے میں درد ہوتا ہے
اب ہوا زندگی کی راس نہیں
عشق کو دیجئے جنوں میں فروغ
درد سے درد کی دوا کیجئے
نہ مٹ سکا نہ مٹے گا کبھی نشاں میرا
لیا اجل نے کئی بار امتحاں میرا
نہیں کہ جرم محبت کا اعتراف نہیں
مگر ہوں خوش کہ مری یہ خطا معاف نہیں
عشق میں قدر خستگی کی امید
اے جگرؔ ہوش کی دوا کیجئے
ہم اور اٹھائیں گے احسان جاں نوازی کے
ہمیں تو سانس بھی لینا گراں گزرتا ہے
تسلی آپ نے دی فرق ہے ہاں دل کی حالت میں
جو تھم تھم کر خلش ہوتی تھی پیہم ہوتی جاتی ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ