Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
noImage

خواجہ محمد وزیر

1795 - 1854 | لکھنؤ, انڈیا

19ویں صدی کے شاعر

19ویں صدی کے شاعر

خواجہ محمد وزیر کے اشعار

880
Favorite

باعتبار

دیکھنا حسرت دیدار اسے کہتے ہیں

پھر گیا منہ تری جانب دم مردن اپنا

ہے سایہ چاندنی اور چاند مکھڑا

دوپٹا آسمان آسماں ہے

جس کو آتے دیکھتا ہوں اے پری کہتا ہوں میں

آدمی بھیجا نہ ہو میرے بلانے کے لیے

آیا ہے مرے دل کا غبار آنسوؤں کے ساتھ

لو اب تو ہوئی مالک خشکی و تری آنکھ

سر مرا کاٹ کے پچھتائیے گا

کس کی پھر جھوٹی قسم کھائیے گا

کوئے جاناں سے جو اٹھتا ہوں تو سو جاتے ہیں پاؤں

دفعتاً آنکھوں سے پاؤں میں اتر آتی ہے نیند

جب خفا ہوتا ہے تو یوں دل کو سمجھاتا ہوں میں

آج ہے نامہرباں کل مہرباں ہو جائے گا

اسی خاطر تو قتل عاشقاں سے منع کرتے تھے

اکیلے پھر رہے ہو یوسف بے کارواں ہو کر

یار تنہا گھر میں ہے افسوس لیکن ہم نہیں

حور تو ہے گلشن فردوس میں آدم نہیں

نہ پونچھو میرے آنسو تم نہ پونچھو

کہے گا کوئی تم کو خوشہ چیں ہے

زر دیا زور دیا مال دیا گنج دیے

اے فلک کون سے راحت کے عوض رنج دیے

حال پوچھو نہ مرے رونے کا بس جانے دو

ابھی رومال نچوڑوں گا تو طوفاں ہوگا

آئیں گے وقت خزاں چھوڑ دے آئی ہے بہار

لے لے صیاد قسم رکھ دے گلستاں سر پر

یوں پھر رہے ہیں جیسے کوئی بات ہی نہیں

آلودہ میرے خون سے داماں کیے ہوئے

ایک کو دو کر دکھائے آئنہ

گر بنائیں آہن شمشیر سے

چپ رہ کے گفتگو ہی سے پڑتا ہے تفرقہ

ہوتے ہیں دونو ہونٹ جدا اک صدا کے ساتھ

بت بھی نہ بھولیں یاد خدا کی بھی کیجیے

پڑھیے نماز کر کے وضو آب گنگ سے

ہجر میں اک ماہ کے آنسو ہمارے گر پڑے

آسماں ٹوٹا شب فرقت ستارے گر پڑے

اپنے کوچے میں مجھے رونے تو دے اے رشک گل

باغباں پانی ہمیشہ دیتے ہیں گلزار کو

خود بہ خود اپنا جنازہ ہے رواں

ہم یہ کس کے کشتۂ رفتار ہیں

پھر وہی ہم تھے وہی تم تھے محبت تھے وہی

صلح کر لیتے اگر آنکھیں لڑانے کے لیے

وصل کی رات ہے بگڑو نہ برابر تو رہے

پھٹ گیا میرا گریبان تمہارا دامن

غضب ہے روح سے اس جامۂ تن کا جدا ہونا

لباس تنگ ہے اترے گا آخر دھجیاں ہو کر

ہے چشم نیم باز عجب خواب ناز ہے

فتنہ تو سو رہا ہے در فتنہ باز ہے

اس خجالت نے ابد تک مجھے سونے نہ دیا

ہجر میں لگ گئی تھی ایک گھڑی میری آنکھ

چھان ڈالا تمام کعبہ و دیر

اے ہمارے خدا کہاں تو ہے

ہاتھ دکھلا کے یہ بولا وہ مسلماں زادہ

ہو گیا دست نگر اب تو برہمن اپنا

کیا دید کے قابل ترے کوچے کی زمیں ہے

ہر گام ہے نقش قدم رہ گزری آنکھ

وو نہ آنکھوں سے ہو جدا یا رب

جب تلک میری آنکھ بند نہ ہو

دیکھا جسے بسمل کیا تاکا جسے مارا

اس آنکھ سے ڈریے جو خدا سے نہ ڈرے آنکھ

سلسلہ رکھتا ہے میرا کفر کچھ اسلام سے

ہیں کئی تسبیح کے دانے مری زنار میں

زمیں بھی نکلی جاتی ہے مری پاؤں کے نیچے سے

مجھے مشکل ہوا ہے ساتھ دینا اپنے منزل کا

سختیٔ ایام دوڑے آتی ہے پتھر لیے

کیا مرا نخل تمنا بارور ہونے لگا

سر آنکھوں سے کریں سجدہ جدھر ابرو ہلائے وہ

جدا کچھ کفر اور اسلام سے مذہب ہمارا ہے

ہوئی گر صلح بھی تو بھی رہی جنگ

ملا جب دل تو آنکھ اس سے لڑا کی

کہیں عدو نہ کہیں مجھ کو دیکھ کر محتاج

یہ ان کے بندے ہیں جن کو کریم کہتے ہیں

دیکھ پچھتائے گا او بت مرے ترسانے سے

اٹھ کے کعبے کو چلا جاؤں گا بت خانے سے

میں نے یوسف جو کہا کیوں بگڑے

مول لے لے گا کوئی بک جائے گا؟

خاک میں مل جائے وہ چشمہ نہ جس میں آب ہو

پھوٹ جائے آنکھ اگر موقوف رونا ہو گیا

بے تیرے مجھے دید کا کچھ شوق نہیں ہے

تو پردہ نشیں ہے تو نگہ گوشہ نشیں ہے

برسوں گل خورشید و گل ماہ کو دیکھا

تازہ کوئی دکھلائے ہمیں چرخ کہن پھول

پہن لو اے بتو زنار تسبیح سلیمانی

رکھو راضی اسی پردے میں ہر شیخ و برہمن کو

ساقی کے آنے کی یہ تمنا ہے بزم میں

دست سبو بلند ہے دست دعا کے ساتھ

مرا کچھ حال کہہ کر ذکر مجنوں کرتے ہیں عاشق

کتاب عاشقی میں اپنا قصہ پیش خوانی ہے

ساقیا ہجر میں کب ہے ہوس گفت و شنید

ساغر گوش سے مینائے زباں دور رہے

پہنچایا تا بہ کعبۂ مقصود فقر نے

ترک لباس جامۂ احرام ہو گیا

اس بت کافر کا زاہد نے بھی نام ایسا جپا

دانۂ تسبیح ہر اک رام دانا ہو گیا

ترے کوچے کی شاید راہ بھولی

صبا پھرتی ہے مضطر کو بہ کو آج

اے بتو در پردہ تم سے زاہدوں کو بھی ہے عشق

صورت تسبیح پنہاں رکھتے ہیں زنار کو

سر جھکائے رہا سدا گردوں

کیا کیا تھا جو شرمسار رہا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے