میکش اکبرآبادی کے اشعار
مرے فسوں نے دکھائی ہے تیرے رخ کی سحر
مرے جنوں نے بنائی ہے تیرے زلف کی شام
تری زلفوں کو کیا سلجھاؤں اے دوست
مری راہوں میں پیچ و خم بہت ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
آپ کی میری کہانی ایک ہے
کہئے اب میں کیا سناؤں کیا سنوں
پہنچ ہی جائے گا یہ ہاتھ تیری زلفوں تک
یوں ہی جنوں کا اگر سلسلہ دراز رہا
تھی جنوں آمیز اپنی گفتگو
بات مطلب کی بھی لیکن کہہ گئے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
یہ مسلک اپنا اپنا ہے یہ فطرت اپنی اپنی ہے
جلاؤ آشیاں تم ہم کریں گے آشیاں پیدا
نہیں ہے دل کا سکوں قسمت تمنا میں
تمہیں بھی دل کی تمنا بنا کے دیکھ لیا
زباں پہ نام محبت بھی جرم تھا یعنی
ہم ان سے جرم محبت بھی بخشوا نہ سکے
سب کچھ ہے اور کچھ نہیں اے داد خواہ عشق
وہ دیکھ کر نہ دیکھنا نیچی نگاہ سے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
نزع تک دل اس کو دہرایا کیا
اک تبسم میں وہ کیا کچھ کہہ گئے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
بیٹھے رہے وہ خون تمنا کئے ہوئے
دیکھا کئے انہیں نگہ التجا سے ہم
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کچھ اس طرح تری الفت میں کاٹ دی میں نے
گناہ گار ہوا اور نہ پاکباز رہا
چراغ کشتہ لے کر ہم تری محفل میں کیا آتے
جو دن تھے زندگی کے وہ تو رستے میں گزار آئے
ہم نے لالے کی طرح اس دور میں
آنکھ کھولی تھی کہ دیکھا دل کا خوں