رشید لکھنوی کے اشعار
زندگی کہتے ہیں کس کو موت کس کا نام ہے
مہربانی آپ کی نا مہربانی آپ کی
ہنس ہنس کے کہہ رہا ہے جلانا ثواب ہے
ظالم یہ میرا دل ہے چراغ حرم نہیں
ہماری زندگی و موت کی ہو تم رونق
چراغ بزم بھی ہو اور چراغ فن بھی ہو
دونوں آنکھیں دل جگر ہیں عشق ہونے میں شریک
یہ تو سب اچھے رہیں گے مجھ پر الزام آئے گا
تم نے احسان کیا ہے کہ نمک چھڑکا ہے
اب مجھے زخم جگر اور مزا دیتے ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
انتظار آپ کا ایسا ہے کہ دم کہتا ہے
نگہ شوق ہوں آنکھوں سے نکل جاؤں گا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
گئے تھے حضرت زاہد تو زرد تھا چہرہ
شراب خانے سے نکلے تو سرخ رو نکلے
ہوا ہے سخت مشکل دفن ہونا تیرے وحشی کا
جہاں پر قبر کھودی جاتی ہے پتھر نکلتے ہیں
اے گل اندام یہ ہے فصل جوانی کا عروج
حسن کا رنگ ٹپکنے کو ہے رخساروں سے
اپنی وحشت سے ہے شکوہ دوسرے سے کیا گلہ
ہم سے جب بیٹھا نہ جائے کوئے جاناں کیا کرے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
بتوں کے دل میں ہماری کچھ اب ہوئی ہے جگہ
خدا نے رحم کیا ورنہ مر گئے ہوتے
نہیں ہے جس میں تیرا عشق وہ دل ہے تباہی میں
وہ کشتی ڈوب جائے گی نہ جس میں نا خدا ہوگا
قید کی مدت بڑھی چھٹنے کی جب تدبیر کی
روز بدلی جاتی ہیں کڑیاں مری زنجیر کی
سئے جاتے ہیں کفن آپ کے دیوانوں کے
تار دامن کے ہیں ٹکڑے ہیں گریبانوں کے
سبھوں کی آ گئی پیری جو تم جوان ہوئے
زمیں کا دل ہوا مٹی خم آسمان ہوئے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
دیکھیے لازم و ملزوم اسے کہتے ہیں
دل ہے داغوں کے لیے داغ مرے دل کے لیے
معشوق کون سا ہے نہ ہو دل میں جس کی یاد
اس مختصر سے باغ میں کس گل کی بو نہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کبھی مدفون ہوئے تھے جس جگہ پر کشتہ ابرو
ابھی تک اس زمیں سے سیکڑوں خنجر نکلتے ہیں
راس آئے تم کو ملک عشق کی آب و ہوا
عاشقو ہر وقت شغل آہ و زاری چاہیے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
دل ہے شوق وصل میں مضطر نظر مشتاق دید
جو ہے مشغول اپنی اپنی سعئ لا حاصل میں ہے
سزا ہر ایک کو دینے لگی حیا ان کی
کہ چاک ہو گئی لپٹی جہاں قبا ان کی
وہ گیسو بڑھتے جاتے ہیں بلائیں ہوتی ہیں نازل
قدم تک آ گئے جب حشر عالم میں بپا ہوگا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہمیشہ بے دلی کی کیجیے کیوں کر نہ دل داری
نہ ہونا پاس دل کا ہے نشانی ایک دلبر کی
خدا جانے یہ گردش کا طریقہ کب نکالا ہے
جسے کہتے ہیں گردوں اک مرے پاؤں کا چھالا ہے
جو میری چشم کے پردے شریک ہو جاتے
کمال دامن ابر بہار بڑھ جاتا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ