Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Shakeel Azmi's Photo'

شکیل اعظمی

1971 | ممبئی, انڈیا

شاعر اور فلم نغمہ نگار

شاعر اور فلم نغمہ نگار

شکیل اعظمی کے اشعار

12.3K
Favorite

باعتبار

ہار ہو جاتی ہے جب مان لیا جاتا ہے

جیت تب ہوتی ہے جب ٹھان لیا جاتا ہے

اپنی منزل پہ پہنچنا بھی کھڑے رہنا بھی

کتنا مشکل ہے بڑے ہو کے بڑے رہنا بھی

خود کو اتنا بھی مت بچایا کر

بارشیں ہوں تو بھیگ جایا کر

میں سو رہا ہوں ترے خواب دیکھنے کے لئے

یہ آرزو ہے کہ آنکھوں میں رات رہ جائے

جانے کیسا رشتہ ہے رہ گزر کا قدموں سے

تھک کے بیٹھ جاؤں تو راستہ بلاتا ہے

بات سے بات کی گہرائی چلی جاتی ہے

جھوٹ آ جائے تو سچائی چلی جاتی ہے

بھوک میں عشق کی تہذیب بھی مر جاتی ہے

چاند آکاش پہ تھالی کی طرح لگتا ہے

بس اک پکار پہ دروازہ کھول دیتے ہیں

ذرا سا صبر بھی ان آنسوؤں سے ہوتا نہیں

اس بار اس کی آنکھوں میں اتنے سوال تھے

میں بھی سوال بن کے سوالوں میں رہ گیا

ہر گھڑی چشم خریدار میں رہنے کے لیے

کچھ ہنر چاہئے بازار میں رہنے کے لیے

تمہاری موت نے مارا ہے جیتے جی ہم کو

ہماری جان بھی گویا تمہاری جان میں تھی

مجھ کو بکھرایا گیا اور سمیٹا بھی گیا

جانے اب کیا مری مٹی سے خدا چاہتا ہے

جب تلک اس نے ہم سے باتیں کیں

جیسے پھولوں کے درمیان تھے ہم

کچھ دنوں کے لیے منظر سے اگر ہٹ جاؤ

زندگی بھر کی شناسائی چلی جاتی ہے

بچھڑ کے بھی وہ مرے ساتھ ہی رہا ہر دم

سفر کے بعد بھی میں ریل میں سوار رہا

آج آنکھوں میں کوئی رات گئے آئے گا

آج کی رات یہ دروازہ کھلا رہنے دے

میرے ہونٹوں پہ خامشی ہے بہت

ان گلابوں پہ تتلیاں رکھ دے

تیرے رونے کی خبر رکھتی ہیں آنکھیں میری

تیرا آنسو مرے رومال میں آ جاتا ہے

اسی خطا پہ بجھائے گئے چراغ مرے

میں جانتا تھا بہت کچھ ہوا کے بارے میں

تمہارے درد سے لے کر ہمارے آنسو تک

بڑی طویل کہانی ہے آگ پانی کی

پھر یوں ہوا تھکن کا نشہ اور بڑھ گیا

آنکھوں میں ڈوبتا ہوا جادہ لگا ہمیں

زمین لے کے وہ آئے تو گھر بنایا جائے

کھڑے ہیں دیر سے ہم لوگ اینٹ گارے لئے

گھر کے دیوار و در پہ شام ہی سے

نظم لکھتا ہوا ہے سناٹا

حادثے شہر کا دستور بنے جاتے ہیں

اب یہاں سایۂ دیوار نہ ڈھونڈھیں کوئی

Recitation

بولیے