Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Wali Uzlat's Photo'

ولی عزلت

1692 - 1775 | حیدر آباد, انڈیا

اردو شاعری کے ممتاز ترین بنیاد ساز شاعرروں میں شامل

اردو شاعری کے ممتاز ترین بنیاد ساز شاعرروں میں شامل

ولی عزلت کے اشعار

1.2K
Favorite

باعتبار

ہم اس کی زلف کی زنجیر میں ہوئے ہیں اسیر

سجن کے سر کی بلا آ پڑی ہمارے گلے

سخت پستاں ترے چبھے دل میں

اپنے ہاتھوں سے میں خراب ہوا

سیا ہے زخم بلبل گل نے خار اور بوئے گلشن سے

سوئی تاگا ہمارے چاک دل کا ہے کہاں دیکھیں

اے سالک انتظار حج میں کیا تو ہکا بکا ہے

بگولے سا تو کر لے طوف دل پہلو میں مکہ ہے

تری وحشت کی صرصر سے اڑا جوں پات آندھی کا

مرا دل ہاتھ سے کھویا تو تیرے ہاتھ کیا آیا

تری زلف کی شب کا بیدار میں ہوں

تجھ آنکھوں کے ساغر کا مے خوار میں ہوں

وہ پل میں جل بجھا اور یہ تمام رات جلا

ہزار بار پتنگے سے ہے چراغ بھلا

سہج یاد آ گیا وہ لال ہولی باز جوں دل میں

گلالی ہو گیا تن پر مرے خرقہ جو اجلا تھا

ہندو و مسلمین ہیں حرص و ہوا پرست

ہو آشنا پرست وہی ہے خدا پرست

باد بہار میں سب آتش جنون کی ہے

ہر سال آوتی ہے گرمی میں فصل ہولی

عشق گورے حسن کا عاشق کے دل کو دے جلا

سانولوں کے عاشقوں کا دل ہے کالا کوئلہ

محکمے میں عشق کے ہے یارو دیوانے کا شور

میرے دل دینے کا غل اس کے مکر جانے کا شور

تلخ لگتا ہے اسے شہر کی بستی کا سواد

ذوق ہے جس کو بیاباں کے نکل جانے کا

جس پر نظر پڑے اسے خود سے نکالنا

روشن دلوں کا کام ہے مانند آئینہ

جلد مر گئے تری حسرت سیتی ہم

کہ ترا دیر کا آنا نہ گیا

گئے سب مرد رہ گئے رہزن اب الفت سے کامل ہوں

اے دل والو میں ان دل والیوں سے سخت بیدل ہوں

جپے ہے ورد سا تجھ سے صنم کے نام کو شیخ

نماز توڑ اٹھے تیرے رام رام کو شیخ

کہا جو میں نے گیا خط سے ہائے تیرا حسن

تو ہنس کے مجھ کو کہا پشم سے گیا تو گیا

غنیمت بوجھ لیویں میرے درد آلود نالوں کو

یہ دیوانہ بہت یاد آئے گا شہری غزالوں کو

جو ہم یہ طفلوں کے سنگ جفا کے مارے ہیں

بتوں کا شکوہ نہیں ہم خدا کے مارے ہیں

کچھ غور کا جوہر نہیں خود فہمی میں حیراں ہیں

اس عصر کے فاضل سب سطحی ہیں جوں آئینہ

اس کو پہنچی خبر کہ جیتا ہوں

کسی دشمن سیتی سنا ہوگا

میں صحرا جا کے قبر حضرت مجنوں کو دیکھا تھا

زیارت کرتے تھے آہو بگولہ طوف کرتا تھا

جو عاشق ہو اسے صحرا میں چل جانے سے کیا نسبت

جز اپنی دھول اڑانا اور ویرانے سے کیا نسبت

پیر ہو شیخ ہوا ہے دیکھو طفلوں کا مرید

مردہ بولا ہے کفن پھاڑ قیامت آئی

جا کر فنا کے اس طرف آسودہ میں ہوا

میں عالم عدم میں بھی دیکھا مزہ نہ تھا

جاوے تھی جاسوسئ مجنوں کو تا راحت نہ لے

ورنہ کب لیلیٰ کو تھا صحرا میں جانے کا دماغ

اس زمانے میں بزرگی سفلگی کا نام ہے

جس کی ٹکیا میں پھرے انگلی سو ہو جاوے ترا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے