Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بنی کی دیوالی

صاحب علی

بنی کی دیوالی

صاحب علی

MORE BYصاحب علی

    ایک دن صبح ہمارے آنگن میں ایک واسودیو آیا۔ سر پر مور کے پروں والی ٹوپی، بدن پر ایک لمبا گھیر دار جبہ، کندھے پر رنگ برنگا پھٹا ہوا انگوچھا اور پیر میں ایک پھٹا ہوا جوتا۔ ایسا اس کا ٹھاٹھ تھا۔ ایک ہاتھ سے کرتال بجاتے ہوئے وہ گاتا رہا۔

    ’’پنڈھری کے وٹھوبا

    آنندی کے گیا نوبا

    جیجوری کے کھنڈوبا

    میرا نمن قبول ہو‘‘

    واسودیو کو دیکھتے ہی ہماری بنی بہت گھبرائی۔ وہ دوڑتی دوڑتی میرے پاس آئی اور مجھ سے چمٹ کر کہنے لگی،

    ’’بھیا، مجھے نا اس آدمی سے ڈر لگتا ہے۔‘‘

    میں نے ہنس کر کہا ’’بنی، وہ واسودیو ہے۔ ارے وہ کچھ نہیں کرےگا۔‘‘

    بنی کے ڈرے ہوئے چہرے کو دیکھ کرواسودیو کو لطف آیا۔ اس نے اپنی ٹوپی سے مور کا ایک پنکھ نکال کر بنی کی طرف بڑھایا۔ بنی کا ڈر دور ہو گیا۔ وہ فوراً ہنس دی اور دوڑتے ہوئے جاکر اس نے واسودیو کے ہاتھ سے مور کا پر لے لیا۔ اس دن سے بنی کی واسودیو سے گہری دوستی ہو گئی۔ واسودیو روز صبح ہمارے دروازے پر آتا۔ بنی بھی اس کی راہ دیکھتے ہوئے برآمدے میں بیٹھی رہتی۔ اگر اسے آنے میں دیر ہو جاتی تو بنی کو لگتا کہ کچھ کھوسا گیا ہے۔

    کبھی کبھی واسودیوبنی کے لیے پھول لے آتا، کبھی کھانے کے لئے بیر لاکر دیتا۔ اس وجہ سے وہ ہم سب کا بہت عزیز ہو گیا تھا۔

    روزانہ پابندی سے آنے والا واسودیو کچھ دنوں بعد غائب ہو گیا۔ کوئی مہینا بھر وہ کہاں رہا کسے پتا!

    شروع کے چار آٹھ دن بنی کے لئے بڑے گراں گزرے لیکن آہستہ آہستہ وہ اسے بھول سی گئی۔ البتہ درمیان میں وہ کبھی کبھار ماں سے پوچھتی ’’ماں وا سودیو اب کیوں نہیں آتا؟‘‘

    کچھ دنوں بعد دیوالی تھی۔ ایک دن ہم سب نہا دھو کر بیٹھے تھے۔بنی اپنی گڑیا سے کھیل رہی تھی کہ اتنے میں واسودیو اپنی کرتال بجاتے اور گانا گاتے آنگن میں آیا۔ اسے دیکھتے ہی بنی دوڑتے ہوئے سیدھے آنگن میں پہنچی اوراور اس کے پاس جاکر لاڈ سے کہنے لگی ’’کیوں بھئی واسودیو! تم اتنے دنوں کہاں تھے؟ میں روزانہ تمہارا انتظار کرتی تھی لیکن تم نہیں آئے۔‘‘

    واسودیو نے ہنسنے کی کوشش کی۔ اس کا چہرہ دیکھ کر لگتا تھا کہ وہ بہت دنوں بیمار رہا ہوگا۔

    ’’کیوں بھئی واسودیو تم بیمار تو نہیں تھے؟‘‘

    ’’ہاں میری ماں میں بہت بیمار تھا۔‘‘

    بنی کو بہت رنج ہوا۔ اس نے پوچھا، ’’واسودیو تمہیں کسی نے دوا وغیرہ دی یا نہیں؟ تمہارا یہاں کوئی ہے کہ نہیں؟‘‘

    واسودیو کی آنکھیں بھر آئیں اس کا گلا رندھ گیا۔ اس نے کہا ’’بیٹی، مجھ غریب کو دوا کون دےگا؟ میری ایک بیٹی ہے تمہارے جتنی۔ بالکل تمہاری طرح لگتی ہے وہ۔ تمہیں دیکھتے ہی مجھے اس کی یاد آتی ہے۔ لیکن وہ دور گاؤں میں ہے۔ اسی لیے میں روز تم سے ملنے آتا ہوں‘‘

    ’’لیکن واسودیو تم اسے یہاں کیوں نہیں لے آتے؟ میں اسے پہننے کے لیے اپنا اسکرٹ دوں گی۔ کھیلنے کے لیے گڑیا دوں گی اور میں اس کے ساتھ خوب کھیلوں گی۔‘‘

    واسودیو نے کہا، ’’میں اسے یہاں لے آتا لیکن گاؤں جانے کے لئے میرے پاس پیسے کہاں سے آئیں گے؟ جتنے پیسے تھے وہ میری بیماری میں ختم ہو گئے۔‘‘ بنی سیدھے گھر میں گئی اور بابا سے کہنے لگی ’’بابا، واسودیو کو اپنی لڑکی کو گاؤں سے لانے جانا ہے۔ آپ اسے پیسے دیں گے نا؟‘‘

    بابا نے کہا، ’’میں پیسے دوں گا لیکن پھر تمہیں اس دیوالی پر پٹاخے اور پھل جھڑی نہیں ملےگی۔‘‘

    بنی نے کہا، ’’مجھے پٹاخے اور پھل جھڑی نہ ملیں تو چل جائےگا۔ مجھے آپ پیسے ہی دے دیجئے۔‘‘

    بنی کی باتیں سن کر بابا کو بہت خوشی ہوئی اور انہوں نے اسے پیسے لاکر دیے۔ واسودیو کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ پہلے تو وہ پیسے لے ہی نہیں رہا تھا پھر بابا نے کہا ’’واسودیو، نامت کہو۔ بنی نے تمہیں یہ پیسے دیے ہیں۔ تم اب گاؤں جاؤ۔ ابھی دیوالی آنے میں دو تین دن باقی ہیں۔ اپنی لڑکی سے جاکر ملو۔ وہ بےچاری بچی تمہاری راہ دیکھ رہی ہوگی۔ تم دونوں آنے والی دیوالی خوشی خوشی مناؤ۔‘‘

    ’’آستین سے آنکھیں پوچھتے ہوئے واسودیو نے پیسے لیے اور چلا گیا۔ اس دیوالی پر بنی نے پٹاخے نہیں چھوڑے، پھل جھڑیاں نہیں جلائیں پھر بھی ایسی خوشی مناؤ۔‘‘

    آستین سے آنکھیں پوچھتے ہوئے واسودیو نے پیسے لیے اور چلا گیا۔ اس دیوالی پر بنی نے پٹاخے نہیں چھوڑے، پھل جھڑیاں نہیں جلائیں پھر بھی ایسی خوشی سے بھر پور دیوالی اس نے کبھی نہیں منائی تھی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے