Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بریانی نہیں پکی ہے بھائی

مختار احمد

بریانی نہیں پکی ہے بھائی

مختار احمد

MORE BYمختار احمد

    رشیدہ کا شوہر شہاب کاروباری دورے پر ہانگ کانگ گیا ہوا تھا۔اس کا ایک پررونق علاقے کی مارکیٹ میں گارمنٹس کا ایک بڑا سا اسٹور تھا جس میں بچوں کے ملبوسات فروخت کے جاتے تھے۔ اسٹور میں تین سیلزمین کام کرتے تھے ایک لڑکا بھی تھا جو صفائی ستھرائی اور دوسرے چھوٹے موٹے کام کیا کرتا تھا۔ یہ اسٹور اس لحاظ سے مشہور تھا کہ اس کی ہر ورائٹی باہر کی ہوتی تھی۔

    اچھی بات تو یہ ہے کہ ہم پاکستان میں رہتے ہیں، ہمیں یہاں ہی کی بنی ہوئی چیزیں استعمال کرنے میں فخر محسوس ہونا چاہیے، مگر اکثر لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ باہر کی چیزیں اچھی ہوتی ہیں۔ ایسے ہی غلط فہمی کے شکار لوگوں کی وجہ سے شہاب کی دکان پر گاہکوں کا تانتا بندھا رہتا تھا اور اس کی خوب بکری ہوتی تھی۔ وہ دبئی، چائنا، ملیشیا اور ہانگ کانگ جا کر خود مال لے کر آتا تھا۔ ہر مہینے اس کا ایک چکر ان ممالک میں ضرور لگتا تھا۔

    رشیدہ اور شہاب کے دو بچے تھے۔ احمد دس سال کا بیٹا تھا اور حریم آٹھ سال کی بیٹی۔ احمد بہت اچھا بچہ تھا مگر یہ ماضی کی بات تھی۔ چند دنوں سے رشیدہ محسوس کرنے لگی تھی کہ احمد میں تبدیلیاں آتی جا رہی تھیں۔ یہ تبدیلیاں اچھی نہیں بلکہ بری تھیں اور اسی وجہ سے رشیدہ اس کی طرف سے فکرمند رہنے لگی تھی۔

    وہ پہلے ضد نہیں کرتا تھا، اب بات بات پر ضد کرنے لگا تھا، پہلے وہ اس کی ہر بات مانتا تھا، اب اس کی کوئی بات نہیں مانتا تھا بلکہ اس سے بحث کرنے بھی بیٹھ جاتا تھا۔ پہلے وہ جو کچھ بھی پکاتی تھی، خاموشی سے کھا لیتا تھا، مگر اب وہ کھانا کھانے میں بھی نخرے کرنے لگا تھا، یہ کیوں پکایا وہ کیوں نہیں پکایا۔

    رشیدہ ایک پڑھی لکھی سمجھدار عورت تھی۔ اس نے اپنے بچوں کے ساتھ ہمیشہ پیار محبت اور دوستی والا سلوک روا رکھا تھا۔ وہ ان کو ہلکی پھلکی ڈانٹ تو پلا دیتی تھی مگر ان پر ہاتھ کبھی نہیں اٹھاتی تھی۔ احمد کے بدلے ہوئے رویے نے اسے فکرمند کر دیا تھا۔ وہ اس کے رویے کی تبدیلی کے اسباب پر غور کرنے لگی تو اس پر یہ انکشاف ہوا کہ جب سے احمد نے عصر اور مغرب کے درمیان بچوں کے ساتھ کھیلنے کے لیے باہر گلی میں جانا شروع کیا ہے، وہ تب سے ہی بگڑ گیا ہے، اس سے پہلے وہ ٹھیک تھا اور تو اور اب تو اس نے موبائل کے لیے بھی ضد شروع کر دی تھی۔

    رشیدہ نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اس کا گھر سے نکلنا بند کر دیا۔ اس پر اس نے احتجاج کیا اور ماں سے تھوڑی سی بدتمیزی بھی کی۔ رشیدہ کو اس کی بدتمیزی پر افسوس بھی ہوا اور غصہ بھی آیا۔ اس رات شہاب دکان سے گھر آیا تو رشیدہ نے احمد کی حرکتوں کی شکایت کی۔ نتیجے میں اسے باپ کی جانب سے ڈانٹ سننی پڑ گئی، وہ باپ سے ڈرتا تھا، اس نے گھر سے نکلنا تو بند کر دیا مگر اس کی ضدوں میں مزید اضافہ ہو گیا۔ یہ ضد زیادہ تر کھانوں کے سلسلے میں ہوتی تھی۔

    شہاب کو ہانگ کانگ گئے ہوئے پہلا روز تھا۔ احمد اور حریم اسکول سے آ گئے تھے۔ ان کے اسکول ایک ہفتے کے لیے بند ہو گئے تھے۔ اسکولوں کی چھٹیوں کی وجہ سے حریم بہت خوش تھی، گھر میں آتے ہی اس نے یہ خبر رشیدہ کو سنائی تھی۔ احمد خاموشی سے اپنے کمرے میں چلا گیا تھا۔ اپنے کمرے میں جب وہ اسکول کے کپڑے بدل رہا تھا تو اس نے کھڑکی میں سے دیکھا اس کے دوست گلی میں کھیل رہے ہیں۔ اس کے دل کو ایک دھکا سا لگا۔

    ’’ایک یہ بچے ہیں کہ دن بھر گلیوں میں کھیلتے پھرتے ہیں، ایک میں ہوں کہ ہر وقت گھر میں بند رہتا ہوں۔ میرے لیے کتنی پابندیاں ہیں، یا تو ٹی وی دیکھوں، یا کھلونوں سے کھیلوں اور یا پھر بور بور کہانیوں کی کتابیں پڑھتا رہوں۔ ان لوگوں کی امیاں کتنی اچھی ہیں، انہیں کچھ نہیں کہتیں اور ایک میری امی ہیں، ہر وقت پیچھے پڑی رہتی ہیں، یہ کرو یہ مت کرو۔‘‘ اس نے بڑی حسرت سے سوچا اور کچن کی جانب بڑھ گیا۔

    ’’بھوک لگی ہے۔ آپ نے کیا پکایا ہے؟‘‘۔ اس نے بڑی بےرخی سے پوچھا۔

    ’’آج میں بہت تھک گئی تھی۔ کچھ پکانے کو دل نہیں چاہ رہا تھا۔ میں نے دال چاول پکا لیے ہیں، شام کو کوئی اچھی چیز پکا لوں گی‘‘۔ اس کی امی نے دال میں بگھار دیتے ہوئے کہا۔

    دال چاول؟۔ ’’احمد نے تیز آواز میں کہا۔‘‘ میں تو دال چاول نہیں کھاؤں گا۔ میرے لیے بریانی پکائیں۔

    رشیدہ کو غصہ نہیں آتا تھا مگر احمد کے گستاخ لہجے سے وہ سخت طیش میں آ گئی۔ ’’تمہارے باپ نے مجھے نوکرانی نہیں رکھا ہے کہ میں تمہاری مرضی پر چلوں۔ کھانا ہے تو کھاؤ، ورنہ دفع ہو جاو۔‘‘

    احمد کو محلے کا ایک دوست ساجد یاد آ گیا۔ ساجد خود بھی بدتمیز تھا اور بدتمیز دوستوں کو پسند کرتا تھا۔ اس کے وہ دوست جو بدتمیز نہیں ہوتے تھے، وہ انھیں بھی بدتمیزیاں سکھا دیتا تھا۔ ایک روز اس نے احمد کو بتایا تھا کہ جب اس کی امی اس کی کوئی بات نہیں مانتیں تو وہ دھمکی دیتا ہے کہ وہ گھر چھوڑ کر چلا جائےگا۔ چونکہ وہ اکلوتا ہے، اس لیے اس کی امی ڈر جاتی ہیں اور اس کی بات مان لیتی ہیں۔ احمد کو ساجد کی یہ بات یاد آئی تو اس نے بھی اس ترکیب کو آزمانے کا فیصلہ کیا۔

    ’’اگر آپ نے بریانی نہیں پکائی تو میں گھر چھوڑ کر چلا جاوٴں گا۔‘‘ اس نے چیخ کر کہا۔

    اس کی بات سن کر رشیدہ سناٹے میں آ گئی۔ اس نے حیرت سے اسے دیکھا، اس کا ہاتھ پکڑ کر ڈرائنگ روم میں لائی اور صوفے پر بیٹھ کر بولی ’’یہ بات تم نے کی تو کیوں کی؟ گھر چھوڑ کر تم کہاں جاؤگے؟‘‘

    ’’میں نانی کے گھر چلا جاؤں گا۔ ان کے گھر کا راستہ مجھے معلوم ہے۔ میں وہاں سے اس وقت تک نہیں آؤں گا، جب تک آپ بریانی نہیں پکائیں گی۔‘‘

    ’’تمہاری نانی کے گھر تو میں خود تمہیں ابھی چھوڑ کر آتی ہوں۔ لیکن تمہیں مجھ سے ایک وعدہ کرنا پڑےگا کہ جب تک میں بریانی نہ پکاؤں تم گھر میں قدم بھی نہیں رکھوگے۔‘‘ رشیدہ جو غصے سے تلملا رہی تھی دانت پیس کر بولی۔ ’’لیکن احمد یہ وعدہ کرنے سے پہلے خوب سوچ سمجھ لینا، میں تمہیں ابھی بتا رہی ہوں کہ میں بریانی نہیں پکاؤں گی۔‘‘

    ’’تو پھر میں بھی واپس نہیں آؤں گا‘‘۔ احمد نے سینہ تان کر بڑی ڈھٹائی سے جواب دیا۔ رشیدہ چند لمحے تک اسے گھورتی رہی، پھر اٹھی، جلدی جلدی اس کے کپڑے ایک بیگ میں بھر کر اس کو بیگ پکڑایا اور اسے گاڑی میں بٹھاکر نانی کے گھر لے گئی جو زیادہ دور نہیں تھا۔ حریم بھی اس کے ساتھ تھی۔ گاڑی میں رشیدہ نے حریم کو بھی احمد کی گستاخی کے بارے میں بتا دیا تھا۔ حریم بہت اچھی لڑکی تھی، اس نے آج تک اپنی ماں سے کوئی بدتمیزی نہیں کی تھی۔ احمد کی حرکت کے متعلق سن کر اسے افسوس ہوا تھا۔ وہ احمد سے بھی بہت محبت کرتی تھی۔

    اس نے بھائی کو سمجھانے کی کوشش کی مگر احمد نہ مانا اور حریم سے بولا :’’اگر میرا اتنا ہی خیال ہے تو امی سے کہہ کر بریانی پکوا لو۔ میں گھر چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گا۔‘‘

    حریم خاموش ہو گئی۔ تھوڑی دیر بعد وہ لوگ نانی کے گھر پہنچ گئے۔ نانی کے گھر کے اوپر والے پورشن میں ان کا بڑا بیٹا، اس کی بیوی اور تین بچے رہتے تھے۔ نانی ماں نیچے رہتی تھیں اور اپنا کھانا پکانا خود کرتی تھیں۔ نانی نے جو رشیدہ، احمد اور حریم کو دیکھا تو خوش ہوگئیں۔ رشیدہ اور حریم کچھ خاموش خاموش سی تھیں۔ یہ بات نانی نے محسوس تو کر لی تھی، مگر انہوں نے کچھ پوچھا نہیں۔

    رشیدہ نے اپنی ماں سے کہا :’’اسکول ایک ہفتے کے لیے بند ہو گئے ہیں۔ احمد کو میں آپ کے پاس چھوڑنے آئی ہوں۔‘‘

    اس خبر سے نانی ماں مزید خوش ہو گئیں۔ کچھ دیر بعد بولیں: ’’حریم کو بھی یہیں چھوڑ دیتیں۔ اس کا بھی تو اسکول بند ہو گیا ہوگا۔‘‘

    ’’حریم کو یہاں چھوڑا تو پھر میں گھر میں اکیلی رہ جاؤں گی۔ ان کے پاپا باہر گئے ہوۓ ہیں۔‘‘

    اتنی دیر میں ماموں کے تینوں بچے بھی آ گئے۔ حریم اور احمد کو دیکھ کر انہوں نے مسرت کا اظہار کیا۔ ان بچوں میں صرف اسما ہی تھی جو حریم کی ہم عمر تھی۔ وہ حریم کو اپنے کمرے میں لے گئی اور اسے اپنی گڑیا دکھانے لگی جو وہ کل ہی اپنے باپ کے ساتھ جا کر لائی تھی۔ باتوں ہی باتوں میں حریم نے اسما کو احمد کی کارستانی سے آگاہ کر دیا۔ اس نے اسے یہ بھی بتا دیا کہ احمد جب تک واپس گھر نہیں جائےگا جب تک امی بریانی نہ پکا لیں۔ وہ ضد میں آ گیا ہے۔

    ’’احمد بھائی پہلے تو ایسے نہیں تھے۔ اب انھیں کیا ہو گیا ہے؟‘‘۔ اسما نے حیرت سے پوچھا۔

    ’’امی کا خیال ہے کہ ان کے دوست انھیں بری بری باتیں سکھاتے ہیں۔ واقعی وہ پہلے ایسے نہیں تھے۔ جب سے محلے کے چند نئے لڑکوں سے ان کی دوستی ہوئی ہے وہ ایسے ہی ہو گئے ہیں۔‘‘

    ’’ہمارے پاپا ہمیں بتاتے ہیں کہ بھائی بہن آپس میں بہترین دوست ہوتے ہیں۔ پہلے جیسا زمانہ نہیں رہا۔ اس وقت دوست بھی اچھے ہوتے تھے۔ اب تو اچھے دوست بہت کم ملتے ہیں۔‘‘

    رشیدہ نے احمد کی بدتمیزی کا تذکرہ اپنی ماں سے بھی نہیں کیا تھا کیوں کہ اس سے احمد کی بے عزتی ہوتی، مگر حریم نے یہ بات اسما کو بتا دی تھی اور جب رشیدہ حریم کو لے کر واپس چلی گئی تو اسما نے یہ بات اپنے گھر والوں کو بتا دی۔ احمد کے ماموں کے بچوں کو جب یہ پتہ چلا کہ احمد اس قدر بدتمیز ہو گیا ہے، ضد کرتا ہے، اپنی امی سے زبان چلاتا ہے اور برے لڑکوں سے دوستی رکھتا ہے تو وہ ایک دم سے احمد سے کھنچنے لگے۔

    احمد نے یہ بات محسوس کر لی تھی۔ اس نے اسما کے بھائی فہیم سے اس کا سبب پوچھا تو اس نے صاف صاف بتا دیا کہ وہ کس وجہ سے اس سے بات نہیں کر رہے۔ احمد کو بڑی شرمندگی محسوس ہوئی۔ رشیدہ اپنی ماں کو بتا گئی تھی کہ احمد نے کھانا نہیں کھایا ہے۔ نانی ماں نے اپنے لیے کھچڑی پکائی تھی، وہ انہوں نے احمد کو دی تو اس نے چپ چاپ کھا لی۔ پھر وہ بستر پر لیٹ گیا۔ اس کا دل اداس تھا۔ اسے کچھ کچھ احساس ہونے لگا تھا کہ وہ غلطی پر تھا، اس سے پہلے کہ یہ احساس بڑھتا، اسے نیند آ گئی۔

    شام کو آنکھ کھلی، وہ کمرے سے باہر آیا۔ ماموں کے بچے اسے دیکھ کر ادھر ادھر ہو گئے۔ اس کا دل کٹ کر رہ گیا۔ ’’یہ لوگ مجھے برا لڑکا سمجھتے ہیں، اسی لیے بات کرنا پسند نہیں کر رہے۔‘‘ اس نے اداسی سے سوچا۔ اسے اپنی امی اور حریم یاد آنے لگی تھیں۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ اڑ کر گھر پہنچ جائے۔ اس کے دل میں ایک امید سی تھی کہ شائد امی نے رات کے کھانے میں بریانی پکا لی ہو۔

    وہ نانی ماں کے پاس آیا۔ ’’نانی ماں۔ میری بات حریم سے کروا دیجئے۔‘‘ اس نے بڑے ادب سے کہا۔

    نانی ماں نے رشیدہ کا نمبر ملایا اور موبائل احمد کو تھما دیا۔ دوسری طرف رشیدہ تھی۔ ’’مجھے حریم سے بات کرنی ہے‘‘۔ اس نے بڑے کمزور سے لہجے میں کہا۔ تھوڑی دیر بعد اس کے کانوں میں حریم کی آواز آئی۔ ’’احمد بھائی۔ بڑے مزے آ رہے ہیں۔ اکیلے ہی اکیلے چلے گئے، جھوٹے منہ بھی ہم سے نہیں پوچھا کہ حریم تم بھی نانی ماں کے یہاں رہ لو‘‘۔ حریم نے شوخ آواز میں کہا۔

    احمد نے سنی ان سنی کر کے کہا ’’حریم کیا رات کے کھانے میں بریانی پکی ہے؟‘‘۔ چونکہ اس نے حریم کی بات کا جواب نہیں دیا تھا، اس بات سے وہ چڑ گئی اور جھنجلا کر بولی ’’بریانی نہیں پکی ہے بھائی۔ اپنی ضد چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟‘‘

    احمد نے اس کی اگلی بات نہیں سنی اور مایوسی سے فون بند کر کے نانی ماں کو دے دیا۔ رات کو ماموں آئے۔ انہوں نے احمد کو دیکھ کر خوشی کا اظہار کیا پھر بولے :’’میاں۔ رات کا کھانا تم ہمارے ساتھ کھاؤگے‘‘۔ اپنے ماموں زاد بھائی بہنوں کا تلخ رویہ احمد کو یاد آ گیا تھا۔ اس نے کہا : ’’شکریہ ماموں جان۔ نانی ماں نے میرے لیے دال چاول بنا لیے ہیں، میں ان کے ساتھ ہی کھانا کھاؤں گا‘‘۔

    رات جب وہ سونے لگا تو اس کا دل بھر آیا۔ اسے اپنی امی کی یاد آنے لگی تھیں۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اسے رہ رہ کر اپنے رویے پر افسوس ہو رہا تھا۔ اسے احساس ہو گیا تھا کہ غلطی اسی کی تھی۔ اس کی امی اس سے کتنا پیار کرتی تھیں، اس کی چھوٹی چھوٹی ضروریات کا بھی حد سے زیادہ خیال رکھتی تھیں۔ اس کی ہر سالگرہ بڑی دھوم دھام سے منانے کے انتظامات کرتی تھیں۔ بازار جاتیں تو اس کے لیے طرح طرح کے کھلونے خرید کر لاتی تھیں۔ ان کی اس محبت اور توجہ کا اس نے یہ صلہ دیا کہ ان سے تیز آواز میں بات کرنے لگا، ان کی باتیں ماننا چھوڑ دیں۔

    ’’کس قدر برا کیا تھا میں نے‘‘ اس کے منہ سے بےاختیار نکلا اور اس شدید شرمندگی کے احساس سے مغلوب ہو کر اس نے زور زور سے رونا شروع کر دیا۔ نانی ماں پریشان ہوکر اس کے پاس آ گئیں۔ رونے کی آواز اتنی تیز تھی کہ ماموں، ممانی اور ان کے تینوں بچے بھی نیچے آ گئے۔

    ’’کیا ہوا احمد؟ تم رو کیوں رہے ہو؟‘‘۔ ماموں نے گھبرا کر پوچھا۔

    ’’مجھے امی یاد آ رہی ہیں۔ میں نے اپنی بری حرکتوں سے انھیں ناراض کر دیا ہے۔ میں شرمندہ ہوں۔ مجھے ان کے پاس لے چلئے۔ میں ان سے معافی مانگوں گا۔ میں ان سے یہ وعدہ بھی کروں گا کہ آئندہ ایک اچھا بچہ بن کر دکھاؤں گا اور کسی قسم کی کوئی ضد نہیں کروں گا۔‘‘

    ماموں جان نے اسی وقت گاڑی نکالی۔ گاڑی میں نانی ماں، ماموں جان، ممانی، ان کے تینوں بچے اور احمد ٹھس ٹھسا کر بیٹھ گئے اور تھوڑی ہی دیر میں رشیدہ کے گھر پہنچ گئے۔ رشیدہ کو دیکھتے ہی احمد دوڑ کر اس سے لپٹ گیا۔’’امی مجھے معاف کردیجیے۔ اب میں آپ کو ایک اچھا بچہ بن کر دکھاؤں گا۔ میں وعدہ کرتا ہوں۔‘‘

    رشیدہ نے اس کو پیار سے خود سے لپٹا لیا۔’’جانتے ہو احمد جب سے تم گئے ہو میں نے نہ دوپہر کا کھانا کھایا ہے اور نہ ہی رات کا۔ مجھے خوشی ہے کہ تمہیں اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے۔ یاد رکھو، ماں باپ اپنے بچوں سے جو کہتے ہیں، اس میں بچوں کی ہی بھلائی ہوتی ہے۔‘‘

    احمد کے سیدھے راستے پر آ جانے سے سب لوگوں کو بہت خوشی ہوئی۔ رشیدہ ان لوگوں کے لیے چائے بنانے کچن میں چلی گئی۔ سارے بچے ایک دوسرے سے باتوں میں مصروف ہو گئے۔ احمد اپنے دل میں سوچ رہا تھا کہ جب میں ایک برا لڑکا تھا تو ماموں جان کے بچے مجھ سے کھنچے کھنچے تھے، اب میں اچھا بن گیا ہوں تو یہ میرے دوست بن گئے ہیں اور مجھ سے گھل مل کر باتیں کر رہے ہیں۔ سچ ہے بری عادتوں کے بچوں سے کوئی پیار نہیں کرتا، اچھے بچوں کو سب پسند کرتے ہیں۔ وہ خوشی محسوس کر رہا تھا کہ اب وہ بھی اچھا بچہ بن گیا ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے