Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

میں جھوٹ نہیں بولوں گا

مختار احمد

میں جھوٹ نہیں بولوں گا

مختار احمد

MORE BYمختار احمد

    جاوید نو دس سال کا لڑکا تھا، نہایت تمیزدار اور پڑھائی لکھائی میں تیز۔ نہ کسی سے لڑتا جھگڑتا تھا اور نہ ہی اپنی کسی بات سے کسی کی دل آزاری کرتا تھا۔ اس کی اچھی عادتوں کی وجہ سے اسکول میں اس کی تمام استانیاں اور دوست اور گھر میں اس کی امی اور ابو اس سے بہت خوش تھے۔ اچھے بچوں سے سب ہی خوش رہتے ہیں۔

    چونکہ اس کا نہ کوئی بھائی تھا نہ بہن، اس لیے وہ اگر گھر میں ہوتا تو اپنی امی کے پیچھے پیچھے ہی پھرتا رہتا تھا اور ان کو اسکول میں ہونے والی ہر بات بتاتا۔ امی کوئی کام کر رہی ہوتیں تو کام میں ان کا ہاتھ بٹاتا۔ جاوید کی ایک اچھی بات یہ بھی تھی کہ وہ اسکول سے کبھی چھٹی نہیں کرتا تھا۔ اسے اس بات کا علم تھا کہ چھٹیاں کرنے والے بچے پڑھائی میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اگر کبھی بخار کی وجہ سے اس کی طبیعت خراب ہو جاتی تو اس کی امی کو زبردستی اس کی چھٹی کروانا پڑتی تھی ورنہ وہ تو چھٹی کرنے پر راضی ہی نہیں ہوتا تھا۔

    اس کے ابو ایک پرائیویٹ کمپنی میں اکاؤنٹنٹ تھے اور کمپنی کا سارا حساب کتاب کا کام ان کے ذمے تھا۔ جس کمپنی میں وہ کام کرتے تھے وہاں گائے بھینسوں کا دودھ سائنٹفک طریقوں سے ڈبوں میں بند کر کے ملک بھر میں سپلائی کیا جاتا تھا۔ ہفتے کے چھ دن اس کے ابّو کام پر ہوتے تھے اوران چھ دنوں میں بھی رات کو دیر سے گھر آتے تھے۔ اپنی ان مصروفیات کی وجہ سے وہ جاوید کو زیادہ ٹائم نہیں دے سکتے تھے مگر ان کو اس بات پر بہت اطمینان ہوتا تھا کہ ان کی سخت محنت کی وجہ سے ان کے گھر والوں کی زندگی بغیر کسی فکر کے ہنسی خوشی گزر رہی ہے۔

    جس گھر میں وہ رہتے تھے وہ ان کا اپنا تھا۔ویسے تو انھیں کمپنی والوں کی طرف سے ٹرانسپورٹ کی سہولت حاصل تھی، مگر انہوں نے کچھ عرصہ پہلے ایک گاڑی بھی خرید لی تھی تاکہ جاوید کی امی اور جاوید کو ان کی غیر موجودگی میں کہیں آنا جانا ہو تو انھیں کسی قسم کی کوئی پریشانی نہ اٹھانی پڑے۔ ان کو احساس تھا کہ انھیں یہ ساری آسائشیں ان کی کمپنی کی وجہ سے حاصل تھیں، اس لیے وہ اظہار تشکر کے طور پر بہت زیادہ دل لگا کر اپنی ڈیوٹی انجام دیتے تھے۔

    اتوار یا کسی دوسری چھٹی والے دن جاوید بہت خوشی محسوس کرتا تھا کیوں کہ اس روز اس کے ابو گھر پر ہوتے تھے۔ جاوید پوری کوشش کرتا تھا کہ چھٹی والے روز صبح سویرے اٹھ کر ابو کے پاس ہی جا کر بیٹھ جائے۔ اس کے ابو چھٹی والے دن یا تو اخبار پڑھتے تھے یا پھر ٹی وی دیکھتے رہتے تھے۔ ایسے میں جاوید اپنے کھلونے اور چھوٹی چھوٹی کہانیوں کی کتابیں لے کر ان کے پاس ہی قالین پر بیٹھ جاتا تھا۔

    ابو کبھی کبھی ٹی وی یا اخبار سے نظریں ہٹاکر اس کو بھی دیکھ کر مسکرا دیتے۔ ان کی یہ مسکراہٹ جاوید کو بہت اچھی لگتی تھی۔ وہ چھٹی والے روز اپنے ابو سے کسی قسم کی کوئی ضد نہیں کرتا تھا۔ اس کی امی نے اس کو سمجھا رکھا تھا کہ اس کے ابّو پورے ہفتے آفس کے کاموں میں مصروف رہتے ہیں، چھٹی والا دن ان کے آرام کا ہوتا ہے، اس لیے ان کو تنگ نہیں کرنا چاہیے۔

    جاوید اپنی امی کی ہر بات غور سے سنتا تھا اور اس پر عمل بھی کرتا تھا۔ اس نے کبھی بھی اپنے ابّو کو بےجا ضدوں سے تنگ نہیں کیا تھا۔ اس کے ابّو کبھی کبھی اسے اور اس کی امی کو گھمانے پھرانے بھی لے جاتے تھے۔ مہینے میں ایک آدھ بار وہ لوگ باہر کھانا بھی کھانے جاتے تھے۔

    آج بھی جاوید کے ابو ڈرائنگ روم میں ٹی وی پر اپنے پسندیدہ پروگرام سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ کھلا ہوا اخبار ان کے ہاتھ میں تھا، پروگرام کے دوران جب وقفہ ہوتا اور اس وقفے کے دوران مختلف قسم کے اشتہار دکھائے جانے لگتے تو وہ اخبار کی طرف متوجہ ہو جاتے۔

    اس وقت جاوید نے اپنے کھلونوں کی باسکٹ میں سے تمام چھوٹی بڑی گاڑیاں نکال لی تھیں اور منہ سے گاڑی کے انجن کی آواز نکال کر جھوٹ موٹ کی ریس لگا رہا تھا۔ اس کی امی کچن میں کھانا بنانے میں مصروف تھیں۔ چھٹی والے روز وہ بڑی اچھی اچھی چیزیں پکاتی تھیں اور اس بات پر بہت خوش ہوتی تھیں کہ دوپہر کے کھانے پر سب ساتھ ہونگے۔

    اچانک اطلاعی گھنٹی کی آواز کانوں میں آئی۔ جاوید کے ابو چونک گئے۔ انہوں نے جاوید کی طرف دیکھا تو وہ اٹھ کر کھڑکی کی طرف آیا اور تھوڑا سے پردہ ہٹا کر باہر جھانکا اور بولا ’’ابو جمیل انکل آئے ہیں‘‘۔

    ٹی وی پر اس کے ابّو کی پسند کا پروگرام آ رہا تھا۔ جمیل ان کا دوست تھا مگر اس کی اس بے وقت کی آمد نے انھیں بدمزہ کر دیا تھا، انہوں نے جاوید سے کہا- ’’جاوٴ ان سے کہہ دو ابو گھر پر نہیں ہیں‘‘۔ یہ کہہ کر وہ پھر ٹی وی کی طرف متوجہ ہو گئے۔

    ان کی یہ بات سن کر جاوید نے اپنا سر کھجاکر ان کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں عجیب سے تاثرات تھے اور وہ کچھ کہنا چاہ رہا تھا۔ جاوید کو حکم دے کر اس کے ابو دوبارہ ٹی وی دیکھنے لگے تھے۔ جب جاوید نے دیکھا کہ وہ اس کی طرف متوجہ نہیں ہیں تو وہ خاموشی سے اپنی گاڑیوں کے پاس سر جھکا کر بیٹھ گیا۔

    کچھ دیر بعد گھنٹی پھر بجی تو اس کے ابو جھنجلا گئے۔ انہوں نے غصیلی نظروں سے جاوید کو دیکھا اور قدرے تیز آواز میں بولے ’’بیٹا تم نے سنا نہیں میں نے کیا کہا ہے؟‘‘

    گھنٹی کی اس دوسری آواز پر اس کی امی بھی کچن سے نکل کر وہاں آ گئی تھیں۔ ابّو کے سوال پر جاوید اپنی جگہ سے اٹھا اور ان کے قریب آ کر سر جھکاکر بولا ’’سوری ابو۔ میں جمیل انکل سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ آپ گھر پر نہیں ہیں۔ یہ تو جھوٹ ہے اور امی نے جھوٹ بولنے سے منع کیا ہے۔ ہماری مس بھی ہمیں بتاتی ہیں کہ جھوٹ بولنا بری بات ہوتی ہے اس لیے کبھی بھی جھوٹ نہیں بولنا چاہیے‘‘۔

    اس کی بات سن کر اس کے ابّو ہکا بکا رہ گئے۔ جاوید کی اس بات نے انھیں سخت شرمندہ کر دیا تھا۔ جاوید اس انتظار میں تھا کہ اب اسے ابّو کی طرف سے ڈانٹ پڑےگی، مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا اس کے ابو صوفے سے اٹھے، جاوید کے گال تھپتھپائے اور بولے ’’شاباش بیٹے۔ آج تم نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ بچے بھی بڑوں کو اچھی باتیں بتا سکتے ہیں‘‘۔ یہ کہہ کر وہ ڈرائنگ روم سے باہر نکل گئے۔

    جاوید کی امی سب کچھ سمجھ گئی تھیں۔ انہوں نے مسکرا کر جاوید کو دیکھا مگر کچھ بولیں نہیں اور واپس کچن میں چلی گئیں۔ دس پندرہ منٹ گزرے ہونگے کہ جاوید کے کانوں میں ابو کے زوردار قہقہے کی آواز آئی۔ اس نے گھٹنوں کے بل تھوڑا سا اچک کر کھڑکی سے باہر جھانکا تو کیا دیکھتا ہے کہ اس کے ابّو اور جمیل انکل لان میں بچھی کرسیوں پر بیٹھے ایک دوسرے سے باتوں میں مشغول ہیں اور سامنے میز پر چائے رکھی ہے۔

    جاوید کو نہ جانے کیوں یہ منظر بہت اچھا لگا اور وہ کھلونوں کو وہیں چھوڑ کر کھڑکی میں آ کر کھڑا ہو گیا اور انھیں دیکھنے لگا۔ اچانک اس کے ابّو کی نظر اس پر پڑ گئی۔ جاوید گھبرا سا گیا مگر یہ دیکھ کر اس کی خوشی کی انتہا نہیں رہی کہ ابّو اسے دیکھ کر مسکرائے اور اسے باہر آنے کا اشارہ بھی کیا۔

    جمیل صاحب کے رخصت ہو جانے کے بعد اس کے ابّو نے ساری بات اس کی امی کو بھی بتا دی تھی اور اس بات پر خوشی کا اظہار بھی کیا کہ جاوید اتنی سی عمر میں ہی اتنا سمجھدار اور خود اعتماد ہے۔ ان کی یہ بات سن کر جاوید کی امی بھی بہت خوش ہوئیں۔ رات ہوئی تو سونے سے پہلے امی نے جاوید کو اپنے پاس لٹاکر اسے ایک کہانی سنائی، بغیر کہانی سنے اسے نیند نہیں آتی تھی۔ کہانی ختم ہوئی تو جاوید بھی سو چکا تھا۔ اس کی امی نے اس کی پیشانی پر بوسہ دیا اور دھیرے سے بولیں ’’شاباش بیٹا۔ آج تم نے میرا اور اپنے ابو کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے‘‘۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے