ہرے پیلے گھاس کےمیدان سے ٹیڑھا میڑھا راستہ بناتی وہ ایک چھوٹی سی پگڈنڈی تھی۔
آس پاس اگی ہوئی پھولوں کی جھاڑیوں اور ہری ہری بیلوں سے وہ قریب قریب ڈھک گئی تھی۔ پر لی طرف تھوڑے ہی فاصلے سے ایک بڑی سڑک گزرتی تھی۔ اس راستے پر ہمیشہ لوگوں کا آنا جانا لگا رہتا۔ ہمیشہ گاڑیاں آتیں جاتیں اور موٹریں دوڑتیں۔ لوگ بن سنور کر ادھر ادھر پھرتے۔ راجا کی سواری بھی باجے گاجے کے ساتھ اسی سڑک سے گزرتی۔
بےچاری غریب پگڈنڈی! اس کی طرف بھولے سے بھی کوئی نہیں دیکھتا تھا۔ اس کا اسے بڑا دکھ تھا اور وہ من ہی من میں سوچا کرتی، غریب کو اس دنیا میں کون پوچھےگا؟ جسے دیکھو وہ بڑے ہی کو عزت دیتا ہے۔
ایک دن شام کے وقت موٹر کی آواز سے گھبرا کر کچھ بکری کے بچے اس پگڈنڈی پر آ گئے۔ سڑک کی بھیڑ سے بچنے کے لیے ایک عورت بھی اپنے دو چھوٹے بچوں کو لے کر اسی پگڈنڈی پر آ گئی۔
پگڈنڈی ایک دم پر سکون تھی۔ اس پر موٹریں نہیں تھیں، گاڑیاں نہیں تھیں۔ دھول نہیں تھی، کچھ بھی نہیں تھا۔ ’’دور ہٹو‘‘ کہہ کر چلانے والا بھی کوئی نہیں تھا۔
راستے پر اگی ہوئی گھاس کھاتے کھاتے بکری کے بچے خوشی سے ادھر ادھر کودنے لگے۔ قریب ہی اگے ہوئے پھولوں کو دیکھ کر بچے بھی ناچنے لگے۔ اس میں سے کچھ پھول توڑکر انہوں نے ہار بھی گوندھے۔ پگڈنڈی کو بڑا سکون ملا۔ وہ دل ہی دل میں کہنے لگی’’اگر روزانہ اس طرح پیارے بکروٹے اور خوش دل بچے میرے ساتھ کھیلنے آئیں تو مجھے اس سڑک کے تام جھام سے کیا لینا دینا؟‘‘
روزانہ بکری کے بچے وہاں آتے اور ادھر ادھر پھرتے، بچے بھی پھول جمع کرنے آتے، ناچتے کھیلتے اور واپس چلے جاتے۔ اس طرف سڑک پر لوگوں کا شوروغل مچتارہتا۔ موٹریں دوڑتیں اور دھول اڑتی رہتی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.