ماسٹر کے ہاتھ میں آج چھڑی نہیں تھی۔ چاک بھی نہیں تھا۔ ان کے ہاتھ میں آج پھول تھے۔ رنگ برنگے بہت سارے پھول تھے۔ جاسندی کے، گلاب کے، گل شبو کے اور موگرے کے۔ کلاس خوشبو سے معطر ہو گئی۔
بچوں کو خوب مزا آیا۔ وہ ناچنے لگے۔ ’’ماسٹر صاحب آج پھول لے کر آئے ہیں۔‘‘ جسے دیکھو وہ یہی کہہ رہا تھا۔ ’’لیکن یہ دوسرے کیسے پھول ہیں ان کے ہاتھ میں؟ کدو کے اور بھنڈی کے؟ یہ کیوں لے کر آئے ہیں؟‘‘ بچوں کو اچنبھا ہوا۔
ماسٹر صاحب نے پھول میز پر رکھے۔ بچے تجس سے دوڑتے ہوئے آئے اور اردگرد اکٹھا ہو گئے۔ کچھ بچے خوشبو سونگھنے لگے۔
’’ارے ہاتھ نہ لگاؤ انہیں‘‘ ماسٹر صاحب چلائے اور اپنی جگہ پر بیٹھو اس کی خوشبو نہیں سونگھنا ہے۔
ہاتھ نہیں لگانا ہے، ان کی خوشبو نہیں سونگھنی ہے۔
پھر کیوں لے آئے یہ پھول؟ سب ایک دوسرے کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگے۔
ماسٹر صاحب نے گلا صاف کیا۔ کلاس کی طرف سنجیدہ نظروں سے ایک بار دیکھا اور بولنے کی شروعات کی۔
’’آج میں تمہیں پھول اور اس کے حصے، اس تعلق سے معلومات دینے والا ہوں۔‘‘
بچوں کی آنکھوں کے سامنے کچھ چمکنے لگا۔ ان کے چہرے حیرت سے لمبے ہو گئے۔ آنکھیں پھاڑے وہ ماسٹر صاحب کی طرف دیکھنے لگے۔
’’یہ دیکھو جا سندی کی کلی۔ اس کے نیچے کے ہرے حصے کو پیالۂ گل کہتے ہیں۔ پیالۂ گل اچھی طرح ذہن میں رکھو۔ اب یہ موگرے کا پھول دیکھو اس کی نلی کے اوپر پنکھڑیاں جڑی ہوئی ہیں۔ ان دونوں کو ملا کر تاج گل تیار ہوتا ہے۔ سمجھ میں آیا؟ یہ دوسرا حصہ ہوا۔ خاص حصہ اندر ہی ہے ابھی‘‘
آفس کی گھڑی کلاس میں سے نظر آ رہی تھی۔ ایک لڑکے نے آہستہ سے جھانک کر ادھر دیکھا۔
’’تم وہاں کیا دیکھ رہے ہو؟‘‘ ماسٹر چنگھاڑے۔ ’’یہاں دیکھو۔ اب یہ گل شبو کا پھول دیکھو۔ اسے میں چیرتا ہوں۔ یہ نرکوٹ بھنڈی کے پھول میں بہت ہوتے ہیں۔ اگستی کے پھول میں دس ہوتے ہیں۔ موگرے کے پھول میں دو۔ درمیان میں جو یہ حصہ نظر آ رہا ہے یہ ہے مادہ کوٹ۔ اس نرکوٹ پر ایک تھیلی ہے۔ اسے زیرہ دان کہتے ہیں۔ یہ زیرے دیکھو باریک باریک۔‘‘
’’ماسٹر صاحب ہمیں یہاں سے کچھ بھی نہیں دکھائی دے رہا ہے‘‘ دو بچوں نے آہستگی سے اٹھ کر کہا۔
’’دکھائی نہیں دے رہا؟ کیوں دکھائی نہیں دے رہا؟ دکھائی نہیں دیتا تو صرف سنو۔ گھر جانے کے بعد دیکھو، بیچ میں مت بولو۔ اس مادہ کوٹ میں ایک کھوکھلی نلی ہے۔ اس کے اوپر یہ موٹا سا حصہ ہے اسے کلغی کہتے ہیں۔اس کے نیچے دوسرا کھوکھلا حصہ ہے اسے بیضہ دان کہتے ہیں۔ اس بیضہ دان میں ہی بیضے ہوتے ہیں۔ یہی آگے جاکر پھل بنتا ہے
سمجھے؟ اس طرح ہر پھول کے چار حصے ہوتے ہیں۔ پیالۂ گل، تاج گل، نرکوٹ، مادہ کوٹ۔ اچھی طرح سمجھ میں آیا؟‘‘
بچوں نے گردن ہلائی اور جماہی لی۔ ماسٹر صاحب نے پھولوں کو کاغذ میں لپیٹا اور کھڑکی سے باہر پھینک دیا اور انگوچھے سے ہاتھ پونچھے۔ پیریڈ ختم ہونے میں ابھی بھی کچھ وقت باقی تھا۔
ایک لڑکا ڈرتے ڈرتے تھوڑا سا اٹھا اور آہستگی سے بولا۔ ’’ماسٹر صاحب ہمیں کوئی کہانی سنائیے نا!‘‘
’’بیٹھ نیچے!‘‘ ماسٹر صاحب یک لخت غصے سے چیخے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.