Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سدو کی قمیص

صاحب علی

سدو کی قمیص

صاحب علی

MORE BYصاحب علی

    سدو بہت ہی غریب لڑکا تھا۔ اس کے پاس پہننے کے لیے ڈھنگ کی قمیص بھی نہیں تھی۔ پھٹی ہوئی قمیص پہن کر ہی وہ باہر پھرتا۔

    ایک دن وہ کھیت میں پھر رہا تھا۔ وہاں اسے ایک کپاس کا پودا نظر آیا۔ کپاس کے پودے نے کہا ’’کیوں رے لڑکے، پھٹی ہوئی قمیص پہن کر کیوں گھومتے ہو؟‘‘

    سدو نے کہا۔ پھر کیا کروں؟ میں ٹھہرا غریب مجھے نئی قمیص کون دےگا؟

    پودے نے کہا ’’میری کپاس لے جاؤ اور اس سے نئی قمیص بنا لو۔‘‘

    سدو نے کپاس کے بنولے میں سے سفید سفید کپاس جمع کی اور آگے بڑھا۔

    راستے میں ایک کانٹے دار ناگ پھنی کا پودا تھا۔ اس نے کہا ’’کیوں بھئی لڑکے کپاس کس لیے لے جا رہے ہو؟‘‘

    سدو نے کہا ’’مجھے نئی قمیص بنانی ہے۔‘‘

    ناگ پھنی کے پودے نے کہا ’’ٹھہر میں تمہیں کپاس دھن کر دیتا ہوں۔‘‘

    پھر ناگ پھنی کے پودے نے اپنے کانٹے دار پھنوں سے کپاس کو دھن دیا۔ سدو آگے بڑھا۔

    ایک درخت پر مکڑی اپنا جالا بن کر بیٹھی ہوئی تھی۔

    اس نے پوچھا ’’کیوں بھئی لڑکے، کپاس لے کر کہاں جا رہے ہو؟‘‘

    سدو نے کہا ’’مجھے نئی قمیص بنانی ہے۔‘‘

    مکڑی نے کہا ’’کپاس یہاں لاؤ میں تمہیں کپڑا بن کر دیتی ہوں۔‘‘

    مکڑی نے جھٹاجھٹ کپڑا بن کر دے دیا۔ سدو کپڑا لے کرآگے بڑھا۔ راستے میں ایک کیکڑا بیٹھا ہوا تھا۔

    اس نے پوچھا ’’کیوں رے لڑکے! کپڑا لے کر کہاں جا رہے ہو؟‘‘

    سدو نے کہا ’’مجھے نئی قمیص سلوانی ہے‘‘

    کیکڑے نے کہا ’’یہاں لائو وہ کپڑا، میں تمہیں کپڑا کاٹ کر دیتا ہوں۔‘‘

    کیکڑے نے جھٹا جھٹ کپڑا کاٹ کر دیا۔

    سدو آگے بڑھا۔ اس کی ملاقات ایک بگلے سے ہوئی۔

    بگلے نے پوچھا ’’کپڑا لے کر کہاں جا رہے ہو؟‘‘

    سدو نے کہا ’’مجھے نئی قمیص سلوانی ہے۔‘‘

    بگلے نے اپنی لمبی چونچ میں دھاگا لیا اور جھٹا جھٹ قمیص سی کر دی۔

    سدو نے پرانی قمیص پھینک دی اور نئی قمیص پہن کر اپنی ماں کو دکھانے کے لئے ناچتے کودتے گھر پہنچا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے