اجمل صدیقی کے اشعار
کبھی خوف تھا ترے ہجر کا کبھی آرزو کے زوال کا
رہا ہجر و وصل کے درمیاں تجھے کھو سکا نہ میں پا سکا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کیا کیا نہ پڑھا اس مکتب میں، کتنے ہی ہنر سیکھے ہیں یہاں
اظہار کبھی آنکھوں سے کیا کبھی حد سے سوا بے باک ہوا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
آس پہ تیری بکھرا دیتا ہوں کمرے کی سب چیزیں
آس بکھرنے پر سب چیزیں خود ہی اٹھا کے رکھتا ہوں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
میرے ساتھ سوئے جنون چل مرے زخم کھا مرا رقص کر
میرے شعر پڑھ کے ملے گا کیا پتا پڑھ کے گھر کوئی پا سکا؟
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
بول پڑتا تو مری بات مری ہی رہتی
خامشی نے ہیں دئے سب کو فسانے کیا کیا
-
موضوع : خاموشی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
جس دن سے گیا وہ جان غزل ہر مصرعے کی صورت بگڑی
ہر لفظ پریشاں دکھتا ہے، اس درجہ ورق نمناک ہوا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
الگ الگ تاثیریں ان کی، اشکوں کے جو دھارے ہیں
عشق میں ٹپکیں تو ہیں موتی، نفرت میں انگارے ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہر ایک صبح وضو کرتی ہیں مری آنکھیں
کہ شاید آج تو آ جائے وہ حبیب نظر
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
یہ ہی ہیں دن، باغی اگر بننا ہے بن
تجھ پر ستم کس کو پتا پھر ہو نہ ہو
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
دل تو سادہ ہے تیری ہر بات کو سچا مانتا ہے
عقل نے باتیں کرتے تیرا آنکھ چرانا دیکھا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
بازار میں اک چیز نہیں کام کی میرے
یہ شہر مری جیب کا رکھتا ہے بھرم خوب
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ