اجتبیٰ رضوی کے اشعار
دل کی دھڑکن جو ہے مدار حیات
اک ذرا تیز ہو تو آفت ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
پکارتے ہیں کہ گونج اس پکار کی رہ جائے
دعا دعا تو کہی جائے گی اثر نہ سہی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
دیا ہے غم کہ نچوڑے کبھی کبھی دل کو
زمین چشم ہوس ورنہ کیسے تر ہوگی
اجاڑ ہو بھی چکا مرا دل مگر ابھی داغ دار بھی ہے
یہی خزاں تھی بہار دشمن جو یادگار بہار بھی ہے
کھنڈر میں ماہ کامل کا سنورنا اس کو کہتے ہیں
تم اترے دل میں جب دل کو بیاباں کر دیا ہم نے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
چرانے کو چرا لایا میں جلوے روئے روشن سے
مگر اب بجلیاں لپٹی ہوئی ہیں دل کے دامن سے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہوں وہ قطرہ کہ نہیں یاد سمندر مجھ کو
مگر آتی ہے اک آواز برابر مجھ کو
تجلی بے نقاب اور کور آنکھیں کیا قیامت ہے
کہ سورج سامنے ہے اور سیہ بختی نہیں جاتی
روز ازل سے آپ کی میری کیسی رسم و راہ نبھی
اول اول ہم ہوئے شیدا آخر شیدا آپ ہوئے
یہ کیسا ماجرا ہے ہر مصور نقش حیرت ہے
تری تصویر جب کھینچی مری تصویر اتر آئی
ہوش و خرد میں آگ لگا دی خرمن کیف و کم کو جلایا
شعلہ بنے اور سینے سے لپٹے آپ جلے اور ہم کو جلایا
جلوے کی بھیک دے کے وہ ہٹنے لگے تھے خود
دامن پکڑ لیا نگہ اعتبار نے
زباں سے دل کا فسانہ ادا کیا نہ گیا
یہ ترجماں تو بنی تھی مگر بنا نہ گیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
پکارتی رہ گئی حقیقت پڑا رہا جستجو کا صحرا
ٹھہر گئے ہم خدا کی مسجد بنا کے کوئے بتاں سے آگے
ہمارے خوف کی خلاقیاں خدا کی پناہ
وہ بجلیاں ہیں نظر میں جو آسماں میں نہیں
ہزار آرزو ہو تم یقیں ہو تم گماں ہو تم
قفس نصیب روح کی امید آشیاں ہو تم
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کبھی اس سمت کو بھی بہر تماشا نکلو
دل کا حیرت کدہ ایسا کوئی ویراں بھی نہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
گھومتے کٹتا ہے کوچے میں ترے دن کا دن
بیٹھے کٹ جاتی ہے چوکھٹ پہ تری رات کی رات
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
آگ ہے بجلی آگ ہیں ذرے آگ ہے سورج آگ ہیں تارے
ہم نے نہ کی تھی شوخ نگاہی آپ نے کیوں عالم کو جلایا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
شام ہوئی جلے چراغ اٹھ گئے راہ سے فقیر
جن کا کہیں کوئی نہیں رہ گئے رہ گزار میں
خرد والوں کو کہنے دو کہ ہیں سات آسماں سر پر
جنوں والو ذرا ہمت کرو بس ایک زینا ہے
افسردگی بھی حسن ہے تابندگی بھی حسن
ہم کو خزاں نے تم کو سنوارا بہار نے
اپنی تصویر مجازی کوئی رکھ دو کہ کہیں
کاروان نگہ شوق کو منزل ہو جائے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اف یہ دراز دستئ ارمان مشت خاک
محمل میں گرد پڑتی ہے لیلیٰ کہاں رہے
اس حرص و ہوس کے میلے میں ہم جنس محبت لائے ہیں
سب سستے مال کے گاہک ہیں یہ مہنگا سودا کون کرے
خرد کو خانۂ دل کا نگہباں کر دیا ہم نے
یہ گھر آباد ہوتا اس کو ویراں کر دیا ہم نے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
مرے ساز نفس کی خامشی پر روح کہتی ہے
نہ آئی مجھ کو نیند اور سو گیا افسانہ خواں میرا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
یہ کبر و ناز اب کیا جب سر بازار تم نکلے
مگر ہاں یہ کہو بہتوں نے دیکھا کم نے پہچانا
ایک دن رندوں نے مسجد میں نماز آ کے پڑھی
دوسرے دن اسے مے خانہ بنا کر چھوڑا
آگ پانی سے بھاپ اٹھتی رہی
ہم سمجھتے رہے محبت ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
معنی و صورت وحدت و کثرت ذرہ و صحرا آپ ہوئے
آپ تو کچھ ہوتے ہی نہیں تھے کہیے کیا کیا آپ ہوئے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہم تو آشفتہ سری سے نہ سنورنے پائے
آپ سے کیوں نہ سنوارا گیا گیسو اپنا
سجدہ وہ ہے بہ رب کعبہ
جس کو قید حرم نہیں ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
روح کی گونج بنا لیتی ہے خود اپنا مقام
مجھ کو دیکھو کہ ہوا دار بھی منبر مجھ کو
زہد کی آستیں ٹٹول دیکھ کہاں صنم نہیں
سنگ سیاہ ناگزیر ورنہ حرم حرم نہیں
سنتے سنتے انہیں نیند آ گئی ناداں دل نے
شکوۂ ہجر کو افسانہ بنا کر چھوڑا
جینے کے لئے بلوائیں تمہیں تم مرتے دم آؤ بھیڑ لئے
جینے کی تمنا کون کرے مرنے کو تماشا کون کرے
خوب تماشا ہم کو بنایا آپ تماشا آپ ہوئے
ہم کو رسوا کرنے نکلے کیسے رسوا آپ ہوئے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہوش و خرد میں آگ لگا دی خرمن کیف و کم کو جلایا
شعلہ بنے اور سینے سے لپٹے آپ جلے اور ہم کو جلایا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
انسان کو دل ملا مگر کیا
اندھے کے ہاتھ میں دیا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
لکھا ہوا انہی ذرات کے صحیفوں میں
مرا فسانہ ہے لیکن مری زباں میں نہیں
رستے کی دوکان پہ رہرو ایک نشانی چھوڑ چلا
جس کوزے سے پیاس بجھائی اس کوزے کو توڑ چلا
یہ ہماری آپ کی دوریاں یہ کبھی کبھی کی حضوریاں
ہیں عجب طرح کی لگاوٹیں رہ و رسم دور و دراز میں
انہی رفیقان سست رو سے برے بھلے رسم و راہ نبھتی
مگر کیا دل نے ان کا پیچھا جو ہر قدم چھوڑے جا رہے ہیں
ایسی آباد تری بزم ہے اے جان نشاط
جیسی کعبہ کی سحر جیسی خرابات کی رات
فتنے جگا کے دہر میں آگ لگا کے شہر میں
جا کے الگ کھڑے ہوئے کہنے لگے کہ ہم نہیں
میں ابھی چپ ہوں تو میخانے میں خاموشی ہے
کوئی پیغام تو دے اے لب ساغر مجھ کو
گھونگھٹ الٹو کہ تمہیں پوج کے کافر ہو جائے
دل بد بخت جو ایمان سے بھی شاد نہیں
خدا پرستی کا بیج بو کر خودی کا دل میں فروغ دیکھو
یہیں سے جھوٹے خدا اگے ہیں بڑی خطرناک یہ زمیں ہے
دیدنی ہے یہ سراسیمگئ دیدۂ شوق
کہ ترے در پہ کھڑے ہیں ترا در یاد نہیں