Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Ijtiba Rizvi's Photo'

اجتبیٰ رضوی

1908 - 1991 | چھپرا, انڈیا

اجتبیٰ رضوی کے اشعار

1.5K
Favorite

باعتبار

دل کی دھڑکن جو ہے مدار حیات

اک ذرا تیز ہو تو آفت ہے

پکارتے ہیں کہ گونج اس پکار کی رہ جائے

دعا دعا تو کہی جائے گی اثر نہ سہی

دیا ہے غم کہ نچوڑے کبھی کبھی دل کو

زمین چشم ہوس ورنہ کیسے تر ہوگی

اجاڑ ہو بھی چکا مرا دل مگر ابھی داغ دار بھی ہے

یہی خزاں تھی بہار دشمن جو یادگار بہار بھی ہے

کھنڈر میں ماہ کامل کا سنورنا اس کو کہتے ہیں

تم اترے دل میں جب دل کو بیاباں کر دیا ہم نے

چرانے کو چرا لایا میں جلوے روئے روشن سے

مگر اب بجلیاں لپٹی ہوئی ہیں دل کے دامن سے

ہوں وہ قطرہ کہ نہیں یاد سمندر مجھ کو

مگر آتی ہے اک آواز برابر مجھ کو

تجلی بے نقاب اور کور آنکھیں کیا قیامت ہے

کہ سورج سامنے ہے اور سیہ بختی نہیں جاتی

روز ازل سے آپ کی میری کیسی رسم و راہ نبھی

اول اول ہم ہوئے شیدا آخر شیدا آپ ہوئے

یہ کیسا ماجرا ہے ہر مصور نقش حیرت ہے

تری تصویر جب کھینچی مری تصویر اتر آئی

ہوش و خرد میں آگ لگا دی خرمن کیف و کم کو جلایا

شعلہ بنے اور سینے سے لپٹے آپ جلے اور ہم کو جلایا

جلوے کی بھیک دے کے وہ ہٹنے لگے تھے خود

دامن پکڑ لیا نگہ اعتبار نے

زباں سے دل کا فسانہ ادا کیا نہ گیا

یہ ترجماں تو بنی تھی مگر بنا نہ گیا

پکارتی رہ گئی حقیقت پڑا رہا جستجو کا صحرا

ٹھہر گئے ہم خدا کی مسجد بنا کے کوئے بتاں سے آگے

ہمارے خوف کی خلاقیاں خدا کی پناہ

وہ بجلیاں ہیں نظر میں جو آسماں میں نہیں

ہزار آرزو ہو تم یقیں ہو تم گماں ہو تم

قفس نصیب روح کی امید آشیاں ہو تم

کبھی اس سمت کو بھی بہر تماشا نکلو

دل کا حیرت کدہ ایسا کوئی ویراں بھی نہیں

گھومتے کٹتا ہے کوچے میں ترے دن کا دن

بیٹھے کٹ جاتی ہے چوکھٹ پہ تری رات کی رات

آگ ہے بجلی آگ ہیں ذرے آگ ہے سورج آگ ہیں تارے

ہم نے نہ کی تھی شوخ نگاہی آپ نے کیوں عالم کو جلایا

شام ہوئی جلے چراغ اٹھ گئے راہ سے فقیر

جن کا کہیں کوئی نہیں رہ گئے رہ گزار میں

خرد والوں کو کہنے دو کہ ہیں سات آسماں سر پر

جنوں والو ذرا ہمت کرو بس ایک زینا ہے

افسردگی بھی حسن ہے تابندگی بھی حسن

ہم کو خزاں نے تم کو سنوارا بہار نے

اپنی تصویر مجازی کوئی رکھ دو کہ کہیں

کاروان نگہ شوق کو منزل ہو جائے

اف یہ دراز دستئ ارمان مشت خاک

محمل میں گرد پڑتی ہے لیلیٰ کہاں رہے

اس حرص و ہوس کے میلے میں ہم جنس محبت لائے ہیں

سب سستے مال کے گاہک ہیں یہ مہنگا سودا کون کرے

خرد کو خانۂ دل کا نگہباں کر دیا ہم نے

یہ گھر آباد ہوتا اس کو ویراں کر دیا ہم نے

مرے ساز نفس کی خامشی پر روح کہتی ہے

نہ آئی مجھ کو نیند اور سو گیا افسانہ خواں میرا

یہ کبر و ناز اب کیا جب سر بازار تم نکلے

مگر ہاں یہ کہو بہتوں نے دیکھا کم نے پہچانا

ایک دن رندوں نے مسجد میں نماز آ کے پڑھی

دوسرے دن اسے مے خانہ بنا کر چھوڑا

آگ پانی سے بھاپ اٹھتی رہی

ہم سمجھتے رہے محبت ہے

معنی و صورت وحدت و کثرت ذرہ و صحرا آپ ہوئے

آپ تو کچھ ہوتے ہی نہیں تھے کہیے کیا کیا آپ ہوئے

ہم تو آشفتہ سری سے نہ سنورنے پائے

آپ سے کیوں نہ سنوارا گیا گیسو اپنا

سجدہ وہ ہے بہ رب کعبہ

جس کو قید حرم نہیں ہے

روح کی گونج بنا لیتی ہے خود اپنا مقام

مجھ کو دیکھو کہ ہوا دار بھی منبر مجھ کو

زہد کی آستیں ٹٹول دیکھ کہاں صنم نہیں

سنگ سیاہ ناگزیر ورنہ حرم حرم نہیں

سنتے سنتے انہیں نیند آ گئی ناداں دل نے

شکوۂ ہجر کو افسانہ بنا کر چھوڑا

جینے کے لئے بلوائیں تمہیں تم مرتے دم آؤ بھیڑ لئے

جینے کی تمنا کون کرے مرنے کو تماشا کون کرے

خوب تماشا ہم کو بنایا آپ تماشا آپ ہوئے

ہم کو رسوا کرنے نکلے کیسے رسوا آپ ہوئے

ہوش و خرد میں آگ لگا دی خرمن کیف و کم کو جلایا

شعلہ بنے اور سینے سے لپٹے آپ جلے اور ہم کو جلایا

انسان کو دل ملا مگر کیا

اندھے کے ہاتھ میں دیا ہے

لکھا ہوا انہی ذرات کے صحیفوں میں

مرا فسانہ ہے لیکن مری زباں میں نہیں

رستے کی دوکان پہ رہرو ایک نشانی چھوڑ چلا

جس کوزے سے پیاس بجھائی اس کوزے کو توڑ چلا

یہ ہماری آپ کی دوریاں یہ کبھی کبھی کی حضوریاں

ہیں عجب طرح کی لگاوٹیں رہ و رسم دور و دراز میں

انہی رفیقان سست رو سے برے بھلے رسم و راہ نبھتی

مگر کیا دل نے ان کا پیچھا جو ہر قدم چھوڑے جا رہے ہیں

ایسی آباد تری بزم ہے اے جان نشاط

جیسی کعبہ کی سحر جیسی خرابات کی رات

فتنے جگا کے دہر میں آگ لگا کے شہر میں

جا کے الگ کھڑے ہوئے کہنے لگے کہ ہم نہیں

میں ابھی چپ ہوں تو میخانے میں خاموشی ہے

کوئی پیغام تو دے اے لب ساغر مجھ کو

گھونگھٹ الٹو کہ تمہیں پوج کے کافر ہو جائے

دل بد بخت جو ایمان سے بھی شاد نہیں

خدا پرستی کا بیج بو کر خودی کا دل میں فروغ دیکھو

یہیں سے جھوٹے خدا اگے ہیں بڑی خطرناک یہ زمیں ہے

دیدنی ہے یہ سراسیمگئ دیدۂ شوق

کہ ترے در پہ کھڑے ہیں ترا در یاد نہیں

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے