کوئی ویرانی سی ویرانی ہے (ردیف .. ا)
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
تشریح
اس شعر کا مرکزی خیال ویرانی ہے۔ وہ دشت کی ہو یا گھر کی۔ شعر سے جو معنی فوری طور پر برآمد ہوتے ہیں وہ یہ ہیں کہ ہم جس دشت کو دیکھ رہے ہیں وہ اس قدر ویران ہے کہ اسے دیکھ کر خوف محسوس ہوتا ہے اور گھر کی سلامتی یاد آتی ہے۔ لیکن ذرا غور کرنے پر اس کے یہ بھی معنی نکلتے ہیں کہ ہم تو سمجھتے تھے کہ ہمارے گھر جیسی ویرانی اور کہیں نہ ہوگی لیکن دشت میں اس قدر ویرانی ہے کہ اسے دیکھ کر گھر کی یاد آتی ہے۔ دشت کو دیکھ کر گھر یاد آنے کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ شاعر خیال کرتا ہے کہ اسی طرح ایک دن ہمارا گھر بھی ویران ہو جائے گا۔ غالبؔ نے اک دوسرے موقع پر دوسرے انداز میں بستیوں کے ویران ہوجانے کا تذکرہ کیا ہے۔
یوں ہی گر روتا رہا غالبؔ تو اے اہلِ جہاں
دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ ویراں ہو گئیں
گھر اور اس کے ویران ہو جانے کا اندیشہ اک اور شعر میں اس طرح بیان ہوا۔
گریہ چاہے ہے خرابی مرے کاشانے کی
در و دیوار سے ٹپکے ہے بیاباں ہونا
شعر کا اک اور مطلب یہ ہے کہ عاشق کو وحشت میں کسی ویرانے کی تلاش تھی۔ یوں تو اس کا اپنا گھر بھی ویران تھا لیکن وہ چاہتا تھا کہ کوئی جگہ اس سے بھی زیادہ ویران مل جائے اور اس تلاش میں وہ جنگل کا رخ کرتا ہے۔ لیکن وہاں بھی اسے مایوسی ہاتھ لگی ہے۔ وہ اپنے دل میں کہتا ہے کہ یہ بھی بھلا کوئی ویرانی ہے! اس سے زیادہ تو میرا گھر ویران ہے۔ اس شعر میں ویرانی اور اس سے شاعر کی مانوسیت کا بیان ہے۔ خواہ یہ ویرانی دشت کی ہو یا اپنے گھر کی، اس کے لیے ایک جیسی ہے۔ دراصل یہ شاعر کے اپنے اندر کی ویرانی ہے جو اسے خارج میں اپنی مختلف صورتوں میں نظر آتی ہے۔
محمد اعظم
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.