Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
noImage

عبدالرحمان احسان دہلوی

1769 - 1851 | دلی, انڈیا

مغل بادشاہ شاہ عالم ثانی کے استاد، میر تقی میر کے متاخرین شعرا کے ہم عصر

مغل بادشاہ شاہ عالم ثانی کے استاد، میر تقی میر کے متاخرین شعرا کے ہم عصر

عبدالرحمان احسان دہلوی کے اشعار

3.1K
Favorite

باعتبار

بہت سے خون خرابے مچیں گے خانہ خراب

یہی ہے رنگ اگر تیرے پان کھانے کا

مے کدہ میں عشق کے کچھ سرسری جانا نہیں

کاسۂ سر کو یہاں گردش ہے پیمانے کی طرح

جاں کنی پیشہ ہو جس کا وہ لہک ہے تیرا

تجھ پہ شیریں ہے نہ خسروؔ کا نہ فرہاد کا حق

چشم مست اس کی یاد آنے لگی

پھر زباں میری لڑکھڑانے لگی

پلکوں سے گرے ہے اشک ٹپ ٹپ

پٹ سے وہ لگا ہوا کھڑا ہے

اپنی نا فہمی سے میں اور نہ کچھ کر بیٹھوں

اس طرح سے تمہیں جائز نہیں اعجاز سے رمز

شب پئے وہ شراب نکلا ہے

رات کو آفتاب نکلا ہے

گلے سے لگتے ہی جتنے گلے تھے بھول گئے

وگرنہ یاد تھیں ہم کو شکایتیں کیا کیا

دل میں تم ہو نہ جلاؤ مرے دل کو دیکھو

میرا نقصان نہیں اپنا زیاں کیجئے گا

تو بھی اس تک ہے رسائی مجھے احساں دشوار

دام لوں گر پر جبریل برائے پرواز

اگر بیٹھا ہی ناصح منہ کو سی بیٹھ

وگرنہ یاں سے اٹھ اے بے حیا جا

ایک بوسہ سے مراد دل ناشاد تو دو

کچھ نہ دو ہاتھ سے پر منہ سے مری داد تو دو

انار خلد کو تو رکھ کہ میں پسند نہیں

کچیں وہ یار کی رشک انار اے واعظ

کیوں نہ رک رک کے آئے دم میرا

تجھ کو دیکھا رکا رکا میں نے

مری بات چیت اس سے احساںؔ کہاں ہے

نہ اس کا دہاں ہے نہ میری زباں ہے

وہ آگ لگی پان چبائے سے کسو کی

اب تک نہیں بجھتی ہے بجھائے سے کسو کی

کیوں کر نہ مے پیوں میں قرآں کو دیکھ زاہد

وہاں واشربوا ہے آیا لا تشربوا نہ آیا

نصیب اس کے شراب بہشت ہووے مدام

ہوا ہے جو کوئی موجد شراب خانے کا

کچھ تمہیں ترس خدا بھی ہے خدا کی واسطے

لے چلو مجھ کو مسلمانو اسی کافر کے پاس

جو پوچھا میں نے دل زلفوں میں جوڑے میں کہاں باندھا

کہا جب چور تھا اپنا جہاں باندھا وہاں باندھا

مزے کی بات تو یہ ہے کہ بے مزا ہے وہ دل

تمہاری بے مزگی کا جسے مزہ نا لگے

محتسب بھی پی کے مے لوٹے ہے میخانے میں آج

ہاتھ لا پیر مغاں یہ لوٹنے کی جائے ہے

خاک آب گریہ سے آتش بجھے ناچار ہم

جانب کوئے بتاں جوں باد صرصر جائیں گے

نہ میری بات کو پوچھے ہے نہ دیکھے ہے ادھر

ایک دن یہ نہ کیا عاشق بیمار کہ تو

گریباں چاک ہے ہاتھوں میں ظالم تیرا داماں ہے

کہ اس دامن تلک ہی منزل چاک گریباں ہے

اس لب بام سے اے صرصر فرقت تو بتا

مثل تنکے کے مرا یہ تن لاغر پھینکا

تنخواہ ایک بوسہ ہے تس پر یہ حجتیں

ہے نا دہند آپ کی سرکار بے طرح

تری آن پہ غش ہوں ہر آن ظالم

تو اک آن لیکن نہ یاں آن نکلا

فلفل خال ملاحت کے تصور میں ترے

چرچراہٹ ہے کباب دل بریان میں کیا

بہ وقت بوسۂ لب کاش یہ دل کامراں ہوتا

زباں اس بد زباں کی منہ میں اور میں زباں ہوتا

آہ پیچاں اپنی ایسی ہے کہ جس کے پیچ کو

پیچواں نیچا بھی تیرا دیکھ کر خم کھائے ہے

چین اس دل کو نہ اک آن ترے بن آیا

دن گیا رات ہوئی رات ہوئی دن آیا

کس کو اس کا غم ہو جس دم غم سے وہ زاری کرے

ہاں مگر تیرا ہی غم عاشق کی غم خواری کرے

دل ربا تجھ سا جو دل لینے میں عیاری کرے

پھر کوئی دلی میں کیا دل کی خبرداری کرے

یارا ہے کہاں اتنا کہ اس یار کو یارو

میں یہ کہوں اے یار ہے تو یار ہمارا

نہ پایا گاہ قابو آہ میں نے ہاتھ جب ڈالا

نکالا بیر مجھ سے جب ترے پستاں کا منہ کالا

یاد تو حق کی تجھے یاد ہے پر یاد رہے

یار دشوار ہے وہ یاد جو ہے یاد کا حق

غنچہ کو میں نے چوما لایا دہن کو آگے

بوسہ نہ مجھ کو دیوے وہ نکتہ یاب کیوں کر

کیوں تو روتا ہے دلا آنے دے روز وصل کو

اس قدر چھیڑوں گا ان کو وہ بھی رو کر جائیں گے

کون ثانی شہر میں اس میرے ماہ پارے کی ہے

چاند سی صورت دوپٹہ سر پہ یک تارے کا ہے

ڈر اپنے پیر سے بی پیر پیر پیر نہ کر

کہ تیرے پیر کے وعدہ نے مجھ کو پیر کیا

اتوار کو آنا ترا معلوم کہ اک عمر

بے پیر ترے ہم نے ہی اطوار کو دیکھا

آنکھیں مری پھوٹیں تری آنکھوں کے بغیر آہ

گر میں نے کبھی نرگس بیمار کو دیکھا

گر ہے دنیا کی طلب زاہد مکار سے مل

دیں ہے مطلوب تو اس طالب دیدار سے مل

نماز اپنی اگرچہ کبھی قضا نہ ہوئی

ادا کسی کی جو دیکھی تو پھر ادا نہ ہوئی

الفت میں تیرا رونا احساںؔ بہت بجا ہے

ہر وقت مینہ کا ہونا یہ رحمت خدا ہے

آگ اس دل لگی کو لگ جائے

دل لگی آگ پھر لگانے لگی

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے