آفتاب شاہ کے اشعار
ڈر تو نہیں مگر کہیں پتوں کے شور سے
دل کو گماں ہے آج کوئی حادثہ نہ ہو
در بدر میں ہی نہیں وقت بھی ان راہوں پر
زخمی احساس کی سنگت میں دکھی دکھتا ہے
زندہ لوگوں کو نوالوں سا چبانے والے
میری میت پہ بھی آئیں گے خدا خیر کرے
مانگ لیتے ہیں بھروسے پہ کہ وہ دے دے گا
ہم خطا کار مناجات کہاں جانتے ہیں
شاید وہ جا چکا ہے مگر دیکھ لو کہیں
چاہت کے امتحان میں اب تک یہیں نہ ہو
آپ واقف ہیں مرے دوست حسیں لفظوں سے
بدلے لہجوں کی کرامات کہاں جانتے ہیں
ہار کو جیت کے پہلو میں بٹھا دیتے ہیں
ایسا کرتے ہیں چلو ہاتھ ملا لیتے ہیں
ذات کی نرمی ذہنی ٹھنڈک شفقت ساری دنیا کی
اس نے رکھ دی مسجد دل میں جگ کی ساری ماؤں میں
یہ اس کا کھیل ہے جس کھیل میں ہر بار وہ یارو
مسلسل ہار کے بھی مجھ سے آخر جیت جاتا ہے
ضربیں دے کر پلٹ کے دیکھا تو
منفی حاصل تھا پر وہ مثبت تھا
نکل گیا جو کہانی سے میں تمہاری کہیں
کسی کو کچھ نہ بتاؤگے مرتے جاؤ گے
ہم تو اک تل پہ ہی بس خود کو فنا کر بیٹھے
اور کتنے ہیں جمالات کہاں جانتے ہیں
ہاتھ چہرے پہ لگاتے ہی وہ گھبرا سی گئیں
میری چیخوں کے تبسم سے ملیں جب بانہیں