تمام
تعارف
غزل116
نظم433
شعر134
ای-کتاب1400
ٹاپ ٢٠ شاعری 21
تصویری شاعری 22
اقوال10
آڈیو 58
ویڈیو 119
قطعہ10
رباعی12
قصہ13
گیلری 10
بلاگ2
دیگر
علامہ اقبال
غزل 116
نظم 433
اشعار 134
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
مانا کہ تیری دید کے قابل نہیں ہوں میں
تو میرا شوق دیکھ مرا انتظار دیکھ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
اقوال 10
قطعہ 10
رباعی 12
قصہ 13
کتاب 1400
تصویری شاعری 22
قوم نے پیغام_گوتم کی ذرا پروا نہ کی قدر پہچانی نہ اپنے گوہر_یک_دانہ کی آہ بد_قسمت رہے آواز_حق سے بے_خبر غافل اپنے پھل کی شیرینی سے ہوتا ہے شجر آشکار اس نے کیا جو زندگی کا راز تھا ہند کو لیکن خیالی فلسفہ پر ناز تھا شمع_حق سے جو منور ہو یہ وہ محفل نہ تھی بارش_رحمت ہوئی لیکن زمیں قابل نہ تھی آہ شودر کے لیے ہندوستاں غم_خانہ ہے درد_انسانی سے اس بستی کا دل بیگانہ ہے برہمن سرشار ہے اب تک مئے_پندار میں شمع_گوتم جل رہی ہے محفل_اغیار میں بتکدہ پھر بعد مدت کے مگر روشن ہوا نور_ابراہیم سے آزر کا گھر روشن ہوا پھر اٹھی آخر صدا توحید کی پنجاب سے ہند کو اک مرد_کامل نے جگایا خواب سے
دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو شورش سے بھاگتا ہوں دل ڈھونڈتا ہے میرا ایسا سکوت جس پر تقریر بھی فدا ہو مرتا ہوں خامشی پر یہ آرزو ہے میری دامن میں کوہ کے اک چھوٹا سا جھونپڑا ہو آزاد فکر سے ہوں عزلت میں دن گزاروں دنیا کے غم کا دل سے کانٹا نکل گیا ہو لذت سرود کی ہو چڑیوں کے چہچہوں میں چشمے کی شورشوں میں باجا سا بج رہا ہو گل کی کلی چٹک کر پیغام دے کسی کا ساغر ذرا سا گویا مجھ کو جہاں_نما ہو ہو ہاتھ کا سرہانا سبزے کا ہو بچھونا شرمائے جس سے جلوت خلوت میں وہ ادا ہو مانوس اس قدر ہو صورت سے میری بلبل ننھے سے دل میں اس کے کھٹکا نہ کچھ مرا ہو صف باندھے دونوں جانب بوٹے ہرے ہرے ہوں ندی کا صاف پانی تصویر لے رہا ہو ہو دل_فریب ایسا کوہسار کا نظارہ پانی بھی موج بن کر اٹھ اٹھ کے دیکھتا ہو آغوش میں زمیں کی سویا ہوا ہو سبزہ پھر پھر کے جھاڑیوں میں پانی چمک رہا ہو پانی کو چھو رہی ہو جھک جھک کے گل کی ٹہنی جیسے حسین کوئی آئینہ دیکھتا ہو مہندی لگائے سورج جب شام کی دلہن کو سرخی لیے سنہری ہر پھول کی قبا ہو راتوں کو چلنے والے رہ جائیں تھک کے جس دم امید ان کی میرا ٹوٹا ہوا دیا ہو بجلی چمک کے ان کو کٹیا مری دکھا دے جب آسماں پہ ہر سو بادل گھرا ہوا ہو پچھلے پہر کی کوئل وہ صبح کی موذن میں اس کا ہم_نوا ہوں وہ میری ہم_نوا ہو کانوں پہ ہو نہ میرے دیر و حرم کا احساں روزن ہی جھونپڑی کا مجھ کو سحر_نما ہو پھولوں کو آئے جس دم شبنم وضو کرانے رونا مرا وضو ہو نالہ مری دعا ہو اس خامشی میں جائیں اتنے بلند نالے تاروں کے قافلے کو میری صدا درا ہو ہر دردمند دل کو رونا مرا رلا دے بے_ہوش جو پڑے ہیں شاید انہیں جگا دے
تجھے یاد کیا نہیں ہے مرے دل کا وہ زمانہ وہ ادب_گہ_محبت وہ نگہ کا تازیانہ یہ بتان_عصر_حاضر کہ بنے ہیں مدرسے میں نہ ادائے_کافرانہ نہ تراش_آزرانہ نہیں اس کھلی فضا میں کوئی گوشۂ_فراغت یہ جہاں عجب جہاں ہے نہ قفس نہ آشیانہ رگ_تاک منتظر ہے تری بارش_کرم کی کہ عجم کے مے_کدوں میں نہ رہی مے_مغانہ مرے ہم_صفیر اسے بھی اثر_بہار سمجھے انہیں کیا خبر کہ کیا ہے یہ نوائے_عاشقانہ مرے خاک و خوں سے تو نے یہ جہاں کیا ہے پیدا صلۂ_شہید کیا ہے تب_و_تاب_جاودانہ تری بندہ_پروری سے مرے دن گزر رہے ہیں نہ گلہ ہے دوستوں کا نہ شکایت_زمانہ
نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے جہاں ہے تیرے لیے تو نہیں جہاں کے لیے یہ عقل و دل ہیں شرر شعلۂ_محبت کے وہ خار_و_خس کے لیے ہے یہ نیستاں کے لیے مقام_پرورش_آہ_و_نالہ ہے یہ چمن نہ سیر_گل کے لیے ہے نہ آشیاں کے لیے رہے_گا راوی و نیل و فرات میں کب تک ترا سفینہ کہ ہے بحر_بیکراں کے لیے نشان_راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کو ترس گئے ہیں کسی مرد_راہ_داں کے لیے نگہ بلند سخن دل_نواز جاں پرسوز یہی ہے رخت_سفر میر_کارواں کے لیے ذرا سی بات تھی اندیشۂ_عجم نے اسے بڑھا دیا ہے فقط زیب_داستاں کے لیے مرے گلو میں ہے اک نغمہ جبرائیل_آشوب سنبھال کر جسے رکھا ہے لا_مکاں کے لیے