عاشق اکبرآبادی کے اشعار
ایک رتبہ ہے ترے در پہ گدا و شہ کا
آسماں کاسہ لئے پھرتا ہے مہر و مہ کا
اگر نظارہ ہے منظور خستہ حالوں کا
تو آؤ کھول دیں جوڑا تمہارے بالوں کا
مجھے تم دیکھ کر سمجھو کہ چاہت ایسی ہوتی ہے
محبت وہ بری شے ہے کہ حالت ایسی ہوتی ہے
ترے کوچے میں کوئی حور آ جاتی تو میں کہتا
کہ وہ جنت تو کیا جنت ہے جنت ایسی ہوتی ہے
ساقیٔ گلفام نے رکھی تو ہے بھر کر شراب
ڈر ہے اڑ جائے نہ شیشے سے پری بن کر شراب
اپنے موقع پہ ہر اک بات بھلی ہوتی ہے
شب فرقت میں یہ صدمے بھی مزا دیتے ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
یا الٰہی اس دل بیتاب کی تعمیر میں
کس نے پتھر رکھ دیا تھا عشق کی بنیاد کا
جلوہ نگاہ میں ہے کسی بے نیاز کا
پتلی ہماری آنکھ کی پتلا ہے ناز کا
تو سر نہ گوندھ کہ شاگرد ہونے والا ہے
مرا نصیب ترے لمبے لمبے بالوں کا
سو گئے سنتے ہی سنتے وہ دل زار کا حال
جس کو ہم سمجھے تھے افسوں وہی افسانہ ہوا
نہ چتون آپ کی ٹھہری نہ دل مرا ٹھہرا
اسے سکوں ہو تو اس کو بھی کچھ قرار رہے
پہلو میں اگر دل ہے تو تو دل میں ہے میرے
گو ننگ خلائق ہوں مگر جان جہاں ہوں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
خاک عاشق سے جو اگتا ہے مغیلاں کا درخت
اس کی مژگاں کا ہے مرقد میں بھی کھٹکا باقی
آرزو اک بت کی لے کر جاتے ہیں کعبہ کو ہم
طرفہ تحفہ پاس ہے اہل حرم کے واسطے
گدائے کوچۂ جاناں ہوں مرتبہ ہے بڑا
کہ میرے نام ہے جاگیر بے نوائی کی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
وہ نیرنگیاں ان کے رونے میں بھی
کہ ہنستے رہے سب حسیں دیر تک