Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
noImage

عاشق اکبرآبادی

1848 - 1918

عاشق اکبرآبادی کے اشعار

588
Favorite

باعتبار

ذکر کرتا ہے اس طرح میرا

مجھ کو گویا مٹائے جاتا ہے

ایک رتبہ ہے ترے در پہ گدا و شہ کا

آسماں کاسہ لئے پھرتا ہے مہر و مہ کا

اگر نظارہ ہے منظور خستہ حالوں کا

تو آؤ کھول دیں جوڑا تمہارے بالوں کا

مجھے تم دیکھ کر سمجھو کہ چاہت ایسی ہوتی ہے

محبت وہ بری شے ہے کہ حالت ایسی ہوتی ہے

ترے کوچے میں کوئی حور آ جاتی تو میں کہتا

کہ وہ جنت تو کیا جنت ہے جنت ایسی ہوتی ہے

ساقیٔ گلفام نے رکھی تو ہے بھر کر شراب

ڈر ہے اڑ جائے نہ شیشے سے پری بن کر شراب

اپنے موقع پہ ہر اک بات بھلی ہوتی ہے

شب فرقت میں یہ صدمے بھی مزا دیتے ہیں

یا الٰہی اس دل بیتاب کی تعمیر میں

کس نے پتھر رکھ دیا تھا عشق کی بنیاد کا

وعدۂ وصل گر کسی سے نہیں

آپ کیوں بے قرار پھرتے ہیں

اپنا ثانی وہ آپ ہی نکلے

آئنہ بھی دکھا کے دیکھ لیا

جلوہ نگاہ میں ہے کسی بے نیاز کا

پتلی ہماری آنکھ کی پتلا ہے ناز کا

تو سر نہ گوندھ کہ شاگرد ہونے والا ہے

مرا نصیب ترے لمبے لمبے بالوں کا

سو گئے سنتے ہی سنتے وہ دل زار کا حال

جس کو ہم سمجھے تھے افسوں وہی افسانہ ہوا

آئنے میں دکھا کے کہتا ہوں

آپ ہی ہیں کہ دوسرا کہئے

نہ چتون آپ کی ٹھہری نہ دل مرا ٹھہرا

اسے سکوں ہو تو اس کو بھی کچھ قرار رہے

پہلو میں اگر دل ہے تو تو دل میں ہے میرے

گو ننگ خلائق ہوں مگر جان جہاں ہوں

خاک عاشق سے جو اگتا ہے مغیلاں کا درخت

اس کی مژگاں کا ہے مرقد میں بھی کھٹکا باقی

آرزو اک بت کی لے کر جاتے ہیں کعبہ کو ہم

طرفہ تحفہ پاس ہے اہل حرم کے واسطے

گدائے کوچۂ جاناں ہوں مرتبہ ہے بڑا

کہ میرے نام ہے جاگیر بے نوائی کی

وہ نیرنگیاں ان کے رونے میں بھی

کہ ہنستے رہے سب حسیں دیر تک

Recitation

بولیے