اسلم راشد کے اشعار
اسی پانی میں لاشیں تیرتی ہیں
اسی پانی میں پتھر بیٹھتے ہیں
پہلے اس کی آنکھیں سوچی جاتی ہیں
پھر آنکھوں میں رات بتائی جاتی ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ڈھونڈ رہا ہے دریا کس کو
روز کنارے ٹوٹ رہے ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
آپ کا تو شوق ہے جلتے گھروں کو دیکھنا
آپ آنکھیں نم کریں گے آپ رہنے دیجیے
بچھڑے تھے جس کی وجہ سے سیتا سے رام جی
میں اس ہرن کو رام کہانی سے کھینچ لوں
آنسو بتا رہے ہیں کہ مجھ میں ہے زندگی
یعنی میں انتظار میں پتھر نہیں ہوا
جواب ہنس کے دیا اس نے اور رونے لگا
سوال پوچھ کے شرمندگی بڑھی میری
میں سن رہا ہوں فون پہ خاموشیاں تری
میں جانتا ہوں آج سے کیا کیا تمام ہے
دھوپ میں دیکھ کر پرندوں کو
اگنے لگتا ہے اک شجر مجھ میں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
روٹھ جائیں گے مجھ سے اک دن سب
اس قدر روٹھتا ہوں میں سب سے
آنکھوں سے اک دریا نکلا
دریا سے کچھ لاشیں نکلیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
دن دن بھر آئینہ دیکھا جاتا ہے
تب جا کر دو چار اشارے بنتے ہیں
اچھا عمل سمجھ کے جو دریا میں ڈال دیں
دل کرتا ہے وہ نیکیاں پانی سے کھینچ لوں
ہجر میں جلتے ہوئے اس کو کہاں دیکھ سکا
اتنی تاخیر ہوئی صرف دھواں دیکھ سکا
ہوتا نہیں اداس کسی دکھ سے میں کبھی
اتنے حسین لوگ مرے آس پاس ہیں