عزیز فیصل کے اشعار
ہے کامیابیٔ مرداں میں ہاتھ عورت کا
مگر تو ایک ہی عورت پہ انحصار نہ کر
میں ایک بوری میں لایا ہوں بھر کے مونگ پھلی
کسی کے ساتھ دسمبر کی رات کاٹنی ہے
وہ تیس سال سے ہے فقط بیس سال کی
چہرے پہ آ چکی ہے بزرگی جمال کی
دے رہے ہیں اس لیے جنگل میں دھرنا جانور
ایک چوہے کو رہائش کے لیے بل چاہیئے
کتنی مزاحیہ ہے یہ بوتل کے جن کی بات
آقا اب انقلاب ہے دو چار دن کی بات
کودے ہیں اس کے صحن میں دو چار شیر دل
ہم فیس بک کی وال سے آگے نہیں گئے
وے بالوں میں کلر لگوا چکا ہے
یہ دھوکہ پانچ سو میں کھا چکا ہے
وہ ساڑی جیولری کے تحائف پہ تھی بضد
ہم سو روپے کی شال سے آگے نہیں گئے
مورخ لکھ نہ دیں سقراط مجھ کو
میں لسی کا پیالہ پی رہا ہوں
عشق میں یہ تفرقہ بازی بہت معیوب ہے
پیار کو شیعہ وہابی اور سنی مت سمجھ
نہ یہ قانون کام آیا تھا رانجھے کے ذرا سا بھی
اسی کو بھینس ملتی ہے ہو جس کے ہاتھ میں لاٹھی
کیبل پہ ایک شیف سے جلدی میں سیکھ کر
لائی وہ شملہ مرچ کا حلوہ مرے لیے
ایسی خواہش کو سمجھتا ہوں میں بالکل نیچرل
ڈاکٹر کو شہر کا ہر مرد و زن ال چاہئے
تھکا ہارا نکل کر گھر سے اپنے
وہ پھر آفس میں سونے جا چکا ہے
وہ افطاری سے پہلے چکھتے چکھتے
کهجوریں اور پکوڑے کھا چکا ہے
دو خط بنام زوجہ و جاناں لکھے مگر
دونوں خطوں کا اس سے لفافہ بدل گیا
دس بارہ غزلیات جو رکھتا ہے جیب میں
بزم سخن میں ہے وہ نشانی وبال کی
یہ دیا میسج ٹوئیٹر پر فسادی شخص نے
اس کو جلتی کے لیے فی الفور آئل چاہیئے