دیپک پروہت کے اشعار
اچھا ہوا زبان خموشی نہ تم پڑھے
شکوے مرے وگرنہ رلاتے تمہیں بہت
وطن پرستی ہمارا مذہب ہیں جسم و جاں ملک کی امانت
کریں گے برپا قہر عدو پر رہے گا دائم وطن سلامت
یہ کیسی بد دعا دی ہے کسی نے
سمندر ہوں مگر کھارا ہوا ہوں
تھا کبھی ان کی نگاہوں میں بلند اپنا مقام
اتنی اونچائی سے گر کر بھی کوئی بچتا ہے
ہوس زر نے کیا رشتوں کا جو حال نہ پوچھ
خوں رلاتا ہے یہاں خون کا رشتہ اپنا
ازل سے برسے ہے پاکیزگی فلک سے یہاں
نمایاں ہووے ہے پھر شکل بہن میں وہ یہاں
-
موضوع : رکشا بندھن
خوب رو کون یہ آیا چمن میں آج کہ یاں
شرم سے سرخ ہوئے جاتے ہیں یہ پھول سبھی
یوں گفتگوئے الفت دلچسپ ہم کریں گے
آنکھوں سے تم کہو گے آنکھوں سے ہم سنیں گے
عجب چلن ہے یہ بازار عشق کا کہ یہاں
چونی چلتی ہے روپیے میں حسن والوں کی
جب آنا خواب میں ہولے سے نرمی سے قدم رکھنا
گراں ہے اک ذرا آہٹ ترے محو تصور کو
لمحات وصل یاد جو آئے شب فراق
یک لخت سرخ ہو گئے عارض بے اختیار
سیہ بختی کا سایہ دیدہ و دل پر ہے یوں تاری
کہ اک مدت سے میرے دن بھی کجلائے ہوئے سے ہیں
ایک عمر بھر میں طے یہ سفر مختصر ہوا
شہر خموشاں گھر سے بہت دور تو نہ تھا
جب آنا خواب میں ہولے سے نرمی سے قدم رکھنا
گراں ہے اک ذرا آہٹ ترے محو تصور کو
ہے خوب منظر چارہ گری کہ ہم نے یہاں
دعا کے در پہ ہے دیکھا دوا کو سجدے میں
تھا کبھی ان کی نگاہوں میں بلند اپنا مقام
اتنی اونچائی سے گر کر بھی کوئی بچتا ہے
تو بچ رہے گا یقیناً یہ صرف آنکھوں میں
بچایا تم نے نہ پانی جو وقت کے رہتے
خوشامد تابع داری منت و خدمت سجود حسن
ازل سے دیدنی ہے بے بسی و عاجزیٔ عشق
کہاں جرأت ان اشکوں کی کہ دہری آنکھ کی لانگھیں
ہے پہرا ضبط کا ایسا کہ سہمے سہمے رہتے ہیں
عجب چلن ہے یہ بازار عشق کا کہ یہاں
چونی چلتی ہے روپے میں حسن والوں کی