Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Faisal Qadri Gunnauri's Photo'

فیصل قادری گنوری

1995 | گُنّور, انڈیا

فیصل قادری گنوری کے اشعار

54
Favorite

باعتبار

ہر کسی شخص کے موافق ہے

ایسا لگتا ہے تو منافق ہے

کتنی بے رنگ زندگی ہے مری

عشق کے رنگ یار بھر دو نا

تمہارے جیسا نہ دیکھا کوئی مرے ہمدم

حسین یوں تو جہاں میں مجھے ہزار ملے

کبھی زیادہ کبھی کم اداس رہتا ہوں

تمہاری یاد میں ہر دم اداس رہتا ہوں

جنم لیتی ہیں نئی خواہشیں جب بھی دل میں

مفلسی ہے کہ وہیں ہاتھ پکڑ لیتی ہے

دل کا مرے پرندہ تمہارے قفس میں تھا

جب تک تمہارا ہاتھ مری دسترس میں تھا

تم جو چاہو وہ کرتے پھرتے ہو

ساری پابندیاں ہمی پر ہیں

تیرا آئینہ کہہ رہے ہیں مجھے

میری تصویر دیکھنے والے

قیمت لگا رہے ہیں جو دیدار یار کی

واقف نہیں ہیں وہ ابھی راہوں سے پیار کی

اس نے جب سے ہاتھ پکڑنا چھوڑ دیا

تب سے ہم نے ساتھ میں چلنا چھوڑ دیا

ہے ان میں کیسا جادو بولتی ہیں

تری آنکھیں بھی اردو بولتی ہیں

تمہارے جیسا نہ دیکھا کوئی مرے ہمدم

حسین یوں تو جہاں میں مجھے ہزار ملے

ایک ہم ہیں کہ زخم جھیلتے ہیں

ایک وہ ہیں کہ دل سے کھیلتے ہیں

اف ستم گر تری ادائیں بھی

یاد آتی ہیں دل جلاتی ہیں

کس کی خوشبو سے معطر یہ فضا ہونے لگی

گلبدن کون یہ گزرا ہے گلی سے میری

جانے والا چلا گیا تو کیوں

اس کے جانے کا غم کیا جائے

جن کو اپنا سمجھ رہے تھے ہم

رنگ ان کو بدلتے دیکھ لیا

ترے کرم سے جو دامن ہمارے بھر جائیں

حسد کی آگ میں جل جل کے لوگ مر جائیں

تیری خاطر جو ہوئی اس ہر شہادت کو سلام

سرزمین ہند تیری شان و شوکت کو سلام

اب زندگی سے کوئی بھی شکوہ نہیں مجھے

تو مل گیا تو کوئی تمنا نہیں مجھے

ان کی ہزار کوششیں اور ضد الگ رہی

اپنی تو ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ رہی

وہ دیکھو لوگ شین الف عین رے ہوئے

ہم عین شین قاف میں الجھے ہی رہ گئے

ہم ایسے سارے ثبوتوں کو پھاڑ ڈالیں گے

ہمارے بیچ میں جو بھی دراڑ ڈالیں گے

کسی طرح تو ہمارا وصال ہو جائے

اگرچہ اس کے لیے انتقال ہو جائے

سودا کبھی ضمیر کا میں نے کیا نہیں

صد شکر میں بھی عشق میں تاجر ہوا نہیں

یہ کیسا بوجھ ہے بھاری ہے دل پر

عجب سی کیفیت طاری ہے دل پر

زندگی مثل کہکشاں ہوتی

کاش میری بھی آج ماں ہوتی

تم جو چاہو وہ کرتے پھرتے ہو

ساری پابندیاں ہمی پر ہیں

ٹمٹماتے تھے جو چراغ کبھی

اب وہ قندیل ہونے والے ہیں

جانے والا چلا گیا تو کیوں

اس کے جانے کا غم کیا جائے

جن کو اپنا سمجھ رہے تھے ہم

رنگ ان کو بدلتے دیکھ لیا

ٹمٹماتے تھے جو چراغ کبھی

اب وہ قندیل ہونے والے ہیں

ترے کرم سے جو دامن ہمارے بھر جائیں

حسد کی آگ میں جل جل کے لوگ مر جائیں

کیسے اسے پتہ ہو کہ ممتا عظیم ہے

ہم جیسا کمسنی سے جو بچہ یتیم ہے

قیمت لگا رہے ہیں جو دیدار یار کی

واقف نہیں ہیں وہ ابھی راہوں سے پیار کی

زندگی مثل کہکشاں ہوتی

کاش میری بھی آج ماں ہوتی

سودا کبھی ضمیر کا میں نے کیا نہیں

صد شکر میں بھی عشق میں تاجر ہوا نہیں

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے