فیصل قادری گنوری کے اشعار
کتنی بے رنگ زندگی ہے مری
عشق کے رنگ یار بھر دو نا
تمہارے جیسا نہ دیکھا کوئی مرے ہمدم
حسین یوں تو جہاں میں مجھے ہزار ملے
کبھی زیادہ کبھی کم اداس رہتا ہوں
تمہاری یاد میں ہر دم اداس رہتا ہوں
جنم لیتی ہیں نئی خواہشیں جب بھی دل میں
مفلسی ہے کہ وہیں ہاتھ پکڑ لیتی ہے
دل کا مرے پرندہ تمہارے قفس میں تھا
جب تک تمہارا ہاتھ مری دسترس میں تھا
تم جو چاہو وہ کرتے پھرتے ہو
ساری پابندیاں ہمی پر ہیں
تیرا آئینہ کہہ رہے ہیں مجھے
میری تصویر دیکھنے والے
قیمت لگا رہے ہیں جو دیدار یار کی
واقف نہیں ہیں وہ ابھی راہوں سے پیار کی
اس نے جب سے ہاتھ پکڑنا چھوڑ دیا
تب سے ہم نے ساتھ میں چلنا چھوڑ دیا
ہے ان میں کیسا جادو بولتی ہیں
تری آنکھیں بھی اردو بولتی ہیں
تمہارے جیسا نہ دیکھا کوئی مرے ہمدم
حسین یوں تو جہاں میں مجھے ہزار ملے
ایک ہم ہیں کہ زخم جھیلتے ہیں
ایک وہ ہیں کہ دل سے کھیلتے ہیں
اف ستم گر تری ادائیں بھی
یاد آتی ہیں دل جلاتی ہیں
کس کی خوشبو سے معطر یہ فضا ہونے لگی
گلبدن کون یہ گزرا ہے گلی سے میری
جانے والا چلا گیا تو کیوں
اس کے جانے کا غم کیا جائے
جن کو اپنا سمجھ رہے تھے ہم
رنگ ان کو بدلتے دیکھ لیا
ترے کرم سے جو دامن ہمارے بھر جائیں
حسد کی آگ میں جل جل کے لوگ مر جائیں
تیری خاطر جو ہوئی اس ہر شہادت کو سلام
سرزمین ہند تیری شان و شوکت کو سلام
اب زندگی سے کوئی بھی شکوہ نہیں مجھے
تو مل گیا تو کوئی تمنا نہیں مجھے
ان کی ہزار کوششیں اور ضد الگ رہی
اپنی تو ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ رہی
وہ دیکھو لوگ شین الف عین رے ہوئے
ہم عین شین قاف میں الجھے ہی رہ گئے
ہم ایسے سارے ثبوتوں کو پھاڑ ڈالیں گے
ہمارے بیچ میں جو بھی دراڑ ڈالیں گے
کسی طرح تو ہمارا وصال ہو جائے
اگرچہ اس کے لیے انتقال ہو جائے
سودا کبھی ضمیر کا میں نے کیا نہیں
صد شکر میں بھی عشق میں تاجر ہوا نہیں
یہ کیسا بوجھ ہے بھاری ہے دل پر
عجب سی کیفیت طاری ہے دل پر
تم جو چاہو وہ کرتے پھرتے ہو
ساری پابندیاں ہمی پر ہیں
ٹمٹماتے تھے جو چراغ کبھی
اب وہ قندیل ہونے والے ہیں
جانے والا چلا گیا تو کیوں
اس کے جانے کا غم کیا جائے
جن کو اپنا سمجھ رہے تھے ہم
رنگ ان کو بدلتے دیکھ لیا
ٹمٹماتے تھے جو چراغ کبھی
اب وہ قندیل ہونے والے ہیں
ترے کرم سے جو دامن ہمارے بھر جائیں
حسد کی آگ میں جل جل کے لوگ مر جائیں
کیسے اسے پتہ ہو کہ ممتا عظیم ہے
ہم جیسا کمسنی سے جو بچہ یتیم ہے
قیمت لگا رہے ہیں جو دیدار یار کی
واقف نہیں ہیں وہ ابھی راہوں سے پیار کی
سودا کبھی ضمیر کا میں نے کیا نہیں
صد شکر میں بھی عشق میں تاجر ہوا نہیں