غلام یحییٰ حضورعظیم آبادی کے اشعار
کبھی ہاتھ بھی آئے گا یار سچ کہہ
یا یوں ہی تو باتیں بناتا رہے گا
یار گر پوچھے تو کیجے کچھ عرض
بات پر بات کہی جاتی ہے
ادا کو تری میرا جی جانتا ہے
حریف اپنا ہر کوئی پہچانتا ہے
دین و دنیا کا جو نہیں پابند
وہ فراغت تمام رکھتا ہے
کب اس جی کی حالت کوئی جانتا ہے
جو جی جانتا ہے سو جی جانتا ہے
ہے افسوس اے عمر جانے کا تیرے
کہ تو میرے پاس ایک مدت رہی ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
عشق میں درد سے ہے حرمت دل
چشم کو آبرو ہے آنسو سے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
حاجی تو تو راہ کو بھولا منزل کو کوئی پہنچے ہے
دل سا قبلہ چھوڑ کے تو نے کعبے کا احرام کیا
ہیں شیخ و برہمن تسبیح اور زنار کے بندے
تکلف بر طرف عاشق ہیں اپنے یار کے بندے
شب ہجر میں ایک دن دیکھنا
اگر زندگی ہے تو مر جائیں گے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اے بحر نہ تو اتنا امنڈ چل مرے آگے
رو رو کے ڈبا دوں گا کبھی آ گئی گر موج
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
غیر وفا میں پختہ ہیں یوں ہی سہی پہ مجھ سا بھی
ایک تری جناب میں خام رہا تو کیا ہوا
عشق میں خوب نیں بہت رونا
اس سے افشائے راز ہوتا ہے
نہ تو جلدی کر اے دست جنوں ناصح کو سینے دے
بہار آ پہنچی اب کوئی ٹھہرتے ہیں رفو اس کے
اور ربط جسے کفر سے ہے یعنی برہمن
کہتا ہے کہ ہرگز مرا زنار نہ ٹوٹے
عبث گھر سے اپنے نکالے ہے تو
بھلا ہم تجھے چھوڑ کر جائیں گے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
تجھ بن اک دل ہو پاس رہتا ہے
وہ بھی اکثر اداس رہتا ہے
گر شیخ عزم منزل حق ہے تو آ ادھر
ہے دل کی راہ سیدھی و کعبے کی راہ کج
کہوں کہ شیخ زمانہ ہوں لاف تو یہ ہے
میں اپنے بت کا برہمن ہوں صاف تو یہ ہے
آزردہ کچھ ہیں شاید ورنہ حضور مجھ سے
کیوں منہ پھلا رہا ہے وہ گلعذار اپنا
ناچار ہے دل زلف گرہ گیر کے آگے
دیوانے کا کیا چلتا ہے زنجیر کے آگے
ہر کوئی اپنی فہم ناقص میں
پختہ سودائے خام رکھتا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کروں قطع الفت بتوں سے ولیکن
یہ کافر مرا دل نہیں مانتا ہے
عشق نے سامنے ہوتے ہی جلایا دل کو
جیسے بستی کو لگاوے ہے عدو جنگ میں آگ
آنکھوں سے اسی طرح اگر سیل رواں ہے
دنیا میں کوئی گھر نہ رہا ہے نہ رہے گا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
دیکھنا زور ہی گانٹھا ہے دل یار سے دل
سنگ و شیشے کو کیا ہے میں ہنر سے پیوند
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
جو جی چاہے ہے دیکھوں ماہ نو کہتا ہے دل میرا
ادھر کیا دیکھتا ہے ابروئے خم دار کے بندے
بہار اس دھوم سے آئی گئی امید جینے کی
گریباں پھٹ چکا کوئی دم میں اب نوبت ہی سینے کی
جو شیخ ہے چاہے ہے سر رشتۂ اسلام
قائم رہے تسبیح کا اک تار نہ ٹوٹے
اک آن میں جی لے گیا منہ دیکھتے رہ گئے
کچھ بس نہیں اس مایۂ تسخیر کے آگے