Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
noImage

غلام یحییٰ حضورعظیم آبادی

1740 - 1792

غلام یحییٰ حضورعظیم آبادی کے اشعار

322
Favorite

باعتبار

کبھی ہاتھ بھی آئے گا یار سچ کہہ

یا یوں ہی تو باتیں بناتا رہے گا

نہ تو جلدی کر اے دست جنوں ناصح کو سینے دے

بہار آ پہنچی اب کوئی ٹھہرتے ہیں رفو اس کے

یار گر پوچھے تو کیجے کچھ عرض

بات پر بات کہی جاتی ہے

ہے افسوس اے عمر جانے کا تیرے

کہ تو میرے پاس ایک مدت رہی ہے

ادا کو تری میرا جی جانتا ہے

حریف اپنا ہر کوئی پہچانتا ہے

دین و دنیا کا جو نہیں پابند

وہ فراغت تمام رکھتا ہے

کب اس جی کی حالت کوئی جانتا ہے

جو جی جانتا ہے سو جی جانتا ہے

عشق میں درد سے ہے حرمت دل

چشم کو آبرو ہے آنسو سے

حاجی تو تو راہ کو بھولا منزل کو کوئی پہنچے ہے

دل سا قبلہ چھوڑ کے تو نے کعبے کا احرام کیا

ہیں شیخ و برہمن تسبیح اور زنار کے بندے

تکلف بر طرف عاشق ہیں اپنے یار کے بندے

شب ہجر میں ایک دن دیکھنا

اگر زندگی ہے تو مر جائیں گے

اے بحر نہ تو اتنا امنڈ چل مرے آگے

رو رو کے ڈبا دوں گا کبھی آ گئی گر موج

آنکھوں سے اسی طرح اگر سیل رواں ہے

دنیا میں کوئی گھر نہ رہا ہے نہ رہے گا

عشق میں خوب نیں بہت رونا

اس سے افشائے راز ہوتا ہے

غیر وفا میں پختہ ہیں یوں ہی سہی پہ مجھ سا بھی

ایک تری جناب میں خام رہا تو کیا ہوا

عبث گھر سے اپنے نکالے ہے تو

بھلا ہم تجھے چھوڑ کر جائیں گے

عشق نے سامنے ہوتے ہی جلایا دل کو

جیسے بستی کو لگاوے ہے عدو جنگ میں آگ

کروں قطع الفت بتوں سے ولیکن

یہ کافر مرا دل نہیں مانتا ہے

کہوں کہ شیخ زمانہ ہوں لاف تو یہ ہے

میں اپنے بت کا برہمن ہوں صاف تو یہ ہے

ناچار ہے دل زلف گرہ گیر کے آگے

دیوانے کا کیا چلتا ہے زنجیر کے آگے

ہر کوئی اپنی فہم ناقص میں

پختہ سودائے خام رکھتا ہے

جو جی چاہے ہے دیکھوں ماہ نو کہتا ہے دل میرا

ادھر کیا دیکھتا ہے ابروئے خم دار کے بندے

تجھ بن اک دل ہو پاس رہتا ہے

وہ بھی اکثر اداس رہتا ہے

اور ربط جسے کفر سے ہے یعنی برہمن

کہتا ہے کہ ہرگز مرا زنار نہ ٹوٹے

گر شیخ عزم منزل حق ہے تو آ ادھر

ہے دل کی راہ سیدھی و کعبے کی راہ کج

دیکھنا زور ہی گانٹھا ہے دل یار سے دل

سنگ‌‌‌ و شیشے کو کیا ہے میں ہنر سے پیوند

آزردہ کچھ ہیں شاید ورنہ حضور مجھ سے

کیوں منہ پھلا رہا ہے وہ گلعذار اپنا

بہار اس دھوم سے آئی گئی امید جینے کی

گریباں پھٹ چکا کوئی دم میں اب نوبت ہی سینے کی

جو شیخ ہے چاہے ہے سر رشتۂ اسلام

قائم رہے تسبیح کا اک تار نہ ٹوٹے

اک آن میں جی لے گیا منہ دیکھتے رہ گئے

کچھ بس نہیں اس مایۂ تسخیر کے آگے

Recitation

بولیے