Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
noImage

غلام یحییٰ حضورعظیم آبادی

1740 - 1792

غلام یحییٰ حضورعظیم آبادی کے اشعار

295
Favorite

باعتبار

کبھی ہاتھ بھی آئے گا یار سچ کہہ

یا یوں ہی تو باتیں بناتا رہے گا

یار گر پوچھے تو کیجے کچھ عرض

بات پر بات کہی جاتی ہے

ادا کو تری میرا جی جانتا ہے

حریف اپنا ہر کوئی پہچانتا ہے

دین و دنیا کا جو نہیں پابند

وہ فراغت تمام رکھتا ہے

کب اس جی کی حالت کوئی جانتا ہے

جو جی جانتا ہے سو جی جانتا ہے

ہے افسوس اے عمر جانے کا تیرے

کہ تو میرے پاس ایک مدت رہی ہے

عشق میں درد سے ہے حرمت دل

چشم کو آبرو ہے آنسو سے

حاجی تو تو راہ کو بھولا منزل کو کوئی پہنچے ہے

دل سا قبلہ چھوڑ کے تو نے کعبے کا احرام کیا

ہیں شیخ و برہمن تسبیح اور زنار کے بندے

تکلف بر طرف عاشق ہیں اپنے یار کے بندے

شب ہجر میں ایک دن دیکھنا

اگر زندگی ہے تو مر جائیں گے

اے بحر نہ تو اتنا امنڈ چل مرے آگے

رو رو کے ڈبا دوں گا کبھی آ گئی گر موج

غیر وفا میں پختہ ہیں یوں ہی سہی پہ مجھ سا بھی

ایک تری جناب میں خام رہا تو کیا ہوا

عشق میں خوب نیں بہت رونا

اس سے افشائے راز ہوتا ہے

نہ تو جلدی کر اے دست جنوں ناصح کو سینے دے

بہار آ پہنچی اب کوئی ٹھہرتے ہیں رفو اس کے

اور ربط جسے کفر سے ہے یعنی برہمن

کہتا ہے کہ ہرگز مرا زنار نہ ٹوٹے

عبث گھر سے اپنے نکالے ہے تو

بھلا ہم تجھے چھوڑ کر جائیں گے

تجھ بن اک دل ہو پاس رہتا ہے

وہ بھی اکثر اداس رہتا ہے

گر شیخ عزم منزل حق ہے تو آ ادھر

ہے دل کی راہ سیدھی و کعبے کی راہ کج

کہوں کہ شیخ زمانہ ہوں لاف تو یہ ہے

میں اپنے بت کا برہمن ہوں صاف تو یہ ہے

آزردہ کچھ ہیں شاید ورنہ حضور مجھ سے

کیوں منہ پھلا رہا ہے وہ گلعذار اپنا

ناچار ہے دل زلف گرہ گیر کے آگے

دیوانے کا کیا چلتا ہے زنجیر کے آگے

ہر کوئی اپنی فہم ناقص میں

پختہ سودائے خام رکھتا ہے

کروں قطع الفت بتوں سے ولیکن

یہ کافر مرا دل نہیں مانتا ہے

عشق نے سامنے ہوتے ہی جلایا دل کو

جیسے بستی کو لگاوے ہے عدو جنگ میں آگ

آنکھوں سے اسی طرح اگر سیل رواں ہے

دنیا میں کوئی گھر نہ رہا ہے نہ رہے گا

دیکھنا زور ہی گانٹھا ہے دل یار سے دل

سنگ‌‌‌ و شیشے کو کیا ہے میں ہنر سے پیوند

جو جی چاہے ہے دیکھوں ماہ نو کہتا ہے دل میرا

ادھر کیا دیکھتا ہے ابروئے خم دار کے بندے

بہار اس دھوم سے آئی گئی امید جینے کی

گریباں پھٹ چکا کوئی دم میں اب نوبت ہی سینے کی

جو شیخ ہے چاہے ہے سر رشتۂ اسلام

قائم رہے تسبیح کا اک تار نہ ٹوٹے

اک آن میں جی لے گیا منہ دیکھتے رہ گئے

کچھ بس نہیں اس مایۂ تسخیر کے آگے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے