جے کرشن چودھری حبیب کے اشعار
پا کے اک تیرا تبسم مسکرائی کائنات
جھوم اٹھا وہ بھی دل جینے سے جو بیزار تھا
نکہت وہی سرور وہی دل کشی وہی
آمد یہ آپ کی ہے کہ جھونکا بہار کا
یا گفتگو ہو ان لب و رخسار و زلف کی
یا ان خموش نظروں کے لطف سخن کی بات
اس سینۂ ویراں میں کھلائے نہ کبھی پھول
کیوں باغ پہ اتراتی رہی باد صبا ہے
انساں کے دل کی خیر زمیں آسماں کی خیر
ہر روز گل کھلاتے ہیں انساں نئے نئے
اس قدر وعدے کا انداز حسیں ہوتا ہے
کہ ترے جھوٹ پہ بھی سچ کا یقیں ہوتا ہے
ہر اک قدم پہ زندگی ہے انتظار میں
کتنے ہی موڑ ابھریں گے ہر اک سفر کے ساتھ
جنوں ہی ساتھ رہے زندگی میں میرے حبیبؔ
سفر میں اور کوئی ہم سفر ملے نہ ملے
دل ٹوٹ کے ہی آخر بنتا ہے کسی قابل
تخریب کے پردے میں تعمیر نظر آئی
تیری یادوں کا ہی سرمایا لئے بیٹھے ہیں
ہم کبھی بے سر و سامان نہ ہونے پائے
ٹوٹ جاتے ہیں جو دنیا کے سہارے سارے
پردۂ غیب سے ہوتا ہے سہارا پیدا
بچھڑے مجھ سے اس طرح وہ زندگی کے ہم سفر
بجھ گئے ہوں جلتے جلتے جیسے رستے کے چراغ
عمر اپنی تو اسی طور سے گزری ہے حبیبؔ
رہا طوفاں ہی نگاہوں میں کنارہ نہ رہا
جگر کے داغ دکھانے سے فائدہ کیا ہے
ابھی زمانے کے حالات سازگار نہیں
نہ تمنا ہے تری اور نہ وہ درد تپش
دل کے مرنے کا مجھے اب تو یقیں ہوتا ہے
خیال یار کے روشن دیے کرو ورنہ
اندھیری رات میں منزل کا اعتبار نہیں
سہہ لوں گا اے حبیبؔ ستم ہائے روزگار
حاصل اگر ہو دوست کی پیاری نظر مجھے
حال دل پر ہنسا کبھی رویا
یوں مری عمر بے ثبات گئی
ہوس نے حسن کی ایسی بگاڑ دی صورت
حبیبؔ کون ہے جو اس کو آج پہچانے
حال دل کہتے ہی آ جاتی ہے جب یاد ان کی
ہم کہیں ہوتے ہیں افسانہ کہیں ہوتا ہے
ان کے ہونٹوں پر آیا تبسم ادھر
نبض عالم ادھر تیز تر ہو گئی
ہیں سب یہ ترے شکوے کوتاہیٔ الفت سے
کچھ دل کی تڑپ کم ہے کچھ خام تمنا ہے
مجھے ہی دیکھ کہ جیتا ہوں تیرے وعدوں پر
یہ کون کہتا ہے وعدوں پہ اعتبار نہیں
جہاں کہیں بھی کوئی دل فگار ہوتا ہے
وہیں پہ سایۂ پروردگار ہوتا ہے
عقل انساں نے بٹھا رکھے ہیں پہرے دل پر
دل کی کیا بات کہے گا جو نہ دیوانہ بنے
دونوں ہاتھوں سے مسرت کو لٹایا ہے حبیبؔ
غم کی دولت تو مگر تم سے لٹائی نہ گئی
جس پہ اک بار جلے ہیں ترے قدموں کے چراغ
راستے وہ کبھی سنسان نہ ہونے پائے
انداز مقدر کے ہیں گیسوئے جاناں سے
جو گاہ الجھتے ہیں اور گاہ سنورتے ہیں
اپنا یہ چراغ دل مدھم ہی سہی لیکن
دنیا کے اندھیروں سے تنہا ہی یہ لڑتا ہے
بھیس میں مسرت کے غم کہیں نہ آیا ہو
اس سبب سے ڈر ڈر کر ہم خوشی سے ملتے ہیں
چھوڑ آتے ہیں ہر جانب کچھ نقش وفا اپنے
ہم زیست کی راہوں سے جس وقت گزرتے ہیں
دل کشی تیرے تصور کی رہی روز افزوں
باہمی ربط کا ہر چند وہ نقشہ نہ رہا
مانوس اس قدر ہوں میں لذت سے درد کی
دل ہے کہ ڈھونڈ لیتا ہے پیکاں نئے نئے
اس درجہ کبھی جاذب یہ دنیا نہ تھی پہلے
یہ کس کے تصور میں تصویر نظر آئی
ان سے ہنستے ہی ہنستے محبت سی شے
ہونے والی کہیں تھی مگر ہو گئی
اس عالم فانی میں سدا کون رہا ہے
اک نام ہے اللہ کا اک نقش وفا ہے
جب تھکے ہاتھوں سے پتوار بھی گر جاتے ہیں
عین گرداب میں ہوتا ہے کنارہ پیدا
یاد حزیں نقوش کرم اور نگاہ چند
کیا باندھا ہم نے رخت سفر کچھ نہ پوچھئے
حبیبؔ خود ہی بنائیں گے روز و شب اپنے
ہوا ہی کیا جو زمانے نے ساتھ چھوڑ دیا
مقتل تو ہوں گے آج بھی منصور ہیں کہاں
اب زیب داستان ہے دار و رسن کہاں
اپنی زندگانی کے تند و تیز رو دھارے
کچھ مزاج دلبر کی برہمی سے ملتے ہیں
انساں کے درد و غم کا کہیں ذکر ہی نہیں
ہے بات شیخ کی تو کبھی برہمن کی بات
اس طرح بے کیف گزرا اے حبیبؔ اپنا شباب
جس طرح سے سونے گھر میں جلتا ہے کوئی چراغ
جہاں حسیں ہے محبت کی دل نوازی سے
مگر یہ راز کوئی خال خال ہی جانے
کسی کے جلوؤں سے معمور ہے جہاں اپنا
نہیں یہ فکر کہ دنیا نے ساتھ چھوڑ دیا
بیداد مقدر سے دل میرا الجھتا ہے
جب آپ نظر مجھ پر کچھ لطف سے کرتے ہیں
وہ نالہ جو سینے سے نہ آیا کبھی لب تک
ہنگاموں میں دنیا کے اسے تو نے سنا ہے
نالاں ہوں اپنے ذوق نظر سے حبیبؔ کیوں
کیا سہہ رہے ہیں قلب و جگر کچھ نہ پوچھئے
گل ہی کبھی تو منتخب روزگار تھا
خاروں پہ اب تو آیا ہے موسم بہار کا
پہلو میں کبھی غم کے خوشیوں کی جھلک دیکھی
ہنستی سی کبھی صورت دلگیر نظر آئی