جمیلؔ مظہری کے اشعار
جلانے والے جلاتے ہی ہیں چراغ آخر
یہ کیا کہا کہ ہوا تیز ہے زمانے کی
ہم محبت کا سبق بھول گئے
تیری آنکھوں نے پڑھایا کیا ہے
ہونے دو چراغاں محلوں میں کیا ہم کو اگر دیوالی ہے
مزدور ہیں ہم مزدور ہیں ہم مزدور کی دنیا کالی ہے
بہ قدر پیمانۂ تخیل سرور ہر دل میں ہے خودی کا
اگر نہ ہو یہ فریب پیہم تو دم نکل جائے آدمی کا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
آیا یہ کون سایۂ زلف دراز میں
پیشانئ سحر کا اجالا لیے ہوئے
-
موضوع : استقبال
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
انہی حیرت زدہ آنکھوں سے دیکھے ہیں وہ آنسو بھی
جو اکثر دھوپ میں محنت کی پیشانی سے ڈھلتے ہیں
-
موضوع : مزدور
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کسے خبر تھی کہ لے کر چراغ مصطفوی
جہاں میں آگ لگاتی پھرے گی بو لہبی
بتوں کو توڑ کے ایسا خدا بنانا کیا
بتوں کی طرح جو ہم شکل آدمی کا ہو
-
موضوع : بت
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اے سجدہ فروش کوئے بتاں ہر سر کے لیے اک چوکھٹ ہے
یہ بھی کوئی شان عشق ہوئی جس در پے گئے سر پھوڑ لیا
نہیں افسوں ہی کو افسانے کی منزل معلوم
غلط آغاز کا ہوتا ہی ہے انجام غلط
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہستی ہے جدائی سے اس کی جب وصل ہوا تو کچھ بھی نہیں
دریا میں نہ تھا تو قطرہ تھا دریا میں ملا تو کچھ بھی نہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ