جاوید لکھنوی کے اشعار
کہیں ایسا نہ ہو مر جاؤں میں حسرت ہی حسرت میں
جو لینا ہو تو لے لو سب سے پہلے امتحاں میرا
شب وصل کیا جانے کیا یاد آیا
وہ کچھ آپ ہی آپ شرما رہے ہیں
تمہیں ہے نشہ جوانی کا ہم میں غفلت عشق
نہ اختیار میں تم ہو نہ اختیار میں ہم
یہ اک بوسے پہ اتنی بحث یہ زیبا نہیں تم کو
نہیں ہے یاد مجھ کو خیر اچھا لے لیا ہوگا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
تم پاس جو آئے کھو گئے ہم
جب تم نہ ملے تو جستجو کی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
سب خط تمام کر چکے پڑھ پڑھ کے شوق سے
واں تھم گئے جہاں پہ مرا نام آ گیا
صورت نہ یوں دکھائے انہیں بار بار چاند
پیدا کرے حسینوں میں کچھ اعتبار چاند
تم دیئے جاؤ یوں ہی ہم کو ہوا دامن کی
ہم سے بے ہوش نہیں ہوش میں آنے والے
ان کو تو سہل ہے وہ غیر کے گھر جائیں گے
ہم جو اس در سے اٹھیں گے تو کدھر جائیں گے
خاک اڑ کے ہماری ترے کوچہ میں پہنچتی
تقدیر تھی یہ بھی کہ ہوا بھی نہ چلی آج
امید کا برا ہو سمجھا کہ آپ آئے
بے وجہ شب کو ہل کر زنجیر در نے مارا
ہے دلوں کا وہی جو دانۂ تسبیح کا حال
یوں ملے ہیں پہ ہیں دراصل جدا ایک سے ایک
جس جگہ جائیں بنا لیں ترے وحشی صحرا
خاک لے آئے ہیں مٹھی میں بیابانوں کی
ابھی تو آگ سینے میں کہیں کم ہے کہیں زائد
اگر مل پائیں گے آپس میں سب چھالے تو کیا ہوگا