مدن موہن دانش کے اشعار
یہ نادانی نہیں تو کیا ہے دانشؔ
سمجھنا تھا جسے سمجھا رہا ہوں
ہو گئے پھر تم کہیں آباد کیا
ہل گئی تنہائی کی بنیاد کیا
جب اپنی بے کلی سے بے خودی سے کچھ نہیں ہوتا
پکاریں کیوں کسی کو ہم کسی سے کچھ نہیں ہوتا
کوئی جب شہر سے جائے تو رونق روٹھ جاتی ہے
کسی کی شہر میں موجودگی سے کچھ نہیں ہوتا
یہ حاصل ہے مری خاموشیوں کا
کہ پتھر آزمانے لگ گئے ہیں
اچھی رونق ہے تمہاری بزم میں
آ گئے سب شہر کے برباد کیا
ادھر کیا کیا عجوبے ہو رہے ہیں
مریض عشق اچھے ہو رہے ہیں